طوطیٔ ہند‘ امیر خسرو دہلوی

رئیس فاطمہ  بدھ 6 مارچ 2013

طوطیٔ ہند حضرت امیر خسرو سے بھلا کون واقف نہیں؟ عورتیں، بچے، گاؤں کی گوریاں، سیانے اور عاشق کون ہے جو ان کے نام اور کام سے واقف نہ ہو، وہ امیر خسروؔ جو حضرت نظام الدین اولیاؒ کے چہیتے شاگرد تھے۔ جنہوں نے ہندی ترکی برج بھاشا اور فارسی کی آمیزش سے ایک طلسم خانہ انشاء پردازی کا بنایا، ستار ایجاد کیا، پکھاوج سے ملتا جلتا ساز ڈھولک وجود میں آیا، مردنگ کے دونوں حصوں کو الگ الگ کر کے طبلہ ایجاد کیا، کئی راگ متعارف کرائے، عربی، ہندی اور فارسی راگوں کے امتزاج سے کئی نئے راگ متعارف کرائے۔ اردو کے سب سے پہلے شاعر کہلانے کا شرف بھی خسروؔ ہی کو جاتا ہے۔ فارسی اور برج بھاشا کے امتزاج سے سب سے پہلی غزل خسروؔ ہی نے کہی:

زحال مسکین مکن تغافل ور آئے نیناں بنائے بتیاں

کہ تاب ہجراں نہ دارم اے جاں‘ نہ لیجو کاہے لگائے چھتیاں

شبان ہجراں دراز چوں زلف و روز وصلت چوں عمر کوتاہ

سکھی پیا کو جو میں نہ دیکھوں توکیسے کاٹوں اندھیری رتیاں

اس کے علاوہ بہت سی پہیلیاں، انمل بے جوڑ، دوسخنہ، رخصتی اور شادی بیاہ کے گیت، کہہ مکرنیاں اور قوالی، بچوں کے لیے خالق باری جیسی مفید عالمانہ اور سادہ تصنیف جس کا آج لوگ نام بھی نہیں جانتے۔ یہ پہلے کئی بڑی جلدوں میں تھی، پھر بچوں کے لیے اس کو اختصار کے ساتھ شایع کیا گیا۔ یہی اختصار والا نسخہ میں نے انجمن ترقی اردو کے کتب خانے میں دیکھا۔ ہمارے بزرگوں کے تو خالق باری نصاب میں شامل تھی۔

عجیب تخلیق ہے جس کو پڑھ کر اس زمانے کی زبان کا اندازہ ہوتا ہے کہ کون کون سے الفاظ شامل زبان تھے۔ کسی چیز کو فارسی، اردو اور ترکی میں الگ الگ کیا کہتے تھے، ہمارے بزرگوں کے پاس الفاظ کا ذخیرہ اسی لیے تو اتنا زیادہ تھا کہ وہ بیک وقت کئی کئی زبانوں سے واقف ہوتے تھے۔ اور پھر شرفاء میں جو فارسی نہیں جانتا تھا وہ جاہل سمجھا جاتا تھا۔ 1965ء تک بھی نصاب میں عربی اور فارسی لازمی مضمون کا درجہ رکھتی تھیں، لیکن علم دشمن معاشرے نے ان زبانوں کو نصاب سے نکلوا کر دم لیا اور جعلی ڈگریوں کی راہ ہموار کر دی جو بڑی کامیابی سے جاری ہے، خیر چھوڑیئے اور ذرا ’’خالق باری‘‘ سے ایک اقتباس دیکھیے:

بیا برادر، آؤ رے بھائی، بہ نشیں مادر، بیٹھ ری مائی

دیکھا آپ نے وہی لفظ فارسی میں اور پھر وہی ریختہ یا ہندی میں کہ امیر خسرو کے زمانے میں اردو کو ریختہ کہتے تھے۔

امیر خسرو نے بادشاہوں کا زمانہ دیکھا۔ 1۔ غیاث الدین بلبن 2۔ سلطان محمد قاآن 3۔ سلطان معزز الدین کیقباد 4۔ سلطان جلال الدین فیروز شاہ 5۔ سلطان علاؤالدین 6۔ سلطان غیاث الدین تغلق 7۔ سلطان محمد تغلق8۔ سلطان قطب الدین۔ اور ہر ایک کی سلطنت میں معزز عہدوں پر فائز رہے۔ نثر اور نظم دونوں میں اردو کے استعمال کی بنا آپ ہی نے ڈالی۔ امیر خسرو ایسی شخصیت نہیں کہ جن کے کارناموں کی تفصیل ایک کالم میں بیان کی جا سکے۔ البتہ پہیلیوں، انمل بے جوڑ، دو سخنہ اور کہہ مکرنی کا ذکر تو کیا ہی جا سکتا ہے۔ جو کبھی صرف نصاب ہی کا نہیں بلکہ روزمرہ زندگی کا حصہ تھیں۔ مہذب گھرانوں میں یہ سب عام بول چال میں استعمال ہوتے تھے۔ ایک طریقے سے یہ وقت گزارنے کا بھی ایک ذریعہ تھا۔

دو سخنہ: اس میں دو بے جوڑ باتوں کا جواب ایک ہی ہوتا ہے، گویا یہ ذہنی آزمائش ہے۔

گوشت کیوں نہ کھایا۔ ڈوم کیوں نہ گایا= گلا نہ تھا

جوتا کیوں نہ پہنا۔ سموسہ کیوں نہ کھایا= تلا نہ تھا

انار کیوں نہ چکھا۔ وزیر کیوں نہ رکھا= دانا نہ تھا

پہیلی: جو اب ماضی کا حصہ بن گئی، کبھی لڑکیوں بالیوں کی زندگی کا حصہ تھی۔ خسروؔ نے بعض پہیلیاں ایسی بھی کہی ہیں جن کا جواب اسی میں موجود ہے۔

آئینے کی پہیلی:

فارسی بولی آئی نہ۔ ترکی سوچی پائی نہ

ہندی بولتے آرسی آئے۔ منہ دیکھو جو اسے بتائے

ناخن کی پہیلی:

بیسوں کا سر کاٹ لیا۔ نہ مارا ناخون کیا

انمل بے جوڑ:

ایک کنوئیں پر چار پنہاریاں پانی بھر رہی تھیں، امیر خسروؔ کو راہ چلتے پیاس لگی، انھوں نے پانی مانگا، ان میں سے ایک انھیں پہچانتی تھی، اس نے اوروں سے کہا کہ ’’دیکھو یہی ہے خسروؔ جس کے گیت سب گاتے ہیں۔ پہیلیاں، کہہ مکرنیاں اور انمل سنتے ہیں۔ یہ سنتے ہی ان میں سے ایک نے کہا۔ مجھے کھیر کی بات کہہ دو۔ دوسری بولی۔ مجھے چرخے کی۔ تیسری نے کہا۔ مجھے کتے کی اور چوتھی بولی۔ مجھے ڈھول کی بات کہو۔

خسروؔ نے کہا: پہلے پانی تو پلادو، مارے پیاس کے دم نکلا جا رہا ہے۔ وہ بولیں: جب تک ہماری بات نہ کہہ دے گا پانی نہیں پلائیں گے۔ انھوں نے جھٹ کہا:

کھیر پکائی جتن سے‘ چرخہ دیا جلا

آیا کتا کھا گیا‘ تو بیٹھی ڈھول بجا

لا پانی پلا

کہہ مکرنی:

وہ آوے تب شادی ہووے

اس بن دوجا اور نہ کوئے

میٹھے لاگے وا کے بول

اے سکھی ساجن‘ نہ سکھی ڈھول

خسروؔ کے کہے ہوئے گھریلو گیتوں میں رخصتی اور ساون کے گیت آج بھی زندہ ہیں خاص کر یہ گیت جو بطور خاص شادی بیاہ میں گایا جاتا تھا۔

کاہے کو بیاہی بدیس رے لکھی بابل مورے

طاقوں بھری میں گڑیا جو چھوڑیں

چھوٹا سہیلیوں کا ساتھ

رے لکھی بابل مورے

اور ساون کا یہ گیت بھی جسے کنجن بیگم، مہناز، عشرت جہاں اور نگہت سیما، سب نے ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے لیے گایا، یہ پروگرام پی ٹی وی کے موسیقی کے بہترین پروگراموں میں شامل ہیں۔ لیکن اب کہیں کھو گئے، گٹار کے بے ہنگم شور اور سازوں کے جھاڑ جھنکار میں ذہن کو آسودگی دینے والی موسیقی ٹی وی نے خود ہی دفن کر دی۔ لیکن یہ گیت بے شمار ذہنوں میں آج بھی زندہ ہیں۔ کیونکہ سچے سُر کبھی نہیں مرتے۔ ذرا یاد کیجیے اس گیت کو :

اماں میرے باوا کو بھیجو ری کہ ساون آیا

بیٹی تیرا باوا تو بڈھا ری کہ ساون آیا

اماں میرے بھائی کو بھیجو ری کہ ساون آیا

بیٹی تیرا بھائی تو بالا ری کہ ساون آیا

اماں میرے ماموں کو بھیجو ری کہ ساون آیا

بیٹی تیرا ماموں تو بانکا ری کہ ساون آیا

کیا خوبصورت گیت ہے ، جب لڑکی کے میکے سے بہت دور سسرال میں ہے، ساون آیا ہے، اور وہ میکے کو یاد کر رہی ہے کہ کوئی آئے اور اسے ساتھ لے جائے، تا کہ وہ بھی اپنی سکھی سہیلیوں کے ساتھ درختوں میں ڈالے گئے جھولے میں جھولا جھول سکے، پپیہے کی کوک سن سکے، کوئل کی پکار محسوس کر سکے، موتیا، بیلے اور ہار سنگھار کی خوشبو  سے مشام جاں کو معطر کر سکے کہ میکے کے پھولوں کی تو خوشبو ہی الگ ہوتی ہے، کیونکہ اس خوشبو میں بچپن، لڑکپن اور جوانی کی مہک بھی بسی ہوتی ہے۔ امیر خسروؔ کے یہ گیت نو سو برس گزرنے کے بعد بھی زندہ ہیں۔

جب کہ ’’بنانے والوں نے ہزاروں گیت بنائے اور گانے والوں نے ہزاروں گائے، آج کہے کل بھول گئے‘‘۔ لیکن اتنا طویل عرصہ گزرنے کے بعد بھی ان کے گیت، غزل، موسیقی سب کچھ زندہ ہے۔ واہ! کیا زبان تھی جو کچھ زبان سے نکل گیا، کل عالم کو بھا گیا۔ یہ صرف حسن قبول نہیں بلکہ اللہ کا خاص کرم ہے۔ حضرت نظام الدین اولیاء کی چشم محبت کا اثر ہے کہ امیر خسروؔ امر ہو گئے اور اپنے مرشد کے وصال کے صرف چھ ماہ بعد ہی ان سے جا ملے۔

گوری سووے سیج پہ‘ مکھ پہ ڈالے کیس

چل خسروؔ گھر آپنے سانجھ بھئی چوند یس

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔