پاکستان کا نیا جرم؟

تنویر قیصر شاہد  جمعـء 17 نومبر 2017
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

کوئی 20ماہ قبل پاکستان نے کلبھوشن یادیو نامی ایک بھارتی جاسوس کو رنگے ہاتھوں گرفتار کیا تھا۔ وہ ایران سے بلوچستان میں داخل ہُوا تھا۔ اُس کا تعلق انڈین نیوی سے ہے اور گرفتاری کے وقت بھی وہ بھارتی بحریہ کا حاضر سروس افسر تھا لیکن بھارتی خفیہ ادارے ’’را‘‘کے تحت پاکستان مخالف کارروائیوں میں ملوث تھا۔

وہ جعلی مسلمان نام (حسین مبارک پٹیل) والے جعلی پاسپورٹ پر پاکستان کی حدود میں داخل ہُوا تھا۔اُس نے ویڈیو ریکارڈنگ میں بڑے اعتماد کے ساتھ اقرار اور اعتراف کیا کہ اُس کی نگرانی میں خاصے عرصہ سے پاکستان، خصوصاً بلوچستان اور سندھ، میں دہشتگردی، قتل وغارتگری، پاکستان کی فوجی تنصیبات کے خلاف اور اغوا کاری کی لاتعداد وارداتیں کی جارہی تھیں۔

پچھلے ڈیڑھ سال سے پاکستان میں ہر جگہ اس ملعون اور دشمنِ پاکستان بھارتی جاسوس، کلبھوشن یادیو، کا نام گونج رہا ہے۔ اُس کی گرفتاری کے تیرہ ماہ بعد پاکستان کی ایک فوجی عدالت نے اُس کے خلاف سزائے موت کا فیصلہ سنا دیا۔ اُسے مگر ہنوذ پھانسی کے پھندے پر لٹکایا نہیں گیا ہے،  حالانکہ پاکستانیوں کی اکثریت اُسے فوری طور پر پھانسی دینے کا مطالبہ کررہی ہے۔ قانون اور مصلحت کے بھی مگر اپنے تقاضے ہوتے ہیں۔

ایک بات مگر ہر پاکستانی نے کہی ہے کہ اگر اِس پائے کا کوئی پاکستانی رنگے ہاتھوں بھارت میں گرفتار ہوجاتا تو بھارت کب کا اُسے تہاڑ جیل میں پھانسی دے کرجیل کے اندر ہی دفن کر چکا ہوتا۔ بھارت کلبھوشن یادیو کا کیس عالمی عدالت انصاف(ICJ)میں لے گیا ہے۔ 11نومبر2017ء کو پاکستان نے انسانی ہمدردی کی بنیادوں (Humanitarian Grounds) پر بھارت کو پیشکش کی ہے کہ کلبھوشن کی بیوی اُسے جیل میں ملنے آسکتی ہے۔اِسے شکرئیے کے ساتھ قبول کرلینا چاہیے تھا۔

پاکستان کی طرف سے مگر یہ آفر سامنے آنی تھی کہ بھارتی حکومت اور بھارتی میڈیا نے پاکستان کے خلاف آسمان سر پر اُٹھا لیا۔ یہ کہا گیا ہے کہ پاکستان نے عالمی دباؤ اور بھارت کی طاقت سے مرعوب ہو کر اچانک یہ پیشکش کی ہے۔ اس سلسلے میں مجھے بھارت کے کئی اخبارات پڑھنے اور ٹی وی چینلز دیکھنے کے مواقع میسر آئے ہیں۔ سب بیک زبان یہی راگ الاپ رہے ہیں کہ پاکستان کلبھوشن کے معاملے میں آخر کار عالمی دباؤ کے سامنے سرنگوں ہو گیا ہے اور یہ اس امر کا بھی اشارہ ہے کہ بھارت عالمی عدالت میں زیرِ سماعت کلبھوشن کا مقدمہ جیت جائے گا۔

بھارتیوں نے سوال اُٹھایا ہے کہ جب ہم یہ کہہ رہے تھے کہ کلبھوشن کی والدہ(اونتیکا یادیو) کو ملنے کی اجازت دی جائے تو اُس وقت پاکستان نے اجازت دینے سے کیوں انکار کیا تھا؟ یہ شور اتنے بلند آہنگ سے کیا گیا ہے کہ یوں محسوس ہونے لگا جیسے انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر کی گئی یہ پیشکش پاکستان کا نیا جرم ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ پاکستانی عوام نے کلبھوشن یادیو ایسے دشمنِ پاکستان بھارتی جاسوس کی بیوی کو ملنے کی اجازت دینے کی پیشکش کو پسند نہیں کیا ہے۔

وہ ہر صورت میں اس منحوس اور ملعون کو پھانسی کے پھندے پر جھولتے دیکھنا چاہتے ہیں۔ غصے اور افسوس کے عالم میں پاکستانی عوام نے بجا طور پر یہ سوال اُٹھایا ہے کہ کشمیری حریت پسند لیڈر مقبول بٹ اور افضل گرو کو جب، کسی بھی جرم کے بغیر، بھارت نے سزائے موت سنائی تو بھارت کی کسی بھی حکومت اور حکمران نے انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر ان معصوم کشمیریوں کی کسی بھی بیوی، بہن، والدہ، بھائی اور باپ کو ملنے کی اجازت نہیں دی تھی۔ نہ صرف یہ کہ اجازت نہیں دی بلکہ اُن کے پیاروں کو بتائے بغیر ہی دونوں کو پھانسی دے دی گئی اور انھیں دہلی کی تہاڑ جیل کے اندر ہی دفن کر دیا۔ ابھی تک اُن کے جسدِ خاکی وہیں دفن ہیں۔ پھانسی کے بعد بھی اُن کا منہ تک دیکھنے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔ معلوم نہیں انھیں کفنانے اور دفنانے میں اسلامی روایات کا خیال رکھا گیا تھا یا نہیں۔ آج تک اُن کے جسدِ خاکی کشمیر منتقل کرنے کی بھی کسی بھارتی حکومت نے اجازت نہیں دی۔ اور یہاں یہ حال ہے کہ پاکستان میں خون کی ندیاں بہانے اور دہشتگردی کے طوفان برپا کرنے والے بھارتی کلبھوشن یادیو کو انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر اہلیہ محترمہ سے ملنے کی، از خود، پیشکش کی جارہی ہے!!

ایک معروف بھارتی ٹی وی چینل، جو پاکستان دشمنی میں ہمیشہ پیش پیش رہتا ہے، نے یہ درفنطنی چھوڑی ہے کہ ’’چونکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی صاحبزادی، ایوانکا ٹرمپ، رواں ماہ کے آخر میں بھارت آرہی ہیں، اسلیے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے کلبھوشن یادیو کی بیوی سے ملنے کی اجازت دینے کا ’’ڈرامہ‘‘ رچایا ہے۔‘‘دو ممتاز بھارتی اخبارات نے اسی سلسلے میں پاکستان کے خلاف یاوہ گوئی کرتے ہُوئے لکھا ہے کہ ’’عالمی عدالتِ انصاف(ICJ) میں ایک نئے بھارتی نژاد ہندو جج (دلویر بھنڈاری) کا انتخاب عمل میں آرہا ہے؛ چنانچہ پاکستان کو خدشہ ہے کہ اس جج کی آمد سے وہ عالمی عدالت میں گئے کلبھوشن کا مقدمہ ہار جائے گا، اس لیے ’’فیس سیونگ‘‘ اور ’’حفظِ ماتقدم‘‘ کے طور پر پاکستانی حکومت نے کلبھوشن یادیو کی بیوی کو ملنے کی اجازت کا اچانک اور غیر متوقع اعلان کر دیا ہے۔‘‘یوں محسوس ہوتا ہے جیسے پاکستان نے کلبھوشن کی بیوی کو ملنے کی بات کرکے واقعی کسی بڑے جرم کا ارتکاب کر ڈالا ہے۔

واقعہ مگر یہ بھی ہے کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی یہ زبردست خواہش ہے کہ وہ کلبھوشن یادیو کو کسی طرح آزاد کروا لیں۔ مودی بخوبی جانتے ہیں کہ اگر وہ یہ معرکہ سر کرلیتے ہیں تو وہ2019ء کا الیکشن صرف اِسی کامیابی کی بنیاد پر جیت جائیں گے۔ مودی نے گزشتہ تین برسوں کے دوران ہر محاذ پر جس عیاری اور ہوشیاری سے پاکستان کا ناطقہ بند کرنے، گوادر بندرگاہ کے خلاف فضا تیار کرنے اور ہماری مشرقی و مغربی سرحدوں پر کشیدگی کا تسلسل قائم رکھنے کی مسلسل کوششیں کی ہیں، کلبھوشن کو اگر وہ رہا کروا لیتے ہیں تو یہ اُن کی غیر معمولی کامیابی ہوگی۔

یوں لگتا ہے جیسے نریندر مودی کی قیادت میں بھارت نے عزمِ صمیم کر رکھا ہے کہ پاکستان کی ترقی کا ہر راستہ مسدود کرنا ہے، پاک چین دوستی کو محدود سے محدود تر بنانا ہے اور امریکی خوشنودی کے لیے چین کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنی ہیں۔ ایک لحاظ سے دیکھا جائے تو بھارت کا یہ فیصلہ چین کے مفاد میں ثابت ہورہا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ بھارت کی شمال مشرقی ریاستوں میں بروئے کار علیحدگی کی درجن بھر تحریکوں کی وجہ سے وہاں سیکیورٹی کی جو بدترین صور ت پیدا ہو چکی ہے، اس پس منظر میں یہ منصوبہ ویسے بھی ناقابلِ عمل ہے۔

لاکھوں روہنگیا مسلمانوں کی بنگلہ دیش میں ہجرت کرجانے کے بعد بنگلہ دیش اور میانمار میں بد اعتمادی کی جو نئی فضا پیدا ہُوئی ہے، اس وجہ سے بھی یہ منصوبہ منڈھے نہیں چڑھ سکتا تھا۔ پھر بھارت جس جارحانہ انداز میں بنگلہ دیش اور میانمار پر کامل غلبے کا خواب دیکھ رہا ہے، یہ عنصر بھی BCIMکا شیرازہ بکھیر سکتا تھا۔

اس سب کے باوجود بھارت ’’سی پیک‘‘ کی مخالفت کرنے اور اِسے ممکنہ حد تک ناکام بنانے کی سازشوں اور کوششوں سے باز نہیں آرہا۔ اِس بارے میں تازہ ترین انکشاف افواجِ پاکستان کے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل زبیر محمود حیات نے کیا ہے۔

جنرل زبیر حیات نے 14نومبر2017ء کو اسلام آباد کے ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہُوئے کہا ہے کہ’’بھارت نے 2015ء ہی میں ’’را‘‘ کی نگرانی میں 500ملین ڈالرز کی خطیر رقم سے ایسا سَیل بنا دیا تھا جس کا واحد مقصد ہی یہ تھا کہ ’’سی پیک‘‘ منصوبے کو سبوتاژ کرنا اور ناکام بناناہے۔‘‘ایک معتبر اور ذمے دار شخصیت کی طرف سے یہ بیان آیا ہے۔ تو کیا اِسے محض بھارت مخالف پروپیگنڈہ قرار دے کر مسترد کردیا جائے؟ چین نے بھی تو ابھی کل ہی کہا ہے کہ بھارت ’’سی پیک‘‘ سے خوش نہیں ہے لیکن ہم اُسے سمجھانے کی کوشش کررہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔