سعید اجمل کو ’’دوسرا‘‘ موقع نہ مل سکا

سلیم خالق  منگل 14 نومبر 2017
سعید اجمل نے پاکستان کرکٹ کو جو کامیابیاں دلائیں اس پر ہمیں ان پرفخر ہے۔ فوٹو: فائل

سعید اجمل نے پاکستان کرکٹ کو جو کامیابیاں دلائیں اس پر ہمیں ان پرفخر ہے۔ فوٹو: فائل

اگر کسی ’’جادوگر‘‘ سے اس کا جادو ہی چھن جائے تو اس کی کیا حالت ہو گی؟ وہ بیچارہ ہر ممکن کوشش کے باوجود کچھ نہیں کر پائے گا، سعید اجمل کے ساتھ ایسا ہی ہوا، وہ طویل عرصے تک پاکستان کو فتوحات دلاتے رہے، مگر کیریئر کا اختتام انتہائی مایوس کن انداز میں ہوا۔

ماضی میں جب کبھی کپتان مصباح الحق کو ضرورت ہوتی، فیلڈ میں ہنستے مسکراتے چیونگم چباتے ہوئے آف اسپنر تیار نظر آتے،40 سے زائد اوورز کا بھی اسپیل کرتے مگر اس بات کو یقینی بناتے کہ ٹیم فتح سے ہمکنار ہو، کئی برس تک یو اے ای میں حاصل کردہ کامیابیاں انہی کے مرہون منت تھیں، ان کا بولنگ مشین کی طرح استعمال کیا گیا، پھر 2014آ گیا جب سعید اجمل کی کامیابیوں کو کسی کی نظر لگ گئی۔

آئی سی سی نے غیرقانونی بولنگ ایکشن کیخلاف سختی برتنا شروع کی اور سعید اجمل اس کی زد میں آ گئے، بعد میں انھوں نے ایکشن پر کام کیا، پی سی بی نے سابق اسپنر ثقلین مشتاق کی بھی خدمات حاصل کیں مگر تبدیلی کے بعد سعید اجمل سے ان کا جادو چھن گیا، مجھ سے اسی وقت ایک اعلیٰ بورڈ آفیشل نے کہہ دیا تھا کہ ’’سعید اب دوبارہ کارآمد ثابت نہیں ہو پائے گا، اس کے بارے میں سمجھنا ہو تو بس ایک مثال کافی ہے کہ سپرمین سے اڑنے کی صلاحیت چھن گئی ہے‘‘ میں نے ان سے پوچھا کہ پھر آپ لوگ کیوں ایکشن کے ٹیسٹ اور ثقلین مشتاق وغیرہ کی فیس پر بھاری رقم خرچ کر رہے ہیں، تو ان کا مسکراتے ہوئے جواب تھا ’’ تم جیسے صحافیوں کو چپ کرنے کیلیے تاکہ بعد میں یہ نہ کہو کہ بورڈ نے سعید اجمل کیلیے کچھ نہیں کیا‘‘۔

کلیئرنس کے بعد جب بنگلادیش میں اسپنر نے پہلا ون ڈے کھیلا تو بالکل بے اثر نظر آئے،10اوورز میں 74رنز کی پٹائی کے باوجود انھیں کوئی وکٹ نہ ملی،2015میں وہ سینٹرل کنٹریکٹ کی اے سے بی کیٹیگری میں آگئے، پھر متنازع انٹرویوز کے بعد بورڈ نے معاہدہ معطل بھی کیا۔

اگلے سال وہ کنٹریکٹ کی فہرست سے باہر ہو گئے، اس دوران فٹنس مسائل نے بھی انھیں پریشان کیا، یوں عروج سے زوال کا سفر تیز ہوتا گیا، سب جانتے تھے کہ وہ قومی ٹیم میں واپس نہیں آ سکتے لیکن سعید اجمل نے ہمت نہیں ہاری اور کوشش کرتے رہے، پاکستان کو کوئی ورلڈکلاس آف اسپنر نہ ملنا بھی ان کے حوصلے بڑھا رہا تھا، وہ کسی لمحے یہ حقیقت تسلیم کرنے کو تیار نہ ہوئے کہ اب کم بیک نہیں ہو سکتا، ووسٹر شائر کائونٹی کو انھوں نے ڈویژن ون میں جگہ دلائی تھی پھر اسی کیلیے 55 سے زائد کی اوسط سے وکٹیں لے کر پوزیشن کمزور کردی، فیصل آباد نے گذشتہ برس مصباح الحق کی زیرقیادت گریڈ ٹو ایونٹ جیت کر رواں برس قائد اعظم ٹرافی کیلیے جگہ بنائی مگر سعید اجمل کی زیرقیادت ٹیم 7میں سے 6 میچز ہار کر پھر گریڈ ٹو میں چلی گئی،اس دوران تنقید کے نشتر چلے تو آخرکار سعید اجمل کو احساس ہو گیا کہ اب ان کیلیے ریٹائر ہونا ہی بہتر ہوگا۔

پی ایس ایل فرنچائز اسلام آباد یونائٹیڈ نے انھیں کوچنگ اسٹاف میں شامل کر کے اچھا موقع بھی فراہم کر دیا، البتہ میں سمجھتا ہوں سعید اجمل نے ریٹائرمنٹ کا فیصلہ کرنے میں خاصی دیر کر دی، انھیں2015میں ہی ایسا کرگذرنا چاہیے تھا، یہ 16ستمبر2015کو شائع شدہ میرے کالم کا لنک ہے، https://www.express.pk/story/392051/ میں نے اس میں انھیں یہی مشورہ دیا تھا۔

اس وقت اگر وہ ریٹائر ہوجاتے تو اور بات ہوتی، مگر یہ اکیلے سعید اجمل کا مسئلہ نہیں، کوئی بھی بڑا اداکار، کھلاڑی یا دوسرا اسٹار کبھی یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہوتا کہ اس کا دور ختم ہو چکا، وہ آخری وقت تک ہاتھ پائوں مارتا ہے، پھر جب اسے حقیقت کا احساس ہوتا ہے تو کافی دیر ہو چکی ہوتی ہے، وہ سعید اجمل جس کے کریڈٹ پر پاکستان کی کئی فتوحات ہیں آج وہ وقت آ گیا کہ فیصل آباد ریجن کی شکستوں کا ذمہ دار اسے قرار دیا جا رہا ہے، اسی لیے میں ہمیشہ کہتا ہوں کہ کرکٹ میں بیٹنگ کرتے ہوئے جس طرح ٹائمنگ کی اہمیت ہے ویسے ہی فیصلوں میں بھی ہوتی ہے، ہمارے اسٹار کرکٹر ماضی کے عظیم کھلاڑیوں کا حال دیکھ کر ڈرتے ہیں کہ یہی ہمارے ساتھ ہوگا، آپ جاوید میانداد کو دیکھ لیں۔

ظہیر عباس کی مثال لے لیں، زیادہ دور نہ جائیں حال ہی میں ریٹائر ہونے والے مصباح الحق اور یونس خان کی مثال سامنے ہے، کیا ان کی اب ماضی جیسی قدرہے؟ عمران خان نے سیاست میں آ کر اپنا اسٹار ڈم برقرار رکھا، وسیم اکرم نے اپنی بہترین انداز سے مارکیٹنگ کی، وہ اب بھی لائم لائٹ میں ہیں، دیگر بیچارے ایسا نہ کر پائے، جو انسان مرکز نگاہ بننے کا عادی ہو جائے اسے پھر شہرت کم ہونا اچھا نہیں لگتا، وہ اسے برقرار رکھنے کیلیے کوشش کرتے رہتا ہے، مگر کامیابی کم ہی لوگوں کو ملتی ہے۔

سعید اجمل نے ملک کیلیے بڑی خدمات انجام دیں مگردوسرا گیند کرنے میں شہرت رکھنے والے اسپنر کو بدقسمتی سے ’’دوسرا ‘‘ موقع نہ مل پایا، مگر انھوں نے جو کارنامے انجام دیے انھیں فراموش نہیں کیا جا سکتا، پی سی بی کو چاہیے کہ ریٹائرمنٹ کے موقع پر ان کیلیے شایان شان تقریب کا انعقاد کرے جہاں اسپنر کی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا جائے، ان کو کیش انعام بھی دینا چاہیے تاکہ اچھی مثال دنیا کے سامنے جائے۔

قومی ٹی ٹوئنٹی کپ کا فائنل اچھا موقع ہو گا، فیصل آباد کی ٹیم ایونٹ میں عمدہ کھیل پیش کر رہی ہے، ممکن ہے فائنل میں جگہ بنا لے، اس موقع پر سعید اجمل کو فیملی کے ساتھ گاڑی میں بٹھا کرگرائونڈ کا چکر لگائیں، انھیں زبردست انداز میں رخصت کریں،اگر ان کی ٹیم فائنل نہ کھیلے تب بھی اسپنر کیلیے میچ کے بعد تقریب سجائیں،اتنے بڑے اسٹار کی خدمات کے جواب میں یہ کچھ بھی نہیں ہوگا، ہمیں اپنے ہیروز کی قدر کرنی چاہیے، سعید اجمل نے پاکستان کرکٹ کو جو کامیابیاں دلائیں اس پر ہمیں ان پرفخر ہے، پاکستان کرکٹ کو ایسا دوسرا اسپنر شاید پھر کبھی نہیں مل پائے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔