مصروف لوگ اتنے بھی مصروف نہیں ہوتے

مدیحہ ضرار  ہفتہ 18 نومبر 2017
مصروف ہونے اور مصروف نظر آنے میں آسمان اور زمین کا فرق ہے۔ 
فوٹو: انٹرنیٹ

مصروف ہونے اور مصروف نظر آنے میں آسمان اور زمین کا فرق ہے۔ فوٹو: انٹرنیٹ

اکثر لوگوں سے رسمی طور پر حال احوال کے بعد جب سوال کیا جاتا ہے کہ آج کل کیا چل رہا ہے تو جواب ملتا ہے ’’بہت مصروف ہیں،‘‘ جیسے یہ جواب زبان پر چڑھ گیا ہو اور ایسے کسی بھی سوال پر منہ سے بے ساختہ، خود بخود نکل آتا ہو۔

لیکن اگر غور کیا جائے اور اپنے روز مرہ کے معمولات کو دیکھا جائے تو لوگ اتنے بھی مصروف نہیں ہوتے جتنی ہر وقت مصروف رہنے کی اداکاری کررہے ہوتے ہیں۔ بات کچھ تلخ ضرور ہے مگر حقیقت یہی ہے کہ مصروف رہنا یا مصروف نظر آنا آج ایک ’’اسٹیٹس سمبل‘‘ سمجھا جانے لگا ہے۔ اب تو کسی کے کام کی نوعیت اور اہمیت کا اندازہ بھی اسی معیار سے لگایا جاتا ہے، حالانکہ معیار کا تعین ان کی مصروفیت کی وجہ بننے والے کام کو دیکھ کر کیا جانا چاہیے کہ اس شخص نے اب تک زندگی میں کیا کچھ حاصل کرلیا ہے۔

اس موضوع پر میری بھی کئی لوگوں سے بحث رہی جس میں میرا نقطہ نظر یہ تھا کہ لوگ اتنے مصروف ہوتے نہیں جتنا ظاہر (Pretend) کرتے ہیں۔ چند روز قبل ایک میڈیکل سینٹر جانا ہوا۔ وہاں میرے علاوہ اور بھی مریض موجود تھے جو اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے۔ اتنے میں ایک ڈاکٹر صاحبہ کچھ دیر کےلیے چائے کا کپ تھامے ہوئے آئیں اور سکون سے بیٹھ کر اپنا موبائل دیکھنے لگیں۔ اسی دوران ان کے موبائل پر کال آئی، انہوں نے مخاطب سے تعارف لیا اور کسی دوائی کے متعلق بات کرنے لگیں۔ اختتام پر انہوں نے کالر کو رابطے میں رہنے کا کہا اور کال ختم کردی۔ میرے ساتھ بیٹھی ایک خاتون جو خود چیک اپ کےلیے آئی ہوئی تھیں، مجھے بتانے لگیں:

’’یہ ڈاکٹر بہت اچھی ہیں، اتنی سینئر پوسٹ پر ہونے کے باوجود مریض سے کال پر بات چیت کر لیتی ہیں اور مفید مشورے بھی دیتی ہیں۔ اکثر رپورٹس واٹس ایپ پر ہی چیک کرکے جواب دے دیتی ہیں اورمریضوں کا کلینک آنے کا خرچہ بچ جاتا ہے۔ ان کی سب سے اچھی بات یہ ہے کہ اگر اپنی مصروفیت کے باعث کبھی کال نہ لے پائیں تو موقع ملتے ہی واپس کال کرلیتی ہیں۔‘‘

خاتون کی باتین سن کر میں حیران نہیں ہوئی، کیونکہ میں نے خود ان سے متعدد بار کال اور واٹس ایپ پر بات چیت کر رکھی تھی۔ میرے مطابق وہ ’’مصروف ڈاکٹر‘‘ نہیں تھیں، کیونکہ میں نے انہیں مصروف ہونے کا ڈھونگ رچاتے (Pretend کرتے) نہیں دیکھا تھا۔ وہ اپنے کام کرنے کے طریقے اور عادات کے لحاظ سے ایک Productive شخصیت کی مالک تھیں، جن کے مقاصد میں ایک کامیاب ڈاکٹر بننے کے ساتھ ساتھ اپنے مریضوں کو مؤثر وقت دینا اور ان کےلیے آسانیاں مہیا کرنا شامل تھا۔

’’being busy‘‘ (مصروف رہنا) اور ’’productive‘‘ (اچھی اور نتیجہ خیز کارکردگی کا حامل ہونا) دو ایسی اصطلاحات ہیں جن کے بارے میں جاننا بہت ضروری ہے۔ مصروف رہنا ایک دلچسپ عمل ہے لیکن اپنی مصروفیت کا ڈھنڈورا پیٹنا ہماری تخلیقی صلاحیتوں کو مفلوج کرسکتا ہے کیونکہ جب ہم اپنے بارے میں ہر وقت یہ محسوس کرتے ہیں کہ ہم کتنے مصروف ہیں، تو ہمارے اندر ایک منفی احساس پیدا ہوتا ہے جو دماغی تناؤ میں اضافہ کا باعث بنتا ہے۔ ہماری توجہ ایک کام پر مرکوز رہنے کے بجائے بہت سے مختلف چھوٹے بڑے کاموں کو ایک ساتھ مکمل کرنے پر مبذول ہوجاتی ہے۔ ایسا مستقل کرتے رہنے سے بہت سارے کام ہمیشہ نامکمل یا پھر ’’آئندہ/ کل کرلیں گے‘‘ والی فہرست میں جمع ہوتے رہتے ہیں؛ اور صلاحیتیں بٹتی رہتی ہیں۔ کچھ عرصے بعد پتا چلتا ہے کہ ہم مصروف تو بہت تھے لیکن ہم نے بہت سے کام ادھورے چھوڑ رکھے ہیں، اور اپنی محنت سے اتنا کچھ حاصل نہیں کیا جتنے کا ذہن میں خلجان بپا کر رکھا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ مصروف لوگ ہروقت یہ جملہ کہتے پائے جاتے ہیں کہ ان کے پاس وقت بہت کم ہے لیکن productive لوگ اس جملے کی قید سے آزاد ہوتے ہیں اور کسی بھی اہم کام کےلیے آسانی سے وقت نکال لیتے ہیں۔

مصنف اسکاٹ برکون نے حال ہی میں اپنے بلاگز پر اس الجھن کا اچھی طرح سے خلاصہ کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ”جو لوگ ہمیشہ مصروف ہوتے ہیں وہ وقت کی کمی کا شکار رہتے ہیں، وہ وقت کے معاملے میں بہت غریب ہوتے ہیں اور وقت کا بہت سارا قرض ان کے ذمے واجب الادا ہوچکا ہوتا ہے۔ اس لیے وہ ایک وقت میں یا تو بہت کچھ کرنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں، یا پھر وہ کام نہیں کررہے ہوتے جسے وہ بہت اچھی طرح سے کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔‘‘

مصروفیت کی الجھن سے نکلنے کا سب سے آسان حل یہ ہے کہ اپنے اہداف (Goals) کو ایک صفحے پر لکھیے اور پھر درجہ بندی کرلیجیے کہ ان میں سے کون سے اہداف بہت زیادہ اہم ہیں، کون سے کم اہمیت کے حامل ہیں اور کون سے ایسے ہیں جنہیں مستقبل قریب پر چھوڑا جاسکتا ہے۔

البتہ ایک غلطی جو سب سے زیادہ دیکھنے میں آتی ہے، وہ ہمارے اہداف کا تعداد میں بہت زیادہ ہونا ہے، حالانکہ کاموں کو بحسن و خوبی نمٹانے کےلیے ایک وقت میں تین سے چار اہداف کی حد بہت ہوتی ہے۔

اہداف کی تحریری درجہ بندی کے بعد روز اپنے دماغ میں اس بات کو بار بار دہرائیے: ’’میں مصروف نہیں ہوں‘‘ اور اس جملے کو کئی بار اونچی آواز میں بھی کہیے، کیونکہ ایسا کرنے سے دماغ کی یادداشت سے وہ رٹا ہوا جملہ ’’ہم بہت مصروف ہیں‘‘ مٹنے لگے گا اور نئے جملے کی قبولیت پیدا ہو گی۔ اس سے کام کرنے کی صلاحیت بڑھے گی اور بہت سکون سے ایک کے بعد دوسرا کام آسانی سے مکمل ہونے لگے گا۔

اپنی بات کا اختتام اسکاٹ برکون کے ہی مشورے سے کروں گی جو مصروف رہنے کے کلچر سے بچنے کے بارے میں لکھتے ہیں:

’’میں جان بوجھ کر اپنے کیلنڈر کو بھرنے کی کوشش نہیں کرتا۔ میں ہر کام کو ’ہاں‘ کہنے سے گریز کرتا ہوں کیونکہ ایسا کرنے سے میں خود کو بہت مصروف کرلوں گا، جبکہ میں سمجھتا ہوں کہ یہ ہر وقت کی ’ہاں‘ میرے مقاصد پر بھی اثر انداز ہو گی۔ میں ہمیشہ اپنے اوقات میں سے کچھ وقت اپنے لیے خصوصی طور پر بچا کر رکھتا ہوں، جس میں میرے پاس آزادی ہوتی ہے کہ اس وقت کو کسی بھی طرح سے گزاروں۔ اکثر اپنے ساتھ اکیلے خالی الذہن تقریباً کوئی کام نہ کرکے بھی گزار لیتا ہوں۔‘‘

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

مدیحہ ضرار

مدیحہ ضرار

مدیحہ ضرار ایک سوچ کا نام ہے جو ایک خاص زاویئے سے دیکھی گئی تصویر کے دوسرے رُخ کی عکاسی کرتی ہے۔ معاشرتی صورت حال کے پیش نظر انہیں مایوسیاں پھلانے سے سخت الرجی ہے۔ وہ سمجھتی ہیں کہ قلم میں اتنی طاقت ہے کہ وہ سوچ اور امید کے ساتھ سمت کا بھی تعین کر دیتی ہے۔ ان کی سوچ کو فیس بک پر madhe.aden@ سے مزید پرکھا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔