فلسطین؛ استبداد و استقلال کی صدی

مبین مرزا  اتوار 19 نومبر 2017
آج بہت سے سوالات یورپ کے سیاسی و تہذیبی محققین اور صحافت سے وابستہ تجزیہ کاروں کی طرف سے اٹھائے جاتے ہیں۔ فوٹو : فائل

آج بہت سے سوالات یورپ کے سیاسی و تہذیبی محققین اور صحافت سے وابستہ تجزیہ کاروں کی طرف سے اٹھائے جاتے ہیں۔ فوٹو : فائل

معلومہ انسانی تاریخ میں قوموں، ملکوں اور تہذیبوں کو بڑے بڑے واقعات و حادثات پیش آئے ہیں۔

ایسے واقعات جن میں ظلم، جبر اور استبداد کا عمل اُس سفر کی نفی کرتا ہوا نظر آتا ہے، جسے تمدن کہا جاتا ہے، اور ایسے حادثات جن کی کوئی تشریح ممکن ہے اور نہ ہی جن کے لیے کسی طرح کوئی جواز پیش کیا جاسکتا، سوائے یہ کہ مان لیا جائے وہ انسانی تہذیب کے چہرے پر بدنما داغ کا درجہ رکھتے ہیں۔ بربریت کسی بھی عنوان سے ہو، بربریت ہی کہلائے گی۔ اس کے لیے وقتی طور پر کوئی آڑ لی جاسکتی یا اس پر پردہ ڈالا جاسکتا ہے، لیکن یہ ممکن نہیں کہ اس کی اصلیت سامنے نہ آئے، یا اُس کی حقیقت کا پردہ چاک نہ ہو۔

تاریخ نے کوئی بہت لمبی چوڑی مسافت طے نہیں کی اور ہزاروں برس نہیں گزارے، لیکن آج سیاسی، علاقائی، گروہی اور رنگ و نسل کے اختلاف سے قطعِ نظر اس حقیقت کو جھٹلایا نہیں جاسکتا کہ جرمن نازیوں نے اگر ظلم و جبر کا بازار گرم کیا تھا اور وہ ہولو کاسٹ تھا تو پھر افریقا کے نہتے سیاہ فام باشندوں کی براعظموں میں تجارت بھی ہولوکاسٹ تھی، امریکا کے مقامی باشندوں کے ساتھ جو کچھ تمدن کے نام پر کیا گیا، وہ بھی ہولوکاسٹ ہی کہلائے گا، اور 9/11 کے بعد کا منظرنامہ بھی دراصل ہولوکاسٹ ہی تو ہے، جس میں آسٹریلیا کے یہودی محقق Gideon Polaya کے بقول اب تک لاکھوں نہیں کروڑوں افراد موت کے گھاٹ اتارے جاچکے ہیں۔ تاہم فلسطین میں ہونے والی نسل کشی اور جبر و استبداد تہذیب و تمدن کی تاریخ میں اپنی مثال آپ ہے۔

ٹھیک سو برس پہلے یہی دن تھے (2 نومبر 1917ء) جب فلسطین کے باشندوں پر اچانک افتاد آپڑی تھی، اور وہ اپنے گھر، اپنی سرزمین پر آزاد اور خود مختار زندگی کے حق سے اچانک اور کچھ بتائے بغیر محروم کردیے گئے۔ اس کے بعد اُن کی باضابطہ نسل کشی کا آغاز ہوا۔ اُن کے قومی و تہذیبی ہی نہیں، انسانی حق تک کی نفی کی گئی، اور اُن کی مادرِ وطن پر دور دراز علاقوں میں آباد لوگوں کے تصرف اور اختیار کا اعلامیہ جاری ہوا۔ اُسی وقت سے یہ خطۂ ارض جبر استبداد کے پنجوں میں جکڑا ہوا ہے۔ صدی بھر پہلے جب یہ اقدام کیا گیا، اُس وقت بھلا کسے معلوم تھا کہ نسل کشی اور جبر و بربریت کے سارے حیلوں اور ہتھکنڈوں کے باوجود یہ خطہ اور اس کے باسی اپنی شناخت سے دست برداری پر سو سال بعد بھی آمادہ نہ ہوں گے۔ اس کے برعکس یہاں مقاومت، مزاحمت، اور استقلال کی حیرت انگیز اور چشم کشا تاریخ لکھی جائے گی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ظلم اور بربریت کے مکروہ چہرے پر سیاہی گہری سے گہری ہوتی جائے گی اور تہذیبی بقا کے چراغ جو دلوں میں روشن ہوئے تو پوری صدی کی فصیل پر مسلسل جگمگاتے چلے جائیں گے اور استعمار کی تند خو آندھی اُن کا بال بھی بیکا نہیں کرسکے گی۔

اُس وقت بظاہر تو ایسا ہی لگتا تھا کہ استعمار کار ظالم و جابر قوتیں جو خواب دیکھتی تھیں، اُس کے تعبیر میں ڈھل جانے کی راہ میں کوئی رکاوٹ ہی نہ تھی۔ اسی لیے تو صرف 67 انگریزی الفاظ پر مشتمل اعلامیہ جاری ہوا تھا۔ اصل میں تو یہ ایک یادداشت یا دستاویز تھی، لیکن اسے برطانوی دفترِ خارجہ نے ایک خط کی صورت میں جاری کیا تھا۔ یہ خط اُس دور کے بہت بڑے بزنس ٹائیکون لارڈ والٹر ڈی روتھس چائلڈ کے نام لکھا تھا جس میں کہا گیا تھا:

ہزمیجسٹی کی حکومت اِس مسئلے کو ہم دردی کی نظر سے دیکھتی ہے کہ یہودیوں کے لیے فلسطین میں قومی رہائش قائم کی جائے، اور اس مقصد کے حصول کے لیے وہ اپنے اعلیٰ وسائل کو بروے کار لائے گی۔ یہ بات واضح ہے کہ اس ضمن میں ایسے کسی بھی اقدام سے گریز کیا جائے گا جس سے فلسطین میں آباد غیریہودی باشندوں کے سماجی اور مذہبی حقوق متأثر ہوں، یا اُن کی وجہ سے کسی دوسرے ملک میں رہنے والے یہودیوں کے حقوق اور سیاسی حیثیت کو کوئی نقصان پہنچے۔

مختصر سے الفاظ میں جاری کی گئی یہ دستاویز اپنے مصنف کے نام سے ہی مشہور ہوئی اور ’’بال فور اعلامیہ‘‘ کہلائی۔ آرتھر بال فور اُس دور میں برطانیہ کا سیکریٹری خارجہ تھا۔ اِس اعلامیہ کے جاری ہونے سے پہلے اُس کی شہرت یہودیوں کے دوست کی حیثیت سے ہرگز نہیں تھی، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ اُن کے مخالف اور ناپسند کرنے والے لوگوں میں شمار کیا جاتا تھا۔ یہ سب سیاسی کھیل کی ایک چال تھی۔ اُس وقت یہ باتیں ڈھکی چھپی تھیں، لیکن آج صدی بھر کے فاصلے پر کھڑے ہوکر ہم دیکھتے ہیں تو ساری گرد چھٹ چکی ہے اور اس کھیل کے سارے مہرے اپنی اصل صورت اور ان کے اقدامات اپنی حقیقی معنویت کے ساتھ ہمارے سامنے ہیں۔ بال فور کی سیاسی اور منصبی حیثیت کو دیکھتے ہوئے روتھس چائلڈ نے اُس سے رابطہ کیا اور فرمائش کی کہ سرکارِ انگلشیہ جس کی سلطنت میں اگر ایک طرف سورج غروب ہوتا ہے تو دوسری طرف طلوع بھی ہوتا ہے، یعنی وہ کبھی روشنی اور حرارت سے محروم نہیں ہوتی، اُس کے ایک بااثر فرد کی حیثیت سے اُس کی برادری کے لیے فلسطین میں ایک قومی، یعنی اجتماعی رہائش کا بندوبست کرادے۔

بال فور ایک زیرک اور جہاں دیدہ شخص تھا اور اپنی سلطنت کا وفادار بھی۔ یہ پہلی جنگِ عظیم کے دن تھے۔ فرانس اور برطانیہ دونوں اچھی طرح اندازہ لگا چکے تھے کہ اب اپنے بل بوتے پر یہ جنگ نہیں جیتی جاسکتی۔ خاک چاٹنے سے بچنے کی صرف ایک صورت ہے کہ خارجی کمک حاصل کی جائے۔ امریکا، جس نے اُس وقت جنگ کا حصہ بننے سے انکار کردیا تھا، اب اُس کی مدد حاصل کیے بغیر چارۂ کار نہیں تھا۔ بال فور نے روتھس چائلڈ کی فرمائش پر ٹھنڈے دل سے غور کیا، اپنے کچھ ساتھیوں سے مشورہ بھی کیا اور اس نتیجے پر پہنچا کہ معاملہ ہوسکتا ہے اور بات آگے چلائی جاسکتی ہے۔ اُس نے روتھس چائلڈ سے تقاضا کیا کہ اگر وہ اور یہودی برادری کے دوسرے بااثر افراد امریکی حکومت کو اس امر پہ آمادہ کرلیں جنگِ عظیم میں جرمنی کے خلاف اُن سے تعاون کریں تو اُس کی فرمائش اور خواہش کی تکمیل ممکن ہے، یعنی سرکارِ انگلشیہ ان کے اس خواب کو شرمندۂ تعبیر کرسکتی ہے۔

سیاست کا کاروبار کچھ دو، کچھ لو کے اصول پر ہی چلتا ہے۔ بات طے پاگئی۔ 2 نومبر 1917ء کو جب یہ اعلامیہ جاری ہوا تو اِس کے بعد دو مہینے بھی پورے نہیں ہوئے تھے کہ برطانوی فوج نے یروشلم اور اس کے ملحقہ مقدس سرزمین کو اپنے قبضۂ قدرت میں لے لیا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب فلسطین سلطنتِ عثمانیہ کا حصہ تھا۔ تاہم آپس کے اختلافات، انتشار اور افتراق کا پانی اس سلطنت کی بنیادوں میں اِس درجے اُتر چکا تھا کہ تاریخ کے اوراق میں اپنی ترقی، خوش حالی اور استحکام کے روشن نشانات سے پہچانے جانے والی سلطنتِ عثمانیہ انہدام کے مراحل تیزی سے عبور کررہی تھی۔

بعض تجزیہ کار لکھتے ہیں کہ فلسطین میں یہودی آبادکاری کے ہدف کے حصول کے لیے ضروری تھا کہ اِس سے پہلے سلطنتِ اسلامیہ کے حصے بخرے کردیے جائیں۔ چناںچہ یہ عمل تو پہلے ہی سے شروع ہوچکا تھا، اور اس کے ذیل میں شرقِ اسلامی میں عراق، کویت اور اردن ریاستیں وجود میں آچکی تھیں اور حرمین شریفین پر آلِ سعود کا اقتدار قائم ہوچکا تھا۔ تجزیہ نگار اپنے اپنے زاویۂ نگاہ سے تاریخ، اُس کے عوامل اور حالات کی بدلتی، بنتی اور بگڑتی صورتوں کا جائزہ لیتے اور نتائج اخذ کرتے ہیں۔ زاویہ کوئی بھی ہو اور عمل و ردِعمل کی بنیاد خواہ کچھ بھی ہو، اتنی بات بہرحال طے ہے کہ بنیادیں ہلنے کے بعد تاریخ کی آنکھوں نے کسی تہذیب کے قلعے کو دیر تک کھڑا ہوا نہیں دیکھا۔ وقت نے ہمیشہ اُس سے کھلواڑ کی اور اس کے لیے زبانِ حال سے کہا:

جیسے دیوار پہ خود سایۂ دیوار گرے

بال فور ذہین آدمی تھا۔ اُس کی دور تک جاتی ہوئی نگاہوں نے اچھی طرح اندازہ لگالیا تھا کہ اہلِ فلسطین اور یہودیوں کے معاملے کی بنیاد محض ارضِ وطن کے ناسٹلجیا اور اس کی رومانویت پر منحصر نہیں ہے، بلکہ یہ مسئلہ دراصل مذہبی ٹکراؤ کا ہے۔ ایسے ہر ٹکراؤ میں کسی بھی وقت شدت پیدا ہونا اور معاملے کا بگڑ کر تباہ کن حد کو پہنچ جانا بالکل فطری بات ہے۔ وہ سمجھ سکتا تھا کہ ایسا ہر ٹکراؤ دراصل فریقین کے لیے حق و باطل یا خیر و شر کا مجادلہ قرار پاتا ہے۔ بال فور کو یہ موقع قسمت نے فراہم کیا تھا کہ وہ اپنے ماسبق اور مابعد دونوں ہی حریفوں کے لیے بہ آسانی اور بہ یک وقت تادیر برقرار رہنے والی آویزش کا میدان ہموار کرسکے۔

اُس کی عقل شاداں تھی کہ اس طرح وہ ’’یہودی فتنے‘‘ کا بیج یورپ کی سرزمین سے نکال کر فلسطین کی زرخیز مٹی میں بہ آسانی ڈال سکتا ہے۔ اپنے لوگوں کی مذہبی، قومی اور سیاسی خدمت کا یہ شان دار موقع تھا، وہ بھلا اُسے کیوں ضائع کرتا۔ کام مشکل تھا، لیکن بال فور نے ذمے داری، سلیقے اور اہتمام سے انجام دیا۔ اس مسئلے کی نوعیت، خطے پر اس اقدام کے اثرات اور اہلِ یورپ کے اس میں کردار کے بارے میں آج بہت سے سوالات یورپ کے سیاسی و تہذیبی محققین اور صحافت سے وابستہ تجزیہ کاروں کی طرف سے اٹھائے جاتے ہیں، جن کا کوئی بھی براہِ راست اور دو ٹوک جواب اہلِ یورپ کے لیے مشکل ہی نہیں، بہت مشکل ہے۔ اس لیے کہ آج اس پر کئی طرح کے پردے پڑے ہوئے ہیں جن کا ہٹایا جانا یورپ اور امریکا دونوں کے لیے ہزیمت کا باعث ہوسکتا ہے۔ اس کے باوجود ’’ویٹرنز ٹوڈے‘‘ اور ’’گارجین‘‘ جیسے ادارے آج ان سوالوں سے آنکھیں چار کرتے نظر آتے ہیں۔

آج یاکوف رابکن، کیون بیریٹ اور ایرک والبرگ جیسے لوگ اس موضوع پر نہ صرف بات کررہے ہیں، بلکہ جرأت کے ساتھ اس امر کا اعتراف بھی واشگاف الفاظ میں کیا جارہا ہے کہ صدی بھر پہلے کیا جانے والا یہ فیصلہ سیاسی اور تہذیبی اعتبار سے غلط تھا۔ اِس نے خطے کی سیاسی و سماجی صورتِ حال کو صرف اُسی دور میں متأثر نہیں کیا، بلکہ اس کے اثرات صدی بھر جاری رہے ہیں اور اب تک جاری ہیں۔

اس اقدام نے مذہبی ٹکراؤ کی جو صورت پیدا کی تھی، وہ آغازِکار میں بظاہر نظر نہیں آتی تھی، لیکن جلد ہی یہ مسئلہ ابھر کر سامنے آگیا اور اُس کے بعد سے اب تک اس پر قابو پانے یا اسے حل کرنے کی اوّل تو کوشش ہی نہیں کی گئی اور اگر کی گئی تو وہ محض دنیا دکھاوا تھا۔ مقصد صرف یہ تھا کہ حیلہ سازی کے ذریعے یہودی آبادکاروں کو یہ موقع فراہم کیا جائے کہ وہ جائز، ناجائز ہر ممکن ذریعے سے فلسطین کی غیر یہودی (خصوصاً مسلمان) آبادی کو وہاں سے بے دخل کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں۔ اس کے لیے نسل کشی کا حربہ سب سے زیادہ استعمال کیا گیا۔

اگر یہ سوال کیا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ سو سال پہلے جب یورپ (بالخصوص برطانوی سامراج) نے اس اقدام کا فیصلہ کیا کہ وہ یہودیوں کو فلسطین میں قومی آباد کاری کے لیے گھر فراہم کریں گے تو انھیں یہ اختیار کس نے دیا تھا؟ یہ کوئی ٹیڑھا سوال نہیں ہے کہ جس کے جواب کے لیے ہمیں بہت پاپڑ بیلنے پڑیں۔ تاریخ کھنگالنی اور سیاسی و سماجی تناظر کی چھان پھٹک کرنی پڑے۔ صاف دیکھا جاسکتا ہے کہ یہ فیصلہ اور اس پر عمل درآمد صرف اور صرف سامراجی بدمستی کا مظہر تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ جب یہ سفاک کھیل کھیلا گیا، اُس دور میں برطانوی سامراجیت کا سورج نصف النہار پر بھی نہیں رہا تھا۔

وہ تیزی سے ڈھل رہا تھا۔ اپنے سمیٹتے ہوئے اقتدار اور زائل ہوتے ہوئے اختیار کے انھی دنوں میں وہ فیصلے کیے گئے جو بعد ازاں یورپ اور امریکا کی بالادستی کے استحکام اور اُن کے تشکیل دیے ہوئے عالمی نظام کے نافذ کا ذریعہ ثابت ہوا۔ غرضے کہ آج ہمیں یہ سمجھنے میں کوئی دقت پیش نہیں آتی کہ فلسطین میں یہودی آباد کاری کا معاملہ دراصل ایک ایسا سیاسی اقدام تھا جس کے ذریعے یورپ نے عالمی جنگ کے بحران سے باعزت نکلنے ہی کی راہ ہموار نہیں کی، بلکہ مسلمانوں اور یہودیوں کے باہمی جھگڑے سے انھوں نے وہ فائدہ حاصل کیا جو اور کسی صورت میں ممکن نہیں تھا۔

ظاہر ہے کہ اس طرح کے اقدامات جہد للبقا کے ذیل میں کیے جاتے ہیں۔ اس کے لیے ایک ہی اُصول ہوتا ہے، جس کی لاٹھی اُس کی بھینس۔ طاقت ور ہمیشہ اپنی طاقت کو مطلوبہ مقاصد اور فوائد کے حصول کے لیے ہر ممکن صورت میں استعمال کرتا ہے۔ اس کے لیے اُسے کسی سے اجازت طلب کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی اور نہ وہ ایسے کسی اقدام کے لیے خود کو کسی ضابطے، قاعدے یا قانون کا پابند محسوس کرتا ہے۔ جنگ بقا کی ہو یا توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل اور نئے اہداف کے حصول کے لیے ہو، جنگ بہرحال جنگ ہوتی ہے، جس میں سب کچھ جائز سمجھا جاتا ہے۔ اس لیے برطانوی سامراجیت نے یہ قدم کسی سے پوچھ کر نہیں اٹھایا تھا اور نہ ہی اُسے کسی سے یہ اختیار حاصل کرنے کی ضرورت تھی۔ اس لیے کہ یہ وہ زمانہ تھا جب اُس کی طاقت اُس کے ہر اقدام کا جواز فراہم کرتی تھی۔

اس مسئلے کا ایک رُخ اور بھی ہے۔ اِس رُخ سے ہم استعمار زدہ کو سامنے رکھتے ہیں، اور استعمار زدہ تھے مسلمان۔ تاریخ کے اس مرحلے پر بھی ہمیشہ کی طرح مسلمانوں نے اس لیے نقصان اٹھایا کہ وہ اس بار بھی ایک متحد قوت نہیں تھے۔ اُن کے باہمی جھگڑے، فرقہ وارانہ اختلافات اور اقتداری رسّا کشی نے اُن کی مرکزی طاقت کو ختم کرکے رکھ دیا تھا۔ وہ طاقت جس نے ایک دور میں وسیع و عریض اور مثالی حکومت کا نقشہ پیش کیا تھا، داخلی مناقشوں کی وجہ سے ٹکڑوں میں بٹ کر ساری صلابت اور تمام دبدبہ کھوچکی تھی۔

آپ خود سوچیے، جب مسلمان طب، ریاضی اور فلکیات جیسے شعبوں میں وہ کام کررہے تھے جس کی یورپ کو ہوا بھی نہیں لگی تھی، اور جب اُن کے اقتدار و استحکام کا سورج بیک وقت کئی براعظموں پر جگمگا رہا تھا، کیا یہ ممکن تھا کہ کوئی سیاسی طاقت اُن کے منہ کو آنے کا سوچ بھی سکتی اور اُن کے ایک صوبے میں اس طرح یہودی آباد کاری کا منصوبہ بنایا جاتا۔ ہرگز نہیں۔ سو اب اگر یہ کہا جائے تو کیا غلط ہوگا کہ بال فور کا فیصلہ دراصل یورپ کے دیدۂ بیدار کا خواب تھا اور فلسطین کا چھن جانا دوسری طرف مسلمانوں کے خوابِ غفلت کی اندوہ ناک تعبیر۔

(جاری ہے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔