منصب کا تقاضا

نصرت جاوید  بدھ 6 مارچ 2013
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

بھارت کے وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ نے برطانیہ اور امریکا کی یونیورسٹیوں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کر رکھی ہے ۔ کچھ عرصے واشنگٹن میں رہ کر ورلڈ بینک کے لیے کام بھی کیا ہے ۔مگر ان تمام تجربات نے انھیں اپنے پیدائشی مذہب اور اس کی روایات سے جدا نہیں کیا ۔وہ کرپان تو نہیں مگر کیس اور کڑے کو ابھی تک اپنے وجود کا حصہ بنائے ہوئے ہیں۔ دلّی کے متوسط طبقے والے ایک محلے میں ان کا گھر ہے ۔وہ اور ان کی بیوی انتہائی سادہ طریقے سے رہتے ہیں اور نمودونمائش سے ہر طرح کا اجتناب ۔

اپریل 2005ء کا ذکر ہے۔ سونیا گاندھی نے کانگریس کے صدر کی حیثیت میں اس وقت پاکستان کی حکمران پارٹی پاکستان مسلم لیگ قاف کے صدر چوہدری شجاعت حسین کو بھارت کے دورے کی دعوت دی۔ چوہدری صاحب اپنی جماعت کے 10رکنی وفدکے ساتھ وہاں جانے لگے تو یہ فیصلہ بھی کیا کہ ان کے ساتھ کچھ صحافی بھی جائیں ۔وہ بھارت میں ہونے والی تمام ملاقاتوں میں ان کے ساتھ رہیں۔ مگر تفصیلات کو رپورٹ نہ کرنے کے وعدے کے ساتھ ۔کچھ صحافی اس ضمن میں انھیں آخری وقت پر غچہ دے گئے مگر میں ان کے ہمراہ جانے کے وعدے پرقائم رہا ۔

ڈاکٹر من موہن سنگھ کے دفترمیں ہماری ان کے ساتھ ملاقات ہوئی تو بھارتی وزیر اعظم نے چوہدری شجاعت حسین کو بھرپور پنجابی طریقے سے خوش آمدید کہا۔اپنی گفتگو میں وہ بار بار پاکستان کی زرعی پیداوار کے بارے میں سوالات کرتے رہے اورکم از کم دو تین بار تقریباً کھل کر اس بات کا اظہار کیا کہ بھارت کے تعاون سے پاکستان اپنے بارانی علاقوں میں توانا بیجوں،  پانی کے بہتر کنٹرول اور شمسی توانائی وغیرہ کے استعمال کے ذریعے خوش حالی کا انقلاب برپاکرسکتا ہے۔

اسی نشست میں انھوں نے دو ٹوک الفاظ میں اس بات پر اصرار بھی کیا کہ پاکستان اور بھارت کو بجائے غیر ملکی ثالثوں کے روبرو جانے کے ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھ کر دریائی پانی کے استعمال سے متعلقہ مسائل کا حل ڈھونڈنا چاہیے ۔یہ بات کہتے ہوئے انھوں نے اس بات کا عہد کیا کہ ان کا ملک سندھ طاس معاہدے کی ایک ایک شق پر عمل کرنے کا پابند ہے ۔

میں سفارتکار نہیں ہوں ۔مگر ایک عام پاکستانی ہوتے ہوئے میری بڑی خواہش تھی کہ چوہدری صاحب بھارتی وزیر اعظم کی زراعت اور پانی کے بارے میں گفتگو کو آگے بڑھاتے اور سندھ طاس معاہدے کے بارے میں ان سے کوئی ٹھوس وعدے وعید لے کر اُٹھتے ۔ان کے وفد میں لیکن کچھ لوگ ایسے تھے جنھیں یہ جاننے کی زیادہ شدید خواہش تھی کہ من موہن سنگھ جنرل مشرف کو پاکستان اور بھارت کا ایک روزہ میچ دیکھنے کے لیے ان کے ملک آنے کی اجازت دیں گے یا نہیں۔اگر مشرف یہ میچ دیکھنے ان کے ملک آئے تو ان سے ملاقات کا موقع تو ملنا ہی چاہیے اور اس ملاقات میں کشمیر کا تذکرہ تو بہرحال ضروری ہے۔

چوہدری شجاعت کے وفد میں ایک صحافی کی طرح بیٹھے ہوئے مجھے صرف سننا تھا اور بولنا کچھ نہیں۔اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گیا ۔کیونکہ میری دانست میں اس ملاقات کا مقصد صرف بھارتی وزیر اعظم کو جنرل مشرف کے ساتھ پاک بھارت کرکٹ میچ دیکھنے کے بہانے ایک ملاقات پر تیار کرنے پر محدود ہوتا نظر آرہا تھا۔چوہدری شجاعت کی شفقت کے بدولت من موہن سنگھ کو ایک سرکاری ملاقات میں ڈیڑھ گھنٹے سے زیادہ سن کر میں البتہ اس نتیجے پر پہنچا کہ چکوال سے گئے اس سکھ کا پاکستان کے بارانی علاقوں میں دل اٹکا ہوا ہے ۔وہ ان کی بہتری کے لیے کچھ کرنا چاہتا ہے ۔

یہ بات تو اب طے ہوگئی ہے کہ بھارت میں آیندہ انتخابات کے بعد وہ کانگریس کی طرف سے وزیر اعظم کے امیدوار نہیں ہوں گے۔ سیاست بلکہ عملی زندگی سے بھی ریٹائر ہو جائیں گے اور خود کو اگلے جہاں کے لیے تیاری میں مصروف ہوجائیں گے ۔اپنی عمر اور کیریئر کے اختتامی مراحل میں یہ بات کافی فطری نظر آرہی تھی کہ وہ گزشتہ سال نومبر میں بابا گورو نانک کے جنم دن کی تقریبات میں شرکت کے لیے ننکانہ صاحب تشریف لے آئیں۔صدر زرداری نے اسی سال اجمیر شریف کا دورہ کرنے کے بعد انھیں ان تقریبات میں شرکت کے لیے باقاعدہ چٹھی لکھ کردعوت دی تھی۔مگر وہ نہ آسکے ۔وجہ صاف ظاہر ہے کہ بھارت کی ریاست اور وزارت خارجہ کے پالیسی سازوں نے انھیں صاف طور پر بتا دیا ہوگا کہ بھارت کے وزیر اعظم کو اپنی ذاتی اور وہ بھی مذہبی ترجیحات اور ضروریات کی وجہ سے پاکستان کا دورہ نہیں کرنا چاہیے ۔

کاش کہ ہمارے وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کو بھی ہماری وزارتِ خارجہ ،ان کی کابینہ یا ان کے اسٹاف میں سے کوئی شخص جرأت کرکے ایسی ہی بات کہہ سکتا۔ وہ 9مارچ کو اجمیر شریف جانے کا پروگرام بنائے بیٹھے ہیں۔شاید خواہش ہوگی کہ وہاں جاکر آیندہ انتخابات میں اپنی اور اپنی جماعت کی کامیابی کے لیے منتیں مرادیں مانگیں۔مجھے ذاتی طور پر ایسی منتوں پر کوئی اعتراض نہیں ہے ۔میں پیرپرست نہیں ہوں لیکن خواجہ معین الدین چشتیؒ کا عاشق ہوں۔

ہندوستان میں اسلام ایسی ہی ہستیوں کے طفیل پھیلا ہے جو درباروں سے بہت دور ویرانوں میں بیٹھ کر رب سے لو لگا لیتے تھے اپنے ہاں آنے والوں کو اخلاص سے پاس بٹھاتے اور جو کچھ کھانے کے لیے میسر ہوتا اس کے ساتھ بیٹھ کر کھاتے ۔ معین الدین چشتیؒ جیسی ہستیوں کا خلقِ خدا سے یہ اخلاص بھرا پیار اور لنگر کے ذریعے رزق کی تقسیم اور دستر خوان پر مساویانہ شرکت ذات پات کی اٹل تقسیم کے ذریعے شودر بنا دیے گئے انسانوں کے دلوں کو تسلی دے کر انھیں منور کردیا کرتی تھی اور یہی اسلام کا آفاقی مگر بنیادی اصول ہے جو فرد کو عزت دیتا اور آدمی کو انسان بناتا ہے ۔

راجہ پرویز اشرف ان کی درگاہ میں حاضری دینا چاہتے ہیں تو سو بسم اللہ ۔مگر وہ یہی کام 17مارچ کو کیوں نہیں کرلیتے جس دن وہ پاکستان کے وزیر اعظم نہیں اس ملک کے عام شہری بن جائیں گے ۔16مارچ سے پہلے بھارت جاکر راجہ صاحب وہاں کے میڈیا اور حکمرانوں کو کچھ اس طرح کا تاثردیں گے کہ پاکستانی ان سے ملاقاتوں کے لیے شدید بے تاب ہیں۔ سرکاری ملاقاتوں کا بندوبست نہ ہو تو کبھی کرکٹ یا پھر مزاروں پرحاضری دینے کے بہانے وہاں آجاتے ہیں۔ راجہ پرویز اشرف کے موجودہ منصب کا تقاضا ہے کہ وہ یہ تاثر پھیلانے سے باز رہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔