مختصر سفرنامے و رپورتاژ

رفیع الزمان زبیری  بدھ 15 نومبر 2017

راشد اشرف نے ’’مختصر سفرنامے و رپورتاژ‘‘ کے عنوان سے جوکتاب مرتب کی ہے، اس میں ایک سفرنامہ مولانا عبدالرزاق کانپوری کا بھی ہے۔ یہ اس سفرکا احوال ہے جو انھوں نے شاہی دربار دیکھنے کے لیے کانپور سے دہلی کا کیا تھا۔ وہ لکھتے ہیں ’’ملکہ وکٹوریہ کے دربار قیصری کے حالات میں تاریخوں میں پڑھ چکا تھا اور عہد طفلی سے یہ آرزو تھی کہ کاش ہندوستان میں کوئی دوسرا منظر آنکھوں کے سامنے پھر جائے۔ چنانچہ خدا خدا کرکے یکم جنوری 1903ء میں ملک معظم ایڈورڈ ہفتم کا دربار تاج پوشی دہلی میں منعقد ہوا اور تمام ہند میں بیک وقت مسرت کی لہر دوڑگئی۔

مولانا اپنے ساتھیوں کے ہمراہ دہلی پہنچے۔ چار دن بعد وہ رات آئی جس کی صبح کو دربار تھا۔ یہ صبح کو نماز فجر سے بہت پہلے جامع مسجد کے مچان کی سیڑھیوں کے اوپر جاکر براجمان ہوگئے، یہ مسجد کا وہ رخ تھا جس کے سامنے لال قلعہ تھا اور اس سڑک سے جلوس گزرنے والا تھا، ادھر سورج طلوع ہوا اور ادھر نقارہ پر چوٹ پڑی۔ کچھ ہی دیر میں جلوس ایک سمت سے برآمد ہوا۔ ’’جلوس میں سب سے آگے لارڈ کرزن نائب السلطنت کا ہاتھی تھا اور لیڈی کرزن اپنے شوہر کے دوش بدوش جلوہ افروز تھیں۔ لارڈ کرزن جس ہاتھی پر سوار تھے وہ ڈیل ڈول میں سب سے بڑا اور اکبر اعظم کے جگن ناتھ اور مہادیو کی ٹکر کا تھا اور بلاشبہ اس پر کوہ پیکر کا اطلاق صحیح تھا۔ وائسرائے کے بعد دکن کا وہ تاجدار تھا جس کی حکومت چھ کروڑ نفوس پر تھی۔‘‘

نظام دکن میر محبوب علی خاں سادہ لباس میں تھے۔ آصف جاہی تاج میں کوہ نور جیسا بڑا ہیرا لگا تھا۔ عموماً ہندوستانی ریاستوں کے راجہ مہاراجہ قیمتی لباسوں اور زیورات و جواہرات میں ملبوس تھے۔ ’’جب نظام دکن کا ہاتھی مسجد کے سامنے آیا تو مسلمانوں نے اس زور و شور سے ’’چیرز‘‘ دیے کہ جس کی آواز کئی فرلانگ تک پہنچی ہوگی۔ اس وقت اعلیٰ حضرت کے چہرے پر مسکراہٹ تھی اور عقیدت مندوں کے سلام کا جواب خندہ پیشانی کے ساتھ دے رہے تھے۔ یہی وہ ادائیں تھیں جس نے میر محبوب علی خاں کو محبوب خلائق بنادیا تھا۔ تقریباً ایک گھنٹہ آہستہ خرامی کے ساتھ یہ جلوس ختم ہوا اور مہمان درباری پنڈال میں جاکر بیٹھ گئے۔‘‘ پھر ملک معظم شاہ انگلستان کا فرمان پڑھا گیا اور عطر و پان کے بعد دربار ختم ہوگیا۔ مولانا عبدالرزاق اپنے ساتھیوں کے ہمراہ اپنی قیام گاہ پر واپس آگئے۔

صبح کا جو سماں تھا رات کا سین اس سے بھی زیادہ دلچسپ تھا۔ مولانا لکھتے ہیں ’’آٹھ بجے کے بعد قلعہ معلیٰ کے وسیع میدان میں آتش بازی کی سیر کرائی گئی۔ بچپن میں آتش بازی کے کرشمے شب برأت میں خوب دیکھ چکے تھے لیکن یہ آتش بازی کچھ اور ہی چیز تھی۔ ہر انار اور چرخی سے جو شرارہ نکلتا وہ فلک اول پر جاکر سرد ہوتا۔ یہ آتش بازی نہ تھی بلکہ ایک سائنس تھی جس کو اہل علم ہی سمجھ سکے۔ تقریباً ایک لاکھ روپے کی آتشبازی جل کر راکھ ہوگئی لیکن نہ آنکھوں میں دھوئیں کا اثر تھا اور نہ کہیں بارود کی بو تھی۔‘‘

دربار شاہی کے موقعے پر دستکاری، ہتھیاروں اور مصوری کی نمائش بھی ہوئی۔ مولانا عبدالرزاق اسے دیکھنے بھی گئے۔ نمائش میں ایک کمرے میں قلمی کتابیں تھیں اور ایک کمرے میں موسیقی کے آلات۔ یہ بھی دیکھے۔ اس سیر سے فارغ ہوکر انھیں داغ دہلوی سے ملنے کا اشتیاق ہوا۔ داغ نظام دکن کے قافلے میں شامل تھے اور ان کی قیام گاہ کے وسیع علاقے میں جہاں امرائے دولت کے خیمے اور بارگاہیں تھیں، ٹھہرے ہوئے تھے۔ مولانا عبدالرزاق کی رسائی داغ تک کیسے ہوئی، یہ ان کی زبان سے سنیے۔ لکھتے ہیں ’’صدر پھاٹک پر فوجی سپاہیوں کا پہرہ تھا۔ ملاقات کا انتظام جس افسر کے سپرد تھا وہ عرب تھا۔ جب میں نے مرزا داغ سے ملاقات کی خواہش کی تو ورقہ (ملاقات کا کارڈ) طلب کیا، چند کارڈ پیش کیے۔

جواب کے انتظار میں ٹھہرے رہے، ایک گھنٹے بعد مرزا کا چوبدار آیا اور پھر کیمپ کے اندر جانے کی اجازت ملی۔ راستے میں صدہا خیمے نظر آئے۔ ہر خیمے پر صاحب بارگاہ کا نام لکھا تھا۔ 35 منٹ بعد ایک خیمے پر نواب فصیح الملک مرزا داغ کا نام لکھا نظر آیا۔ ان بارگاہوں کے نزدیک ہی وہ کوٹھی تھی جہاں حضور نظام خواب راحت میں تھے۔ میرے بوٹ سے چرمر کی آواز آرہی تھی کہ ایک پہرہ دار دوڑتا ہوا آیا اور شریفانہ انداز میں فہمائش کی ’’آہستہ آہستہ چلیے، حضور نظام آرام میں ہیں۔‘‘ میرے بوٹ کی آواز ان کی خواب گاہ تک نہیں جاسکتی تھی تاہم حکم کی بسروچشم تعمیل کی گئی۔‘‘

مولانا خیمے میں اندر پہنچے، چند منٹ انتظار کے بعد طلبی ہوئی۔ دو درجے طے کرکے تیسرے درجے میں پہنچے تو دیکھا کہ ایک بھاری بھرکم بزرگ خیمے کی لکڑی تھام کر استقبال کے لیے اٹھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ چلنے سے معذور تھے اور پنڈلیوں پر اونی پٹیاں بندھی ہوئی تھیں، ٹانگ کے درد میں مبتلا تھے۔ عبدالرزاق لکھتے ہیں ’’بارگاہ کا یہ حصہ نہایت آراستہ تھا۔ ایک جانب چاندی کا پلنگ بچھا ہوا تھا۔ وسط میں قیمتی ایرانی قالین تھا۔ ذرا ہٹ کر چاندی کی ایک بڑی انگیٹھی میں آگ بھڑک رہی تھی۔ مرزا صاحب نے کھڑے کھڑے مصافحہ کیا۔ پھر ہمارے اصرار پر فرش پر بیٹھ گئے۔ بیٹھے ہی میری طرف پیچوان بڑھایا اور ارشاد ہوا کہ شغل فرمائیے۔ میں نے عرض کیا ’’پیرومرشد خدا نے اس آگ سے مجھے اب تک محفوظ رکھا ہے‘‘ فرمایا: ’’اس کا نعم البدل بھی موجود ہے، اجازت ہو تو ایک جام پیش کیا جائے۔‘‘ اس لطیفے پر خوب ہنسی ہوئی۔ یہ محض شاعرانہ مذاق تھا جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ داغ آخر عمر تک زندہ دل رہے۔‘‘

خواجہ حافظ کے مزار پر آغا اشرف نے بے فکروں کا ہجوم دیکھا تو خیال آیا کہ حافظ کی یہ پیش گوئی کہ ’’میرا مزار رندانِ جہاں کی زیارت گاہ بنے گا، کس قدر سچ ثابت ہوئی۔ لکھتے ہیں ’’ہندوستان سے روانگی کے وقت میں جب حضرت جوش ملیح آبادی سے ملنے گیا تو انھوں نے فرمایا کہ حافظ کے مزار پر میری طرف سے شراب نذر کردینا۔ اتفاقاً شیراز سے حافظیہ جاتے وقت میں یہ بات بھول گیا لیکن جب چند آدمیوں کو وہاں اس رنگ میں دیکھا تو مجھے جوش صاحب کا حکم یاد آگیا۔ اگرچہ میں ان لوگوں سے واقف نہیں تھا لیکن یہ بھی جانتا تھا کہ آج اس حکم کی تعمیل نہیں ہوئی تو پھر کبھی نہیں ہوگی۔ چنانچہ میں نے ان لوگوں سے اس واقعے کا ذکر کیا اور شراب مانگی۔ ایران کی مہمان نوازی ضرب المثل ہے۔ انھوں نے ایک ساغر بھر کر شراب کا مجھے دے دیا۔ وہ میں نے حافظ کی قبر پر حضرت جوش کا نام لے کر لنڈھا دیا اور درد کا یہ شعر پڑھا:

ساقیا یاں لگ رہا ہے چل چلاو

جب تلک بس چل سکے ساغر چلے

کتاب میں عبدالحلیم شرر کا اٹلی کا سفرنامہ اور سید محفوظ علی کا افریقہ سفرنامہ بھی شامل ہے رشید احمد صدیقی اور ملا رموزی کے سفرنامے بھی ہیں۔ کتاب کے دوسرے حصے میں عبادت بریلوی کا کراچی میں منعقد پاکستانی مصنفین کی کانفرنس کا رپورتاژ اور فارغ بخاری کا مشرقی پاکستان کا رپورتاژ ’’براتِ عاشقاں‘‘ عمدہ تحریریں ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔