گیجٹس کے دور میں ادب

مبین مرزا  اتوار 12 نومبر 2017
انسانی ارتکاز کا دورانیہ بہت مختصر ہوتا چلا جارہا ہے۔ فوٹو : فائل

انسانی ارتکاز کا دورانیہ بہت مختصر ہوتا چلا جارہا ہے۔ فوٹو : فائل

( گذشتہ سے پیوستہ)

ان نکات کی روشنی میں جب ہم اپنے اخبارات و رسائل میں شائع ہونے والے تخلیقی تجربات کو دیکھتے ہیں تو اُن کے کردار اور معنویت کو سمجھنے کا ایک اور زاویہ ہمیں میسر آتا ہے۔ اب مثال کے طور پر ہم مختصر افسانے کو دیکھتے ہیں کہ اس طرزِاظہار نے اخبارات میں مقبولیت حاصل کی ہے اور مختصر افسانے اب تسلسل کے ساتھ سامنے آرہے ہیں۔

تاہم یہ بات سب جانتے ہیں کہ مختصر افسانہ ہمارے یہاں کوئی بالکل نئی یا اجنبی شے ہرگز نہیں ہے۔ اس کا آغاز تو منٹو نے ’’سیاہ حاشیے‘‘ میں کیا تھا۔ مختصر لفظوں میں ایک تأثر کے ساتھ بیان کیا گیا یہ افسانہ منٹو نے زیادہ تر تقسیمِ ہند کے بعد پیدا ہونے والے غارت گری کے حالات کے پس منظر میں لکھا تھا۔ تاہم اُس کے بعد یہ سلسلہ آگے نہیں بڑھا۔ منٹو تو خیر، اس جہانِ فانی سے ہی رخصت ہوگئے تھے، اس لیے انھیں اس ضمن میں آگے کام کرنے کا موقع نہیں ملا، لیکن دوسرے تخلیق کاروں نے اس تجربے کی طرف زیادہ توجہ نہیں کی۔ چند دہائیوں بعد البتہ ایک اور افسانہ نگار جوگندر پال نے اس تجربے کو اپنایا اور خاطرخواہ کام بھی کیا۔

تاہم اس ہیئت نے اپنے فنی اور تخلیقی امکانات کا نمایاں اظہار صحیح طور پر اکیس ویں صدی کی دوسری دہائی میں آکر اُس وقت کیا جب کچھ افسانہ نگار اس کی طرف متوجہ ہوئے۔ یہی نہیں، بلکہ مختصر کہانی کا سلسلہ اخباروں میں بھی شروع ہوا۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ کئی ایک اخبارات مختصر افسانے یا کہانی روزانہ اسی طرح شائع کررہے ہیں جیسے اُن میں سیاسی اور سماجی موضوعات سے متعلق قطعے کی اشاعت معمول کے طور پر کی جاتی ہے۔ اس سلسلے میں مبشر علی زیدی کا نام سب سے پہلے سامنے آتا ہے اور بجا طور پر نمایاں ہے کہ انھوں نے ’’سو لفظوں کی کہانی‘‘ کو ایک کثیر الاشاعت اخبار کے توسط سے فروغ دیا۔

یہ سلسلہ نہ صرف کامیاب رہا، بلکہ اس نے کچھ ایسی مقبولیت حاصل کی کہ پھر دوسرے اخبارات نے بھی کچھ اسی طرح کی مختصر کہانی لکھنے والوں کی خدمات حاصل کرنا ضروری سمجھا۔ اس وقت جو لوگ مبشر علی زیدی کے بعد اس ہیئت میں کامیابی سے کام کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، اُن میں اقبال خورشید، احمد اعجاز، رضوان طاہر مبین، حسن اصغر نقوی، فاخرہ گُل، نشاط یاسمین اور ذیشان یٰسین کا ذکر بھی خاص طور سے ہونا چاہیے۔ اقبال خورشید نے اپنے اس نوع کے تجربے کو ’’ون منٹ اسٹوری‘‘ کا نام دیا ہے۔ وہ بھی اخبار میں تواتر اور کامیابی سے مختصر کہانی لکھ رہے ہیں۔

یہ تجربہ کیا ہے، اور اس کا کامیابی یا عوامی پذیرائی میں کن عوامل کا دخل ہے، ادب کے مرکزی دھارے میں اس کی کیا جگہ ہے اور سنجیدہ ادب کے ذیل میں اس کا کیا درجہ ہے، یہ سوالات اپنی جگہ، لیکن ان پر بحث کا یہ محل نہیں۔ ہمیں تو فی الحال یہ دیکھنا چاہیے کہ اس تجربے نے ادب اور عوام کے رشتے میں کیا کردار ادا کیا اور سماج میں اس کا اثر و نفوذ کس حد تک ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ پہلے آپ ذرا اخبارات میں شائع ہونے والی کچھ کہانیاں پڑھ لیجیے:

٭گڑبڑ شماری
مملکتِ چیستان کی مردم شماری کے نتائج ناقابلِ یقین تھے۔
میں خود عملے میں شامل تھا۔
’’پرستان شہر کی آبادی پچّیس لاکھ زیادہ کیوں دکھائی گئی ہے؟‘‘
ڈوڈو نے کہا، ’’پرستان میں پچّیس لاکھ فرشتے بھی رہتے ہیں۔ وہ تم جیسے عام انسانوں کو نظر نہیں آتے۔‘‘
میں قائل ہوگیا، لیکن پھر سوال کیا، ’’کوہِ قاف کی آبادی پچاس لاکھ کم کیوں ظاہر کی گئی ہے؟‘‘
ڈوڈو نے اسی سنجیدگی سے جواب دیا، ’’کوہِ قاف کی آبادی میں پچاس لاکھ بھوت بھی تھے۔ مردم شماری میں بھوتوں کو نہیں گنا جاتا۔‘‘
(مبشر علی زیدی)

٭مشیر
بادشاہ کے پاس ایک خوب صورت طوطا تھا۔
یہ ایک سوداگر نے تحفے میں دیا تھا۔ طوطا انسانوں کی طرح فرفر بولتا۔ بڑا چرب زبان اور ذہین تھا۔ بادشاہ نے اُسے مشیر بنالیا، وہ بادشاہ کے کاندھے پر بیٹھا رہتا۔
اُس کے مشورے پر بادشاہ نے قوانین بنائے، ٹیکس لگائے، دشمنوں کے سر کٹوائے، اور اُسی کے مشورے پر۔۔۔۔۔
پڑوسی ملک سے الجھ پڑا۔ آخر جنگ چھڑ گئی۔ اُسے شکست ہوئی، ملک پر قبضہ ہوگیا۔ دشمن نے اُس کے وزیر، سفیر، اہلِ خانہ۔۔۔۔
سب کو قتل کردیا۔ بس۔۔۔۔۔
بادشاہ اور طوطا زندہ بچے۔
جب اُسے زنداں میں ڈالا جارہا تھا، تو اُس کا طوطا خاموشی سے اُڑا۔۔۔۔۔
اور نئے بادشاہ کے کاندھے پر جا بیٹھا۔
(اقبال خورشید)

٭دشمن
سانپ لکیر چھوڑ گیا تھا، خود اُس کا کہیں نام و نشان نہیں تھا۔ لکیر سے معلوم پڑ رہا تھا کہ سانپ کس حد تک خطرناک ہے۔
یہ موٹی لکیر تھی جس نے ہم سب پر ہیبت بٹھا دی تھی۔
ہم نے یہاں رات بھر قیام کرنا تھا، سورج دور پہاڑوں سے ٹکرانے والا تھا۔
تاریکی چھانے سے پہلے، سانپ کو ڈھونڈ نکالنا ضروری تھا۔
ہم سب لکیر کے ساتھ چل پڑے جو قریبی جھاڑیوں تک گئی۔
ہم نے ساری جھاڑیاں صاف کردیں، مگر سانپ کا کوئی سراغ نہ ملا۔
سورج پہاڑوں کے عقب میں چھپ رہا تھا۔
ہم سب کی پریشانی دیدنی تھی، اگر سانپ کو نہ مارا گیا تو رات گزارنا مشکل ہوجائے گا۔
وہ رات کی تاریکی میں، کسی کو بھی نشانہ بنا سکتا ہے۔
ہم میں سے وہ جو عمر میں سب سے بڑا تھا، بولا، ’’ہمیں اپنی اپنی آستین میں بھی جھانکنا چاہیے۔‘‘
ہم سب چونک اُٹھے، لیکن اگلے ہی لمحے، اپنی اپنی آستین میں جھانکا۔
وہاں ہم خود ہی پھن پھیلائے موجود تھے۔
(احمد اعجاز)

سب سے پہلے تو ہمیں سمجھ لینا چاہیے کہ اس تجربے میں ہمیں روایتی کہانی کے عناصر تلاش نہیں کرنے اور نہ ہی اسے اُن معیارات کے تحت دیکھنا اور پرکھنا ہے جو ہمارے یہاں جدید افسانے کے لیے طے کیے گئے ہیں۔ تاہم اس میں ہم یہ ضرور دیکھیں گے کہ وہ کس حد تک تخلیقی ہے، یعنی اس میں اظہار و بیاں کا وہ قرینہ ہے کہ جو ایک ادبی تجربے کے لیے بنیادی شرط کا درجہ رکھتا ہے، پھر اس کی معنویت پر غور کیا جائے گا اور اس کے بعد اس کی اثر آفرینی دیکھی جائے گی۔ اب جہاں تک بات ہے تخلیقی کیفیت کی تو وہ بہرحال محسوس کی جاسکتی ہے۔ لکھنے والے لوگ اس حقیقت سے پوری طرح آگاہ ہیں کہ اس تجربے کے بیان میں تخلیقی ہنر کا التزام ضروری ہے۔ معنویت کا معاملہ یہ ہے کہ وہ اس مختصر کہانی میں بھی دو سطحوں پر راہ پانے میں کامیاب نظر آتی ہے۔

یہاں ایک اور نکتہ غور طلب ہے۔ ان کہانیوں کے بیانیے میں، کرداروں میں اور جہاں جہاں سچویشن ممکن ہوسکتی ہے، وہاں بھی جو عنصر ہم سب سے پہلے دیکھتے ہیں وہ دراصل سیاسی جہت رکھتا ہے۔

ہیئت کا یہ تجربہ پہلے نہ سہی، لیکن اب اتنا کامیاب ضرور ہوچکا ہے کہ صرف اخبارات ہی نہیں، ادبی رسائل و جرائد بھی اسے جگہ دینے لگے ہیں۔ معروف شاعر احسن سلیم مرحوم کے جاری کردہ ادبی رسالے ’’اجرا‘‘ کے شمارہ 25 میں مبشر علی زیدی کی ایسی ہی کچھ کہانیاں شائع کی گئی ہیں۔ ادارے کی طرف سے نوٹ میں بتایا گیا ہے کہ یہ وہ کہانیاں ہیں جو بہ وجوہ اخبار میں شائع نہیں ہوسکیں۔ اس کے علاوہ رضوان طاہر مبین کی بھی ایسی ہی دو کہانیاں شائع ہوئی ہیں۔ یہ کہانیاں چوںکہ ادبی جریدے میں شائع ہوئی ہیں، اس لیے ہم زیادہ توجہ سے یہ دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان میں ادبی کیفیت کس حد تک ہے۔ تاہم یہ بات بھی بلاتأمل کہی جانی چاہیے کہ مسئلہ ادبی جریدے یا کسی روزنامے کا نہیں ہے، بلکہ لکھنے والے کا اندازِنظر بجائے خود ادبیت کا اظہار کرتا ہے۔ نمونے کے طور پر ذرا یہ کہانیاں دیکھ لیجیے:

٭افسر
’’تمھارا عہدہ کیا ہے؟ـ‘‘ ڈوڈو نے سوال کیا۔
’’اپنے چینل کا کنٹرولر نیوز ہوں۔‘‘ میں نے جواب دیا۔
’’کیا تم کسی کو ملازم رکھوا سکتے ہو؟‘‘
’’نہیں۔‘‘
’’کسی کا تبادلہ کروا سکتے ہو؟‘‘
’’نہیں۔‘‘
’’کسی کی تنخواہ بڑھوا سکتے ہو؟‘‘
’’نہیں۔‘‘
’’کسی کو وقت پر تنخواہ دلوا سکتے ہو؟‘‘
’’نہیں۔‘‘
’’اپنی مرضی سے کوئی خبر چلوا سکتے ہو؟‘‘
’’نہیں۔‘‘
’’کوئی خبر رکوا سکتے ہو؟‘‘
’’نہیں۔‘‘
ڈوڈو نے منہ بنا کر پوچھا، ’’تو پھر دفتر میں کرتے کیا ہو؟‘‘
میں نے کہا، ’’کھیت میں پرندوں کو ڈرانے کے لیے جیسے پتلا کھڑا کیا جاتا ہے، نیوز روم میں ویسے کھڑا رہتا ہوں۔‘‘
(مبشر علی زیدی)

٭برداشت
گل زمان ہماری بلڈنگ کا گارڈ تھا۔ ہر صبح برف مانگنے آجاتا۔
میں غصہ کرتا، تو وہ سر جھکا لیتا، ’’سرد علاقے سے ہوں صاحب، گرمی برداشت نہیں ہوتی۔‘‘
ایک صبح میرا موڈ خراب تھا۔ اُسے کھری کھری سنادی۔
پھر وہ گاؤں لوٹ گیا۔ کچھ ماہ بعد کام کے سلسلے میں میرا کوئٹہ جانا ہوا۔
ایک رات سائٹ سے لوٹتے ہوئے گاڑی برفانی طوفان میں پھنس گئی۔
ٹھنڈ ہڈیوں میں اتر رہی تھی۔ کچھ دور روشنی دکھائی دی، کوئی ریسٹ ہاؤس تھا۔
میں ٹھٹھرتا ہوا پہنچا۔ گھنٹی بجائی۔ دروازہ کھلا تو۔۔۔۔۔
گل زمان سامنے کھڑا تھا۔ پہلے خاموشی رہی۔ پھر میں نے سر جھکا کر کہا، ’’میں گرم علاقے سے ہوں گل زمان۔ ٹھنڈ برداشت نہیں ہوتی۔‘‘
(اقبال خورشید)

٭گردہ
’’صاحب میرا بچہ بیمار ہے، کچھ مدد کرو۔‘‘
صبح صبح یہ جملے سیٹھ کو ناگوار گزرے۔ اُس نے چائے کے کپ سے سر اٹھایا، ’’شرم کرو، ہٹے کٹے ہوکر بھیک مانگتے ہو۔‘‘
آدمی کی آنکھوں میں نمی تیر گئی۔
’’بھکاری نہیں ہوں صاحب، رکشا چلاتا ہوں۔‘‘
سیٹھ نے جھنجھلا کر کہا، ’’تو جاؤ رکشا چلاؤ، میرا دھندا کیوں خراب کررہے ہو۔‘‘
’’رکشے کی آمدنی سے بیٹے کا علاج ممکن نہیں۔‘‘
سیٹھ کا پیمانہ لب ریز ہوگیا، ’’تو بھائی، اپنا ایک گردہ بیچ دو۔‘‘
آدمی کی آواز رندھی ہوئی تھی۔
’’صاحب، ایک گردہ تو— پہلے ہی بیچ چکا ہوں۔‘‘
سیٹھ پر کپکپی طاری ہوگئی، ساری چائے کپڑوں پر گر گئی۔
(اقبال خورشید)
٭بھول
’’بیٹا کسی لڑکی کو پسند کرتے ہو؟‘‘
اُن دنوں امی نے میرا سہرا سجانے کا بیڑہ اٹھا رکھا تھا۔
’’آپا ثریا کی بیٹی کو!‘‘ میں نے تھوڑی سی جھجک کے بعد بتایا۔
یوں تو آپا ثریا کی کئی بیٹیاں تھیں۔
مگر مجھے صرف وہی بھاتی تھی، باقی تو بالکل الٹ تھیں۔
بالآخر آج، ہم سفر بننے کے بعد ملن کی گھڑی تھی۔
نئی زندگی کا باقاعدہ آغاز۔
اضطراب نقطۂ عروج پر تھا۔
گھونگٹ اٹھایا تو چکرا کر گرتے گرتے بچا۔
میں امی کو یہ بتانا بھول گیا تھا کہ میں تیسرے نمبر کی بیٹی کو پسند کرتا ہوں۔
(رضوان طاہر مبین)

یہاں ان کہانیوں کے انتخاب میں یہ اہتمام کیا گیا ہے کہ ان میں سیاسی جہت اوّل تو ہو نہ اور اگر ہو تو صرف غور کرنے پر ہی محسوس ہوسکے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دیکھا جائے یہ لکھنے والے حقیقی اور سماجی زندگی کے انسانی تجربے کو کس حد تک سہار سکتے ہیں۔
یہ تو ہوا نئی کہانی کا معاملہ، اب ذرا نئی نظم کو دیکھتے ہیں۔ اخبارات میں قطعے کی اشاعت کا سلسلہ قدیم ہے۔ اس کی عوامی پذیرائی بھی واضح اور مسلمہ ہے۔ اس کام سے نامی گرامی شخصیات وابستہ رہی ہیں، بلکہ اب بھی جو لوگ اخبارات میں قطعہ لکھتے ہیں، وہ شعر و سخن کی دنیا میں پہلے سے اپنی پہچان رکھتے ہیں۔ یہ پہچان بھی ان کی قطعہ نگاری کے فروغ کا ذریعہ بنتی آئی ہے۔ تاہم گذشتہ چند ماہ میں ایک اور تجربہ کیا گیا ہے۔ یہ تجربہ ہے موضوعاتی نظم کا جو کہانی کا پیرایہ لیے ہوئے ہے۔ اس میں قطعہ نگاری کے برخلاف آزاد نظم کی ہیئت کو اختیار کیا گیا ہے۔ جیسا کہ سطورِ گذشتہ میں ایک مرحلے پر کہا گیا کہ شعر و سخن کے باب میں فی زمانہ نظم (بالخصوص آزاد نظم) ایک بڑے صیغۂ اظہار کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کا ایک سبب ہیئت کی آزادی بھی ہے، اور پھر یہ بھی کہ اس پیرایے میں اب تک جو کچھ کہا جاچکا ہے، اُس نے اس صنف کے لیے کائنات جیسی وسعت پیدا کردی ہے۔ اس میں کوئی بھی موضوع باآسانی سما سکتا ہے۔ موضوعاتی نظم کے پیرایے میں اظہار کا یہ تجربہ کیا ہے محمد عثمان جامعی نے۔ اس تجربے کی خاص بات یہ ہے کہ یہ نظم دراصل ایک منظوم کہانی ہے۔ ایسی کہانی جس میں ہمیں کردار، سچویشن اور ماجرا سب کچھ ملتا ہے۔ ظاہر ہے، اس کے لیے ہیئت کا انتخاب بہت سوچ سمجھ کر کیا گیا ہے۔ آزاد نظم کے فارمیٹ میں یہ تجربہ موزوں نظر آتا ہے۔ ذرا کچھ نظمیں دیکھیے:

٭آزاد انصاف
اس روز کورٹ میں
توہینِ عدلیہ
کا کیس پیش تھا

پہنچے وہاں وکیل
ماہر جو دھونس میں
لڑنے میں خود کفیل
پھر گھونسے تھے بحث
اور گالی تھی دلیل

جج سے کہا گیا
جو ہم نے کہہ دیا
وہ ہوگا فیصلہ
ملزم کو آج ہی
توہینِ عدلیہ کی دیجیے سزا
یوں کہ ہر ایک تک یہ پہنچ جائے اطلاع
کتنی عظیم چیز عدالت کا ہے وقار
اور یہ کہ ایسی ہوتی ہے آزاد عدلیہ

٭بندر کا احتجاج
بندر کا تماشا جاری تھا
یوں دیتا حکم مداری تھا

’’چل بچہ جمورا! بن دولھا
شرما کے دکھا، سسرال کو جا
اب ناچ ذرا، ٹھمکے تو لگا‘‘

بندر سب کرتا جاتا تھا
جو سنتا، بنتا جاتا تھا

پھر حکم ملا، ’’بن شیر ذرا
اک دھاڑ لگا اور سب کو ڈرا‘‘

خی خی کرکے بندر پلٹا
غصے میں مداری سے بولا
’’میں کوئی غلام نہیں تیرا
اور نہ ہی تو لیڈر میرا
روبوٹ نہیں میں بندر ہوں
مت سمجھ سیاسی ورکر ہوں‘‘

٭ مستقبل کا حال
راہ نما نے نعرہ لگایا
بس اب گیا وہ اور میں آیا
اقتدار جیسے ہی پایا
لوٹ مار کا ہوگا صفایا
زورزبردستی نہ ہوگی
دیس میں بدنظمی نہ ہوگی

ختم تھا اس تقریر پہ جلسہ
پھر یہ منظر سب نے دیکھا
ورکر یوں کھانے پہ ٹوٹے
دیگیں اُلٹ گئیں، چل گئے جوتے
جن میں زور تھا انھوں نے کھایا
بریانی کا ایک بھی چاول
کم زوروں کے ہاتھ نہ آیا
(محمد عثمان جامعی)

اس مرحلے پر جو نظمیں پیش کی گئی ہیں ان کی معنویت کی تشکیل میں سیاسی جہت نمایاں کردار ادا کرتی ہے۔ ویسے تو ہر دور میں ذرائع ابلاغ کے لیے سیاست اور اس کے مسائل سب سے پہلے اور سب سے زیادہ توجہ کا مرکز رہے۔ یہ صورت آج بھی ہے، بلکہ اب اس رجحان میں اضافہ ہوگیا ہے، اس لیے کہ سیاست کے انسانی زندگی پر اثرات کا دائرہ بہت وسیع ہوگیا ہے۔ تاہم ان نظموں میں غور طلب اور دل چسپ نکتہ یہ ہے کہ محمد عثمان جامعی نے سیاسی پہلو کو براہِ راست تجربے کے طور پر سمجھنے اور بیان کرنے کی کوشش نہیں کی، بلکہ انھوں نے اسے بالواسطہ طور پر انسانی رخ سے جاننے کا راستہ اختیار کیا ہے۔ مندرجہ بالا نظموں میں اس اندازِ نظر کو ہم باآسانی محسوس کرسکتے ہیں۔

اصل میں یہی وہ پہلو ہے جو ان نظموں کو ادبی اور تخلیقی تجربہ بناتا ہے۔
ان نظموں کا ایک اور پہلو توجہ طلب ہے، اور وہ ہے ردِعمل یا احتجاج کا لہجہ۔ دنیا بھر کے ادب میں اور خود ہمارے یہاں بھی ایک دور میں احتجاجی ادب کی بہت گونج رہی ہے۔ یہ ادب دراصل ڈکٹیٹر شپ کے عہد میں لکھا گیا تھا اور اسی تناظر میں اس کا فروغ ہوا۔ اب وہ دور نہیں ہے، اس لیے آج احتجاجی ادب کا ذکر بھی اس طرح نہیں ہوتا۔ سوال یہ ہے کہ اگر کوئی لہجہ یا طرزِ احساس کسی خاص عہد یا سیاق سے منسلک ہوجائے تو کیا اُس کی ساری معنویت وقت کے ایک دائرے میں محدود ہوجائے گی؟

دوسرے رُخ سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس کے برعکس اگر وہ اُن حوالوں اور سوالوں کو اپنی بنیاد بنالے جو زندگی کے لوازم سے سروکار رکھتے ہیں تو پھر وہ زمانی قید سے آزاد ہوکر اپنی معنویت کا ابلاغ کرے گا۔ محمد عثمان جامعی نے احتجاج کا جو لہجہ اختیار کیا ہے، وہ ایک طنز و تمسخر کے ساتھ رونما ہوتا ہے۔ اس سے دو فائدے ہوئے ہیں، ایک تو احتجاج زیادہ معنی خیز ہوگیا ہے اور دوسرے اُس میں قبولیت کا عنصر بھی بڑھ گیا ہے، یعنی عوامی سطح پر اُس کی تفہیم آسان ہوگئی اور اُس نے عوامی شعور سے اپنا رشتہ براہِ راست قائم کرلیا۔ ایسا اُسی وقت ہوتا ہے، جب تخلیق کار اپنے موضوع کو برتتے ہوئے اس کی انسانی جہت پر زیادہ توجہ دیتا ہے۔ مثال کے طور پر یہ نظمیں دیکھیے۔

٭اعزاز
(شہر کی اک تقریب کا منظر)
یہ ہیں مرزا طالب احمد
اچھا اچھا۔۔۔ہوں ہوں۔۔۔ اچھا
ادیب، دانش ور، اسکالر
اچھااچھا۔۔۔ہوں ہوں۔۔۔اچھا
پچپن تصنیفات ہیں ان کی
اچھا اچھا۔۔۔ہوں ہوں۔۔۔اچھا
لاتعداد مقالے لکھے
اچھا اچھا۔۔۔ہوں ہوں۔۔۔اچھا
کرکٹ ٹیم میں شامل امجد
ان ہی کا چھوٹا بیٹا ہے
اوہو، پہلے کیوں نہ بتایا
اصل تعارف کیوں نہ کرایا
آئیں، آگے لائیں ان کو
اگلی صف میں بٹھائیں ان کو
(محمد عثمان جامعی)

٭برابری
بٹھا کر پاس بچوں کو میاں برکت نے فرمایا
’’ہمارے دین میں چھوٹے بڑے سارے برابر ہیں
مسلمانوں میں سب یکساں، برہمن ہیں نہ شودر ہیں‘‘

تھا جاری وعظ کہ جھاڑو لیے جوزف اِدھر آیا
کہا، بیت الخلا اچھی طرح میں صاف کر آیا
لگی ہے بھوک صاحب! تھوڑا سا کھانے کو مل جائے
بس اِک روٹی بھی ہو تو اس سے میرا کام چل جائے

میاں برکت نے اپنی بیٹی کو فوری ہدایت دی
کماؤ اجر تم بیٹی جو اس کو آب ودانہ دو
بٹھاؤ کمرے سے باہر
الگ برتن میں کھانا دو
(محمد عثمان جامعی)

اب آخر میں ہمیں اس نکتے پر غور کرنا چاہیے کہ جو تجربہ مبشر علی زیدی محمد عثمان جامعی، اقبال خورشید، احمد اعجاز اور رضوان طاہر مبین جیسے تخلیق کاروں نے کیا ہے اور وہ عوام میں رسوخ پارہا ہے تو اُس کی وجہ کیا ہے؟ کیا کثیر الاشاعت اخبارات کے ذریعے اس کے منظرِ عام پر آنے سے ایسا ہوا ہے یا کوئی اور وجہ ہے؟

دیکھیے اخبار کا معاملہ تو بہت سیدھا اور صاف ہے۔ اخبار چھوٹا بڑا کوئی بھی ہو، اس کی زندگی بہرحال ایک روزہ ہے۔ اس لیے اخبار کو یہ کریڈٹ دیا ہی نہیں جاسکتا کہ وہ کسی ادبی تجربے یا کسی تخلیقی اظہار کے لیے زندگی کا سامان کرسکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان تخلیق کاروں کے تجربے میں وہ قوت داخلی سطح پر مضمر ہے جو اِن کے لیے زندگی کا سامان کرسکے۔ دوسری بات یہ کہ گیجٹس کے اس زمانے میں وقت کی رفتار میں تباہ کن اضافہ ہوا ہے۔ انسانی ارتکاز کا دورانیہ بہت مختصر ہوتا چلا جارہا ہے۔ دلچسپی کے محور تبدیل ہوگئے۔

ضرورتوں اور پسند کے معیارات بدل گئے ہیں۔ ایسے میں یہ بہت اہم ہے کہ تخلیق کار اپنے زمانے اور اُس کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے کی صورت پیدا کریں۔ ادب کی قدری حیثیت میں فروغ کے لیے یہ بہت ضروری ہے۔ ان تخلیق کاروں کی کامیابی سے یہ بات ایک بار پھر پایۂ ثبوت کو پہنچتی ہے کہ ادب اور معاشرے کا رشتہ کلی طور پر منقطع نہیں ہوا ہے۔ وہ اب بھی تازہ ہوسکتا ہے، بشرطے کہ اُس میں وہ جاذبیت ہو کہ وہ اس عہد کے انسان کی توجہ گیجٹس سے ہٹا کر اپنی جانب مبذول کراسکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔