تشکیل پاکستان: مذہب اور سیکولر ازم

مقتدا منصور  بدھ 15 نومبر 2017
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

پروفیسر (ڈاکٹر) حمزہ علوی مرحوم جنوبی ایشیا کے ایک روشن خیال اور ترقی پسند دانشور تھے۔ جنہوں نے ائیرکنڈیشنڈ کمروں میں بیٹھ کر مقالے تحریر کرنے کے بجائے معاشرے کے محروم طبقات کے درمیان رہ کر ان کی زندگی کا عمیق مطالعہ کیا اور پھر اسے سینہ قرطاس پر منتقل کیا۔

انھوں نے پاکستان کے کاشتکاروں کے مسائل کا جائزہ لینے کی خاطرکئی ماہ پنجاب کے شہر ساہیوال کے دیہات میں گذارے۔ بینک کی پرکشش ملازمت سے مستعفی ہوکر تنزانیہ (افریقہ)میں تجرباتی بنیادوں پر کاشتکاری شروع کی۔ وہ قیام پاکستان کے بعد کراچی کے پہلے منتخب میئر حاتم علی علوی مرحوم کے فرزند تھے۔

حمزہ علوی نے مختلف موضوعات کی فکر انگیز کتابیں اور مقالے تحریر کیے ۔ جن میں سے بیشتر کا اردو اور سندھی میں ترجمہ ہوچکا ہے۔جو مقالہ جات کتابی شکل میں منظر عام پر آچکے ہیں،ان میں تخلیق پاکستان، پاکستانی اشرافیہ، پاکستان: ریاست اور اس کا بحران شامل ہے۔ یہ تراجم معروف دانشور اور شہید ذوالفقارعلی بھٹو انسٹیٹیوٹ آف سوشل سائنسز(SZBIST)میں فیکلٹی آف سوشل سائنسز کے ڈین ڈاکٹر ریاض احمد شیخ نے کیے ہیں ۔ اب حال ہی میں شایع ہونے والی کتاب’’ تشکیل پاکستان: مذہب اور سیکولرازم‘‘ کا اردو ترجمہ بھی ڈاکٹر ریاض احمد شیخ نے کیا ہے۔

اس کتاب میں ان کے پانچ مقالے شامل ہیں۔ جن میں نسلیات کی سماجی اساس(Social Basis of Ethnicity)، تشکیل پاکستان: مذہب اور سیکیولر ازم، نظریہ پاکستان اور طالبعلم، نوآبادیات کے زیر اثر جنوبی ایشیا کا تشکیل پانے والا سماجی ڈھانچہ اورجنوبی ایشیا میں سیاسی قوت کی دیہی اساس شامل ہیں۔ان میں چوتھے مقالے کے چھ ذیلی عنوانات ہیں، جب کہ پانچویں مقالے’’ جنوبی ایشیامیں سیاسی قوت کی دیہی اساس‘‘ میں پانچ ذیلی عنوانات ہیں۔

ان کا پہلا مقالہ ’’ نسلیات کی سماجی اساس‘‘ دسمبر 1988 میں کراچی میں منعقد ہونے والی بین الاقوامی نفسیاتی کانفرنس میں پڑھا گیا تھا۔ اس تحریر کو پڑھنے سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ30 برسوں کے دوران کچھ بھی تبدیل نہیں ہوا، بلکہ حالات جوں کے توں چلے آرہے ہیں۔ اس مقالے میں ایک جگہ وہ لکھتے ہیں کہ ’’ جنوری 1952کے اختتام پر پورے مشرقی پاکستان میں بنگالی زبان کی تحریک اچانک ابھر کر سامنے آگئی‘‘ ۔’’ہماری حکمران اشرافیہ نے بے وقوفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بنگالیوں کے مطالبات کو تسلیم کرنے کی کوئی راہ نکالنے کے بجائے مذہبی نعروں کے ذریعے بنگالی قوم پرستی کو توڑنے کا فیصلہ کیا۔‘‘

آگے چل کر لکھتے ہیں کہ’’ میرے خیال میں اس وقت سندھیوں اور مہاجروں کے درمیان پائے جانے والے تصادم کی بنیاد، وہ زاویہ نگاہ ہے، جس کے ذریعے دونوں اپنے مفادات کا تعین اور اس کی وضاحت کرتے ہیں، اگر ہم ان مسائل کو قومی سوال کے وسیع تناظر میں دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ سندھیوں اور مہاجروں دونوں کے مفادات پنجابیوں کے خلاف اکٹھا ہونے میں ہیں۔‘‘ مزید لکھتے ہیں کہ ’’سندھی رہنماؤں کو1983کی تحریک کے بعد اندازہ ہوگیا کہ سندھ کی بہتری اسی میں ہے کہ مہاجروں کے ساتھ اتحاد بنا کر رکھا جائے۔‘‘ یہی مشورہ وہ مہاجروں کو دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’میرے خیال میں مہاجروں کو بھی یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ ان کے ساتھ کیا ہو رہا ہے اور انھیں کس طرح استعمال کیا جا رہا ہے۔ خوش قسمتی سے دونوں کمیونٹیوں میں ایسے لوگ بڑی تعداد میں موجود ہیں، جو سمجھتے ہیں کہ تصادم دونوں کے مفاد میں نہیں ہے۔‘‘

مذہب اور سیکولر ازم کے مضمون میں لکھتے ہیں کہ’’ جناح کے نااہل جانشینوں نے ان کی سوچ سے خود کو دورکرتے ہوئے مذہب کے بیانیہ کو اپنی سیاسی ناکامیوں کو چھپانے کے لیے استعمال کرنا شروع کردیا۔‘‘  اسلام خطرے میں ہے کی چیخ و پکار خود غرضی، جعلی اور کھوکھلے نعروں پر مشتمل تھی، کیونکہ وہ لوگوں کو کوئی مثبت چیز دینے کی پوزیشن میں نہ تھے۔‘‘ یہ پیراگراف پڑھنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ ریاستی مقتدرہ کی سوچ اور طرز عمل میں آج بھی کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ کیونکہ 2013 میںانتخابی اصلاحات کے لیے جو کمیٹی قائم کی گئی تھی، اس کی سفارشات میں سہواً امیدواروں کے حلف نامے میں ایک سقم رہ گیا۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ بیشتر جماعتیں اور رہنما ان سفارشات میں دیگر خامیوں اور نقائص سے صرف نظر کرتے ہوئے صرف اسی حلف نامے کو ایشو بنائے ہوئے ہیں۔ جس سے صاف ظاہر ہے کہ ہماری مقتدر اشرافیہ (سیاسی اور غیر سیاسی) کو نظام میں بہتری کے بجائے محض نعرے بازی میں دلچسپی ہے۔

اسی مضمون میں وہ لکھتے ہیں کہ’’ ہندو اور مسلمان تنخواہ دار طبقوں کے باہمی مقابلے سے عام ہندو اور مسلمان کا کوئی لینا دینا نہ تھا اور نہ ہی انھیں اس جھگڑے سے کوئی دلچسپی تھی‘‘ ۔’’مسلمان اشرافیہ کو صرف اپنے مستقبل کی فکر لاحق تھی۔کیونکہ اس مسلمان اشرافیہ نے خود کو غریب مسلمان اور اس کے مسائل سے بالکل لاتعلق کر لیا تھا۔‘‘ آگے چل کر لکھتے ہیں کہ ’’پڑھے لکھے درمیانے طبقے کے ہندوستانی مسلمان کی تعلیمی ضرورت یہ نہیں تھی کہ اسے اس کے ذریعے اسلام اور اسلامی ریاست کے وجود میں لانے سے متعلق مولوی کے خیالات سے آگہی دی جائے، بلکہ ان کی حقیقی اور فوری ضرورت یہ ہے کہ ایسی تعلیم فراہم کی جائے جو ان کے دنیاوی مسائل کے حل میں کارگر ثابت ہو۔‘‘

نظریہ پاکستان اور طالب علم والا مضمون دراصل وہ کلیدی خطبہ ہے، جو انھوں نے انڈس ویلی اسکول کے ساتویں کانووکیشن کے موقعے پر دیا تھا۔اس خطبے میں وہ فرماتے ہیں کہ’’ جہاں تک مجھے آپ کے ادارے کے بارے میں علم ہے، یقیناً یہاں آپ کو علت(Reason) کے لیے تربیت فراہم کی گئی ہوگی نہ کہ عقیدہ (Dogma)اور نسخہ (Formula) کی۔‘‘ مزید لکھتے ہیں کہ’’ ایک بہت بڑی مشکل جس کاآپ کو بڑی تواتر کے ساتھ واسطہ پڑے گا اور وہ اسلامی نظریہ ہے، جس کی ہمارے یہاں بڑے ظالمانہ انداز میں تشریح (Interpretation)کی جاتی ہے۔ جنرل ضیا کے ایام میں اس کو مزید مبہم (Absurd)فارمولا بنا کر ہمارے معاشرے پر تھوپ دیا گیا۔‘‘

سیکولرازم کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’ لفظ سیکولر کا اردو ترجمہ شرارتاً’’ لادینیت‘‘ کیا گیا ہے۔ اس بات پر زور دیا جانا چاہیے کہ سیکیولر ہونے کا مطلب کسی بھی طرح مذہب کا انکاری ہونا نہیں ہے۔‘‘ حمزہ علوی کے اس جملے سے یہ بات اب سمجھ میں آجانی چاہیے کہ جمہوریت شہریوں کے مساوی حقوق اور ووٹ کی برابری (Equality of Vote)سے مشروط ہے ۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب معاشرے میں تمام شہریوں کو یکساں حیثیت حاصل ہو۔ یکساں حیثیت سے مراد بلاامتیاز رنگ، نسل، لسان، عقیدہ اور صنف برابری ہے، جوصرف سیکولر ازم ہی فراہم کرتی ہے۔ اس لیے جمہوریت اور سیکولرازم لازم و ملزوم ہیں ۔ سیکولر ازم کے بغیر جمہوریت ایک فریب ہے، جب کہ جمہوریت کے بغیر سیکولر ازم فاشزم ہے۔ اس کے علاوہ ریاست اور معاشرے کو ایک ساتھ جمہوریانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ بصورت دیگر جمہوریت کے ثمرات عوام تک نہیں پہنچ پاتے۔

115 صفحات پر مشتمل مختصر سی اس کتاب کا ہر باب اور مضمون انتہائی فکر انگیز اور ذہن کے خوابیدہ گوشوں کو کھولنے کا باعث ہے۔ جس کا مطالعہ ہر متوشش شہری کے لیے ضروری ہے۔ کتاب کا پیش لفظ معروف ترقی پسند دانشور اور تاریخ دان ڈاکٹر مبارک علی نے تحریر کیا ہے، جو کتاب کا ترجمہ کرائے جانے کے محرک بھی ہیں۔ کتاب فکشن ہاؤس نے شایع کی ہے اور ملک کے ہر کتب فروش کے یہاں دستیاب ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔