رشوت کے معاشرتی اثرات

شبیر احمد ارمان  منگل 14 نومبر 2017
shabbirarman@yahoo.com

[email protected]

رشوت کیا ہے؟ بد عنوانی کی بد ترین شکل ہے، مال کے حصول کے ناجائز ذرایع میں سے ایک ذریعہ رشوت ہے۔ رشوت سے مراد وہ رقم ہے جو ایک سرکاری ملازم اپنے منصب کی وجہ سے اس شخص سے وصول کرتا ہے جس کا کوئی کام اس کے پاس رکا ہوا ہے اور جس کا کرنا اس کی منصبی ذمے داری میں شامل ہے۔ اس صورت میں یہ سرکاری ملازم اس شخص کی مجبوری سے فائدہ اٹھاتا ہے اور اس سے مال کا مطالبہ کرتا ہے حالانکہ اس کو ایسا کرنے کا کوئی حق نہیں پہنچتا۔ اسلیے کہ جس منصب پر یہ کام کرتا ہے اس کے بدلے حکومت سے باقاعدہ تنخواہ لیتا ہے۔

رشوت کی ایک صورت یہ ہے کہ سرکاری ملازم کسی شخص سے مال لے کر ریاست کے دوسری شہری کی حق تلفی کرتا ہے اور اس طرح ایک کا حق دوسرے کو دے دیتا ہے۔ رشوت کی صورت یہ بھی ہے کہ سرکاری ملازم رقم لے کر ریاست کے ایک مجرم شہری کو چھوڑ دیتا ہے اور اس طرح اس کے جرم میں اس سے بھی زیادہ شریک ہوجا تا ہے مثلاً ایک پولیس آفیسر چور یا ڈاکو کو پکڑنے کے بعد اس سے مال لے کر چھوڑ دیتا ہے۔ اس طرح وہ معاشرہ، ریاست، قانون اور اپنے منصب کے ساتھ بیک وقت خیانت کرتا ہے اور اس کا یہ فعل بہت سنگین جرم ہے۔

رشوت کا سب سے بڑا اثر انسان کے ضمیر پر ہوتا ہے۔ باضمیر اور اپنے منصب و ریاست کے ساتھ مخلص انسان کبھی بھی رشوت لینے کے لیے ہاتھ نہیں بڑھاتا۔ جو شخص رشوت لینے کا عادی ہوجائے اس کا ضمیر مردہ اور ایمان ختم ہوجاتا ہے، تمام اخلاقی اور ایمانی قدریں اس سے چھوٹ جاتی ہیں۔

سامنے محض دولت ہی رہتی ہے جس سے اس کی آنکھیں کبھی سیر نہیں ہوتیں۔ رشوت کی اصل سزا تو آخرت میں ملے گی لیکن دنیا میں رشوت لینے والے کو آرام اور چین نصیب نہیں ہوتا، قسم قسم کی تکلیفیں آتی رہتی ہیں خاص کر وہ شخص جو اپنے آپ کو مسلمان کہے اس کا تو ٹھیک ٹھاک مواخذہ ہوتا ہے جو مال رشوت وغیرہ سے اکٹھا کیا جائے اس مال میں برکت نہیں ہوتی، دنیا میں بھی وبال جان ہوتا ہے اور آخرت میں بھی۔

گناہوں کی دو قسمیں ہیں، ایک گناہ حقوق العباد، دوسرا حقوق اﷲ۔ حقوق العباد بندے کا حق ہے یعنی جب تک وہ شخص معاف نہ کرے جس کا حق دبائے رکھا ہے، اس وقت تک اﷲ تعالیٰ بھی معاف نہیں فرماتے۔ رشوت کا گناہ اس وقت تک معاف نہیں ہوتا جب تک رشوت کا مال واپس نہ کرے یا معاف نہ کرالے۔ اگر گناہ معاف نہیں کرائے گا تو قیامت کے دن اس شخص کی نیکیاں اس آدمی کو دی جائیں گی جس سے رشوت لی تھی۔

کسی معاشرہ کے اندر رشوت کیوں پھیلتی ہے؟ اس کے کئی اسباب ہوسکتے ہیں لیکن اس کے دو بنیادی اور بڑے اسباب ہیں، ایک عیاشی اور آزاد روی اور دوسرا محبت اور باہمی تعاون کا فقدان۔ عیاشیانہ زندگی سے نظام تمدن تباہ و برباد ہوجاتا ہے، جس قوم کے اندر عیش پرستی کی وبا پھیل جاتی ہے وہ اپنے وسائل سے بڑھ کر خرچ کرتی ہے، نتیجتاً آمدن اور خرچ میں توازن قائم نہیں رہتا، ایسی قوم کے اپنے وسائل جب کم پڑ جاتے ہیں تو دوسری اقوام سے قرض کے لیے ہاتھ بڑھاتی ہے اور اس طرح بتدریج اپنی آزادی سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہے۔

اہل ثروت عیاشی پر زیادہ مائل ہوتے ہیں اور ہر ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرتا ہے چونکہ ان کے موجودہ ذرایع آمدنی ان کے اخراجات کے بہم پہنچانے سے قاصر ہوتے ہیں اسلیے انکو اپنی آمدن اور خرچ کا توازن قائم رکھنے کے لیے کئی طریقے اختیار کرنے پڑتے ہیں مثلاً جو لوگ ضروری پیشوں میں مشغول ہیں یا اہل زراعت و تجارت ہیں۔

ان پر نئے نئے ٹیکس لگاتے ہیں، رشوت ستانی اور ظلم و تعدی کا بازار گرم ہوجاتا ہے جس سے غریبوں کی زندگی دوبھر ہوجاتی ہے، اور پھر عیاشی کا شوق متعدی بیماری کی طرح رفتہ رفتہ پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے اور کوئی بھی اس مصیبت سے بچ کر نہیں رہ سکتا اور لامحالہ یہ لوگ اپنی خواہشات نفس کو پورا کرنے کی خاطر حصول رزق کے ناجائز ذرایع اختیار کرنے پر مائل ہوتے ہیں مثلاً چوری، قمار بازی، سود، رشوت اور دھوکا، فریب سے کسی کا مال اڑا لینا۔

عیاشی کی عادت ایسی بری عادت ہے کہ جس کو بھی لگ جائے وہ اسے پورا کرنے کے لیے ہر قسم کے جائز و ناجائز حربے استعمال کرنے سے جھجک محسوس نہیں کرتا۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے ملک کا باحیثیت طبقہ عیش پرستی میں مبتلا ہے اور اس کی شرح میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے، عیش پسندی اور عیش پرستی ہی کا نتیجہ ہے کہ ہر وہ شخص جس کو رشوت لینے کا موقع ملتا ہے وہ بلاجھجک اسے وصول کرتا ہے، ہمارے ہاں بڑے سے بڑے آفیسر کی صحیح آمدنی کا اندازہ لگایا جائے تو وہ بڑی مشکل سے اس کے گزارے کے لیے پوری ہو سکتی ہے۔

تعیشات کے لیے رقم نکالنا اس کے لیے بہت مشکل ہوتا ہے جب کہ کچھ اداروں کے عام ملازمین کا حال یہ ہے کہ وہ معاشرے کے متمول طبقہ سے بھی زیادہ بلند معیار زندگی رکھتے ہیں۔ اگر یہ حضرات قناعت اور کفایت شعاری سے کام لیں تو انھیں رشوت لینے کی ہرگز ضرورت نہ پڑے، ہماری قوم نے سادگی کے ساتھ زندگی گزارنا نہیں سیکھا۔ ملک کے ہر فرد کی خواہش ہے کہ اس کی زندگی میں تکلفات اور بناوٹ ہو۔ ان تکلفات اور بناوٹوں نے عوام کو مجبور کردیا ہے کہ وہ اپنے وسائل میں زیادہ سے زیادہ اضافہ کریں، خواہ وہ اضافہ کیسا ہی کیوں نہ ہو۔

عام طور پر گھر کی خواتین اور بچے اپنے شوہر اور والد سے قسم قسم کے مطالبے کرتے ہیں، ان مطالبات کو پورا کرنا انکے بس کی بات نہیں ہوتی، وہ اپنے بچوں اور بیوی کو خوش رکھنے کے لیے اور اپنے عزیز و اقارب میں اپنا بھرم رکھنے کے لیے رشوت اور ناجائز آمدنی کی طرف ہاتھ بڑھاتا ہے، شروع میں اس کا ضمیر اسے روکتا ہے لیکن بعد میں اس کا ضمیر مردہ ہوجاتا ہے اور رشوت لینے میں اسے کسی قسم کا خوف محسوس نہیں ہوتا۔ رشوت پھیلنے کا دوسرا اہم سبب باہمی نفرت اور دوسروں کی مجبوری سے فائدہ اٹھانے کا رجحان ہے۔

ہمارے ہاں ایسے افراد کی بہت کمی ہے جو دوسروں کی تکلیف کا احساس کرتے ہیں۔ اکثریت ان حضرات کی ہے جو اپنے بھائیوں کو تکلیف میں دیکھ کر خوشی محسوس کرتے ہیں۔ اخلاقی قدریں ہم نے چھوڑ دی ہیں، محض دنیاوی اور ظاہری مفادات کا حصول ہمارا مطمع نظر ہے، باہمی اخوت، محبت اور تعاون کا جذبہ ہمارے معاشرے سے مفقود ہوچکا ہے، یہی وجہ ہے کہ ہمیں کسی کی تکلیف کا، دکھ کا، درد کا کوئی خیال نہیں، ہر ایک نے اپنے آپ کو ایک خاص حلقہ اور دائرہ میں محدود کرلیا ہے۔ انسان اور مسلمان ہونے کے حوالے سے ہم پر جو ذمے داریاں عائد ہوتی ہیں ان سے ہم دست بردار ہوچکے ہیں۔

اس گئے گزرے دور میں بھی جن معاشروں میں صرف انسانیت ہی کا نام لیا جارہا ہے وہاں ظلم و زیادتی اور لوٹ کھسوٹ کی اتنی شرح نہیں جتنی ہمارے معاشرہ میں ہے۔ بحیثیت انسان عام طور پر اور بحیثیت مسلمان خاص طور پر ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم حقوق اﷲ کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کی ادائیگی پر بھی پوری توجہ دیں، ظاہر ہے جو شخص حقوق العباد کا خیال رکھے گا وہ رشوت نہیں لے گا۔بلاشبہ ہمارے ملک میں رشوت ایک وبائی صورت اختیار کرچکی ہے، اس کا ختم ہونا اگر ناممکن نہیں تو انتہائی دشوار ضرور ہے، ملک میں جو بھی حکومت آتی ہے وہ اس لعنت کو ختم کرنے کے بلند بانگ دعوے ضرور کرتی ہے لیکن ساتھ ساتھ یہ اعتراف بھی کرتی ہے کہ معاشرے کے اندر اس بیماری کی جڑیں اتنی مضبوط اور گہری ہوچکی ہیں کہ انکے اکھاڑ پھینکنے سے وہ عاجز ہے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ معاشرے کا ہر طبقہ اس میں ملوث ہوچکا ہے۔ ہمارے معاشرے کو رشوت خوری نے ہر پہلو سے متاثر کیا ہے۔ ضرورت خود احتسابی کی ہے۔ اگر اس دنیا میں رشوت چھوڑنے سے تکلیف بھی آئے تو برداشت کرلینی چاہیے کیونکہ آخرت میں تو راحت ہی نصیب ہوگی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔