ہمدردی کے مستحق ذہنی مریض

شکیل فاروقی  منگل 14 نومبر 2017
S_afarooqi@yahoo.com

[email protected]

اللہ تعالیٰ کی عطا کی ہوئی بے شمار نعمتوں میں ایمان کی دولت کے بعد صحت سب سے بڑی دولت ہے۔ کس شاعر نے اس حوالے سے کیا خوب کہا ہے:

جتنے سخن ہیں سب میں یہی ہے سخن درست
اللہ آبرو سے رکھے اور تندرست

انسان کے لیے محض جسمانی صحت ہی بہت ضروری نہیں بلکہ ذہنی صحت بھی اتنی ہی زیادہ اہمیت کی حامل ہے۔ عالمی ادارہ صحت WHO کے اندازوں کے مطابق ہر چار افراد میں سے ایک فرد کے ذہنی بیماری میں مبتلا ہوجانے کا شدید اندیشہ لاحق ہے۔ بلاشبہ یہ صورتحال بہت زیادہ تشویش کا باعث ہے۔ چنانچہ گزشتہ 25 سال سے ہر سال 10 اکتوبرکو عالمی ادارہ صحت (WHO) کے زیر اہتمام پوری دنیا میں ذہنی صحت کا عالمی دن نہایت پابندی کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ ہمیشہ کی طرح یہ دن اس سال بھی پوری دلچسپی کے ساتھ منایا گیا۔

اس مرتبہ اس دن کا مرکزی موضوع تھا ’’کام کی جگہ پر ذہنی صحت‘‘ عالمی ادارہ صحت کے مطالعے کے مطابق ہر پانچ افراد میں سے ایک فرد کام کی جگہ پر ذہنی بیماری میں مبتلا پایا جاسکتا ہے۔ اس حقیقت کے باوجود کہ آج کے دور میں بیشتر ذہنی امراض کا علاج دریافت ہوچکا ہے لوگوں کی غالب اکثریت اپنی غفلت اور لاپروائی کی وجہ سے ذہنی امراض کے علاج میں تاخیر کردیتی ہے جس کے نتیجے میں معمولی سے معمولی بیماری بھی پیچیدہ ہوجاتی ہے جس کے علاج میں خوا مخواہ دیر بھی لگ جاتی ہے اور مشکلات بھی بڑھ جاتی ہیں۔ 70 فیصد سے زائد لوگ انھیں ذہنی بیماری کو چھپا لیتے ہیں جس کے نتیجے میں بیماری کی شدت میں اضافہ ہوجاتا ہے اور خاندان والوں کو شدید دشواریاں بیش آتی ہیں۔

اس عادت کی وجہ سے نہ صرف ذہنی مریض کی تکلیف میں اضافہ ہوجاتا ہے بلکہ اہل خانہ کے کندھوں کا بوجھ بھی بڑھ جاتا ہے کیونکہ ان کی نگہداشت کی ذمے داریاں بھی بڑھ جاتی ہیں۔ علاج معالجے کے اخراجات میں مزید اضافہ اس صورتحال کو اور بھی تکلیف دہ اور معاشی اعتبار سے ناقابل برداشت بنا دیتا ہے، اگر ذہنی بیمار خاندان کا واحد کفیل ہو تو صورتحال اور زیادہ سنگین اور پیچیدہ ہوجاتی ہے کیونکہ ایک طرف بیماری اور دوسری طرف بے روزگاری اور ناداری۔

ذہنی بیماری کا فوری اثر یہ ہوتا ہے کہ مریض کی کارکردگی خراب سے خراب تر ہوتی چلی جاتی ہے اور اس کی پیداواری صلاحیت مسلسل گھٹنے لگتی ہے۔ وہ کام کم اور آرام زیادہ کرتا ہے۔ نیز اس کی چھٹیوں کی تعداد بھی بڑھتی چلی جاتی ہے جس کے نتیجے میں آجر اس کی ملازمت بھی ختم کرسکتا ہے۔

چنانچہ پاکستان جیسے ملک میں جہاں بے روزگاری پہلے ہی سے ایک سنگین مسئلہ بنا ہوا ہے ذہنی بیماری بہت بڑے عذاب سے کم نہیں۔ ڈپریشن ذہنی بیماری کا سب سے بڑا اور فوری خوفناک نتیجہ ہے جو مریض کی زندگی کو اجیرن بنا دیتا ہے اور وہ پژمردگی اور شدید مایوسی کا شکار ہوجاتا ہے۔ بعض اوقات ڈپریشن کی شدت کا شکار ہوکر مریض اپنی زندگی سے ہی اکتا جاتا ہے اور خودکشی جیسے منفی خیالات اسے بری طرح گھیرنے لگتے ہیں۔ اس کے علاوہ احساس کمتری بھی ذہنی مریض کو بری طرح ستانے لگتا ہے اور وہ خود کو اپنے خاندان اور عزیزوں اور رشتے داروں سے الگ تھلگ محسوس کرنے لگتا ہے۔

عالمی بینک کی حالیہ تحقیق کے مطابق ذہنی امراض انتہائی تشویشناک صورت اختیار کرچکے ہیں۔ لہٰذا انھیں عالمی سطح پر ترقیاتی عمل کی فہرست میں سب سے زیادہ ترجیح دی جا رہی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ذہنی امراض کی عالمی سطح پر لاگت سالانہ 25 ٹریلین ڈالر ہے جو 2030 تک بڑھتے بڑھتے 6 ٹریلین ڈالر کی حد تک بلند ہوسکتی ہے۔ بھارت میں ذہنی بیماریوں کی لاگت سالانہ 1.3 ٹریلین ڈالر تک پہنچ چکی ہے جب کہ پاکستان میں بھی یہ لاگت بے تحاشا بڑھتی جا رہی ہے جوکہ ہماری کمزور معیشت پر بہت بڑا بوجھ ہے۔

وطن عزیز کی تقریباً نصف آبادی خواتین پر مشتمل ہے جو معاشی اور معاشرتی مسائل میں روز افزوں اضافے کے باعث ذہنی امراض میں مبتلا ہو رہی ہیں۔ یہ گمبھیر صورتحال فوری اور بھرپور توجہ کی مستحق ہے لیکن ہماری حکومت جسے خود اپنے ہی مسائل سے فرصت نہیں اس جانب توجہ دینے سے قاصر ہے۔ اسے سب سے زیادہ فکر اور دلچسپی اپنے اقتدار کو بچانے اور اسے طول دینے میں ہے۔

دوسری جانب حزب اختلاف میں شامل بیشتر سیاسی جماعتیں کسی نہ کسی طرح موجودہ حکمراں سیاسی جماعت کو زیر کرنے کی حکمت عملی تیار کرنے میں مصروف ہیں۔ اب جب کہ آیندہ عام انتخابات دن بہ دن نزدیک آرہے ہیں تمام سیاسی جماعتوں کی توجہ عوامی مسائل کے فوری حل کی تلاش سے مزید ہٹ کر نئی سیاسی حکمت عملی اور پارٹی کے منشور تیار کرنے کی جانب مبذول ہوجائے گی۔ ان حالات میں ہمارے میڈیا پر یہ ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کی توجہ ذہنی امراض اور ان کے سستے اور موثر علاج جیسے عوامی مسائل کی جانب مبذول کرائے۔

اس کے علاوہ عوامی خدمت میں مصروف تنظیموں اور اداروں کو بھی اس معاملے میں اپنا اپنا کردار ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر ادا کرنا چاہیے۔ ملک کی سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ وہ ذہنی بیماریوں جیسے اہم عوامی مسائل کو اپنے انتخابی منشوروں میں نمایاں طور پر شامل کریں۔

ہمارے تعزیراتی نظام انصاف میں شدید ذہنی امراض کے شکار مدعا علیہان کو عدالت میں اپنے دفاع میں انتہائی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انھیں یہ خطرہ لاحق ہوتا ہے کہ اس جرم کی پاداش میں سزاوار قرار پائیں جس کے ارتکاب کا ان کا کوئی ارادہ ہی نہ تھا۔ بقول غالب:

پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر نا حق

آدمی کوئی ہمارا دمِ تحریر بھی تھا

جب کبھی ذہنی علالت اور فوجداری نظام انصاف ایک دوسرے کے مدمقابل آجاتے ہیں تو موت اور زندگی کا سوال منہ پھاڑ کر سامنے کھڑا ہوجاتا ہے۔ امداد علی کا مقدمہ اس کی ایک تازہ مثال ہے۔ ذہنی علالت کے شکار مجرموں کو اپنے دفاع کے لیے ایسے وکیلوں کی ضرورت ہوتی ہے جو اپنی غیر معمولی مہارت کے ذریعے اپنے موکلوں کی جانب سے بھرپور صفائی پیش کرسکیں اور عدالت کو اصل صورتحال اور معاملے کی قطعی نوعیت سے باخبر اور آگاہ کرسکیں تاکہ عدالت اس کی روشنی میں صحیح فیصلے تک پہنچ سکے اور انصاف کے خون ناحق سے بچ سکے۔ اس سلسلے میں دماغی امراض کے ماہرین کی رائے بھی بڑی اہمیت رکھتی ہے۔

امریکی نظام انصاف میں ذہنی امراض میں مبتلا افراد کی مدد کے لیے وکلا برادری میں فوج داری مقدمات میں درکار خصوصی معلومات کی اہمیت روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔ سزائے موت کے خلاف ذہنی امراض میں مبتلا موکلوں کے دفاع کے لیے یہ وکلا نہ صرف خصوصی مطالعے کرتے ہیں بلکہ اپنی معلومات میں تازہ بہ تازہ اضافے کے لیے ذہنی امراض کے موضوع پر آئے دن منعقد ہونے والے خصوصی اجلاسوں اور سیمیناروں میں شرکت کرکے اپنی معلومات کو اپ ڈیٹ بھی کرتے رہتے ہیں۔

عدل و انصاف کا تقاضا ہے کہ وطن عزیز میں بھی اس کا اتباع کیا جائے تاکہ سزائے موت کے فوجداری مقدمات میں ملوث ذہنی امراض کے شکار مجرموں کے ساتھ پورا انصاف ہوسکے اور اسقاط انصاف کی ممکنہ حد تک کوئی گنجائش باقی نہ رہے۔

چونکہ ہمارا عدالتی نظام بہت ناقص اور فرسودہ ہوچکا ہے اس لیے اس میں بلاتاخیر بہت سی اصلاحات کی ضرورت ہے جس کے لیے نئی قانون سازی کی اشد اور فوری ضرورت ہے۔ علاوہ ازیں خدمت خلق کے جذبے سے سرشار ایسے وکلا کی خدمات بھی درکار ہیں جو بے وسیلہ اور نادار موکلوں کی مدد کے لیے محض انسانی ہمدردی کی خاطر آگے بڑھ کر ان کے مقدمات کی بلامعاوضہ پیروی کرسکیں۔

کرو مہربانی تم اہلِ زمیں پر
خدا مہرباں ہوگا عرشِ بریں پر

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔