بوتل بند محبّتیں ۔۔۔ آوارہ خطوط

انوار فطرت  اتوار 10 مارچ 2013
فوٹو : فائل

فوٹو : فائل

دیکھی، اَن دیکھی ساری کائناتیں دراصل ایک ہی کہانی کا اظہار ہیں، ایک عظیم کہانی۔۔۔ تب ہی تو انسان، صاحبِ لِسان ہوتے ہی کہانی سننے اور سنانے لگ گیا تھا۔

انسان خود کہانی نہیں ہوتا لیکن کہانی سناتے سَمے دعویٰ کرتا ہے کہ وہ ’’کسی‘‘ کی کہانی سنا رہا ہے حال آں کہ وہ دراصل اس بِیتی کی بات کرتا ہے جو کہانی اپنے کسی کردار پر طاری کرتی ہے۔ آپ، وہ اور وہ اور میں محض کردار ہیں، کہانی کو ہم جہاں تک درکار ہوتے ہیں، ہمیں ساتھ رکھتی ہے، جہاں ضرورت پوری ہوئی، بزم سے اُٹھا باہر کر دیا سو ہم کہانی نہیں ہوتے، کہانی بِتاتے ہیں۔ ایک شخص ایک وقت میں بے شمار کہانیوں میں کا کردار بنا ہوتا ہے، کچھ کم یا زیادہ چھے ارب انسان زمین پر بستے ہیں جو ’’کھرب ہا‘‘ کہانیاں بیت رہے ہیں۔ ہم تو بس وہ ہی کہانیاں سن سنا پاتے ہیں جو ازخود ہمارے دامن میں آ گرتی ہیں، یہاں ایسی ہی چند کہانیاں ہیں، آیے چند لمحے ان کے ساتھ گزار کر دیکھیے!

آزادی کا سفر:

1979 میں جزیرۂِ ہوائی کی جانب محوِ سفر ایک بحری جہاز پر دوسرے مسافروں کے علاوہ ڈوروتھی اور اس کا میاں جون بیکہم بھی سوار تھا۔ دونوں اپنے سفر سے خوب لطف اندوز ہو رہے تھے۔ وہ سفر کو زیادہ سے زیادہ یادگار بنانے کے نت نئے طریقے سوچتے اور ان پر عمل کرتے، ایک روز عرشے پر بیٹھے انگور کی بیٹی سے چہلیں کر رہے تھے کہ ڈوروتھی کو نئی سوجھی، اس نے میاں کو بتائی تو اسے بھی دل کو لگی۔ دونوں نے ایک رقعہ لکھا، سامنے رکھی شمپین کی خالی بوتل میں بند کیا اور سمندر میں پھینک دیا۔ رقعے میں صرف یہ ہی لکھا تھا کہ جس کسی کو یہ پیغام ملے وہ دیے گئے پتے پر جواباً خط لکھے۔ اب اسے انھوں نے روز کا معمول بنا لیا، اسی دوران خیال آیا کہ ضروری نہیں کہ جسے یہ پیغام ملے وہ اپنی جیب سے جواب دینے کا تکلف بھی کرے سو انھوں نے بوتل میں خط کے ساتھ ایک ڈالر کا نوٹ بھی رکھنا شروع کر دیا اور آخرِ سفر تک یہ شغل کیا کیے۔

1983 کے مارچ کے کسی دن کی بات ہے، جو جَون کا 70 واں جنم روز تھا۔ انھیں ویت نام سے ایک خط موصول ہوتا ہے جو ایک سابق فوجی ہوآ انگوئِن نے بھیجا تھا۔ اس نے لکھا تھا کہ وہ ویت نام کی فوج میں ملازم تھا اور وہاں کی حکومت کے ظلم و جور سے تنگ آ کر سمندر کی راہ فرار ہو رہا تھا کہ تھائی لینڈ کے صوبے سونگ کھلا کے ساحل سے 15 میل اِدھر انھیں ایک بوتل لہروں پر تیرتی ڈوبتی دکھائی دی۔ ہوآ کے ساتھ اس کا بھائی بھی تھا۔ دونوں کو اشتیاق ہوا کہ دیکھیں یہ کیا ہے۔ انھوں نے تھوڑی سی کوشش کی اور بوتل ان کے ہاتھ آگئی، دیکھا تو اس میں ایک کاغذ اور ایک ڈالر کا نوٹ ہے، خط پڑھا تو شگون لیا کہ ان کی کوششیں کام یاب رہیں گی اور وہ کسی محفوظ و مامون آزاد سرزمین پر پہنچ جائیں گے اور ایسا ہی ہوا، وہ تھائی لینڈ کی سرزمین پر اترے اور رقعے کا جواب دیا۔

اُدھر خط ملا تو جون اور ڈوروتھی نے نقشہ بچھایا اور یہ معلوم کرنے کی کوشش کی کہ بوتل نے کتنا سفر طے کیا؟ معلوم ہوا کہ تھائی لینڈ کے صوبے سونگ کھلا اور جزیرہ ہوائی کے درمیان 9 ہزار میل کی دوری ہے۔ اس کے بعد بیکہم اور ہوآ خاندان کے درمیان خط و کتابت کا سلسلہ جاری ہوا جو برسوں چلتا رہا، دونوں کے درمیان تصویروں کے تبادلے بھی ہوتے رہے۔ اس دوران ہوآ نے شادی کر لی اور جب اس کے ہاں پہلے بیٹے نے جنم لیا تو اس نے اس کی تصویریں بھی بیکہم خاندان کو بھیجیں۔

جس پر انھوں نے ہوآ کو تہنیت کے پیغام بھیجے اور زور دیا کہ وہ اپنے بچے کے لیے بہ تر مستقبل کی کوشش کرے جس پر ہوآ نے جواب دیا کہ تھائی لینڈ میں ایسا کرنا ناممکن نہیں تو دشوار تر ضرور ہے۔ یہ خط پڑھ کر ڈوروتھی اور جَون نے دُکھ محسوس کیا۔ اپنے دوست خاندان کی الجھن سلجھانے کی سوچتے سوچتے وہ بالآخر اس نتیجے پر پہنچے کہ ان کے لیے امریکا میں آباد ہونے کی راہ ہم وار کی جائے۔ اس منصوبے پر انھوں نے کام شروع کر دیا اور کام یاب ہو گئے۔ دونوں پرانے دوست خاندانوں کی پہلی ملاقات 1985 میں لاس اینجلس میں ہوئی، یعنی ہوآ خاندان کے نئے وطن میں۔

دور کی کسی حسینہ کے نام:

اَیکے وائی کنگ (Ake viking) سویڈن کا رہنے والا ایک بحری جہاز پر ملاحی کرتا تھا۔ کھلے سمندروں میں جہاز رانی جہاں سخت مشقت کا کام ہے وہاں اس میں موج میلہ بھی خوب رہتا ہے، ساحل ساحل رنگ رنگ کے لوگ اور منظر دیکھنے کو ملتے ہیں تاہم اَیکے پر کبھی کبھی اکلایا سوار ہو جاتا تو وہ بھری بزم میں اداس ہو جاتا۔ شراب و شباب کی آسانی اور فراوانی تو بہت تھی لیکن کچھ ایسا آڑے آتا کہ اس کا دل اٹھ سا جاتا۔ ایک دن کسی ایسے ہی بے زار لمحے میں جب وہ تنہائی کے آزار سے نکلنے کی کوشش کر رہا تھا تو اسے ایک نادر ترکیب سوجھی۔

اس نے جھٹ پٹ ایک کاغذ کا ٹکڑا اٹھایا اور اس پر ایک پیغام لکھا ’’دور دراز کی کسی حسینہ کے نام‘‘ “To someone beautiful and far away” اور اس کے نیچے پتا لکھا، تہ کیا اور شراب کی ایک خالی بوتل میں بند کر، سمندر کی چنچل لہروں کے سپرد کر دیا۔ دل کو یہ اطمینان کہ یہ ضرور کسی دوشیزہ کے ہاتھ لگے گا، نہ صرف یہ بل کہ وہ اس سے بیاہ پر بھی راضی ہو جائے گی۔ یہ وقوعہ 1956 کا ہے اور لمحہ بھی مراد مند تھا کہ 1958 میں اسے سِسلی سے ایک خط موصول ہوا جو کسی پاؤلینا نامی لڑکی نے اسے بھیجا تھا خط میں لکھا تھا ’’میں کچھ زیادہ حسین و جمیل تو نہیں ہوں لیکن اسے کرشمۂ خداوندی ہی قرار دوں گی کہ یہ بوتل ہزاروں میل کا سفر طے کرکے میرے ہی ہاتھ آئی، سو میں ضروری سمجھتی ہوں کہ تمہیں جواب دوں‘‘۔

یہ سادہ اور سچا خط پا کر اَیکے کو ایسا لگا جیسے اسے جس کی تلاش تھی وہ اسے مل گئی ہے۔ دونوں کے درمیان خطوط کے تبادلے شروع ہو گئے جو رفتہ رفتہ محبت ناموں کی صورت اختیا کر گئے۔ یہ بے ناغہ تسلسل تین برس تک جاری رہا اور بالآخر 1959 کے اواخر میں اَیکے نے سِسلی پہنچ کر پاؤلا کے ساتھ گھر بسا لیا۔

مند گئی آنکھ تو جاگے مری تُربت کے نشاں:

امریکا کی ریاست وسکانسن میں وائیٹ لیک نام کا ایک قصبہ ہے۔ اس قصبے کا نام اس جھیل کے نام پر ہے جس کے کنارے یہ آباد ہے۔ یہاں بیکر نام کا ایک خاندان آباد ہے۔ جوش کا تعلق اسی خانوادے سے تھا۔ جوش دس برس کا ہوا تو ایک دن اسے جانے کیا سوجھی کہ اس نے اپنی والدہ کی وَنیلا کی بوتل اٹھا، بیسِن میں انڈیل دی، اسے خشک کیا اور اس میں کاغذ پر لکھا ہوا ایک پیغام رکھ کر اسے بند کر دیا۔ اس کاغذ پر اس نے جو پیغام درج کیا وہ کچھ یوں تھا ’’میں جوش بیکر ہوں، میری عمر دس سال ہے، اگر میرا یہ پیغام آپ کو ملے تو اسے خبر بنا کر مشتہر کر دیجے گا‘‘ نیچے اس دن کی تاریخ ڈال دی جو 16 اپریل 1995 تھی، اب اس نے بوتل چپکے سے کپڑوں میں اُڑسی اور وائیٹ جھیل کی طرف چل دیا۔

وہاں پہنچ کر اس نے بوتل پوری قوت کے ساتھ اثھالی اور جھیل کے پانیوں کی نذر کر دی۔ برس پر برس بیت گئے، بات آئی گئی ہو گئی اور ہوتے ہوتے جوش بھی اس عمر کو آ لگا جہاں سے عملی زندگی کاآغاز کیا جاتا ہے سو وہ فوج میں بھرتی ہو گیا۔ کچھ ہی عرصے بعد امریکا، بغداد پر مسلط ہو کر اس کی اینٹ سے اینٹ بجانے کا آغاز کیا تو بھیجے جانے والوں میں جوش کا نام بھی شامل کیا گیا۔ عراق میں اور خاص طور پر فلوجہ میں جنگ کے دوران وہ کئی بار موت سے کلائی چھڑانے میں کام یاب ہوتا رہا۔ خدا خدا کر کے یہاں اس کی مدت پوری ہوئی اور وہ صحیح سلامت اپنے وطنِ مالوف وائیٹ لیک لوٹ گیا۔ والدین، بھائی بہنیں اور دوست اسے ایک بار پھر اپنے درمیان پا کر اس کی فتح و صحت کے جام لنڈھانے لگے۔ ابھی جشن کی یہ کیفیت جاری تھی کہ ہونی ہو گئی، جس موت کو وہ میدانِِ وغا میں بارہا پچھاڑ چکا تھا اس نے اِسے ایک ٹریفک حادثے میں آ لیا، اس کی آمد کا جشن یک بہ یک ماتم میں بدل گیا۔ یہ ایک ایسا واقعہ تھا جس نے خاندان اوراس کے احباب کو ششدر کرکے رکھ دیا۔

خیر ہونی کو کون روکے۔ المیے کے چند ماہ بعد یوں ہوا کہ اس کے دو دوست سٹیو لیڈر اور روبرٹ ڈنکن، وہائیٹ جھیل کے کنارے چہل قدمی کرتے ہوئے اپنے آںجہانی دوست کے ساتھ گزارے لمحے اور باتیں یاد کر رہے تھے، ماحول پر خاصی سوگ واری طاری تھی کہ اسی اثناء میں ان میں سے ایک کی نظر جھیل کے پانی میں کسی ایسی شئے پر پڑی جو ایک لمحے کو چمکتی اور پھر گم سی ہو جاتی۔ یہ کیا ہے؟ دونوں کو تجسس نے لپیٹ میں لے لیا اور وہ اس چیز کو نکالنے کی کوشش میں لگ گئے۔ کافی جدوجہد کے بعد وہ چیز ہاتھ آئی تو معلوم ہوا کہ ونیلا کی ایک بوتل ہے اور اس میں کاغذ کا ایک ٹکڑا ہے۔ دونوں نے اسے نکالا تو وہ، وہی پیغام نکلا جو جوش بیکر نے برسوں پہلے لکھ کر جھیل میں پھینکا تھا۔ دونوں یہ پیغام لے، بھاگم بھاگ، اس کے گھر پہنچے اور پیغام اس کے والدین کو دکھایا۔ والدین آب دیدہ تو ہوئے لیکن انھیں یوں محسوس ہوا جیسے ان کا بیٹا دوسرے جہاں میں جانے کے باوجود ان کے آس پاس ہی ہے۔

صحیح شخص، صحیح مقام، صحیح وقت:

1999 کا سال تھا، سٹیوگووَن، امریکا کے کسی ساحلی مقام پر خاصی دیر سے جال ڈالے شکار کے انتظار میں تھے۔ مایوس ہو چلے تھے کہ ناگاہ جال کے قریب کوئی چیز دکھائی پڑی۔ جی میں آئی دیکھوں تو کیا ہے۔ جال ذرا اُدھر کو سرکایا وہ چیز لپیٹے میں لے، نکال لی۔ اب جو دیکھتے ہیں تو ایک بوتل ہے اور وہ بھی پرانی دھرانی، دَھت تیرے کی! لوٹا کر پھینکنے ہی کو تھے کہ اچانک لگا جیسے اس میں کچھ ہے، کیا ہو سکتا ہے؟ بوتل کو اک ذرا گڑی دی، پانی کا زنگ چُھٹا تو کچھ کاغذ سے نظر آئے، یا حیرت ! اب جو بوتل کھولتے ہیں تو کسی تھامس ہیوز صاحب کے دو مخطوطے نکلتے ہیں، ایک اس شخص کے نام، جسے یہ بوتل ملے۔

التجا یہ کہ بوتل میں رکھا دوسرا خط کسی ایلیزبتھ کو دیے گئے پتے پر پہنچایا جائے اور تاریخ 9 ستمبر 1914 ۔ ایلیزبتھ کے نام خط ایک سادہ سا محبت نامہ تھا ’’پیاری ایلیزبتھ ! تم میرے خیالوں میں بسی ہوئی ہو، میں تم سے بے پناہ محبت کرتا ہوں‘‘ اور یہ کہ ’’میں جنگ پر فرانس جا رہا ہوں‘‘۔ معلوم پڑا کہ جنابِ تھامس یا تو خاتون کے کوئی عاشق واشق رہے ہوں گے یا کم از کم میاں۔ سن کے مطابق یہ پہلی جنگ عظیم کا زمانہ تھا اور معلوم یہ پڑتا ہے کہ یا تو تھامس کسی جنگی بحری بیڑے پر تھا یا سمندر کے قریب کسی ایسے مقام پر، جہاں سے معمول کے مطابق خط بھیجنا ممکن نہ ہو گا۔ خیر! صورتِ حالات جو بھی رہی ہو، گووَن صاحب بے چارے خوب پھنسے۔

بے زار تو خوب ہوئے لیکن آدمی نیک دل واقع ہوئے تھے، بوتل میں رکھی التجا پڑھ بیٹھے تھے، بس آگئے اخلاقی چپیٹ میں۔ خاصے پریشان کہ 1914 کی یہ محترمہ اب زندہ بھی ہوں گی؟ غالب امکان تو یہی ہے کہ الّا ماشاء اللّٰہ کوچ فرما چکی ہوں گی اور مشکل ہے کہ میاں صاحب بھی بچے ہوں۔ تو پھر اب کیا کیا جائے؟ تلاش۔۔۔ مرتا کیا نہ کرتا، گووَن نے، ہر چہ بادا باد، تلاش شروع کر دی۔ یہاں پوچھ، وہاں پتا کر، اِدھر خط لکھ، اُدھر نامہ بھیج، ابلاغی ذرائع سے رابطہ کر ۔۔۔ ایک طویل جدوجہد ۔۔۔ لیکن وہ جو کہتے ہیں ڈھونڈھے سے خدا بھی مل جاتا ہے، تو خرابی تو بے شک بسیار ہوئی لیکن معلوم ہو ہی گیا کہ اس جوڑے کی ایک بیٹی ایمیلی زندہ ہے البتہ ہے بہت دور، کہیں آک لینڈ (نیوزی لینڈ) کے کسی مقام پر۔

گووَن ایک بار پھر سٹپٹائے کہ اب اللٰہ میاں کے پچھواڑے بسی اس محترمہ تک کیسے پہنچیں۔ بہت سوچے، بچارے، آخر ایک ترکیب سوجھ ہی گئی، جھٹ اللٰہ کا نام لے، ’’نیوزی لینڈ پوسٹ‘‘ کو ایک خط ساری تفصیل کا لکھ بھیجا۔ اخبار کا ایڈیٹر بھی یقیناً کوئی اچھے ہی دل کا ہوگا جبھی اس نے ایمیلی کو ڈھونڈنے کا بِیڑا اٹھایا اور بالآخر مائی کو دریافت کر ہی لیا، نہ صرف یہ بل کہ گووَن سے کہا ’’کیا ہی اچھا ہو جو تم یہ چیزیں اپنے ہاتھ سے خاتون کے حوالے کرو‘‘ ساتھ ہی وہاں تک آنے جانے کے مصارف کی بھی پیش کش کر دی۔ گوون بہت خوش ہوئے اور آک لینڈ پہنچ لیے۔

معلوم ہوا کہ ایمیلی کو اپنے والد کی صورت ہی یاد نہیں کیوںکہ جب وہ جنگ پر گیا تھا تب وہ پورے دو برس کی بھی نہ تھی البتہ ماں سے اکثر اس کا ذکر سنتی تھی، تھامس جنگ سے لوٹ کر نہیں آیا۔ گوون خوش کہ ذمے داری سے سبک دوش ہوا اُدھر بوڑھی ایمیلی کے لیے یہ کچھ ایسی سرشاری تھی کہ بیاں کو الفاظ نہیں۔ پوچھا گیا کہ خط اتنی تاخیر سے ملنے کا ملال نہیں تو بولیں ’’جب تک یہ پیغام اس صحیح کشتی میں بیٹھے صحیح شخص تک نہ پہنچتا تو صحیح مقام تک کیوںکر پہنچتا سو مجھ تک اس کے پہنچنے کا صحیح وقت یہ ہی تھا‘‘۔

آوارہ غبارہ:

اس واقعے میں کہانی نے بوتل کے بہ جائے ایک غبارے کو جگہ دی ہے۔ انگلستان کے علاقے سٹیفرڈ شائر کے قصبے اسٹوکان ٹرینٹ میں ’’بکسٹن‘‘ نامی خاندان مقیم تھا، لارا اس خاندان کی ایک بچی تھی۔ 2001 میں اس کی عمر لگ بھگ دس برس رہی ہوگی۔ ایک بار اس نے ایک غبارا فضاء میں چھوڑا لیکن اڑانے سے پہلے اس کے ایک طرف اپنا نام ’’لارا بکسٹن‘‘ اور پتا درج کر دیا، دوسری طرف یہ استدعا کہ جسے یہ غبارہ ملے، ازرہِ کرم واپس بھیج دے۔ بچی تھی، کچھ دن بعد بھول بھال گئی۔

خاصے ہفتے بیت چکے، اب غبارے نے کہیں نہ کہیں تو پُھس ہونا ہی تھا تو کہانی یوں جنمی کہ وہاں سے 140 میل دور ملٹن لِل بورن کے ڈیوڈ میاں سویرے اپنی کھڑکی سے جھانکے تو مکان کی باڑ پر ایک خوب صورت سا غبارہ دکھائی پڑا، اس پر کچھ لکھا بھی ہے جو دوری کے باعث پڑھا نہیں جا رہا، نکلتے ہیں اور اب جو غبارے پر لکھا نام اور پتا پڑھتے ہیں تو حیران ہوتے ہیں اور مسکراتے بھی پڑتے ہیں۔ ہم سائے کے دروزے پر جاتے ہیں، آواز دیتے ہیں اور کچھ ہی دیر میں لگ بھگ دس برس کی ایک پیاری سی بچی برآمد ہوتی ہے ’’جی انکل؟‘‘ ’’لو بھئی یہ معما تمہارے لیے ہے تم ہی نمٹو‘‘۔

بچوں میں حیرت کا مادہ کچھ زیادہ ہی ہوتا ہے۔ وہ غبارا دیکھ کر حیران ہوتی ہے اور دوڑی دوڑی اپنے ڈیڈ اور ممی کو دکھاتی ہے، انھیں بھی یہ اتفاق اچھا اور معصومانہ سا لگتا ہے۔ اتفاق یہ ہوتا ہے کہ جس بچی نے غبارا چھوڑا ہے اس کا نام بھی لارا ہے اور جسے غبارا ملا ہے وہ بھی لارا ہے، اُس لارا کا خاندان بکسٹن ہے تو اِس لارا کا خاندان بھی بکسٹن، وہ دس برس کی ہے تو یہ بھی دس ہی برس کی اور تو اور اسے لگتا ہے جیسے اس غبارے پر اس کے اپنے ہی ہاتھ کی تحریر ہے۔ اب یہ لارا فرمائش کرتی ہے کہ اسے غبارے والی لارا سے ملایا جائے، والدین بھی کچھ کم حیراں نہ تھے، جلد ہی راضی ہو گئے اور اپنی لارا کو غبارے والی لارا سے رابطے کی اجازت دے دی۔ اِس لارا نے رابطہ کیا تو اُس لارا نے بھی ملنے کا اشتیاق ظاہر کیا اور یوں دونوں خاندانوں میں ملنے کا دن اور مقام طے ہو گیا۔

اب جب ملاقات ہوتی ہے تو حیرتوں کے کچھ اور بھی در کھلتے ہیں۔ وہ یوں کہ اس موقع پر دونوں ’’لاراؤں‘‘ نے گلابی سویٹر اور جین کے ٹراؤزر پہن رکھے ہیں، دونوں کے قد برابر ہیں، جو ان کی عمر کے برعکس کچھ زیادہ ہی دراز ہیں، دونوں کے بال بھورے ہیں اور ایک ہی انداز سے گندھے ہوئے ہیں، دونوں اپنے ہم راہ اپنے اپنے Guinea Pigs (خرگوش برابر ایک قسم کا خوش رنگ پالتو چوہا) لائی ہیں، جن کے رنگ ایک ہی جیسے ہیں اور ان پر ایک ہی طرح کے نارنجی دھبے ہیں، باتیں چلیں تو کھلا کہ دونوں نے لیبراڈور نسل کے کتے پال رکھے ہیں، جن کی عمریں تین تین برس ہیں اور دونوں کے رنگ بھی سیاہ، دونوں لڑکیوں کی صورتوں میں بھی حیرت انگیز مماثلت ہے، لگتا تھا جیسے دونوں ایک دوسرے کا عکس ہیں، دونوں کی عادات و اطوار، محسوسات اور پسند، ناپسند بھی بالمثل نکلی۔ دونوں لڑکیوں کی دوستی کی آئندہ آٹھ برسوں کی تاریخ معلوم ہے، اس کے بعد دونوں میں کیا رہی، معلوم نہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔