ویسٹ انڈیز کی مہمان نوازی اب مارچ میں ہوگی

عباس رضا  اتوار 12 نومبر 2017
اسٹارکرکٹرز کی رخصتی قومی ٹی ٹوئنٹی کی رونقیں ماند کردے گی۔ فوٹو:فائل

اسٹارکرکٹرز کی رخصتی قومی ٹی ٹوئنٹی کی رونقیں ماند کردے گی۔ فوٹو:فائل

مئی 2015میں زمبابوے کی ٹیم 3ون ڈے اور 2ٹی ٹوئنٹی میچز کھیلنے کے لیے لاہور آئی تو 6سال بعد ملک میں انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی کے سفر کا آغاز ہوا، بہترین سکیورٹی انتظامات نے خدشات غلط ثابت کئے، بعد ازاں رواں سال پاکستان سپرلیگ کا فائنل قذافی سٹیڈیم میں ہی ہوا تو دنیا بھر میں ایک مثبت پیغام گیا کہ امن قائم رکھنے کے ذمہ دار ادارے فعال اور عوام کرکٹ سے بے پناہ محبت کرنے والے ہیں۔

ورلڈ الیون کی میزبانی کے لیے پی سی بی کا کیس مضبوط ہوا،لاہور میں میچ کھیل کر جانے والے غیر ملکی کرکٹرز نے پاکستان کی ساکھ مزید بہتر بنانے میں کردار ادا کیا، آئی سی سی ٹاسک فورس برائے پاکستان کے سربراہ جائلز کلارک نے پاکستان دوستی کا حق ادا کرتے ہوئے ٹی ٹوئنٹی سیریز کے لیے عملی کوششوں کا آغاز کیا۔

قانون نافذ کرنے والے اداروں نے سکیورٹی انتظامات کیلئے کمر کس لی تو دوسری طرف پی سی بی نے میسر وقت میں قذافی اسٹیڈیم کی تزئین و آرائش، نشریاتی حقوق فروخت، مہمان کرکٹرز کی رہائش اور آمدورفت سمیت مختلف امور کی انجام دہی کا بیڑا اٹھالیا، لاہور میں میلہ سجایا گیا تو نہ صرف قذافی سٹیڈیم بلکہ ملک بھر کے شائقین نے انٹرنیشنل کرکٹرز کا شاندار استقبال کیا، یہ 3ٹی ٹوئنٹی میچز ملک میں انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی کے لیے بہت بڑی پیشرفت تھے۔

سیریز کے کامیاب انعقاد سے سری لنکن ٹیم کو بھی ایک میچ کے لیے پاکستان آنے کا حوصلہ ملا، جس ٹیم پر 8 سال قبل حملہ ہونے کے بعد پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ کے دروازے بند ہوئے وہی بحالی کے عمل میں شریک ہوگئی، طویل وقفے کے بعد صف اول کی ٹیموں میں سے کسی کا یہ پہلا ٹور تھا جو کپتان اپل تھارنگا، پیسر لیستھ مالنگا، مارچ 2009 میں سری لنکن ٹیم کی بس کے سوار سورنگا لکمل اور کاپوگدیرا سمیت بڑے کرکٹرز کی جانب سے انکار کے باوجود کامیاب رہا۔

سری لنکا کے وزیر کھیل دیاسری جیاسکیرا نے لاہور آنے سے گریزاں کھلاڑیوں کا مطالبہ رد کرتے ہوئے لاہور جانے کے لیے تیار پلیئرز کو ہی یواے ای میں دونوں میچز کھلانے کا فیصلہ کرتے ہوئے پاکستان دوستی کا ثبوت دیا، تھسارا پریرا کی قیادت میں آئی لینڈرز کی آمد اور میچ کے پر امن انعقاد کے بعد نومبر میں ویسٹ انڈین ٹیم کے خلاف 3ٹی ٹوئنٹی میچز کی سیریز کا بیتابی سے انتظار کرنے لگے۔

کریبیئن کرکٹرز کے تحفظات، بنگلادیش پریمیئر لیگ میں مصروفیات اور بورڈ کی طرف سے باضابطہ کوئی گرین سگنل نہ ہونے کے باوجود چیئرمین پی سی بی نجم سیٹھی نے بغیر ہوم ورک کئے قوم کو ’’خوشخبری‘‘ سنادی کہ ویسٹ انڈین ٹیم لاہور میں میچز کے لیے آرہی ہے، شیڈول کا اعلان 3یا 4روز میں کردیا جائے گا، ہفتہ سے بھی زیادہ گزرنے کے بعد زمینی حقائق سامنے آنے لگے، اگرچہ پی سی بی نے لاہور میں سموگ کو سیریز کے التوا کی وجہ قرار دیا،تاہم کئی اہم امور یکسر نظر انداز ہوگئے۔

قومی ٹی ٹوئنٹی، بی پی ایل، دورۂ نیوزی لینڈ اور پھر پی ایس ایل سمیت پاکستانی کرکٹرز کے لیے مسلسل کئی مصروفیات موجود تھیں کہ سموگ نے بھی کھیل بگاڑ دیا، اہم بات یہ ہے کہ سری لنکن بورڈ براہ راست وزیر کھیل کے سرپرستی میں کام رہا ہے، ویسٹ انڈیز بورڈ میں کھلاڑی زیادہ طاقتور ہیں، جزائر کے الگ الگ سیٹ اپ ہونے کی وجہ سے بھی ریجنز معاملات میں ٹانگ اڑادیتے ہیں، ورلڈ الیون سے سیریز کے وقت جب ویسٹ انڈین بورڈ چیف ڈیو کیمرون لاہور آئے تو انھوں نے صاف کہہ دیا تھا کہ دورے کے لیے تیار ہیں مگر پلیئرز کو منانا سخت چیلنج ہوگا۔

یاد رہے کہ ویسٹ انڈین بورڈ نے پہلے بھی رواں سال کے آغاز میں فلوریڈا میں میچز کھیلنے کے بدلے میں پاکستان کا دورہ کرنے کی حامی بھرنے کے بعد کرکٹرز کے تحفظات کو جواز بناکر انکار کردیا تھا، دوسرے نجم سیٹھی ان حقائق کو نظر انداز کرتے ہوئے بڑا دعویٰ کرگئے لیکن ویسٹ انڈیز کی نومبر میں میزبانی کا ارمان پورا نہ ہوا۔

فروری میں پی ایس ایل کے بعد مارچ میں موزوں وقت تلاش کرنے کی اطلاعات سامنے آئی ہیں، پاکستانی کرکٹرز کے شیڈول کو دیکھا جائے تو رواں ماہ قومی ٹی ٹوئنٹی ٹورنامنٹ اور پی بی ایل میں شرکت کے بعد دسمبر میں چندروز فارغ تھے، جنوری میں دورۂ نیوزی لینڈ اور فروری میں پی ایس ایل کا انعقاد ہونا ہے، چھٹی ٹیم ملتان سلطانز متعارف کروائے جانے کی وجہ سے اس بار ایونٹ طویل ہو سکتا ہے، اپریل اور مئی میں آئرلینڈ اور انگلینڈ کے ٹور سے قبل مارچ میں فارغ وقت موجود ہے، دوسری جانب ویسٹ انڈین ٹیم رواں ماہ نیوزی لینڈ کا دورہ شروع کرے گی جو دسمبر میں بھی جاری رہے،یوں گرین شرٹس دسمبر میں فارغ ہونے کے باوجود کیریبیئنز کو نہیں بلاسکیں گے۔

خوش قسمتی سے مارچ میں بنگلادیش کی ٹیم کا دورہ ویسٹ انڈیز ملتوی ہوکر جولائی میں شیڈول کرنے کا فیصلہ ہوا ہے، اس صورتحال میں پی سی بی پی ایس ایل کے بعد ٹی ٹوئنٹی سیریز کے لیے کوشاں تھا،گزشتہ روز چیئرمین پی سی بی نجم سیٹھی نے تینوں ٹی ٹوئنٹی میچز 29 ،31مارچ اور یکم اپریل کو کروانے اور 5سال تک باہمی سیریز کا اعلان کیا، انہوں نے کیریبیئنز کی مکمل قومی ٹیم کی آمد کا بھی دعویٰ کیا ہے، تاہم بڑے کرکٹرز کی جانب سے انکار کا خدشہ رد نہیں کیا جاسکتا۔

دوسری جانب پی سی بی نے قومی ٹیم کی مصروفیات اور ورلڈ الیون کے خلاف سیریز کو نظرانداز کرتے ہوئے قومی ٹی ٹوئنٹی کپ کی شیڈول کا اعلان کیا جو کئی بار تبدیل کرنا پڑا، وینیوز بھی بدلے جاتے رہے، ڈومیسٹک کرکٹ میں بہتری لانے کے دعویدار بورڈ نے بالآخر ایونٹ راولپنڈی میں کروانے کا فیصلہ کیا اور ساتھ ہی قومی کرکٹرز کو 17 نومبر کے بعد بنگلہ دیش پریمیئر لیگ میں شرکت کی اجازت دے دی ہے، پلیئرز نے مالی نقصان کو جواز بنا کر درخواست کی تھی کہ فیصلے میں اب کوئی تبدیلی نہ کریں۔

اب ایک ہفتے تک ڈومیسٹک ایونٹ میں شرکت کے بعد فخرزمان، شعیب ملک، فہیم اشرف،حسن علی اور رومان رئیس کومیلا وکٹورینز، محمد عامر ڈھاکا ڈائنامائٹس اور جنید خان کھلنا ٹائٹنز، بابراعظم سلہٹ سکسرز کو دستیاب ہوں گے،صورتحال غیرواضح ہونے کی وجہ سے سرفراز احمد اور شاداب خان دونوں کے معاہدے ختم ہو چکے، تاہم دیگر قومی ٹی ٹوئنٹی ٹورنامنٹ کی رونقوں کا حصہ نہیں ہوں گے، ویسٹ انڈیز سے سیریز ہو جاتی تو نہ صرف ڈومیسٹک ایونٹ کا شیڈول ایک بار پھر تبدیل ہوتا بلکہ بنگلادیش پریمیئر لیگ میں شرکت کا معاملے پر بھی ازسرنو غور کرنا پڑتا،دراصل پی ایس ایل پر بورڈ حکام کی اس قدر توجہ مرکوز ہے کہ ڈومیسٹک کرکٹ کی حیثیت ثانوی ہوگئی ہے۔

ڈائریکٹر کرکٹ آپریشنز ہارون رشید کے جلدبازی میں کئے گئے کئی فیصلے تبدیل کرنا پڑے ہیں، دیگر ملکوں میں شیڈول سوچ سمجھ کر بنتے ہیں اور قومی کرکٹرز کی مصروفیات کا تعین بھی پہلے ہی کرلیا جاتا ہے لیکن پی سی بی میں قدم اٹھانے کے بعد واپسی کی راہ اختیار کرنا پڑ جاتی ہے، اس بار پھر ملک میں ڈومیسٹک ٹی ٹوئنٹی کپ ہونے کے باوجود قومی کرکٹرز بی پی ایل میں اسی طرز کے میچز کھیل رہے ہوںگے، اس طرح کے فیصلے نہ صرف شائقین بلکہ نوجوان کرکٹرز کے لیے بھی حوصلہ شکنی کا باعث بنتے ہیں کیونکہ سٹارز کی عدم موجودگی میں انہیں سیکھنے کا موقع نہیں ملتا۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔