اللہ والے…

شیریں حیدر  اتوار 12 نومبر 2017
Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

کھاریاں چھاونی سے جی ٹی روڈ پر چڑھتے ہی اندازہ ہوا کہ سڑک پر ٹریفک کچھ سست اور بے ہنگم سی چل رہی تھی۔ جہلم سے پہلے پہلے بسیں نظر آناشروع ہو گئیں جن پر سبز پرچم لہرا رہے تھے اور ان کے نہ صرف اندر لوگ بیٹھے ہوئے تھے بلکہ چھتوں تک پر تیس تیس لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ کچھ شور سا تھا، نعتیں اور نعرے… گاڑی کے بند شیشوں سے کچھ اندازہ نہ ہوا کہ کس نوعیت کی گاڑیاں ہیں اور کہاں جا رہی ہیں۔

جب گاڑی اس رش میں گھس کر، ’ جائے ماندن نہ پائے رفتن‘ کی صورت حال کا شکار ہو گئی تو سمجھ میں آ گیا کہ کسی مذہبی پارٹی کا یہ جلوس لاہور سے روانہ ہوا ہے اور منزل اسلام آ باد ہے۔ دائیں، بائیں، آگے اور پیچھے ہر طرف ہم انھی بسوں ، ویگنوں ، سوزوکیوں اور کاروں کے جلوس میں پھنس کر اس جلوس کا حصہ بن گئے تھے۔

دریائے جہلم کے ٹال پلازا پر ٹیکس کی رقم دیتے ہوئے میں نے ان تمام گاڑیوں کو بلا ٹیکس ادا کیے شاں شاں کر کے گزرتے دیکھا تو رہ نہ سکی اور بقایا رقم لیتے ہوئے سوال کیا، ’’ان سب سے آپ ٹیکس کیوں نہیں لے رہے؟‘‘

’’ اللہ والے ہیں جی یہ سارے… ‘‘ اس نے مسکرا کر کہا۔

’’ تو ہم آپ کو کون سے والے لگ رہے ہیں؟‘‘ میںنے غصے سے سوال کیا۔

’’ آپ بھی ان کے ساتھ ہیں؟‘‘ اس نے گاڑی کے بلائنڈز کے اندر جھانک کر دیکھنے کی کوشش کی کہ شاید کوئی ثبوت مل سکے، ’’پہلے بتاتے نا کہ آپ بھی ان کے ساتھ ہیں!!‘‘ اس نے میری رقم واپس کرنے کی کوشش کی۔

’’ رکھیں آپ اسے بیٹا!!‘‘ کہہ کر میں نے گاڑی بڑھائی اور دوبارہ جلوس میں شامل ہو گئے کہ اس کے سوا کوئی اور راستہ تھا نہ چارہ۔ جی ٹی روڈ کے دونوں طرف کی سڑکیںایک لین کو چھوڑ کر سات آٹھ گاڑیوںکی لین میں سیدھی اور مخالف سمت سے بھی اسلام آباد کی طرف جا رہی تھیں۔ ہماری طرح سے خواہ مخواہ میں ساری ’’بے جلوس‘‘ گاڑیاں اس میں پھنسی ہوئی تھیں۔ کہیں کہیں رفتار چیونٹی کی طرح ہو جاتی اور کہیں مکمل طور پر گاڑی کا انجن بند کر کے میں اپنے فون پر پیغامات چیک کررہی تھی۔ گھر پر پریشانی کہ شام ہو رہی تھی، اس کے ساتھ دھند ہو جاتی ہے، کوئی چارہ نہ تھا واپس جانے کا بھی، میں اور بہن دونوں سب کو تسلی دے رہے تھے کہ سب خیریت ہے۔

ہر شہر میں قافلہ مکمل رک جاتا تھا، شہروں میں سڑکوں کے دونوں اطراف ہزاروں کی تعداد میں کھڑے ہوئے لوگ ہم پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کر رہے تھے… وہ جوش سے قافلے کے شرکاء کے ساتھ ہم آواز ہو کر نعرہ تکبیر اور لبیک یا رسول اللہ کی صدا بلند کرتے تو اس کی گونج گاڑیوں کے بند شیشوں سے بھی پار سنائی دیتی تھی۔

جمعہ دس نومبر کو اسلام آبادمیں ان کا احتجاجی مظاہرہ تھا،اس سے پہلے کئی ہفتوں سے دھرنا چل رہا تھا۔ میں منگل کے دن کھاریاں سے پانچ گھنٹوں میں اسلام آباد اپنے گھرپہنچی، جوکہ معمول میں دو گھنٹے کا سفر ہے۔ لگ بھگ ایک ماہ سے اسلام آباد میں معمول کی زندگی فیض آباد پر دھرنے سے جمود کا شکار ہے۔ لوگوں کو انتہائی زیادہ مشکلات پیش آ رہی ہیں۔جلوس کئی ایمبولینسیں پھنسی تھیں   کئی لوگ اپنی پروازیں مس کر چکے ہوں گے، کوئی جانے کتنے عرصے کے بعد اپنے پیاروں سے ملنے جا رہا ہو گا، مگر سب ایک سے مجبور اوربے بس تھے۔

مشکلات عوام ہی کی پیدا کردہ ہیں اور عوام ہی کے لیے ہیں۔ سیاسی جماعتیں ہوں یا مذہبی اجتماعات، کسی مظاہرے، جلوس یا جلسے کے نتیجے میں آج تک اس ملک میں کسی کی شنوائی ہوئی ہے؟ نہیں نا… تو پھر سڑکیں بند کر کے آپ کس کا نقصان کر رہے ہیں اور کس کا فائدہ؟ حکومت کیا کررہی ہے، حکمران اور حکومتی مشینری ایک سیاسی خاندان کی سیاسی وراثت کو بچانے کے لیے کوشاں ہیں۔ اپنی ہی کرنی کے صلے میں اپنے ساتھ ہونے والے سلوک کا رونا روتے ہوئے، عدلیہ اور اداروں کو مورد الزام ٹھہراتے ہوئے… کبھی کسی کو مناتے ہیں کبھی کسی کو سمجھاتے ہیں۔ ہمارے وزیر اعظم اس وقت سب سے اہم کام یہی کر رہے ہیں کہ وہ پاکستان اور برطانیہ کے بیچ میں آ اور جا رہے ہیں اور اس اہم سیاسی خاندان کے بڑوں اور چھوٹوں کو سمجھا بجھا اور ان میں تصفیے کروا رہے ہیں۔ اب اس ملک کے وزیر اعظم کا یہی کام تو رہ گیا ہے۔

ملکی آئین سے کی گئی چھیڑ چھاڑ کے نتیجے میں، ہم سب کے جذبات مجروح ہوئے اور شدید ردعمل دیکھنے میں آیا جس کے نتیجے میں ان تبدیلیوں کو تو حذف کر دیا گیا مگر کہیں نہ کہیں کچھ ایسا کر دیا گیا ہے کہ جس پر یہ رد عمل سامنے آیا ہے، ملک گیر مظاہروں کے علاوہ اسلام آباد میں فیض آباد چوک پر کئی دن سے جاری دھرنا بہت وسیع پیمانے پر اور جڑواں شہروں کے علاوہ ملک کے کئی اور شہروںمیں بھی مصروفیات کو معطل کیے ہوئے ہے۔ مگرکمال دیکھ لیں جو کسی سرکاری یا نجی چینل نے ان مظاہروں، سڑکوں کے بند ہونے، دھرنے یا جی ٹی روڈ پر لاہور سے اسلام آباد آنے کی کوئی کوریج دی ہو!!

پنجاب اور مرکز میں یہ چل رہا ہے تو سندھ کے منظر نامے پر ایک اور ڈرامہ… لگتا ہے جگہ جگہ کٹ پتلیوں کے تھیٹر سجے ہوئے ہیں۔ سیاست گھروں کی باندی بنی ہوئی ہے اور اسے چھوڑنے والوں کو بعد میں احساس ہوتا ہے کہ اتنا منافع بخش کاروبار چھوڑ دیا۔ جیسے ناراض ہو کر میکے جانے والی بہو کو ماں منا کر واپس بھیج دیتی ہے اسی طرح سیاست کو ٹھوکر مار کر چلے جانے والے اپنی والدہ کی خواہش پر واپس لوٹ آئے ہیں… اس پر کوئی تبصرہ کرنا لا حاصل ہے، مائیں بعض اوقات بچوں سے ایسی بات پر ضد کر لیتی ہیں کہ وہ راج ہٹ، تریا ہٹ اور بالک ہٹ سے بڑھ کر ہو جاتی ہے۔ کون سیاست میں کیا کر رہا ہے، اس سے تو عام آدمی کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔

مگر ہمیں فرق پڑتا ہے جب ہم گھروں سے کسی کام کو نکلتے ہیں اور گھنٹوں ٹریفک میں پھنسے رہتے ہیں، انسانی ضروریات کی مجبوری ہوتی ہے، بھوک اور پیاس کسی حد تک برداشت کی جا سکتی ہیں … سڑکوں پر ٹریفک کے شکنجے میں یوں پھنس جاتے ہیں کہ نہ واپس مڑ سکتے ہیں اور نہ ہی آگے بڑھ سکتے ہیں۔ ہمارے بچے گھروں سے اسکولوں، کالجوں ، یونیورسٹیوں اور دفاتر کے لیے نکلتے ہیں اور ان کی خیریت کی فکر لگ جاتی ہے۔ ہر روز کسی نہ کسی گاڑی کو ایک نئی خراش کا تحفہ مل جاتا ہے۔ پٹرول کا استعمال بھی کم رفتار پر اور گاڑی کے مسلسل رینگنے کے باعث زیادہ ہوتا ہے۔ ان سے سے بڑھ کر صحت ہے… گاڑی کے شیشے کھولیں تو بیرونی فضا صحت کے لیے نقصان دہ… شیشے بند رکھیں تو بھی گھنٹوں کے حساب سے گاڑی میں رہنے سے دم گھٹنے لگتا ہے اور ذہنی کوفت کا تو کیا کہنا۔

سارا غصہ، جھنجلاہٹ اور چڑ چراہٹ آکر گھر والوں پر ہی اترتی ہے۔ ان کی طرف سے گھر پہنچتے ہی پہلا سوال، ’’کہاں رہ گئے تھے… ‘‘ کے جواب میں ’’جہنم میں!!‘‘ پھر کھانا، بات چیت اور سونا جاگنا ایسا بن جاتا ہے کہ گھر بھی جہنم جیسا بن جاتا ہے۔ کمبل تان کر سو جانے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا کہ اگلے روز پھر ایک اور ہی ایسے دن کا آغاز کرنا ہوتا ہے!!!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔