مزاحمت والی ٹی بی۔۔۔۔ دنیا کو ایک نئی بلا کا سامنا!

محمد اختر  اتوار 10 مارچ 2013
فوٹو : فائل

فوٹو : فائل

ٹی بی یا تپ دق دنیا کی ان چند بیماریوں میں سے ایک ہے جو زمانہ قدیم سے انسانوں کے ساتھ چلی آرہی ہیں۔

یہ موذی بیماری اصل میں پھیپھڑوں پر حملہ آور ہوتی ہے لیکن پھیپھڑوں کے علاوہ دیگر اعضا پر بھی حملہ آور ہوسکتی ہے۔یہ متعدی بیماری جراثیموں کی مختلف اقسام بالخصوص مائیکوبیکٹیریم ٹیوبر کولوسس کی وجہ سے ہوتی ہے۔قدیم زمانے سے لے کر آج تک انسان ٹی بی سے جنگ لڑتا آرہا ہے۔سائنسدان اس کا موثر ترین علاج ڈھونڈنے کی سرتوڑ کوشش کررہے ہیں لیکن بدقسمتی سے ٹی بی کا جراثیم بہت ڈھیٹ اور مکار ہے۔ یہ جراثیم دواؤں کے خلاف مسلسل مزاحمت کی صلاحیت حاصل کررہا ہے جس کی وجہ سے اس موذی بیماری کا علاج تلاش کرنا دن بدن مشکل ہورہا ہے۔

مزاحمت والی ٹی بی کیا ہے؟
قارئین، سائنسدان ابھی سادہ ٹی بی کا موثر علاج نہیں ڈھونڈ پائے تھے کہ اب ایسی ٹی بی آچکی ہے جس کے خلاف کوئی دوا کارگر ہی نہیں ہوتی۔یہ اصل میں سادہ ٹی بی ہی ہے جو لاپروائی اور درست علاج نہ ہونے کی صورت میں مزاحمت والی ٹی بی بن جاتی ہے یعنی پھر دوائیں بھی اس کے سامنے بے بس ہوجاتی ہیں۔ٹی بی جب یہ شکل اختیار کرلیتی ہے تو مریض کی جان بچنا مشکل ہوجاتا ہے۔

یہ ایک سے زیادہ دواؤں کے خلاف مزاحمت والی ٹی بی یعنی ملٹی ڈرگ ریزیسٹنٹ ٹی بیMulti-drug-resistant tuberculosis اور مختصراً (MDR-TB)کہلاتی ہے۔اس میں ٹی بی کی صف اول کی اہم ادویات بیماری کا مقابلہ کرنے میں ناکام ہوجاتی ہیں۔اس کے بعد مزید شدید ٹی بی ایکس ڈی آر ٹی بی ہے جوTB extensively drug-resistantکا مخفف ہے۔اس میں ٹی بی کے خلاف صف دوئم کی اہم ادویات بھی جراثیم کے سامنے بے بس ہوجاتی ہیں۔ٹی بی کی ان شکلوں کے بارے میں اگر غالب کے شعر کو ردوبدل کے ساتھ پیش کیا جائے تو غلط نہ ہوگا۔

اُلٹی ہوگئیں سب تدبیریں، کچھ نہ دوا نے کام کیا
دیکھا ، اس ’’بیماری ، ٹی بی’’ نے آخر کام تمام کیا

’’کالی موت‘‘ جیسے المیے کا خطرہ
ہمارے ہمسایہ اور دنیا کی دوسری سب سے بڑی آبادی والے ملک بھارت میں یہ ڈھیٹ ٹی بی تیزی سے پھیل رہی ہے جس کے سامنے ٹی بی کی تمام اہم ادویات ناکام ہوچکی ہیں۔
سائنسدانوں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگر اس المیے کاکوئی حل نہ نکالا گیا تو دنیا کو ایک بار پھر اسی طرح بڑے پیمانے پر ہلاکتوں کا سامنا ہوسکتا ہے جو کسی زمانے میں طاعون(black death) کی وبا پھیلنے کے باعث ہوا کرتا تھا اور شہر کے شہر کا صاف ہوجاتے تھے۔

بھارت کی صورت حال
اسی قسم کی ٹی بی میں مبتلا ایک بھارتی لڑکی ممبئی کے ہندوجہ اسپتال کے بستر پر لیٹی بے بسی کے ساتھ اس کھڑکی کی جانب دیکھ رہی تھی جو کہ ڈاکٹر ضریر اڑواڈیا کے کمرے کا ایک مدھم سا منظر دکھا رہی تھی۔
اداس سی ہوا کے جھونکے ماہم بے کے علاقے میں واقع اس اسپتال میں بھی محسوس ہورہے تھے اور بیڈز کے ساتھ میزوں پر پڑے کاغذ اور دیگر اشیاء ان جھونکوں سے لرز ر ہے تھے۔لڑکی کی ماں ڈاکٹر ضریر اڑواڈیا کے سامنے ہاتھ جوڑ کر کھڑی تھی۔

’’میری بیٹی کو بچالیجیے۔‘‘ وہ التجا کررہی تھی۔’’مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا، میں کیاکروں۔‘‘

ڈاکٹر اڑواڈیا کاغذات کے اس پلندے کو دیکھ رہی تھی جس میں لڑکی کی بیماری اوراس کے علاج کی تفصیلات درج تھیں۔ لیبارٹری سے ابھی ابھی رزلٹ آیا تھا جس میں بتایا گیا تھا کہ لڑکی صحت یاب کیوں نہیں ہورہی۔لڑکی کے پھیپھڑوں میں جو ٹی بی سمائی ہوئی تھی، وہ ایم ڈی آر ٹی بی ہی تھی۔یعنی دواؤں کے خلاف مزاحمت والی ٹی بی، جس کے سامنے زیادہ تر ادویات بے کار ہوچکی تھیں۔

’’اگر ایسا دس سال پہلے ہوتاتو آپ خوف زدہ ہوجاتے کہ آخر مریضہ صحت یاب کیوں نہیں ہورہی۔ٹی بی کی ادویات اس پر کارگرکیوں نہیں ہورہیں۔‘‘ ڈاکٹر اڑواڈیا بتا رہی تھیں۔وہ اس چٹ کو دیکھ رہی تھیں جن میں مزید کچھ دواؤں کو تجویز کیا گیا تھا اوران کے بارے میں بھی کچھ یقین نہ تھا کہ وہ فائدہ دیں گی یا نہیں۔’’لیکن آج ہمیں کم ازکم یہ تو پتہ چل چکا ہے کہ مسئلہ کیا ہے، اب ہم باآسانی کہہ سکتے ہیں کہ یہ ایم ڈی آر ٹی بی ہے۔‘‘

وہاں پر کچھ لوگ اپنی باری کا انتظار کررہے تھے تاہم انھیں بھی اڑواڈیا سے شفا نہیں مل سکتی تھی۔ہندوجہ اسپتال میں ہر ہفتے ان مریضوں کی قطاریں لگ جاتی تھیںجو پریشان اور خوفزدہ ہوتے تھے۔ہندوجہ ممبئی کا وہی اسپتال تھا جہاں 2011ء میں دواؤں کے خلاف مزاحمت والی ٹی بی کا پہلا کیس سامنے آیا تھا ۔

جس کے بعد دنیا کی قدیم ترین بیماری کے خلاف بھارت نئی جنگ کا اہم ترین ’’میدان‘‘ بن گیا تھا۔یہاں جو کچھ ہوا وہ لمحہ فکریہ تھا۔پچھلے ایک ہزار سال کے دوران تجارت ، فضائی سفر ، کثرت آبادی اور دیگر وجوہات کے باعث یہ بیماری نہایت تیزی کے ساتھ پھیلی۔اب اگر دواؤں کے خلاف مزاحمت والی ٹی بی چاہے یہ ایم ڈی آر ہو یا ایکس ڈی آر یا ٹی ڈی آر ، اگر پوری دنیا میں پھیل گئی تو اس سے ہونیوالی تباہی ناقابل تصور ہوگی۔

دنیا کو عالمگیر وبا سے خطرہ
قارئین ، انٹی بائیوٹکس کے ذریعے روایتی ٹی بی کا علاج تو ڈاکٹر کئی عشروں سے کررہے ہیں اوروہ اس میں کامیاب رہے ہیں۔اس کے نتیجے میں 1990ء کے بعد سے ٹی بی کے باعث اموات میں اکتالیس فیصد کمی ہوئی ہے۔تاہم صحیح تشخیص نہ ہونے اور بیماری کی طاقتور ترین ادویات کے غلط اور بے جا استعمال کے نتیجے میں ٹی بی کا جراثیم بھی طاقتور سے طاقتور ہوچکا ہے۔

جب ٹی بی کے کسی مریض کو غلط دوا دی جاتی ہے یا کوئی مریض اس کا علاج شروع کرتا ہے لیکن اس کو مکمل نہیں کرتا تو جراثیم ختم ہونے کے بجائے الٹا مزید طاقتور ہوجاتا ہے۔عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ کے مطابق اس وقت صورت حال یہ ہوچکی ہے کہ ٹی بی کے کل نئے مریضوں میں سے چار فیصد مزاحمت والی ٹی بی ایم ڈی آر میں مبتلا ہیں۔ اس طرح جن مریضوں کا پہلے علاج ہوچکاہے ان میں سے بیس فیصد مزاحمت والی ٹی بی میں مبتلا ہوچکے ہیں۔

گذشتہ سال اگست میں شائع ہونیوالی ادارے کی رپورٹ کے مطابق عالمی سطح پر مزاحمت والی ٹی بی ایم ڈی آر اورایکس ڈی آر کے مریضوں کی تعداد پہلے لگائے گئے تخمینہ جات سے کہیں زیادہ ہے۔عالمی ادارہ صحت کے مطابق ہندوجہ اسپتال میں جو کیس سامنے آئے ہیں، وہ ایکس ڈی آر کے ہیں۔

ایکس ڈی آر ٹی بی کے واقعات چوراسی ملکوں میں سامنے آچکے ہیں۔مشرقی اور جنوب مشرقی ایشیا، جنوبی افریقہ ، مشرقی یورپ ، روس اور بھارت میں اس قسم کی ٹی بی کے واقعات سب سے زیادہ ہیں۔ ٹی بی کے خلاف جنگ میں مصروف بھارتی این جی او ’’آشا‘‘ کی صدر ڈاکٹر شیلی بٹرا کا کہنا ہے کہ دنیا ٹی بی کی ایک اور عالم گیر وبا کے نرغے میں آنے والی ہے۔ اگر ایسا ہوا تو ہم ایک بار پھر تاریک دور میں داخل ہوجائیں گے۔

انسان کو ہڑپ کرنے والی بیماری
ٹی بی یا تپ دق کے بارے میں کبھی کہا جاتا تھا کہ یہ دھیرے دھیرے انسان کو کھا جاتی ہے کیونکہ اس میں وزن بہت کم ہوجاتا ہے۔ یہ متعدی بیماری ہے جو گنجان آباد علاقوں میں بہت تیزی سے پھیلتی ہے۔یہ خاص طور پر پھیپھڑوں کو نشانہ بناتی ہے لیکن پھیپھڑوں کے علاوہ دیگر اعضا کو بھی اپنا نشانہ بناسکتی ہے۔اس کی علامات میں کھانسی (جس میں اکثر خون بھی آجاتا ہے) ،بخار ، رات کو پسینے آنا اور سردی لگنا شامل ہے۔ایچ آئی وی کی طرح کم خوراکی کے شکار افراد خاص طور پر ٹی بی میں مبتلا ہوتے ہیں۔

ٹی بی میں اکثر اوقات انفیکشن مخفی اور بغیر کسی علامات کے ہوتی ہے تاہم جب انفیکشن مکمل طور پر حرکت میں آجاتی ہے تو اس میں موت کا امکان اتنا ہی بڑھ جاتا ہے۔اس وقت دنیا کی ایک تہائی آبادی کے اندر ٹی بی کا جراثیم موجود ہے۔تاہم ان میں سے بہت تھوڑی تعداد میں لوگ بیماری میں مبتلا ہوتے ہیں لیکن اس کے باوجود ٹی بی دنیا کی مہلک ترین بیماری ہے اور2011 میں دنیا بھر میں اس سے چودہ لاکھ اموات ہوئیں۔

عالمی ادارہ صحت کا تخمینہ ہے کہ 2011 سے 2015ء تک بیس لاکھ افراد مزاحمت والی ٹی بی ایم ڈی آر وغیرہ میں مبتلا ہوں گے لیکن اس کے باوجود اس میں مبتلا صرف دس فیصد افراد کا مناسب علاج ہورہا ہے۔ادارے کی رپورٹ کے مطابق متحرک ٹی بی میں مبتلا ایک فرد سال میں پندرہ دیگر لوگوں کو متاثر کرسکتا ہے۔

ہر تین منٹ بعد دو شکار
اس وقت ٹی بی کے حوالے سے سب سے خراب صورت حال بھارت میں ہے جہاں ہر تین منٹ بعد دو افراد ٹی بی سے ہلاک ہوتے ہیں اوریوں اس بیماری کے خلاف بین الاقوامی جنگ میں بھارت فرنٹ لائن کی حیثیت رکھتا ہے۔ بھارت میں ہرسال بیس لاکھ افراد ٹی بی میں مبتلاہوتے ہیں جو کہ دنیا بھر میں ٹی بی کے ٹوٹل کیسوںکا ایک چوتھائی بنتا ہے۔دوسری جانب بھارتی حکومت کے لیے اس قدر بڑی تعداد میں مریضوں کے لیے علاج ومعالجے کی سہولیات فراہم کرنا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔ امریکی جریدے کی رپورٹ کے مطابق جس قدر زیادہ تعداد میں لوگ مزاحمت والی ٹی بی میں مبتلا ہوں گے ، اسی قدر اس کا علاج مہنگا ہوتا جائے گا اور اسی قدر ان افراد کا علاج نظر انداز ہوتا رہے گا جو عام ٹی بی میں مبتلا ہیں۔

اس کا مطلب ہے کہ اس بات کا امکان بڑھ جائے گا کہ یہ لوگ بھی مزاحمت والی ٹی بی میں مبتلا ہوجائیں جس سے بیماری میں اضافے کا ایک منحوس چکر چل پڑے گا۔اس کی وجہ یہ ہوگی جب عام ٹی بی میں مبتلا افراد نظرانداز ہوں گے تو وہ اپنا علاج مکمل نہیں کریں گے یا غلط ادویات لیں گے جس کے نتیجے میں ان کے اندرموجود ٹی بی کا متحرک جراثیم دواؤں کے خلاف شدید مزاحمت پیدا کرلے گا جس کے بعد وہ افراد جو سادہ ٹی بی میں مبتلا تھے ،وہ بھی مزاحمت والی ٹی بی ایم ڈی آر کے مریض بن جائیں گے۔

ممبئی ،ٹی بی کا منبع
دنیا کے چند گنجان آباد ترین اور نتیجتاً گندے ترین شہروں میں شامل ممبئی ٹی بی کے جراثیم کا محبوب ترین شکار بنا ہوا ہے۔ممبئی بھارت کا سب سے بڑا شہر ہے۔روزگار کے مواقع اور دیگر فوائد کی وجہ سے پورے بھارت سے لوگ امڈ امڈ کراس شہر میں آتے ہیں۔ ممبئی بھارت کے مغربی ساحل پر واقع ہے اور دنیا کے چند تیزی سے پھیلتے ہوئے شہروں میں سے ایک ہے۔صرف مرکزی ممبئی کی آبادی ایک کروڑ اسی لاکھ تک پہنچ چکی ہے جبکہ آس پاس یعنی مضافات کی آبادی اس کے علاوہ ہے۔

پورے ملک سے لوگوں کی آمد کی وجہ سے ممبئی کچی آبادیوں اور جھونپڑ پٹیوں کا عظیم الشان سمندر بن چکا ہے۔ ان کچی آبادیوں میں چھوٹے چھوٹے گھر اور گندی گلیاں ہیں۔صفائی ، پینے کے پانی اور دیگر سہولیات کا کوئی نام و نشان نہیں۔یہاں لاکھوں مزدور اور غریب لوگ رہتے ہیں۔ امبو واڑی بھی ممبئی کی ایک کچی آبادی یا ہے جہاں لوگ ایسے ہی غلیظ ماحول میں رہتے ہیںجس طرح دیگر جھونپڑپٹیوں میں لوگ رہتے ہیں۔یہ بستی بھی انتہائی گنجان آباد ہے اور ٹی بی کا جراثیم یہاں لوگوں کے پھیپھڑوں پر راج کرتا ہے اور اس جراثیم کے سامنے تمام دوائیں ہاتھ باندھے کھڑی ہیں۔

2006 کے بعد سے بھارتی سرکار نے ایک اسکیم شروع کررکھی ہے جس کے تحت ملک بھر میں ٹی بی کی ادویات فراہم کی جاتی ہیں ، لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ مریض ہفتے میں تین بار متعلقہ کلینک ، اسپتال یا کسی بھی سرکاری طبی مرکز میں جائیں۔ ایسے افراد جو دیہاڑی مزدوری کرتے ہیں ، ان کے لیے اس کا مطلب ہے روزگار سے محرومی۔

روزگار سے محروم ہونے کی وجہ سے وہ بھوک کا بھی شکار ہوتے ہیں۔ٹی بی کے خلاف مہم ’’آپریشن آشا‘‘ کے اعدادوشمار کے مطابق بھارت کی شہری کچی آبادیوں میں کم از کم ایک تہائی ٹی بی کے مریض علاج کی سفارش کردہ چھ ماہ کی مدت پوری نہیں کرتے یا کسی وجہ سے کر نہیں پاتے اور ادویات لینا بیچ میں ہی چھوڑ دیتے ہیں۔یاد رہے کہ ٹی بی کے نئے مریضوں کو چھ ماہ تک چار قسم کی ٹی بی کی ادویات کا مجموعہ لینے کی سفارش کی جاتی ہے جس میں پہلے دو ماہ شدید نگہداشت اور نگرانی کے ہوتے ہیں جبکہ اگلے چار ماہ احتیاط سے دوا لینے کو کہا جاتا ہے۔

چھ ماہ تک باقاعدگی سے دوائیں لینا ٹی بی کے علاج کے لیے بنیادی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔اگر ان دواؤں کا کوئی اثر نہیں ہوتا اور ان میں دواؤں کے خلاف مزاحمت کا پتہ چلتا ہے تو انھیں صف دوئم کی زیادہ طاقتور دوائیں دی جاتی ہیںجو انتہائی زہریلی ہوسکتی ہیںاور ان کا دوسال تک لینا لازمی ہوسکتا ہے۔اگر مریض یہ بھی چھوڑدیتا تو جراثیم اور زیادہ طاقتورہوجاتا ہے۔

مریضوں کی حالت۔۔۔۔۔
یہ جون کی ایک گرم صبح تھی اور ہیلتھ ورکر شلپا کمبلے امبوواڑی کی ٹیڑھی میڑھی گلیوں میں آگے بڑھ رہی تھی۔اس کے آس پاس بکریاں اور دیگر جانور کوڑے کے ڈھیروں پرمنہ مار رہے تھے اور خوانچہ فروش ریڑھیوں ٹھیلوں پر کھانے پینے کی اشیاء بیچ رہے تھے۔شلپا ایک خستہ حال گھر کے باہر رکی جس پر ایک میلا کچیلا سا ٹاٹ کا پردہ داخلی دروازے کا کام دے رہا تھا۔ممبئی اور دیگر شہروں میں بھارتی حکومت نے این جی اوز کے ساتھ مل کر مریضوں کو ٹی بی کی ادویات پہنچانے کا منصوبہ بنایا ہوا ہے۔شلپا بھی ایسی ہی ایک این جی او کی کارکن ہیں جو ٹی بی کے مریضوں کو فراہم کی جانیوالی ادویات اوران کے نتائج کا ریکارڈ رکھتی ہے۔

شلپا جس مریض کو دیکھنے جارہی تھی ، اس کانام نسیم محمد تھا۔ وہ اپنے سیلن زدہ اورہوا سے محروم کمرے میں بیٹھا تھا ۔ شلپا نے اس سے حال چال پوچھا تو اس نے بہت مشکل سے بات کی۔اس کی آنکھوں سے پانی بہہ رہا تھا اور وہ بار بار آنکھیں صاف کررہا تھا۔نسیم محمد گذشتہ پانچ ماہ سے حکومت کی فراہم کردہ ٹی بی کی ادویات لے رہا تھا لیکن اسے ان سے کوئی افاقہ نہیں ہورہا تھا۔

اس کی بیوی حسیب النساء شیخ نے بتایا کہ وہ ہلنے جلنے کے قابل بھی نہیں۔زیادہ تر وہ سوتا ہی رہتا ہے۔آس پاس کے لوگ انھیں کھانے پینے کے لیے دے دیتے ہیں کیونکہ نسیم کام کرنے کے قابل نہیں۔ دونوں میاں بیوی خطرناک حد تک کمزور اور سوکھے تھے۔ رپورٹ کے مطابق دونوں میاں بیوی ٹیسٹ کی رپورٹوں کا انتظار کررہے تھے تاکہ پتہ چل سکے کہ کہیں نسیم مزاحمت والی ٹی بی میں مبتلا تو نہیں تھا۔ اس میں ایک ہفتہ باقی تھا اور اس دوران اگر کوئی بھی نسیم محمد کے ساتھ رابطے میں آتا تو وہ بھی بیماری میں مبتلا ہوسکتا تھا۔

2011ء کے اواخر میں جب ممبئی کے ہندوجہ اسپتال میں مزاحمت والی ٹی بی کا پہلا کیس سامنے آیا تھا تو حکومت نے اس پر ناراضگی کا اظہار کیا تھا کہ اس سے ملک میں خوف وہراس پھیل جائے گا لیکن آخرمرکزی حکومت نے اس حقیقت کو تسلیم کرلیا اور قومی ٹی بی پروگرام کے بجٹ کو دوگنا کر دیا۔ اب بھارت کے 662 اضلاع میں 529 طبی مراکز میں مزاحمت والی ٹی بی سے نمٹنے کے لیے ادویات موجود ہیں۔ کم ازکم کاغذات میں تو یہی لکھا ہے۔گذشتہ سال حکومت نے اعلان کیا کہ اس سال مارچ تک پورے ملک کو کور کرلیا جائے گا۔ممبئی کے ڈپٹی ہیلتھ آفیسر منی کھیترپال کا کہنا ہے کہ انھیں یقین ہے کہ ایک سال تک حالات میں کچھ بہتری آئے گی۔

دیہاتوں کا کیا بنے گا ؟
جہاں تک بڑے شہروں جیسے ممبئی کا تعلق ہے تو وہاں ٹی بی میں مبتلا افراد کے پاس کئی آپشنزہیں۔یہاں پر سرکاری طبی مراکز کا ایک جال ہے جو بھرپور طریقے سے متحرک ہیں۔این جی اوز ، اسپتال اور لیبارٹریوں کی کوئی کمی نہیں اوراس بات کی بھرپور امید ہے کہ ٹی بی میں مبتلا افراد آخرکار اس کے سسٹم میں آجائیں گے لیکن دیہاتی علاقوں جس پر زیادہ تر بھارت مشتمل ہے ، وہاں صورت حال اچھی نہیں۔بھارت کی سب سے پسماندہ ریاست بہار کے صدر مقام پٹنہ کے ایک اسپتال میں تیس بستروں پر مشتمل ایک نیا وارڈ بنایا گیا ہے جو کہ مزاحمت والی ٹی بی میں مبتلا ا فراد کے لیے مخصوص ہے۔

یہ پٹنہ کے ان تین اسپتالوںمیں سے ایک ہے جہاں مزاحمت والی ٹی بی کے مریضوں کو علاج کی سہولت فراہم کی جارہی ہے۔ یہاں ایک بستر پر اٹھارہ سالہ شرمیلا سا لڑکا انیل کمار بھی دراز ہے۔اس کا باپ اس کے ساتھ ہے۔انیل کمار میں مزاحمت والی ٹی بی کی تشخیص ہوچکی ہے۔

اس کی تشخیص اس وقت ہوئی جب اس کی بہن کچھ عرصہ قبل ٹی بی کے باعث فوت ہوئی تھی۔اس کی بہن پرائیویٹ ڈاکٹروں سے علاج کراتی رہی لیکن کوئی افاقہ نہ ہوا اور آخر کار اس کی موت واقع ہوگئی۔اسپتال کے ایک ڈاکٹر اجے کمار سنگھ نے بتایا کہ لڑکے میں ٹی بی یقینی طورپر اس کی بہن سے منتقل ہوئی۔تاہم وہ اس لحاظ سے خوش قسمت ہے کہ بہن کے برعکس کم ازکم اس میں یہ تشخیص تو ہوئی کہ وہ مزاحمت والی ٹی بی میں مبتلا ہے۔

تاہم لاکھوں افراد ایسا کرنا نہیں جانتے کیونکہ وہ زیادہ پڑھے لکھے نہیں۔لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد حکومت کی خدمات پر اعتماد نہیں کرتی۔بہار تو ویسے بھی بھارت کی پسماندہ ترین ریاست ہے جہاں تعلیم کی شرح بہت کم اور جرائم پیشہ عناصر کا راج رہا ہے۔اس کا انفراسٹرکچر بھی بہت خراب ہے۔اگرچہ حالات میں کچھ بہتری ہوئی ہے تاہم اب بھی دوردراز کے دیہات نظرانداز ہیں۔مالی وسائل کی کمی اور دیگر رکاوٹیں اس کا سبب ہیں۔ بہار کے ایک دیہاتی محمد اسحاق نے بتایا کہ اسپتالوں میں ڈاکٹر توموجود ہیں لیکن وہ بھی لوگوں کو کہتے ہیں کہ پرائیویٹ ڈاکٹروں کے پاس جائیں۔اور نہ صرف بہار بلکہ اکثر بھارت میں لوگ ایسا ہی کرتے ہیں۔

عطائیوں کی چاندی۔۔۔۔
اس وقت بھارت میں فی ایک لاکھ افراد کے لیے ستاون ڈاکٹر ہیں جو کہ حکومت کے خیال میں کم تعداد ہے۔سندیافتہ ڈاکٹروں کے علاوہ بڑی تعداد ایسے لوگوں کی بھی ہے جو حکمت ، طب یونانی ،ہومیوپیتھی اور دیگر طریقوں سے علاج کرتے ہیں اور ان میں زیادہ تر عطائی ہیں۔ان عطائیوں کی نظر مریضوں کی صحت کے بجائے ان کی جیبوں پر ہوتی ہیں جنہیں وہ ہر صورت میں خالی کرنا چاہتے ہیں۔صورت حال یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ صاحب استطاعت لوگوں کے علاوہ ایسے افراد بھی پرائیویٹ ڈاکٹروں (یا عطائیوں)کو ترجیح دیتے ہیں جن کی جیب اس کی اجازت نہیں دیتی۔

یوں ان عطائیوں کی چاندی ہوجاتی ہے۔یہ عطائی اور جعلی حکیم اخبارات اور ٹی وی چینلز پر سستے اور گھٹیا اشتہارات کے ذریعے مریضوں کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں اور نہ صرف ان کی جیبوں کو خالی کرکے ان کے مالی نقصان کا باعث بنتے ہیں بلکہ ان کے مرض کو بھی بگاڑتے ہیں۔اصل میں مریضوں کی کوشش ہوتی ہے کہ سرکاری اسپتالوں میں لمبی قطاروں میں لگنے اورکئی کئی گھنٹے ضایع کرنے کے بجائے جھٹ سے پرائیویٹ ڈاکٹر یا ادھر ادھر سے علاج کرالیا جائے۔

اس طرح ایسے عطائیوں اور غیر سند یافتہ طبیبوں کو فائدہ ہوتا ہے جن کے پاس وہ مریض آتے ہیں جو سرکاری اسپتالوں میں جانا نہیں چاہتے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹی بی میں مبتلا افراد کے لیے یہ انتہائی ضروری ہے کہ وہ ناقص ادویات اورعطائیوں سے بچیں۔لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ ٹی بی غریبوں کی بیماری ہے جو مہنگے ڈاکٹروں کے پاس جانے کی سکت نہیں رکھتے اور عطائیوں سے رجوع کرکے خود کو اور زیادہ مریض بنا لیتے ہیں۔

بھارتی حکومت نے ایک منصوبہ یہ بھی بنارکھا ہے کہ سرکاری اسپتالوں کے علاوہ پرائیویٹ طبی مراکز میں بھی ٹی بی کی مفت ادویات فراہم کی جائیں۔اگر اس منصوبے پر اچھی طرح عمل کیا گیا تو ٹی بی اور مزاحمت والی ٹی بی کو پھیلنے سے روکنے کے لیے اس کے انتہائی اچھے نتائج برآمد ہوں گے۔لیکن اس پر اچھے طریقے سے عمل نہ کیا گیا تو وہی ادویات جو مریضوں کو مفت دی جائیں گی ، ان کے لیے زہر بن جائیں گے کیونکہ ان ادویات کو باقاعدگی سے نہ لینے اور کورس مکمل نہ کرنے کی صورت میں خدشہ ہوگا کہ ان کی عام ٹی بی مزاحمت والی ٹی بی میں تبدیل ہوجائے گی۔ڈاکٹر کھیترپال کا کہنا ہے کہ بھارت میں ٹی بی کے ساٹھ فیصد مریضوں کا علاج پرائیویٹ شعبے میں ہوتا ہے اور یہ شعبہ مکمل طورپربے ضابطہ (unregulated) ہے حتیٰ کہ ممبئی جیسے بڑے شہر میں بھی اس کو باضابطہ بنانا تقریباً ناممکن دکھائی دیتا ہے۔

ذکر پاکستان کا۔۔۔۔
عالمی طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت میں ٹی بی کے خلاف جو بھی اقدامات کیے جاتے ہیں، اس سے دنیا کی اس مہلک اور قدیم ترین بیماری کی روک تھام پر زبردست اثرات مرتب ہوں گے۔لیکن اس جنگ میں بھارت صرف واحد ملک نہیں ہے۔مزاحمت والی ٹی بی بیلاروس میں بھی پھیلی ہوئی ہے اور وہاں پر سرکاری حکام اس کو قابو میں کرنے کے لیے سرتوڑ کوششیں کررہے ہیں۔اس طرح روس اور یوکے کی جیلوں میں قیدیوں میں بڑے پیمانے پر مزاحمت والی ٹی بی کے واقعات سامنے آرہے ہیں۔رپورٹ میں پاکستان کا ذکر کرتے ہوئے لکھا گیا کہ پاکستان کے علاوہ دیگر ممالک میں بھی ٹی بی کے زیادہ سے زیادہ کیسوں کی تشخیص کو یقینی بنانے کے لیے پرائیویٹ شعبے کو ساتھ ملانا نہایت ضروری ہے۔

ہارورڈ یونیورسٹی کے ایک پروفیسر سلمان کیشوجی کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی پالیسی میں ٹی بی پر قابو پانے کے لیے سرکاری شعبے پر فوکس کیا گیا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ کینیڈا جیسے فلاحی ملک میں تو شاید یہ پالیسی چل جائے لیکن دنیا کے زیادہ تر ملکوں میں لوگ علاج کے لیے پرائیویٹ ڈاکٹروں کے پاس جاتے ہیں۔ لہٰذا اگر آپ نجی شعبے کو ساتھ نہیں ملاتے تو بیماری پر قابو پانا بہت مشکل ہے۔

بارہ ارب ڈالر سالانہ کا عالمی نقصان
عالمی ادارہ صحت کے مطابق ٹی بی کی بیماری دنیا کو سالانہ بارہ ارب ڈالر میں پڑتی ہے اوراس میں نصف حصہ بھارت اور چین کا ہے۔ ایسا پیداواری صلاحیت کم ہونے اور بیماری پر اخراجات کی وجہ سے ہوتا ہے۔اس وقت ٹی بی کو روکنے کے لیے کوئی درجن بھر ویکسینز پر تجربات کیے جارہے ہیں۔اس کے علاوہ نئے اور موثر ٹیسٹ بھی تیار کیے جارہے ہیں۔بھارت کے علاوہ مختلف ملکوں میں جین ایکسپرٹ نامی ایک مشین کا پہلے ہی استعمال کیا جارہا ہے جو مزاحمت والی ٹی بی کے حوالے سے رپورٹ ہفتوں کے بجائے گھنٹوں میں دے دیتی ہے۔

بھارت کے علاوہ دنیا کے بہت سے ملکوں میں ٹی بی اور ٹی بی کو مزاحمت والی بیماری میں بدلنے سے روکنے کے لیے زبردست کوششیں جاری ہیں۔ماہرین کا کہنا ہے کہ اس میں کامیابی پر پوری دنیا کی صحت کے مستقبل کا انحصار ہے۔صرف عام ٹی بی ہی ایک مہلک بیماری ہے لیکن اگر یہ مزاحمت والی ٹی بی میں بدل جائے تو اس کی ہلاکت خیزی دس گنا بڑھ جاتی ہے۔مزاحمت والی ٹی بی کے ساتھ ایک اور مسئلہ یہ بھی ہے کہ اگر اتفاق سے اس کا مریض صحت یاب ہوبھی جائے تو اس میں یہ بیماری ایک بار پھر سر اٹھاسکتی ہے۔

ایک زمانہ تھا کہ نمونیا ، طاعون اور ٹی بی کی وباؤںسے شہر کے شہر لپیٹ میں آ جاتے تھے۔پھر وقت آیا کہ ان بیماریوں پر قابو پالیا گیا۔ لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ اب مزاحمت والی ٹی بی کے آنے کے بعد یہ خطرہ پھر سراٹھا رہا ہے کیونکہ ٹی بی بہت تیزی سے پھیلنے والی متعدی بیماری ہے۔یہی وجہ ہے کہ علاقائی یا عالمگیر وبا بننے کی صورت میں یہ ایسی آفت بن سکتی ہے کہ لوگ ایڈز اور کینسر جیسی بیماریوں کی دہشت کو بھی بھول جائیں گے۔کسی بڑے بحران سے بچنے کے لیے دنیا بھر کی ریاستی حکومتوں اور متعلقہ حکام کو اس کے لیے فوری طور پر ٹھوس حکمت عملی اختیار کرنا ہوگی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔