ایک نادان لڑکے کی جنگ

وسعت اللہ خان  منگل 14 نومبر 2017

جیسے عرب اسپرنگ دسمبر دو ہزار دس میں تیونس کے قصبے سدی بوزید کے اس چھبیس سالہ تیونسی سبزی فروش محمدبوعزیزی کے جسم سے پھوٹی جس نے بلدیہ کے رشوتی اہلکاروں کے ہاتھوں اپنا ٹھیلہ ضبط ہونے کے احتجاج میں بھرے بازار میں خود کو نذرِ آتش کردیا اور دس روز اسپتال میں گذار کے مرگیا۔مگر اس کے جسم کے شعلے آمریت کے خلاف غصیلے بارود سے بھرے کروڑوں عربوں کے دلوں میں مصر تا بحرین آگ لگا گئے۔

اسی طرح اکیسویں صدی کی پہلی بھرپور خانہ جنگی اس ساتویں جماعت کے چودہ سالہ شامی لڑکے معاویہ سیاستے نے شروع کرائی جس نے مارچ دو ہزار گیارہ کے ایک روز جنوبی شہر دوراہ میں اپنے اسکول کی اندرونی دیوار پر اسپرے سے نعرہ لکھ دیا ’’ اگلی باری تمہاری ہے ڈاکٹر‘‘ ( یعنی ڈاکٹر بشار الاسد ایم ڈی )۔

مخابرات ( خفیہ پولیس ) نے معاویہ اور اس کے تین دیگر ساتھیوں کو اٹھا لیا، الٹا لٹکا دیا ، تلووں پر چھتر مارے ، بجلی کے جھٹکے دیے۔والدین پولیس اسٹیشن پہنچے۔تھانیدار نے کہا ’’ بچوں کو بھول جاؤ ، نئے پیدا کر لو ، تم پیدا نہیں کر سکتے تو اپنی عورتیں ہمارے پاس بھیج دو ہم پیدا کر دیں گے‘‘۔

جب یہ گفتگو منہ در منہ کان در کان ہر شہری تک پہنچ گئی تو گویا یہ آخری تنکہ تھا جس نے صبر اور زباں بندی کے اونٹ کی کمر توڑ دی۔جس میں ذرا سا بھی غصہ دبا تھا وہ سڑک پر نکل آیا۔مگر کسی نے بشارالاسد کا نام لے کر کوئی مخالف نعرہ نہیں لگایا۔وہ تو بس قومی مسلح افواج زندہ باد اور ہمارے بچوں کو واپس کرو کے نعرے لگا رہے تھے۔

مگر دوراہ سے دور واقع دارلحکومت دمشق میں یہ نعرے عرب اسپرنگ کی آمد سمجھے گئے لہذا ترنت ہیلی کاپٹروں سے اسپیشل فورسز دوراہ روانہ کر دی گئیں۔پرامن مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے طاقت کا استعمال ہوا ، پہلے روز دو ، دوسرے روز آٹھ ہلاکتیں ہوئیں اور یوں سرکاری پھرتیوں کے سبب ایک مقامی جھگڑا انٹرنیٹ پر اپ لوڈ وڈیوز کے طفیل قومی جھگڑے کا وائرس بن کر دمشق ، حماہ ، حلب اور رقہ تک احتجاجی انداز میں پھیلتا چلا گیا۔مزید طاقت مزید مزاحمت اور پھر طاقت کے جواب میں طاقت۔

دوراہ میں حکام نے ان تین بچوں کو عوامی دباؤ میں آکر سینتالیس روز بعد چھوڑ تو دیا مگر سینتالیس دنوں کے بیچ تشدد در تشدد کی کہانی اتنی آگے بڑھ چکی تھی کہ تینوں بچوں کی رہائی کا کوئی مطلب ہی باقی نہ بچا تھا۔

دوراہ کے ایک رہائشی شامی فضائیہ کے سابق پائلٹ عبود معروف عرف اکاؤنٹنٹ نے قصبے کے نواحی گاؤں نعیمہ میں پندرہ نوجوانوں کو سرکاری اسپیشل فورسز کے حملوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ابتدائی تربیت دی۔یوں شام میں پہلا حکومت مخالف مقامی مسلح دستہ تیار ہوا۔

دوراہ کا ہی ایک رہائشی ابوقصی برسوں سے دوبئی میں بطور انجینیر ملازمت کر رہا تھا۔اس نے جب اپنے شہر کا ماجرا سنا تو نوکری چھوڑ چھاڑ واپس آ گیا۔اپنی پیشہ ورانہ مہارت کا استعمال کرتے ہوئے اس نے پائپوں اور دھاتی اسکریپ کو استعمال کرتے ہوئے جگاڑی بندوقیں بنانے کا تجربہ کیا۔ جب جنگ پھیلتی گئی اور سرکاری افواج زیادہ جدید اسلحہ استعمال کرنے لگیں تو ابوقصی نیم تباہ اور قبضے میں آنے والے سرکاری اسلحے کو  ریپئیر کر کے قابلِ استعمال بنانے لگا۔

کچھ ماہ بعد جب یہ خانہ جنگی علاقائی اور بین الاقوامی ہوتی گئی تو دوراہ کے باغیوں کو بھی جگاڑو طمنچوں کی ضرورت نہ رہی۔معروف عبود عرف اکاؤنٹنٹ نے فری سیرین آرمی میں شمولیت اختیار کر لی اور مقامی ملیشیا کی تعداد پندرہ سے بڑھ کے تین سو نوجوانوں تک پہنچ گئی۔ معروف عبود کا انتقال گذشتہ برس خون کا سرطان بگڑنے سے ہو گیا۔وہ لڑکا معاویہ جس نے اپنے اسکول کی دیوار پر ؟ ڈاکٹر اگلی باری تیری ہے‘‘ لکھا تھا اس کا والد اور ایک کلاس فیلو عمار اور والد سرکاری بمباری میں مارا گیا۔ اس کے بعد معاویہ بھی فری سیرین آرمی میں شامل ہوگیا (جانے زندہ بھی ہے کہ نہیں )۔

ان چھ برس میں لڑائی شامی بمقابلہ شامی تک ہی محدود رہتی تو شائد ایک آدھ برس میں کسی ایک فریق کی فتح اور دوسرے کی شکست پر منتج ہو چکی ہوتی۔مگر یہ لڑائی چند ماہ بعد ہی شامیوں کے ہاتھ سے نکل گئی اور بہت سارے باورچیوں نے اس دیگ میں کڑچھے ڈال دیے۔خلیجی ممالک نے پیسہ دیا تو  فرانس اور برطانیہ نے بمباری کا عطیہ ، ترکوں نے اچھے اور برے مزاحمتیوں کا باری باری ساتھ دیا،چیچنیا سے لیبیا تک کے جہادیوں کے لیے ثواب اور جنت کمانے کا ایک اور راستہ کھل گیا۔

داعش کی پیدائش ہوئی اور پھر یہ ایسا دیو بن گئی جس نے خانہ جنگی کا رخ ہی تبدیل کردیا۔اسلحہ بیچنے والوں کی چاندی ہوگئی۔سی آئی اے نے پانچ برس میں پانچ سو ملین ڈالر خرچ کر کے صرف ساٹھ شامی لڑاکے تیار کیے چنانچہ اس سال کے شروع میں تربیتی پروگرام ہی لپیٹ دیا گیا۔

جب اسد حکومت ان وجوہات کے سبب بری طرح ہانپنے لگی تو پھر لبنان سے شیعہ حزب اللہ اور ایران سے پاسداران کی کمک اور جنگی حکمتِ عملی آنے لگی۔ جب پوتن نے دیکھا کہ امریکا اور اس کے یورپی و خلیجی اتحادی پیسہ ، تربیت اور بمباری تک ہی محدود رہیں گے اور اپنے حامیوں کو جتوانے کے لیے کبھی بھی اپنی فوجیں زمین پر نہیں اتاریں گے تو پھر پوتن نے اسد حکومت کی بھرپور مدد کا بیڑہ اٹھا لیا اور یوں جنگ کا رخ پلٹنا شروع ہوگیا۔

کہاں پہلی شرط یہ تھی کہ بشار الاسد کے ہوتے شامی بحران کا کوئی بھی حل خارج از امکان ہے۔اور آج حالات یہ ہیں کہ بشار الاسد اپنی جگہ نہ صرف قائم ہے بلکہ امریکا اور سعودی عرب بھی بشارالاسد کو ایک فریق تسلیم کرنے پر راضی ہیں۔اگر داعش کی فلم نہ ہوتی تو بشار الاسد کا ڈبہ گول تھا۔مگر پہلے داعش یا پہلے اسد کے شش و پنج نے اسد کے حق میں کام دکھا دیا۔سوائے ایک صوبے دیر الزور باقی شام پر اس وقت یا تو اسد حکومت کا کنٹرول ہے یا شمالی علاقے میں داعش مخالف کرد اکثریتی سیرین ڈیموکریٹک فرنٹ کا کنٹرول ہے۔

ایک برس پہلے تک ملک میں دو درجن سے زائد مسلح ملیشیاؤں کے نام سنے جاتے تھے جنھیں بھانت بھانت کے ذرایع سے مدد ملتی تھی۔آج محاذ کم و بیش خاموش ہو چکا ہے۔ شام کی آدھی آبادی سے معذرت جو چھ برس کے دوران مری یا زخمی ہوئی، اندرون و بیرونِ ملک دربدر ہوئی۔تاریخ سے معذرت جس کے آدھے تہذیبی آثار مہذب اور غیر مہذب اقوام نے مل کر صفحہ ہستی سے مٹا دیے۔ان لاکھوں بچوں سے معذرت جو مرتے دم تک یہ خانہ جنگی اپنی نفسیات میں پیوست کیے زندہ رہیں گے اور ان بچوں سے بھی معذرت جو ایک ٹانگ یا آنکھ یا ہاتھ کے ساتھ بڑے ہوں گے اور ان بچوں سے بھی معذرت جن کے چھ سات برس تعلیم نہ ملنے کے سبب ضایع ہو گئے۔

اب آپ شام میں دوبارہ واپس آ سکتے ہیں اور اپنے اپنے کھنڈروں میں آباد ہو سکتے ہیں۔اب موت کے سوداگر اگلی منزل یعنی لبنان کی جانب رواں ہیں۔ویسے بھی لبنان کو امن چین کی بنسی بجاتے بجاتے چھبیس برس ہو گئے۔اب اور کتنی  چین بھری نیند سوئے گا پگلے ؟

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.comپر کلک کیجیے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔