سڑک حادثات میں اموات کی آٹھویں بڑی تعداد پاکستان میں

محمد عاطف شیخ  اتوار 19 نومبر 2017
پاکستان میں سڑک حادثات کی صوبائی سطح پر مکمل تفصیلات اس وقت صرف صوبہ پنجاب میں موجود ہیں۔ فوٹو : فائل

پاکستان میں سڑک حادثات کی صوبائی سطح پر مکمل تفصیلات اس وقت صرف صوبہ پنجاب میں موجود ہیں۔ فوٹو : فائل

دنیا کے شہری علاقوں کے اکثر مکین اپنی زندگی میںکبھی نہ کبھی کسی سڑک حادثے کا شکار ضرور ہوئے ہوں گے۔ اورجو نہیں ہوئے تو وہ ان حادثات کے چشم دیدہ گواہ تو لازماً ہوں گے۔کیونکہ تیزی سے پھیلتے شہروں میں ٹریفک اب ایک اژدھامی صورت اختیار کرتی جا رہی ہے جس کی بہتر انتظام کاری وقت کی اہم ضرورت بن چکی ہے۔

ترقی یافتہ دنیا میں اس جانب خصوصی توجہ نے جہاں سڑک حادثات اور ان کی شدت کی شرح کو نہ صرف کم کیا ہے، وہیں فضائی آلودگی ، شور اور فیول کے استعمال میں بھی کمی حاصل کی ہے۔ جبکہ ترقی پذیر ممالک میں صورتحال اس کے برعکس ہے۔

تیزی سے بڑھتی شہری آبادی کے باعث پھیلتے شہروں میں مو ٹر ویکلز کی تعداد میں اضافہ آبادی کے بڑھنے کی نسبت قدرے زیادہ تیز رفتاری سے جاری ہے۔ اوراس سے ٹریفک کی بہتر انتظام کاری اور سڑکوں کو ہر طرح کی سواری اور پیدل چلنے والوں کے لئے محفوظ بنانے کے عمل کی ضرورت بڑھتی جا رہی ہے۔ لیکن اس صورتحال کے باوجود ہر سطح پر ٹریفک کے نظام کو محفوظ بنانے ، لاگو کرنے اور اپنانے سے بے نیازی کے انفرادی اور اجتماعی طرز عمل کا حاصل ترقی پذیر دنیا میں روز بروز بڑھتے ہوئے سڑک حادثات، فضائی اور شور کی آلودگی کا محفوظ حدود سے بڑھ جانا جسمانی نقصانات اور نفسیاتی اثرات کا باعث بن کر اپنا زبردست خراج وصول کر رہا ہے۔ پاکستان کا شمار بھی دنیا کے اُن ممالک میں ہوتا ہے جہاں لاپروائی کا یہ طرزعمل اپنی پوری شدت کے ساتھ موجود ہے۔

اور ملک میں سڑک حادثات کے واقعات متعلقہ اداروں کی عوامی تحفظ کے بارے میں اقدامات کی سنجیدگی اور بطور شہری اورا نفرادی ہماری اپنی ذمہ داریوں کی بجا آوری میںمخلصی کی حقیقت کو عیاں کر رہی ہے۔ نتیجتاً ہم میں سے اکثر ہر روزان حادثات میں اپنے پیاروں کو زخمی اورمعذوری کے علاوہ موت کے منہ میں جاتا دیکھتے ہیں۔لیکن پھر بھی اصلاح کی دل سے کوشش نہیں کررہے ہیں۔

سڑک حادثات کے متاثرین کو یاد رکھنے کا عالمی دن
اس دن کا آغاز 1993 میں روڑ پیس نامی برطانوی تنظیم نے کیا اور 26 اکتوبر2005 کو اقوامِ متحدہ نے ہر سال نومبر کی تیسری اتوار کو اسے بطور عالمی دن منانے کی تجدید کی۔ یہ دن دنیا بھر کی سڑکوں پر ہلاک اور زخمی ہونے والوں کی یاد میں منایا جاتا ہے۔ اس دن ہنگامی خدمات مہیا کرنے والوں کا شکریہ ادا کیا جاتا ہے اور روزانہ خاندانوں، کمیونٹیوں اور ممالک کو درپیش ہونے والی اس مسلسل تباہی کے بوجھ کو کم کرنے پر غورکیا جاتا ہے۔

سڑک حادثات ایک عالمی مسئلہ
٭ گزشتہ روز دنیا بھر میں 3417 سڑک صارفین حادثات کے باعث مرے۔
٭ گزشتہ روز دنیا بھر میں 1060 کار صارفین سڑک حادثات کے باعث مرے۔
٭ گزشتہ روز دنیا بھر میں 137 سائیکل سوار سڑک حادثات کے باعث مرے۔
٭ گزشتہ روز دنیا بھر میں 786 موٹرسائیکل چلانے والے سڑک حادثات کے باعث مرے۔
٭ گزشتہ روز دنیا بھر میں 752 پیدل چلنے والے سڑک حادثات کے باعث مرے۔
٭ 2015 میں دنیا بھر میں مجموعی طور پر 5 کروڑ 64 لاکھ اموات ہوئیں۔ جن کا 54 فیصد 10 بڑی وجوہات کے باعث ہوا۔ ان وجوہات میں سڑک حادثات 10 ویں بڑی وجہ ہیں۔
٭ دنیا بھر میں 15 سے 29 سال کی عمر کے افراد کی اموات کی سب سے بڑی وجہ سڑک حادثات ہیں۔
٭ سڑک حادثات اکثر ممالک کو اُس کی جی ڈی پی کے تین فیصد اور کم اور درمیانے درجہ کی آمدن کے حامل ممالک کو اُن کی 5 فیصد جی ڈی پی تک کے اخراجات کا باعث بنتے ہیں۔
٭ سڑک حادثات کی اموات کے 48 فیصدحصے کا تعلق 15 سے 44 سال کی عمر کے افراد کا ہوتا ہے۔
٭ دنیا کے74 فیصد سڑک حادثات کی اموات درمیانے درجہ کی آمدن کے حامل ممالک میں ہوتی ہیں۔ 10 فیصد زیادہ آمدن ا ور 16 فیصدکم آمدن والے ممالک میں ہوتی ہیں۔
٭ ہر چار میں سے تین سڑک حادثات میں ہونے والی اموات مردوں کی ہیں۔
٭ 22 فیصد سڑک اموات پیدل چلنے والوںکی،4 فیصد سائیکل سواروں اور 23 فیصد موٹر سائیکل چلانے والوں کی ہوتی ہیں۔ یعنی مجموعی طور پر 49 فیصد اموات ۔
٭ 2010 سے 2013 کے دوران دنیا کی آبادی میں 4 فیصد اضافہ ہوا۔ جبکہ رجسٹرڈ گاڑیوں( موٹر ویکلز) کی تعداد میں 16 فیصد اضافہ ہوا۔
٭ دنیا کی 53 فیصد رجسٹرڈ گاڑیوں( موٹر ویکلز) کی سرزمین درمیانے درجہ کی آمدن کے حامل ممالک ہیں۔ جبکہ 41 فیصد زیادہ اور ایک فیصد کم آمدن کے حامل ممالک میں ہے۔
٭ کم اور درمیانے درجہ کی آمدن کے حامل ممالک میں دنیا بھر کی رجسٹرڈ گاڑیوں ( موٹر ویکلز) کا آدھا حصہ موجود ہے۔ لیکن دنیا بھر میں سڑک حادثات کے باعث ہونے والی اموات کا 90 فیصد ان ممالک میں ہوتا ہے۔
٭ 2010 سے دنیا کے 68 ممالک میں سڑک حادثات کی اموات میں اضافہ ہوا ہے جبکہ 79 میں کمی ہوئی ہے۔
٭ دنیا بھر میں سب سے زیادہ سڑک حادثات کی اموات چین میں ہوتی ہیں جو 2013 میں2 لاکھ 61 ہزار3 سو 67 تھے جواس طرح ہونے والی اموات کا 22 فیصد تھیں۔ اس کے بعد بھارت اورپھر برازیل کا نمبر ہے۔
٭ 2013 میں دنیا بھر میں فی لاکھ آبادی کے مقابلے میں سڑک حادثات کے باعث رونما ہونے والی اموات کی سب سے زیادہ تعداد تھائی لینڈ میں تھی۔ جہاں 36.2 افراد فی لاکھ آبادی حادثات کا شکار ہوئے۔ ملاوی دوسرے اور لائبیریا تیسرے نمبر پر تھے۔
٭ سب سے زیادہ رجسٹرڈ گاڑیوں( موٹر ویکلز) کی تعداد کے ساتھ امریکا دنیا بھر میں سر فہرست ہے ۔ جہاں 26 کروڑ 50 لاکھ43 ہزار 3 سو62 رجسٹرڈ موٹر ویکلز موجود ہیں۔ جو عالمی تعداد کا 15 فیصد ہیں۔ اس کے بعد چین اور پھر بھارت کا نمبر ہے۔
٭ ہر سال2 کروڑ سے 5 کروڑ افراد حادثات کے باعث زخمی ہوتے ہیں۔ اور اُن کی بڑی تعداد معذوری کا شکار ہوتی ہے۔
٭ اگر دیر پا اقدامات نہ کئے گئے تو 2030 تک ٹریفک حادثات کے باعث ہونے والی اموات دنیا بھر میں اموات کی 7 ویں بڑی وجہ بن جائیں گے۔
٭ پائیدار ترقی کے ہدف3.6 کے تحت 2020 تک سڑک حادثات کے نتیجے میں ہونے والی اموات اور زخمیوں کی تعداد میں 50 فیصد کمی کرنا ہے۔
٭ پائیدار ترقی کے ہدف11.2 کے مطابق تمام لوگوں کو 2030 تک محفوظ، سستی، قابل رسائی اور پائیدار ٹرانسپورٹ سسٹم تک رسائی فراہم کرنا ہے۔

سڑک حادثات۔۔۔۔
ملکی منظر نامہ
پاکستان میںسڑک حادثات کے ملک گیر اعداد وشمار کو اکٹھا کر کے شائع کرنے کا اہتمام وفاقی ادارہ شماریات کرتا ہے۔ یہ اعداد وشمار صوبائی پولیس ریکارڈ سے مرتب کئے جاتے ہیں۔ جو کہ حقیقی صورتحال کی مکمل عکاسی نہیں کر تے۔ کیونکہ سڑک حادثات اکثر قانونی پیچیدگیوں اور پولیس کے رویہ کے باعث رپورٹ ہی نہیں کرائے جاتے جس کی وجہ سے یہ اعدادوشمارملکی سڑک حادثات کی شدت کی مکمل منظر کشی کرنے سے عاری ہیں۔ لیکن جب تک کوئی اور طریقہ کار واضح نہیں کر لیا جاتا تب تک ان ہی اعدادوشمارپر اکتفاء کرنا پڑے گا۔ جن کے مطابق 2015-16 کے مالی سال میں ملک بھر میں مجموعی طور پر 9 ہزار 100 سڑک حادثات رونما ہوئے۔ جن میں 4 ہزار 4 سو 48 افراد ہلاک اور 11 ہزار5 سو44 افراد زخمی ہوئے اور 10 ہزار 6 سو36 موٹر ویکلز کو نقصان پہنچا۔ اس کے علاوہ وفاقی ادارہ شماریات کے اعداد وشمار کے تجزیہ کے مطابق 2000 سے 2016 ء تک ملک کی آبادی میں 40 فیصد اضافہ ہوا۔ اور یہ 139.55 ملین سے بڑھ کر 195.40 ملین ہوگئی۔ جبکہ اسی عرصہ کے دوران ملک میں رجسٹرڈ موٹر وہیکلز کی تعداد میں 290 فیصد اضافہ ہوا اور یہ 4701600 سے بڑھ کر 18352500 ہوگئیں۔
٭ عالمی ادارہ صحت کے اعداد وشمار کے تجزیہ کے مطابق پاکستان سڑک حادثات کے باعث رونما ہونے والی اموات کے حوالے سے دنیا بھر میں آٹھویں نمبر پر ہے۔ جہاں 2013 میں 25 ہزار 7 سو81 اموات ہوئیں۔
٭ عالمی ادارہ صحت کے اعداد وشمار کے تجزیہ کے مطابق پاکستان سڑک حادثات کے باعث فی لاکھ آبادی 14.2 اموات کے ساتھ دنیا بھر میں 101 نمبر پر ہے۔


٭ عالمی ادارہ صحت کے اعداد وشمار کے تجزیہ کے مطابق پاکستان رجسٹرڈ گاڑیوں کی تعداد کے حوالے سے دنیا بھر میں 27ویں نمبر پر ہے۔
٭ امریکا کے انسٹی ٹیوٹ فار ہیلتھ میٹرکس اینڈ اویلیوایشن کے مطابق 2016 میں سڑک حادثات پاکستان میں اموات کی نویں بڑی وجہ بنے جو 2005 میں دسویں بڑی وجہ تھے۔
٭ 2000 میں پاکستان کے اوسط ً ہر 30 ویں فرد کے پاس کوئی نہ کوئی موٹرسواری موجود تھی۔
٭ 2016 میں پاکستان کے اوسطً ہر 11 ویں فرد کے پاس کوئی نہ کوئی موٹر وہیکل موجود تھی۔
٭ 2000 سے2016 تک ملک میںسب سے زیادہ موٹر سائیکلوں کی تعداد میں 474 فیصد اضافہ ہوا۔
٭ پاکستان میں ہر روزاوسطً 25 روڈ ایکسیڈنٹ ہوئے۔
٭ پاکستان میں ہر روزاوسطً 10 جان لیوا حادثات ہوئے۔
٭ پاکستان میں ہر روز اوسطً12 افراد رو ڈ ایکسیڈنٹ کے باعث مرے۔
٭ پاکستان میں ہر روز اوسط 32 افراد روڈ ایکسیڈنٹ میں زخمی ہوئے۔
٭ پاکستان میں ہر روز اوسطً29 موٹر وہیکلز ایکسیڈنٹ سے متاثر ہوئیں۔
٭ پاکستان میںاوسطً ہرتیسرا حادثہ جان لیوا تھا ۔
٭ پاکستان میں ہر سڑک حادثہ میںاوسطً 1.16 موٹر وہیکلز کو نقصان پہنچا ۔
٭ پاکستان میں ہر سڑک حادثہ میںاوسطً1.26 افراد زخمی ہوئے۔
٭ پاکستان کے 39 فیصد سڑک حادثات جان لیوا تھے۔
٭ پاکستان کے سب سے زیادہ روڈ ایکسیڈنٹ خیبر پختونخوا میں ہوئے۔ جو کل ملکی حادثات کا47 فیصد تھے۔ پنجاب میں 36 فیصد، سندھ میں 10 فیصد، بلوچستان میں 4 فیصد اور اسلام آباد میں 3 فیصد حادثات ہوئے۔
٭ پاکستان کے سب سے زیادہ روڈ ایکسیڈنٹ پنجاب میں ہوئے۔ جو کل ملکی جان لیوا حادثات کا44 فیصد تھے۔ خیبر پختونخوا میں 33 فیصد، سندھ میں 18 فیصد، بلوچستان میں5 فیصد اور اسلام آباد میں 3 فیصد حادثات ہوئے۔
٭ صوبائی سطح پر ہونے والے سڑک حادثات میں جان لیوا حادثات کی سب سے زیادہ شرح سندھ میں رہی۔ جہاں 69 فیصد حادثات جان لیوا تھے۔ پنجاب میں 48 فیصد، بلوچستان میں50 فیصد اسلام آباد میں 49 فیصد اور خیبر پختونخوا میں 25 فیصدحادثات جان لیوا تھے۔
٭ سڑک حادثات میں سب سے زیادہ اموات کی شرح پنجاب میں 46 فیصدرہی ۔ 29 فیصد کے ساتھ خیبر پختونخوا دوسرے، 17 فیصد کے ساتھ سندھ تیسرے،5 فیصد کے ساتھ بلوچستان چوتھے اور 3 فیصد کے ساتھ اسلام آباد پانچویں نمبر پر رہا۔
٭ عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان میں نئے روڈ کی تعمیر کے معیار کی چانچ پڑتال ضروری ہے جبکہ پہلے سے موجودسڑکوں کی صورتحال کا باقاعدہ جائزہ لینے کا کوئی نظام موجود نہیں۔
٭ عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان میںایمرجنسی سہولت حاصل کرنے کے لئے ایک ہی یو نیورسل نمبر موجود نہیں بلکہ مختلف نمبرز متحرک ہیں۔
٭ عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان میں شہری علاقوں میں زیادہ سے زیادہ حد رفتار90 کلومیٹر فی گھنٹہ ہے۔
٭ عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان میںدیہی علاقوں میں زیادہ سے زیادہ حد رفتار110کلومیٹر فی گھنٹہ ہے۔
٭ عالمی ادارہ صحت کے مطابق موٹر وے پر زیادہ سے زیادہ حد رفتار130کلومیٹر فی گھنٹہ ہے۔
٭ عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان میںالکوحل پینے کے بعد گاڑی چلانے کی ممانعت کے بارے میں قانون موجود ہے۔
٭ عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان میں موٹر سائیکل کی سواری کے دوران ہیلمٹ پہننے کا قانون موجود ہے۔ یہ قانون موٹر سائیکل چلانے والے اور اُس کے پیچھے بیٹھنے والے دونوں پر لاگو ہوتا ہے۔لیکن ہیلمٹ پہن کر اُسے باندھنے کے حوالے سے کوئی پابندی نہیں ہے۔ ہیلمٹ کے معیار کے حوالے سے بھی قانون موجود نہیں۔
٭ عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان میں دوران ڈرائیونگ سیٹ بیلٹ باندھنے کے بارے میں قا نون موجود ہے۔ لیکن یہ قانون اگلی اور پچھلی دونوں نشستوں پر بیٹھی سواریوں پر لاگو نہیں ہوتا۔
٭ عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان میں دوران ڈرائیونگ بچوں کے اگلی نشستوں پر بیٹھنے کی ممانعت کے بارے میں قا نون موجود نہیںہے۔
٭ عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان میں دوران ڈرائیونگ موبائل فون کے استعمال کی ممانعت کے بارے میں قا نون موجود ہے۔ اور یہ ہاتھ میں پکڑ کے یا ہینڈ فری دونوں صورتوں پر لاگو ہوتا ہے۔
٭ نیشنل ہائی وے اینڈ موٹر وے پولیس کے نیشنل روڈ سیفٹی جرنل کے مطابق ملک میں سالانہ 50 ہزار افراد سڑک حادثات سے شدید زخمی ہوتے ہیں۔ اور5 ارب ڈالر سالانہ کے بوجھ کا باعث بنتے ہیں۔
٭ پاکستان میں تیار ہونے وا لی گاڑیوں کی اکثریت بنیادی سیفٹی فیچرز یعنی ائیر بیگز اور انٹی لاک بریکنگ سسٹم (اے بی ایس)سے محروم ہوتی ہے۔

سڑک حادثات: پنجاب ایمرجنسی سروس (ریسکیو 1122 ) کی کارکردگی
تحریر: اویس قرنی
ہنگامی صورتحال چاہے کوئی بھی ہو۔ بروقت امدادی کاروائیوں سے نہ صرف حادثہ /آفت کے نقصانات کو کم کیا جا سکتا ہے بلکہ کئی ایک قیمتی جانوں کو بھی بچایا جا سکتا ہے۔ شہری زندگی میں سڑک حادثات میں ہنگامی خدمات مہیا کرنا دنیا بھر کے ریسکیو اداروں کا ایک اہم کام ہے۔کیونکہ حادثہ کا شکار لمحہ بہ لمحہ موت کی طرف بڑھتی زندگی کو بچانے کے لئے بروقت طبی امداد سڑک حادثات کے جانی نقصان کو اور معذوری کے امکانات کو کم کرنے کے لئے نہایت ضروری ہے۔ لیکن شہروں میں موجود ٹریفک کے اژدھام میں کم سے کم وقت میں جائے حادثہ تک پہنچنا اور زخمیوں کو فوری طبی امداد فراہم کرنا ، شدید زخمیوں کو جلد از جلد اسپتال تک پہنچانا مستعدی، مہارت اور فرض شناسی کی اعلیٰ اقدارکا متقاضی ہے۔

پنجاب ایمرجنسی سروس( ریسکیو 1122 )کا ہر اہلکا ر ان خصوصیات کی مجسم صورت ہے۔ جو ہمہ وقت رنگ اور نسل کے امتیاز سے بالاتر پنجاب کے 37 شہروں اور صوبے کی60 فیصد عوام کی بلامعاوضہ خدمات میں شبانہ روز مصروف عمل ہیں۔

اور یہی تندہی سروس پر عوام کے اعتماد کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ کیونکہ اپنے آغاز 10 اکتوبر2004 سے 21 اکتوبر 2017 تک 16 لاکھ64 ہزار1 سو22 روڈ ایکسیڈنٹس کالز کے جواب میں فوری ریسپانس اور کم سے کم وقت میں جائے حادثہ تک پہنچنا ، زخمیوں کو بہترین طبی امداد فراہم کرنا اور شدید زخمیوں کی لمحوں میں اسپتال منتقلی، اپنا ریکارڈ حاصل کرنا اور اگلی ایمرجنسی کے لیے ہر وقت تیار رہنا ریسکیو 1122 کا خاصہ ہے۔ روزانہ اوسطً350 سڑک حادثات کی کالز کو اٹینڈ کرنا اور فوری طور رسپانس دینے کے عمل نے صوبے کے عوام میں سروس کی کارکردگی کی دھاک بٹھا دی ہے۔

آج سڑک حادثات کے متاثرین کو یاد رکھنے کے عالمی دن کے موقع پر جہاں دنیا بھر میں ہنگامی خدمات مہیا کرنے والوں کا شکریہ ادا کیا جا رہا ہے وہیں ہم بھی پورا سال ہر وقت تیاراپنے ان جوانوں کی جرات و ہمت کو خراج ِتحسین پیش کرتے ہیں جو نہ دن دیکھتے ہیں نہ رات ،نہ سردی نہ گرمی جن کی متاع نظر صرف عوام کی خدمت ہے۔ ہم سب کا تمہیں سلام۔

سڑک حادثات روکنا اتنا اہم کیوں؟
سڑک حادثات کی چوٹیں انفرادی ، خاندانوں اور ملکوں پر معاشی اور سماجی دونوں طرح کے اثرات مرتب کرتی ہیں۔ یہ نقصان علاج کے اخراجات، پیداواری سر گرمیوں سے معذور یا مرجانے کے باعث کٹ جانے اور حادثات کے زخمیوں کی دیکھ بھال کے لئے خاندان کے کسی دوسرے فرد کا اپنی تعلیم یا کام سے وقت نکالنے کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ ٹریفک حادثات ایک بڑا عوامی صحت کا مسئلہ ہے۔ کیونکہ یہ پہلے سے دباؤ کا شکار صحت کے نظام پر اضافی دباؤ کا باعث بنتا ہے۔ صحت کی محدود سہولیات کو مزید محدود کر دیتا ہے۔ وسائل کے استعمال کا باعث بنتا ہے۔ پیداوری عمل اور خوشحالی میں کمی کا موجب ہوتا ہے۔ سڑک حادثات کم اور درمیانے درجہ کی آمدن کے حامل ممالک کے لئے ہر سال 65ارب ڈالر کے بوجھ کا باعث بنتے ہیں۔n

سڑک حادثات کی روک تھام کیلئے کیا ہو رہا ہے؟
٭ گزشتہ تین سالوں میں 17 ممالک جن کی مجموعی آبادی 409 ملین ہے ۔ انھوں نے ٹریفک حادثات کو کم کرنے کے لئے اپنے قوانین میں ترامیم کی ہیں۔
٭ 116ممالک میں ایمرجنسی سروس کا یو نیورسل ایکس نمبر موثر ہے۔
٭ 47 ممالک جن کی آبادی 950 ملین ہے۔ ان کے شہروں میں ٹریفک کی حد رفتار کے بارے میں قوانین بہترین عمل کو پورا کرتے ہیں۔
٭ 180 ممالک میں سے 97 نے شہری حدرفتار کا تعین 50 کلومیٹر یا اس سے کم کیا ہوا ہے۔
٭ دنیا کے 44 ممالک یعنی1.2 ارب افراد کے ممالک میں ہیلمٹ کے قوانین اپنی بہترین صورت میں موجود ہیں۔
٭ 105 ممالک کے4.8 ارب افراد گاڑیوں کی اگلی اور پچھلی نشستوں پر سیٹ بیلٹ باندھنے کے قوانین رکھتے ہیں۔
٭ 53 ممالک میں بچوں پر گاڑی کی اگلی نشستوں پر بیٹھنے پر پابندی اور پچھلی نشست پر اُن کے لئے محفوظ نشست کا قانون موجود ہے۔
٭ 139 ممالک میں ڈرائیونگ کے دوران موبائل فون استعمال کے خلاف قوانین موجود ہیں۔ جبکہ31 ممالک میں ہینڈ فری کے ذریعے موبائل فون کے استعمال پر بھی پابندی ہے۔
٭ 34 ممالک میں الکوحل پینے کے بعد( خون میں الکوحل کی مقدار کا حد سے بڑھنے کی صورت میں) گاڑی چلانے کی ممانعت کے بارے میں قانون موجود ہے۔

پنجاب میں سڑک حادثات کی صورتحال
پاکستان میں سڑک حادثات کی صوبائی سطح پر مکمل تفصیلات اس وقت صرف صوبہ پنجاب میں موجود ہیں۔ جہاں پنجاب ایمرجنسی سروس (ریسکیو1122 ) کے مرتب کردہ اعدادوشمار ناصرف تفصیلی ہیں بلکہ روزانہ کی بنیاد پر اَپ ٹو ڈیٹ بھی۔ ان اعداو شمار کو اکٹھا کرنے کا آغاز 17 جون 2013 ء سے کیا گیا اور ہنوز یہ عمل جاری ہے اور 16 اکتوبر2017 تک یعنی 1583 روز کے دوران صوبے بھر میں مجموعی طور پر 9 لاکھ 73 ہزار7 سو79 حادثات ریکارڈ ہو چکے ہیں۔ جن میں 11 لاکھ 69 ہزار 7 سو60 افراد متاثر ہوئے۔

ان اعداد وشمار سے جو تلخ حقیقت سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ صوبے میں ہر آنے والے نئے سال میں سڑک حادثات کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ 2014 میں پنجاب میں 2 لاکھ1 ہزار1 سو20 حادثات ریکارڈ ہوئے۔ یہ تعداد 2015 میں بڑھ کر 2 لاکھ27 ہزار 3 سو 90 اور2016 میں 2 لاکھ38 ہزار 7 سو82 ہوگئی۔ یعنی ان تین سالوں کے دوران صوبے میں سڑک حادثات میں 19 فیصد اضافہ ہوا ۔ جبکہ اس عرصہ کے دوران صوبے کی آبادی میں تین فیصد اضافہ اور رجسٹر موٹر وہیکلز کی تعداد2014 سے2015 تک 19 فیصد بڑھی۔
٭ ہر روز اوسطً615 سڑک حادثات ہوئے۔
٭ ہر روز اوسطً739 افراد سڑک حادثات کا شکار ہوئے۔
٭ ہر روز اوسطً 586 مرد سڑک حادثات کا شکار ہوئے۔
٭ ہر روز اوسطً 153 خواتین سڑک حادثات کا شکار ہوئیں۔
٭ ہر روز اوسطً108 پیدل چلنے والے سڑک حادثات کا شکار ہوئے۔
٭ ہر روز اوسطً349 مسافر سڑک حادثات کا شکار ہوئے۔
٭ ہر روز اوسطً282 ڈرائیورسڑک حادثات کا شکار ہوئے۔
٭ ہر روز اوسطً491 موٹر سائیکلیں(بائیکس) سڑک حادثات کا شکار ہوئیں۔
٭ ہر روز اوسطً 67 کاریں سڑک حادثات کا شکار ہوئیں۔
٭ ہر روز اوسطً20 ٹرک سڑک حادثات کا شکار ہوئے۔
٭ ہر روز اوسطً 84 رکشے سڑک حادثات کا شکار ہوئے۔
٭ ہر روز اوسطً 8 بسیںسڑک حادثات کا شکار ہوئیں۔
٭ ہر روز اوسطً 35 ویگنیں سڑک حادثات کا شکار ہوئیں۔
٭ ہر روز اوسطً 72دیگر سواریاں سڑک حادثات کا شکار ہوئیں۔
٭ ہر روز اوسطً 777 موٹر وہیکلز سڑک حادثات کا شکار ہوئیں۔
٭ ہر روز اوسطً ایک سے 10 سال کی عمر کے 35 بچے سڑک حادثات کا شکار ہوئے۔
٭ ہر روز اوسط11سے 20 سال کی عمر کے 144 بچے/ نوجوان سڑک حادثات کا شکار ہوئے۔
٭ ہر روز اوسطً 21 سے 30 سال کی عمر کے 225 نوجوان سڑک حادثات کا شکار ہوئے۔
٭ ہر روز اوسطً 31 سے 40 سال کی عمر کے 150 بچے سڑک حادثات کا شکار ہوئے۔
٭ ہر روز اوسطً 41 سے 50 سال کی عمر کے 96 افراد سڑک حادثات کا شکار ہوئے۔
٭ ہر روز اوسطً51سے60 سال کی عمر کے 53 افراد سڑک حادثات کا شکار ہوئے۔
٭ ہر روز اوسطً60 سال اور اس سے زائد عمر کے 36 بزرگ سڑک حادثات کا شکار ہوئے۔
٭ ہر روز اوسطً 13 افراد سڑک حادثات کی وجہ سے سپائنل انجری کا شکار ہوئے۔
٭ ہر روز اوسطً 1 8 افراد سڑک حادثات کی وجہ سے سر پر چوٹ کا شکار ہوئے۔
٭ ہر روز اوسطً 116افراد سڑک حادثات کی وجہ سے اپنی ٹانگ تڑوا بیٹھے۔
٭ ہر روز اوسطً 38 افراد نے سڑک حادثات کی وجہ سے ایک سے زائد ہڈیاں تڑوا لیں۔
٭ ہر روز اوسطً492 افراد سڑک حادثات کی وجہ سے معمولی چوٹوں کا شکار ہوئے۔

٭ ہر روز اوسطً 8 افراد سڑک حادثات کی وجہ سے زندگی کی بازی ہارے۔
٭ ہر روز اوسطً 267 سڑک حادثات تیز رفتاری کی وجہ سے ہوئے۔
٭ ہر روز اوسطً 203 سڑک حادثات غفلت کی وجہ سے ہوئے۔
٭ ہر روز اوسطً 49 سڑک حادثات غلط موڑ مڑنے کی وجہ سے ہوئے۔
٭ ہر روز اوسطً 35 سڑک حادثات یوٹرن لینے کی وجہ سے ہوئے۔
٭ ہر روز اوسطً 5 سڑک حادثات ٹائر پھٹنے کی وجہ سے ہوئے۔
٭ ہر روز اوسطً 56 سڑک حادثات دیگر وجوہات کی بنا پر ہوئے۔
٭ ہر سڑک حادثہ میں اوسطً 1.2 افراد متاثر ہوئے۔
٭ ہر سڑک حادثہ میںاوسطً ایک مرد متاثر ہوا۔
٭ ہر پانچویں سڑک حادثہ میںاوسطً ایک خاتون متاثر ہوئی۔
٭ ہر چھٹے سڑک حادثہ میںاوسطً ایک پیدل چلنے والا متاثر ہوا۔
٭ ہر دوسرے سڑک حادثہ میںاوسطً ایک مسافر متاثر ہوا۔
٭ ہر تیسرے سڑک حادثہ میںاوسطً ایک ڈرائیور متاثر ہوا۔
٭ ہر دوسراسڑک حادثہ موٹر سائیکل (بائیک) کا تھا۔
٭ ہردسواں سڑک حادثہ کارکا تھا۔
٭ ہر31 واںسڑک حادثہ ٹرک کا تھا۔
٭ ہر8 واںسڑک حادثہ رکشہ کا تھا۔
٭ ہر76 واںسڑک حادثہ بس کا تھا۔
٭ ہر31 واں سڑک حادثہ ٹرک کا تھا۔
٭ ہر18واںسڑک حادثہ ویگن کا تھا۔
٭ ہر9 واںسڑک حادثہ دیگر موٹر سواریوں کا تھا۔
٭ ہر سڑک حادثہ میںاوسطً 1.26 موٹر وہیکلز کو نقصان پہنچا۔
٭ ہر 18 ویںسڑک حادثہ میں ایک سے 10 سال کا بچہ متاثر ہوا۔
٭ ہر پانچویں سڑک حادثہ میں10 سے 20 سال کا بچہ/ نوجوان متاثرہوا۔
٭ ہر تیسرے سڑک حادثہ میں21سے 30 سال کا نوجوان متاثر ہوا۔
٭ ہر پانچویں سڑک حادثہ میں31 سے 40 سال کا فرد متاثر ہوا۔
٭ ہر ساتویںسڑک حادثہ میں 41سے 50 سال کا فرد متاثر ہوا۔
٭ ہر 12ویں سڑک حادثہ میں51سے0 6 سال کا فرد متاثر ہوا۔
٭ ہر 18 ویںسڑک حادثہ میں60 سال سے زائد عمر کا بزرگ متاثرہوا۔
٭ ہر 50 واںسڑک حادثہ سپائنل انجری کا باعث بنا۔
٭ ہر آٹھواںسڑک حادثہ سر کی چوٹ کا باعث بنا۔
٭ ہر چھٹا سڑک حادثہ ٹانگ کی ہڈی ٹوٹنے کا باعث بنا ۔
٭ ہر 17 واںسڑک حادثہ جسم کی ایک سے زائد ہڈیاں ٹوٹنے کا باعث بنا ۔
٭ ہر دوسراسڑک حادثہ معمولی چوٹوں کا باعث بنا ۔
٭ ہر 74 واںسڑک حادثہ جان لیوا تھا ۔
٭ ہر تیسرا سڑک حادثہ تیز رفتاری کی وجہ سے ہوا۔
٭ ہرچو تھا سڑک حادثہ غفلت کی وجہ سے ہوا۔
٭ ہر13 واںسڑک حادثہ غلط موڑ مڑنے کی وجہ سے ہوا ۔
٭ ہر18 واں سڑک حادثہ یوٹرن لینے کی وجہ سے ہو ا ۔
٭ ہر 1192 واں سڑک حادثہ ون ویلنگ کی وجہ سے ہوا۔
٭ ہر114 واں سڑک حادثہ ٹائر پھٹنے کی وجہ سے ہوا۔
٭ ہر11 واں سڑک حادثہ دیگر وجوہات کی بنا پر ہوا۔
٭ سڑک حادثات میں متاثرہ افراد کا 79 فیصد مردوں پر مشتمل تھا۔
٭ سڑک حادثات میں متاثرہ افراد کا 21 فیصد خواتین پر مشتمل تھا ۔
٭ سڑک حادثات میں متاثرہ افراد کا 15 فیصدپیدل چلنے والوں پر مشتمل تھا ۔
٭ سڑک حادثات میں متاثرہ افراد کا 47 فیصد مسافروں پر مشتمل تھا۔
٭ سڑک حادثات میں متاثرہ افراد کا 38 فیصدڈرائیوروں پر مشتمل تھا۔
٭ سڑک حادثات میں متاثرہ افراد کے 5 فیصد کی عمر ایک سال سے 10 سال تھی ۔
٭ سڑک حادثات میں متاثرہ افراد کے 20 فیصد کی عمر11 سے 20 سال تھی ۔
٭ سڑک حادثات میں متاثرہ افراد کے 30 فیصد کی عمر21 سے 30 سال تھی۔
٭ سڑک حادثات میں متاثرہ افراد کے 20 فیصد کی عمر31 سے 40سال تھی۔
٭ سڑک حادثات میں متاثرہ افراد کے 13 فیصد کی عمر41 سے 50 سال تھی۔
٭ سڑک حادثات میں متاثرہ افراد کے 7 فیصد کی عمر51 سے 60 سال تھی۔
٭ سڑک حادثات میں متاثرہ افراد کے 5 فیصد کی عمر60 سال سے زائد تھی۔
٭ سڑک حادثات میں متاثرہ افراد کا 2 فیصد سپائنل انجری کا شکار ہوا۔
٭ سڑک حادثات میں متاثرہ افراد کا 11 فیصد سر کی چوٹ کا شکار ہوا ۔
٭ سڑک حادثات میں متاثرہ افراد کے 16 فیصد کی ٹانگ ٹوٹی۔
٭ سڑک حادثات میں متاثرہ افراد کے 5 فیصدکی ایک سے زائد ہڈیاں ٹوٹیں ۔
٭ سڑک حادثات میں متاثرہ افراد کے 67 فیصدکو معمولی چوٹیں آئیں ۔
٭ سڑک حادثات میں متاثرہ افراد کے ایک فیصد کی موت ہوئی ۔
٭ 80 فیصد سڑک حادثات موٹر سائیکل (بائیک) کے تھے۔
٭ 11 فیصد سڑک حادثات کار کے تھے۔
٭ تین فیصد سڑک حادثات ٹرک کے تھے۔
٭ 14 فیصد سڑک حادثات رکشہ کے تھے۔
٭ ایک فیصد سڑک حادثات بس کے تھے۔
٭ چھ فیصد سڑک حادثات ویگن کے تھے۔
٭ 12 فیصد سڑک حادثات دیگر موٹرسواریوں کے تھے ۔
٭ 43 فیصد سڑک حادثات تیز رفتاری کی وجہ سے ہوئے۔
٭ 33 فیصد سڑک حادثات غفلت کی وجہ سے ہوئے۔
٭ آٹھ فیصد سڑک حادثات غلط موڑ مڑنے کی وجہ سے ہوئے۔
٭ چھ فیصد سڑک حادثات یو ٹرین لینے کی وجہ سے ہوئے۔
٭ عشاریہ صفر آٹھ (0.08) فیصد سڑک حادثات ون ویلنگ کی وجہ سے ہوئے ۔
٭ عشاریہ 88 فیصد(0.88) سڑک حادثات ٹائر پھٹنے کی وجہ سے ہوئے۔
٭ نو فیصد سڑک حادثات دیگر وجوہات کی وجہ سے ہوئے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔