یہ زہر ہم خود گھول رہے ہیں

عابد محمود عزام  منگل 14 نومبر 2017

ان دنوں پنجاب کے بیشتر علاقے اسموگ سے بری طرح متاثر ہیں۔ اسموگ انگریزی کے دو الفاظ اسموک (دھواں) اور فاگ (دھند) سے مل کر بنا ہے۔ ماہرین کے مطابق اِس موسم کے دوران جب دھند بنتی ہے تو یہ فضا میں پہلے سے موجود آلودگی کے ساتھ مِل کر ایک اسموگ بنا دیتی ہے۔ اِس دھویں میں کاربن مونوآکسائیڈ، نائٹروجن آکسائیڈ، میتھین اورکاربن ڈائی آکسائیڈ جیسے زہریلے مواد شامل ہوتے ہیں۔

اگر بارش نہ ہو تو فضا میں اسموگ بڑھ جاتی اوراسموگ کی وجہ سے اوزون کی تہہ میں بھی خطرناک حد تک اضافہ ہوجاتا ہے، جو انسانی صحت کے لیے نقصان دہ ہے اسموگ کی وجہ سے شہری مختلف بیماریوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اسموگ نہ صرف انسانوں بلکہ جانوروں، پودوں اور فطرت کی ہر چیزکو نقصان پہنچاتی ہے۔ اسموگ کے باعث قومی شاہراہوں پر دھند کی وجہ سے حد نگاہ میں کمی واقع ہوئی ہے۔ پنجاب بھر میں دھند اور اسموگ کی وجہ سے حد نگاہ کم ہونے سے شہریوں کو سفری مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے چند روز میں کئی ٹریفک حادثات میں متعدد افراد جاں بحق ہوچکے ہیں اور اس کے ساتھ اسموگ کی وجہ سے متعدد پاور اسٹیشن بند ہوچکے ہیں جسکی وجہ سے لوڈشیڈنگ کا دورانیہ بھی بڑھ چکا ہے۔

ماہرین نے عوام کو اس صورتحال میں خبردار کرتے ہوئے احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی تلقین کی ہے کہ اپنے گھروں، دفاتر اورگاڑیوں کے شیشے بند رکھیں۔ اسموگ کے آنے سے قبل احتیاطی تدابیر کے بارے عوام کی آگاہی کے لیے بھرپور مہم چلائی جانی چاہیے تھی لیکن متعلقہ حکام اس ضمن میں ذمے داریاں ادا نہیں کر سکے۔ اسموگ ماحولیاتی آلودگی کی ایک بھیانک اور خطرناک شکل ہے۔ اس حوالے سے پاکستان کے اقتدار پر فائز ہونے والی مختلف حکومتوں اور اس کے کارپردازوں نے انتظامی نااہلی، غفلت اور لاپروائی کا ثبوت دیا ہے۔

حکمرانوں نے شاید کبھی اس جانب توجہ دی ہی نہیں کہ ماحولیات بھی کوئی اہم ایشو ہے۔ پنجاب کے بیشتر علاقوں میں اسموگ انسانی زندگیوں میں زہر گھول رہی ہے، اس کے لیے مقامی اسباب پر غور کرنے اور بہتری کے لیے خود کردار ادا کرنے کی بجائے صنعتی ملکوں کی بے اعتدالیوں کی وجہ سے عالمی سطح پر موسمی تبدیلیوں اور ہمسایہ ملک بھارت میں فصلوں کی باقیات کو جلانے کو عذر بنا کر کندھے اچکانے اور خود کچھ نہ کرنے کا ناقابل فہم رویہ اختیار کیا جا رہا ہے۔

پاکستانی حکومت نے اس سے بچاؤ کے لیے فی الوقت خود کوئی اقدام نہیں کیا حالانکہ یہ دھند اور اسموگ، زلزلے اور آندھی طوفان کی طرح اچانک تو نہیں ٹوٹ پڑتی جسکے باعث اس کی آمد سے پہلے کوئی حفاظتی بندوبست ممکن نہ ہو۔ نومبر دسمبر کے مہینے ہر سال دھند، کہر یا اسموگ کو اپنے جلو میں لے کر آتے ہیں۔

ان مہینوں میں بارش اور تیزہواؤں کی عدم موجودگی کی وجہ سے گہری دھند چھائے رہنے کے امکانات ہرسال ہوتے ہیں۔ ایسے حالات میں پہلے سے ہی اسموگ سے حفاظتی انتظامات کرنے چاہیے تھے لیکن جب سر پر پڑی ہے تو حکومت کی جانب سے متعلقہ اداروں کو خبردار کیا جارہا ہے۔ اب وزیر اعلیٰ پنجاب نے بھی اسموگ پر قابوپانے کے لیے ایکشن پلان پر عملدرآمد کا حکم دیا ہے لیکن یہ اقدامات اسی قبیل کے ہیں جن کا مشاہدہ پاکستان کے شہری بالعموم سیلابوں کی آمد کے بعد دی جانیوالی ہدایات کی صورت میں عشرو ں سے کرتے چلے آرہے ہیں۔ جب آفت ٹلتی ہے، فوراً بعد سب کچھ بھلا دیا جاتا ہے، آیندہ کے لیے کوئی مستقل پلاننگ نہیں کی جاتی اور عوام بار بار ان حالات سے متاثر ہوتے رہتے ہیں۔

بعض لوگ یہ تو کہہ رہے ہیں کہ بھارت میں کوئلے سے بجلی بنانیوالے پلانٹ آلودگیوں کی بھاری مقدار مسلسل فضا میں شامل کر رہے ہیں جو اسموگ کا سبب بن رہی ہے، اس سے پاکستان بھی متاثر ہورہا ہے لیکن ہم اس زہر کو نظر انداز کر رہے ہیں جو کول پاؤر پروجیکٹ کی صورت میں ہم اپنی فضاؤں میں خود گھول رہے ہیں۔ گزشتہ روز ڈاکٹر ابراہیم مغل سے ملاقات ہوئی۔ انھوں نے اسموگ کے حوالے سے بہت معلومات فراہم کیں جس سے اندازہ ہوا کہ اسموگ کی بڑی وجہ ہماری حکومتی پالیسیاں ہیں۔ حکومت نے پانی کو چھوڑ کرکوئلے سے بجلی پیدا حاصل کرنے کے لیے جو کول پاؤر پروجیکٹ لگائے ہیں، وہ پورے ملک کے ماحول کے لیے زہر قاتل ہیں اور اسموگ کا سب سے بڑا سبب کوئلے کا جلنا ہی ہے۔

گھروں یا پاورپلانٹس میں کوئلہ جلانے سے پیدا ہونے والا دھواں اسموگ کی پیدائش یا اس میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔ بیسویں صدی کے وسط میں کوئلے کے دھوئیں کے سبب ہونے والی اسموگ سے لندن خاصا بدنام تھا۔ حالیہ کچھ عرصے سے چین میں بھی کوئلہ فضائی آلودگی کی ایک اہم وجہ ہے۔ کوئلے سے توانائی پیدا کرنے سے بعض اوقات چین کے شہروں میں اتنا اسموگ ہوا کہ سڑکوں، اسکول یا ائیرپورٹ بند کرنا پڑے۔ اب پاکستان میں کول پاؤر پروجیکٹ لگائے جارہے ہیں جو سراسر ماحول کے دشمن ہیں۔

صرف ساہیوال میں قائم کول پاورپلانٹ کی پیداواری صلاحیت 1320 میگا واٹ ہے جب کہ صرف 500 میگا واٹ کا کول پلانٹ ایک سال میں اتنی آلودگی پھیلاتا ہے، امریکا کی یونین آف کنسرنڈ سائنٹسٹس کے مطابق اس سے 47 لاکھ ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ، 10 ہزار ٹن سلفر ڈائی آکسائیڈ، 10ہزار 2سو ٹن نائٹروجن آکسائیڈ، خطرناک ہائیڈروکاربنز کے 220 ٹن، کاربن مونو آکسائیڈ گیس کے 720 ٹن، مرکری کے 170 پونڈفضاؤں میں شامل ہو جاتے ہیں اور آرسینک کے 225 پونڈ، سیسے کے 114 پونڈ اور کیڈ میم کے 4 پونڈ خارج ہوتے ہیں۔

یہ سب نہ صرف اسموگ کا سبب بنتی ہیں بلکہ ان سے پھیپھڑے متاثر ہوتے ہیں، سانس کی بیماریاں پھیلتی ہیں، ذہنی دباؤ اور دل کے امراض پیدا ہوتے ہیں اور اعصابی نظام کو نقصان ہو سکتا ہے۔ یہ نقصانات تو صرف 500میگا واٹ کے ایک کول پلانٹ سے ایک سال میں حاصل ہوتے ہیں جب کہ ہمارے ہاں صرف ساہیوال کول پاورپلانٹ 1320 میگا واٹ کا ہے۔ جامشورو میں لاکھڑا کول پاور اسٹیشن ،کراچی اورمیانوالی میں اس کے علاوہ ہیں۔ ایک طرف اسموگ ہمارے ماحول کو تباہ کر رہی ہے لیکن دوسری جانب متعدد نئے کول پراجیکٹس پر کام جاری ہے جو آیندہ چند سالوں میں فضاء کو زہر آلودہ کرینگے۔

کثیر تعداد میں درختوں کو کاٹنا اور شجر کاری کی کسی باقاعدہ مہم کی غیر موجودگی بھی فضائی آلودگی میں اضافہ کا سبب بنتی ہے۔ ماحولیاتی آلودگی سے نمٹنے کے لیے بڑی تعداد میں درخت لگانا ضروری ہیں لیکن ہمارے یہاں تو درخت لگانے کی بجائے کاٹے جارہے ہیں جو اسموگ اور ماحولیاتی آلودگی کا ایک بڑا سبب ہے۔ اس کے علاوہ کاروں، رکشہ، موٹر سائیکل وغیرہ کی تعداد میں اضافہ سے بھی فضائی آلودگی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔

شہروں میں پرانے ٹائر جلاکر اس سے تاریں اور تیل کشید کیا جاتا ہے مگر اس سے پیدا ہونے والی تباہ کن آلودگی سے یہ کام کرنیوالے لوگ اور متعلقہ ادارے صرفِ نظر کرتے ہیں جو مجرمانہ غفلت سے کم نہیں۔ پاکستان میں اسموگ اور ماحولیاتی آلودگی کے مسائل سے نمٹنے کے لیے عوامی اور سرکاری سطح پر فوری اور موثر تحریک کی ضرورت ہے۔ میڈیا اور رائے عامہ بنانیوالے دیگر اداروں کو شہریوں میں شعور پیدا کرنے کے لیے کام کرنا چاہیے اور حکومت کو ماحولیات دشمن منصوبوں کا حصہ بننے کی بجائے انکی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔