زوال کی نشانیاں

مقتدا منصور  بدھ 6 مارچ 2013
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

13 ویںصدی کے آنے تک مسلم معاشرے زوال پذیری کی آخری حدود تک پہنچ چکے تھے۔ حکومتیںعوامی مسائل سے عدم توجہی کا شکار،فیصلہ سازی کی اہلیت سے عاری اورعیش کوشی میں ڈوبی ہوئی تھیں۔عمال ریاست احتساب نہ ہونے کے سبب نااہل،بدعنوان اورموقع پرست ہوچکے تھے۔علما عوامی مسائل سے بے نیاز فروعی معاملات میں الجھے ہوئے تھے۔جس کی وجہ سے یہ معاشرے انتشار، افراتفری اور بدامنی میں مبتلاہوگئے تھے۔

مسلم معاشرے  کے اولین دور میں خوارج جیسے انتہا پسندگروہ وجود میں آگئے تھے،جو اختلاف رائے رکھنے والے ہر فرد اورگروہ کی تکفیر کرتے ہوئے انھیں قتل کررہے تھے۔ علماء و مفکرین جنون پسندی کا علمی بنیادوں پر راستہ روکنے میںناکام تھے،جب کہ حکومتیں اس صورتحال سے نمٹنے میں تامل کا شکار تھیں۔جس کے نتیجے میں ایسے گروہ کسی نہ کسی شکل میںتسلسل کے ساتھ مضبوط ہوتے رہے۔

دسویں سے تیرھویں صدی کے دوران مسلم معاشرے میں ایسے ان گنت گروہ وجود میں آچکے تھے، جو دلیل ومکالمے کے بجائے مختلف نظریات رکھنے والوں کے خلاف تشدد کی راہ اپنا رہے تھے۔ بغداد کا یہ عالم تھا کہ گلی گلی محلے محلے اور ہر چوک وچوبارے پر روزانہ مناظرے ہوتے۔ کہیںقرآن کے خالق ومخلوق ہونے پرمناظرہ ہو رہا ہے،تو کہیں تقدیروتدبیر پر بحث ہو رہی ہے۔کہیں اس بات پر تکرار ہو رہی ہوتی کہ تہہ بند ٹخنے سے کتنا اونچا ہو۔ گفتگوکے دوران پہلے تلخ کلامی ہوتی،ایک دوسرے کی تکفیرکی جاتی اور پھر تلواریں سونت کر ایک دوسرے کا خون بہایا جاتا۔ جب کہ ہر گروہ اپنے سفاکانہ عمل کو رضائے الٰہی کے حصول سے تعبیرکرتا۔

اس صورتحال کو فروغ دینے میں درباری علماء نے کلیدی کردار ادا کیا،جو اعلیٰ مقام ومرتبے کے حصول کی خاطرنظریاتی اختلافات کو ہوا دے رہے تھے۔ جس کی وجہ سے فرقہ وارانہ عصبیت معاشرے کی نچلی سطح تک منتقل ہورہی تھی اور عام آدمی اس کاشکار ہو رہا تھا۔حکمران خاموش تماشائی بنے یہ سب کچھ دیکھ رہے تھے۔ اس صورتحال کے دونتائج سامنے آئے۔اول،ریاست کی رٹ کمزور ہوتی چلی گئی اور پوری ریاست افراتفری، انتشار اور بے عملی کا شکار ہوکرتباہی کی جانب بڑھنے لگی۔ جب کہ دوسری طرف انتہا پسندوں کی چیرہ دستیوں سے تنگ آکر تحمل، برداشت اوردلیل ومکالمہ پر یقین رکھنے والے علماء نے طریقت کی راہ اپنائی۔

ہلاکو خان کے ہاتھوں بغداد کی تباہی سے یہ تجربہ حاصل ہوا کہ جب حکمران سیاسی عزم سے عاری ہوجائیں، مصلحتوں کا شکار ہوجائیں اورجرم کونظرانداز کرنے لگیں، تو معاشرہ انتشار کا شکار ہوکر تباہ ہوجاتا ہے۔

پاکستان14 اگست1947ء میں 20لاکھ جانوں کے نذرانے اور لاکھوں گھرانوں کی نقل مکانی کے نتیجے میں وجود میں آیا۔یہ ملک برصغیر کے جید علماء کی مخالفت کے باوجود آل انڈیا مسلم لیگ کی قیادت نے حاصل کیاتھا۔ علماء کی اکثریت بعض خدشات کی وجہ سے تقسیم ہند کی مخالف تھی۔ مولاناابوالکلام آزاد قیام پاکستان کی شکل میں مغربی استعماری قوتوں کے اس خطے میں قدم مضبوط ہوتے دیکھ رہے تھے۔ساتھ ہی انھیںبرصغیر میں کمیونل ازم مضبوط ہوتی اور پاکستان میں لسانی اورقومی تشخص کا بحران سراٹھاتا نظر آرہاتھا۔جب کہ مولاناحسین احمد مدنیؒ پاکستان میں شریعت کے نفاذکے بارے میں غیر یقینی کا شکار تھے۔

ان کی دیدہ ور آنکھیں مختلف مسالک اور فرقوں کے درمیان بڑھتی ہوئی آویزش دیکھ رہی تھیں۔دیگر علماء بھی کم وبیش انھی خدشات کا اظہار کررہے تھے۔مگر آل انڈیامسلم لیگ نے نہ ان اعتراضات پرسنجیدگی سے غور کیا اور نہ 1940ء میں علیحدہ وطن کے مطالبے سے قیام پاکستان کے 7برس کے درمیانی عرصے میںنئے ملک کے لیے کوئی واضح ایجنڈا ترتیب دیا۔یہی وجہ تھی کہ اس جماعت میں جتنے رہنماء تھے اتنے ہی نئے ملک کے بارے میں تصورات تھے۔نئی ریاست کی مختلف توجیہات کی وجہ سے قیام پاکستان سے قبل ہی اس کی ہئیت کے بارے میں کنفیوژن پیداہوگیاتھا۔خود بابائے قوم نے بھی مختلف مواقعے پر مختلف آراء کا اظہار کیا۔

ماسٹر تاراسنگھ سے ملاقات میں وہ سکھوں کو اس بنیاد پرپاکستان میں شمولیت پرآمادہ کرنے کی کوشش کرتے رہے کہ پاکستان ،بھارت کے مقابلے میں زیادہ سیکولر ملک ہوگا اور انھیں زیادہ آزادی میسر آئے گی۔ دہلی میںعلماء سے خطاب کے دوران قانون سازی کے لیے قرآن مجید کو حکم قراردیا۔جب کہ 11اگست 1947ء کودستورسازاسمبلی میں خطاب کے دوران ایک لبرل،سیکولر جمہوری ریاست کا خاکہ پیش کیا۔ یہ کنفیوژن قیام پاکستان کے بعد بھی جاری رہا،کیونکہ دیگرمسلم لیگی رہنماء ریاست کی ہئیت کی مختلف توجیہات اور تفہیم کرتے رہے۔ نتیجتاً ابتدائی9برس کے دوران آئین سازی پرکوئی خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہوسکی اور ملک انڈیاایکٹ1935ء کے ذریعے چلایا جاتا رہا۔

پاکستان کی تاریخ کا دوسرا المیہ بھارت کے ساتھ مختلف نوعیت کے تنازعات اوراس کے نتیجے میں جنم لینے والے سلامتی کے مسائل تھے۔ جن کی وجہ سے یہ ملک فلاحی کے بجائے سیکیورٹی ریاست میں تبدیل ہوگیا۔سیکیورٹی اسٹبلشمنٹ کی ریاستی حکمرانی اور پالیسی سازی پر مضبوط گرفت اور سیاسی عمل کے کمزور پڑنے سے حکمرانی کے بیشمار مسائل پیداہوئے۔اس صورتحال کے نتیجے میںملک کی خارجہ،دفاعی اور داخلہ پالیسی بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ اسٹبشلمنٹ نے ایک طرف پاکستان امریکا کا دست نگر بنادیا تو دوسری طرف بھارت کے ساتھ مخاصمت کو منطقی جواز فراہم کرنے کے لیے مذہبیت کے رجحان کی سرپرستی کی۔ ریاستی اقتدار پرگرفت مضبوط رکھنے کے لیے مذہبی جماعتوں کی سرپرستی اور متشدد فرقہ وارانہ عناصر کی سرگرمیوں سے صرف نظرنے ان گنت انتظامی مسائل کو جنم دیا۔

سرد جنگ کے خاتمے اور پھر9/11کے بعددنیاکی سوچ اور رویوں میں تبدیلی رونما ہوئی،مگرپاکستانی حکمرانوں کی ذہنی کیفیت(Mindset) تبدیل نہیں آئی۔ وہ آج بھی یہ سمجھ رہے ہیں کہ معصوم شہریوں کوخون میں نہلانے، فوجیوں کے سر تن سے جدا کرنے اور فوجی تنصیبات کونقصان پہنچانے والوں کو مذاکرات کے ذریعہ ایک بار پھر قابو میں لاکر مطلوبہ نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں۔اس کے علاوہ سیاسی قیادت اور سیکیورٹی اسٹبلشمنٹ کے درمیان احساس و ادراک Perceptionکا فرق بھی مسائل کے حل میں رکاوٹ بناہواہے۔

پاکستان میںغلط نظم حکمرانی اورملائیت کے فروغ کی پالیسیوں پر اصرارسے یہ ثابت ہواہے کہ تقسیم ہند کے وقت مولانا ابوالکلام اورمولانا حسین احمد مدنی نے جن خدشات کا اظہار کیا تھا وہ درست تھے۔وقت نے یہ بھی ثابت کردیا ہے کہ پاکستان پر مسلط حکمران اشرافیہ میںحکمرانی کی اہلیت نہیں ہے۔ انھیں ملک بچانے،عوام کوتحفظ دینے اورانصاف فراہم کرنے سے زیادہ65برس سے جاری پالیسیوں کو بچانے کی فکر ہے۔وہ آخری دور کے عباسی حکمرانوں کی طرح نااہل اوربدعنوان ہیں،جوبغداد کی طرح کوئٹہ سے کراچی تک ہرشہر کو بے نیازی کے ساتھ تباہ ہوتے دیکھ رہے ہیں۔ ان میں اس سیاسی بصیرت اور عزم کا فقدان ہے، جو ملک کو مصائب ومسائل سے نکالنے کے لیے درکار ہوتاہے۔

حکمرانوں کی نااہلی اور مسائل سے بیگانگی کی مثال یہ ہے کہ ابھی کوئٹہ میں ہزارہ کمیونٹی کے مرحومین کا کفن بھی میلا نہیں ہواتھا کہ گزشتہ اتوارکی شام کراچی کے عباس ٹائون میںقیامت صغریٰ بپاہوگئی۔50کے قریب افراد لقمہ اجل ہوگئے،جب کہ سیکڑوں اسپتالوں میں سسک رہے ہیں۔یہ اس بستی میں تیسرا سانحہ ہے،جو سابقہ دو سانحات سے زیادہ شدید اور ہولناک تھا۔ویسے تو افغان جنگ کے ساتھ ہی یہ ملک بارود کے ڈھیر میں تبدیل ہوچکاہے،مگر گزشتہ پانچ برس سے خونی واقعات روز کا معمول بن گئے ہیں ۔کراچی کا حال مزید ابتر ہے،جہاں ٹارگٹ کلنگ،اغواء برائے تاوان ، بھتہ اوراسٹریٹ کرائم نے پہلے ہی عام آدمی کی زندگی اجیرن کررکھی ہے۔

اب وہاں خود کش حملوں اور فرقہ واریت کی بنیاد پر بم دھماکوں کا سلسلہ بھی شروع ہوگیاہے۔اس طرح اس شہر میں تباہی اور بربادی کی ایک نئی تاریخ رقم ہورہی ہے۔ حکمران سوائے بیان داغنے کے کوئی ٹھوس اقدام کرنے کی صلاحیت سے محروم نظر آتے ہیں۔سمجھ میں نہیں آرہا کہ کب ہمارے حکمرانوں کو عقل آئے گی اور کب وہ مصلحتوں کی گرداب سے نکل کر جرأت مندانہ فیصلے کریں گے۔نظم حکمرانی کے اس بحران کو دیکھتے ہوئے خوف پیدا ہورہاہے کہ کہیں تاریخ اپنے آپ کو دہرانے تو نہیں جارہی ہے؟کیاکوئی نیا چنگیز خان یا ہلاکوخان اس ملک کو تاراج کرنے کے لیے تیاریاںتونہیں کررہا؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔