معیشت کے چند سادہ حقائق

علی احمد ڈھلوں  جمعـء 17 نومبر 2017
ali.dhillon@ymail.com

[email protected]

آج ملکی سیاسی گہما گہمی، لوٹے بازیوں، نئی دھڑے بندیوں اور سیاسی قائدین کی عدالتوںمیں پیشیوں کے باوجود سوچا کہ کیوں نہ ملکی معیشت پر ہی قلم اٹھایا جائے کیونکہ اسٹیٹ بینک کی سہ ماہی رپورٹ میرے سامنے پڑی ہے اور دل کر رہا ہے کہ بقول مرزا غالبؔ

حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں
مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو مَیں

2013ء میں موجودہ حکومت کے آتے ہی جب معیشت دانوں نے ملکی معیشت کے حوالے سے آنے والے دنوں میں درپیش خطرات کا اندیشہ ظاہر کرنا شروع کیا تو بہت سے ناقدین، حکومتی رفقاء اور چند یار لوگوں (صحافیوں)نے کہا کہ حکومت کو وقت دیا جائے اور 5 سال پورے کرنے دیے جائیں، پھر ہی کوئی تبصرہ کیا جائے یا کوئی رائے قائم کی جانی چاہیے تاکہ حکومت کی معاشی پالیسیوں اور نام نہاد ’’حکمت عملیوں‘‘ کے درمیان کسی قسم کی کوئی رکاوٹ پیدا نہ ہو۔ وقت گزرتا گیا جو نہی نیا مالی سال آتا تو نئے قرضوں کی نوید سنا کر یہ کہہ دیا جاتا کہ معیشت سنبھل رہی ہے، فلاں پراجیکٹ کے لیے قرضے لیے جا رہے ہیں جو جلد ہی واپس کر دیے جائیںگے، بہرحال ان پالیسیوں کے ’’تسلسل‘‘ کے ثمرات آج یہ ملے کہ ہم نے آج کئی ایک ’’ریکارڈ‘‘ توڑ ڈالے ہیں۔

مثلاََ تاریخ میں ایسا پہلی بار ہوا کہ وطن عزیز نے ایک ہی مالی سال میں 55 ارب ڈالر کی درآمدات کر لی ہیں اور پہلی بار اتنا زیادہ امپورٹ بل بن گیا ہے، اسی طرح 70 سال میں ایک بھی پانچ سالہ دور ایسا نہیں آیا جس میں ہماری برآمدات مسلسل گرتی چلی گئی ہوں، یعنی پہلی بار ہم نے 25 ارب ڈالر سے 18ارب ڈالر تک کا سفر کیا ہے۔ تاریخ میں پہلی بار ہمارا تجارتی خسارہ بڑھ کر 32ارب ڈالر پر جا پہنچا ہے اور مالی سال ختم ہونے تک یہ مزید بڑھ جائے گا۔ اور تاریخ میں پہلی بار ہی ایسا ہوا ہے کہ چند ماہ قبل اسٹیٹ بینک کے پاس 24 25ارب ڈالر ہونے کی نوید سنائی جا رہی تھی مگر آج  14 سے 15 ارب ڈالر کے قریب زرمبادلہ کے ذخائر رہ گئے ہیں۔ چند ماہ میں 10ارب ڈالر کی گراوٹ سے بڑا کوئی اور کارنامہ نہیں ہو سکتا۔

ان چودہ پندرہ ارب ڈالر سے سے ڈھائی سے 3ماہ کی درآمدات کی جا سکتی ہیں۔3 مہینے کے بعد کیا ہوگا، تیل، دالیں، کھانے کا تیل، مشینری وغیرہ کے لیے ڈالر کہاں سے آئیں گے؟ کیا ہم مزید قرضے لیں گے، جولائی اور اگست کے صرف دو مہینوں میں حکومت نے ایک ٹریلین روپے کے قرضے لیے ہیں۔ حکومتی اخراجات اور آمدن میں فرق جسے بجٹ خسارہ کہا جاتا ہے وہ حکومت کے کنٹرول سے باہر ہو گیا ہے، حکومت نے یہ خسارہ کم کرنے کے بارے میں جو اعدادوشمار بتائے تھے وہ غلط ثابت ہو چکے ہیں۔کہا یہ جاتا تھا کہ بجٹ خسارہ نیچے آ رہا ہے، اگر واقعی نیچے آ رہا ہوتا تو حکومت کو مزید قرضے لینے کی ضرورت نہ پڑتی۔

اب ہو گا یہ کہ تجارتی اور بجٹ خسارے کو پورا کرنے کے لیے ہمیںبے تحاشا قرضے لینے پڑیں گے۔ایک اندازے کے مطابق اگلے سال صرف سود کی مد میں 10ارب ڈالر ادا کر نا ہونگے جس کے لیے مزید قرضے لینے پڑیں گے۔ اب حالت یہ ہو چکی ہے کہ قرضوں کی واپسی اور سود کی ادائیگی کے لیے قرضے لیے جا رہے ہیں۔مستقبل میں جو نظر آرہا ہے، وہ یہی ہے کہ ہم قرضوں کے جال میں پھنس جائیںگے جس سے نکلنا بہت مشکل ہو گا۔

آج صدر پاکستان کہہ رہا ہے کہ نہ کوئی ڈیم بنا، نہ کوئی بڑا پراجیکٹ سامنے آیا، تو یہ اربوں ڈالر کا قرضہ کس چیز کے لیے لیا گیا، گورنر اسٹیٹ بینک بجا طور پر فرما رہا ہے کہ ملک میں ڈی انڈسٹریلائزیشن ہورہی ہے۔یہ ہمارے ملک کا المیہ رہا ہے کہ ہم نے پاکستان میں پیداواری عمل بڑھانے کے لیے کوشش ہی نہیں کی اور صرف کنزومرازم کی جانب اپنے قدم بڑھائے رکھے۔ اس لیے اگر بچی کھچی صنعتوں کے بند ہونے کا عمل جاری رہا تو پاکستان کا تجارتی اور مالی خسارہ اپنی حدود کراس کر جائے گا۔ اس لیے اگر حکومت معاشی ترقی کا دعویٰ کرتی ہے تو صنعتوں کو ترقی دینے اورپیداواری عمل بڑھانے کی جانب توجہ مبذول کرنا ہوگی۔

آج پاکستان میں مہنگائی کی شرح 5 فیصد تک جا پہنچی ہے جب کہ پاکستان کے قرب و جوار میں موجود ملکوں میں مہنگائی کی شرح تھائی لینڈ 0.48 فیصد، سنگاپور میں 1.5فیصد، چائنا میں 2.2 فیصد بھارت میں 2.18 فیصد، مالدیپ میں 2.8 فیصد اور نیپال میں 3.4 فیصداور ملائشیاء میں 3.5 فیصد ہے۔ میں نہ تو کوئی معیشت دان ہوں اور نہ ہی کوئی سیاستدان ہوں، بلکہ اپنے تئیں ہلکی پھلکی تحقیق سے بالکل سیدھے سادے حساب کتاب بتا رہا ہوں ۔

قارئین کو یاد ہوگا کہ موجودہ حکومت نے اقتدار سنبھالتے ہی 28جون 2013ء کو تقریباً800ارب کے گردشی قرضوں کی مد میں خزانے سے 480ارب روپے آئی پی پیزکودینے کا اعلان کیا تھا، اب گردشی قرضے دوبارہ 800 ارب روپے سے تجاوز کرگئے ہیں۔

پاکستان میں زراعت کے لیے پانی کی شدید قلت، 80 فیصد آبادی پینے کے صاف پانی سے محروم۔ پاکستان دودھ سمیت تقربیاً تمام اجناس درآمد کرنے پر مجبور، 9 سال میں کوئی ایک ڈیم نہیں بننے دیا گیا اور انڈیا کے پاکستانی دریاوؤں پر ڈیموں پر مکمل خاموشی، انڈیا جب چاہے پاکستان کا سارا پانی روک سکتا ہے۔ ریلوے تباہ، موٹر ویز گروی، دوران جنگ ریلوے اس قابل نہیں رہی کہ  بڑے پیمانے پر فوجی نقل و حمل کے لیے استعمال ہو سکے جب کہ موٹرویز جن عالمی مالیاتی اداروں کے پاس گروی رکھے جانے کی خبریں ہیں وہ عدم ادائیگی پر اس کو جنگی مقاصد کے لیے استعمال نہیں کرنے دینگے۔

بہرکیف یہ وہ چند سادہ سے حقائق ہیں ۔ ہمارے ارباب اختیار کوسنجیدگی کے ساتھ اپنے ملک کے وسائل کوسامنے رکھتے ہوئے زبانی جمع خرچ کے بجائے ایسے اقدامات اٹھانے چاہئیںجو ملک کے مفاد میں ہوں جس کی وجہ سے ملک کی صنعتوں کا پہیہ چلے، پیداواری عمل شروع ہو اور پاکستان کی معیشت ترقی کرے کیونکہ پاکستان کی معیشت کی نمو ہوگی تو تب ہی پاکستان کی نشوونمااور ترقی ہوگی۔ورنہ تباہ شدہ معیشت پر صرف نوحہ ہی پڑھا جا سکتا ہے!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔