الفاظ کی جنگ میں اضافہ مگر۔۔۔۔؟

انیس باقر  جمعـء 17 نومبر 2017
anisbaqar@hotmail.com

[email protected]

سیکڑوں شہزادوں پر مشتمل افہام و تفہیم پر قائم سعودی حکومت میں جب سے تبدیلی آئی اور کراؤن پرنس محمد بن سلمان کو دینے کے لیے شہزادہ نائف سے اختیارات لے لیے گئے۔ تب سے گزشتہ جون سے اندرونی کشمکش اور محلاتی چپقلش کا آغاز ہوگیا، کیونکہ کراؤن پرنس محمد بن سلمان نے اپنے نئے خیالات کا اظہار جس انداز میں کیا اس کی تفصیل الجزیرہ کے ایک کالم نگار حامد الباشی نے ان الفاظ میں کی کہ ’’وہ دن دور نہیں جب سیکولر ازم ایک قریب کے عرب ملک میں آنے کو ہے‘‘ کیونکہ کراؤن پرنس نے فرمایا کہ اب سعودی حکومت سے قدامت پرستی جلد رفوچکر ہوجائے گی۔

بقول کراؤن پرنس کے سعودی قدامت پرستی ایران کے اسلامی انقلاب جو آیت اللہ خمینی نے برپا کیا تھا اس کا ردعمل تھا اور اب اسلام کا اعتدال پسندانہ رخ لوگ دیکھ سکیں گے اور اسی پر عمل درآمد ہوگا۔ ہر مذہب اور فرقے کو اپنے عقائد کی آزادی ہوگی اور اس کا اطلاق دیر نہیں جلد ہوگا۔ ظاہر ہے فوری طور پر ایک نیا طرز عمل لوگوں کے لیے چونکا دینے والا تھا ۔کیونکہ قدرت کے کارخانوں میں ہر چیزکو بتدریج نافذ کیا گیا ہے۔ صبح کے بعد فوری طور پر رات نہیں آتی بلکہ صبح کے بعد دوپہر، شام اور ہر لمحہ سورج غروب آفتاب کی راہ پر یہاں اورکہیں اور انتظام صبح میں مصروف ہے۔ فوری طور پر اس کا ردعمل تو جس کی توقع کا اظہار الجزیرہ کے صحافیوں نے کیا تھا۔

واضح ہوتا جا رہا ہے اورکرپشن کے الزام میں گرفتاریوں کے سلسلے جاری ہیں مگر ان گرفتاریوں کا انجام کیا ہوگا،اس کے متعلق کچھ کہنا قبل ازوقت ہے، مگر یہ بات ضرور وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ اتنی بڑی تعداد کو قتل گاہ کا سامنا نہیں کرایا جاسکتا۔ کیونکہ بڑی سیاسی کشمکش کا یہ پیش خیمہ بن سکتا ہے۔ یہ فیصلہ تو صاحبان امر ہی  کرسکتے ہیں۔

البتہ امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور اسرائیلی وزیراعظم ناتن یاہو نے کراؤن پرنس کی بھرپور حمایت کی ہے جب کہ ناتن یاہوکو اسرائیلی تھنک ٹینک کے بعض عہدیداروں نے مسلم دنیا میں خلفشار پیدا کرنے کے لیے سنی شیعہ عقائد کو تصادم کی شکل میں لے جانے کی ضرورت پر زور دیا ہے اور لبنان کے سعدالحریری کے مستعفی ہونے کے وقت کو ایک سنہری موقعہ قرار دیا ہے۔ بقول الجزیرہ کے تھنک ٹینک کے اس سربراہ کا نام (Jaff Halper) جیف ہالپر ہے اس طرح اگر سعودی اور ایران جنگ شروع ہوگی تو مسلم امہ مکمل طور پر تقسیم ہوجائے گی۔ الفاظ کی جنگ تو شروع ہوچلی ہے اور کراؤن پرنس اس میں مزید اضافہ فرما رہے ہیں۔

سعودی عرب نے ابھی بیان جاری کیا ہے جس میں سعودی باشندوں کو خبردارکیا گیا ہے لبنان کو فوری طور پر چھوڑ دیں، صورتحال کی سنگینی یہ بتا رہی ہے کہ زیادہ دیر تک الفاظ کی جنگ نہیں چلتی آخر کار گتھم گتھا ہونا ہی انجام ہوتا ہے۔ آئیے جنگ کے لوازمات پر تھوڑی دیر گفتگو کرلیتے ہیں کہ کس طرح لبنان میں جنگ کے امکانات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ایک طرف لبنان کے صدر مائیکل عون اور لبنان کے اسپیکر ہم زبان ہوکر کہہ رہے ہیں کہ لبنانی وزیر اعظم جو گزشتہ دنوں سعودی عرب کے دورے پر تھے ان کا دورہ سعودی عرب کے درمیان مستعفی ہوجانا کسی طرح بھی آئینی حیثیت کا حامل نہیں ہے۔ ان کو پہلے لبنان آنا چاہیے اور اپنے ملک میں آکر استعفیٰ دینا چاہیے۔

اس طریقے سے یہ لگتا ہے کہ وہ سعودی دباؤ کے تحت ایسا کرنے پر مجبور ہوئے ہیں اور استعفی اسرائیل اور سعودی دباؤ کا نتیجہ ہے۔ پھر اب تک یہ معلوم نہیں کہ سعدالحریری کہاں ہیں ایسا لگتا ہے کہ وہ سعودی عرب میں کسی نامعلوم مقام پر ہیں ایسی صورت میں اسرائیلی تھنک ٹینک کا جو خیال تھا کہ شیعہ سنی مسالک میں عالمی پیمانے پر جنگ شروع ہوسکے گی اس کے امکانات تو ختم ہوگئے۔ کیونکہ یہ مسئلہ خود لبنان میں کنفیوژن کا شکار ہوگیا جیساکہ لبنان کے آئین کے تحت صدر کرسچن، وزیر اعظم سنی العقیدہ مسلم اور اسپیکر شیعہ ہونا چاہیے تو ایسی صورت میں فرقہ پرستی کی آگ بھڑکانا آسان نہیں ہے جب کہ اسرائیل اس فتنہ پرستی میں کلیدی کردار ادا کر رہا ہے اور 12 نومبر کو اسرائیل نے لبنانی بارڈر پر فائرنگ کی جس میں ایک لبنانی سپاہی زخمی ہوا جس پر صدر مائیکل عون اور اسپیکر نصراللہ نے 2006ء کے معاہدے کی خلاف ورزی پر یو این کو مطلع کیا۔

اس طرح نصراللہ اور مائیکل عون ایک پیج پر آگئے اور سعودی کراؤن پرنس منطقی طور پرکمزور دکھائی دیتے ہیں۔ ایک اور اہم بات کہ سعدالحریری کی لبنان واپسی نہ ہونے کی وجہ کو مائیکل عون نے اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا ہے کہ سعد الحریری کو بازیاب کرایا جائے چونکہ یہ عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ صورتحال عالمی پیمانے پر تبدیل ہو رہی ہے۔ گزشتہ دنوں بعض ایسے ممالک جو حلب کی جنگ میں خاموش تھے۔ جیساکہ الجزائر وہ اب اپنی خاموشی کو توڑتے ہوئے بولا کہ سعودی عرب نے اور ان کے اتحادیوں نے شام، لیبیا اور یمن کی جنگ میں خطیر رقوم خرچ کر بیٹھے ہیں۔ ان میں الجزائر کے وزیر اعظم احمد اویحییٰ نے اپنے حالیہ بیان میں جو انکشافات کیے ہیں وہ قابل حیرت ہیں۔ بقول ان کے جو حملہ لیبیا، شام اور یمن پر کیا گیا دراصل انتہا پسندی اس کے اہداف تھے۔ اس جنگ پر 130 بلین ڈالر سے زائد کی رقم خرچ کی گئی اور مسلم امہ کا جانی اور مالی نقصان اس کے علاوہ ہوا ہے۔

خدانخواستہ اسرائیل کی لگائی ہوئی آگ منصوبہ بندی اور فتنہ پروری لبنان کی سرزمین پر پھیل گئی تو یہ اس سے زیادہ تباہ کن ہوگی جو شام کی جنگ تھی، لیکن اس جنگ کی آگ کے بھڑکنے کے آثار کم ہیں۔ کیونکہ لبنانی صدر عون نے فرقہ واریت کی آگ کو ٹھنڈا کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ وہ شیعہ، سنی، کرسچن کسی تصادم میں ملک کو نہیں ڈالنا چاہتے بلکہ وہ لبنانی قومیت کے دھارے میں ملک کو متحد رکھنا چاہتے ہیں اور سعدالحریری بھی ملک میں جنگ کی آگ کو بھڑکانا نہیں چاہتے تھے بلکہ وہ کراؤن پرنس سعودی عریبیہ کے کہنے پر عمل درآمد نہیں کرنا چاہتے تھے جو مہم جو شہزادے ہیں اور سعودی عرب میں مذہبی آزادی کے لیے نعرہ زن ہیں، مگر امریکا اور اسرائیل سے ان کی شان میں قصیدے پڑھے جا رہے ہیں۔

اسرائیل کی فتنہ پروری یہ ہے کہ کسی طرح لبنان کی جنگ بھڑک جائے تاکہ سعودی عرب نے جو اسلحے کا انبار خریدا ہے وہ خرچ بھی ہو جائے اور فرقہ وارانہ عالمی تصادم دونوں فرقوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے میں سنگ میل ثابت ہو اور اس طرح اسرائیلی تھنک ٹینک کا نشانہ صحیح مقام پر لگ سکے۔ مگر پیر 13 نومبر کو سعدالحریری نے سعودی عرب سے ایک بیان نشر کیا جس میں انھوں نے کہا کہ وہ سعودی حکومت میں خیریت سے ہیں اور چند دنوں میں اپنے ملک لوٹ رہے ہیں۔ اس طرح جنگ کے امکانات کو شدید جھٹکا لگا ہے اور اسرائیلی تھنک ٹینک اپنی حیلہ سازی میں ناکام ہوگیا ہے البتہ یمن کی جنگ ایک فیصلہ کن موڑ پر پہنچ رہی ہے۔

کیونکہ امریکی کانگریس اور لیبر پارٹی برطانیہ کی جانب سے یمنی جنگ کے خلاف آوازیں اٹھنے لگی ہیں اور عالمی رائے عامہ سعودی اتحادیوں کی بے دریغ بمباری سے ہزاروں معصوم لوگوں کی اموات اور یمن کی چاروں طرف سے ناکہ بندی کی وجہ سے بھوک نے لوگوں کے ضمیر پر چوٹ لگانی شروع کردی ہے اور یو این او میں بھی اس موضوع پر قراردادیں منظرعام پر آنے لگی ہیں۔ جس سے مشرق وسطیٰ میں امن کی امیدیں بڑھ گئی ہیں اور سعدالحریری کی لبنان واپسی نے امن کی امیدوں کو مضبوط ترکردیا ہے البتہ لبنانی وزیر اعظم کی سیاسی پارٹی فیوچر (مستقبل) کو خاصا نقصان پہنچا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔