مودی کو کیا پیغام دیا جا رہا ہے

کسی بھی ریاست میں مخالفین کو دبانے کے لیے دلائل اور سیاسی سوجھ بوجھ کے بجائے جب مذہب کی توہین کا ہتھیار استعمال کیا جائے تو اس کا نتیجہ وہی نکلتا ہے جو آج کل بھارت کے مختلف شہروں میں ہمارے سامنے آ رہا ہے۔

ذات پات کے بے رحم نظام کی وجہ سے چار خانوں میں بٹی ہندو قوم کو یوں تو صدیوں سے کئی مسائل کا سامنا ہے، مگر ان مسائل کے ساتھ اس کی سب سے نچلی ذات کو اس وقت مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جب ان کی مذہبی کتاب کو سامنے رکھ کر مختلف ہندو علما نے اپنی مرضی کے مطابق اس کی تشریح کرتے ہوئے انھیں ایک مخصوص مذہبی اور سماجی دائرے میں قید کر دیا۔

اس عمل سے بھارتیہ جنتا پارٹی کے برسر اقتدارآنے کے بعد بھارت میں مذہب کی توہین کے نام پر جو پر تشدد کارروائیاں سامنے آئی ہیں اگر ان کا موازنہ پچھلے پچاس سال سے کیا جائے تو پتہ چلے گا کہ اس سلسلے میں پہلے جو اکا دکا فسادات مہینوں میں ہوا کرتے تھے وہ اب ہر روز ہونے لگے ہیں۔

موجودہ حکومت کی مدت کے دوران ہندو بنیاد پرستوں نے گائے کے گوشت اور تقدس کے نام پر نہ صرف مسلمانوں بلکہ نچلی ذات کے ہندوؤں پر بھی اتنا تشدد کیا کہ کئی افراد کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑے۔ جن دانشوروں نے مذہب کی غلط تشریح اور استعمال پر تنقید کی انھیں بھی قتل کیا گیا اور جو صحافی اس ظلم کے سامنے دیوار بنے انھیں ہمیشہ کے لیے خاموش کر دیا گیا۔ ایسا ہی ایک واقعہ اس سال کے پہلے دن پونے کے علاقے کورے گاؤں بھیما میں پیش آیا جس میں ایک دلت کی ہلاکت کے بعد صورت حال اتنی خراب ہوئی کہ ممبئی اور اس سے ملحق دوسرے بڑے شہروں اورنگ آباد اور پونے میں بھی ہنگامے پھوٹ پڑے۔

حالات کی سنگینی پر دلت برادری کے سماجی رہنما اور بھارتی آئین کے بانی ڈاکٹر امبیڈکر کے پوتے پرکاش امبیڈکر نے حکومت پر شدید تنقید کرتے ہوئے دو دن بعد ہڑتال کا اعلان کیا تو مہاراشٹر کے مختلف شہروں میں کاروبارزندگی مفلوج ہو کر رہ گیا۔ ہڑتا ل کے دوران مختلف دلت تنطیموں کی طرف سے حکومت کے خلاف نعرے بازی کی گئی اور مظاہرین نے سرکاری بسوں پر پتھراؤ کیا جس کی وجہ سے ممبئی کے تعلیمی ادارے بھی بند رہے اور دفتروں تک جانے والوں کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

حکومت کے خلاف کی گئی اس ہڑتال کو انتہائی کامیاب قرار دیا گیا جس میں پورے مہاراشٹر کے دلت اپنا احتجاج ریکارڈ کرانے کے لیے باہر نکلے تھے۔ ہڑتا ل کی کامیابی کی دوسری وجہ یہ بھی تھی کہ اس میں بائیں بازو کی مختلف تنظیموں سمیت تقریبا ڈھائی سو تنظیموں نے حصہ لیا جن میں مہاراشٹر ڈیموکریٹک فرنٹ کا نام سر فہرست تھا۔

پر تشدد واقعات اور ہڑتال کی وجوہات پر نظر ڈالی جائے تو بات دوسو سال پہلے یعنی 1881ء تک جا پہنچے گی جب 28000 مراٹھا سپاہی برطانوی فوج پر حملہ کرنے کے لیے پونا کی طرف بڑھے تو راستے میں ان کا سامنا ایک ایسے دستے سے ہوا جس میں آٹھ سو سپاہی شامل تھے۔ یہ دستہ انگریزوں کے خلاف لڑنے کے بجائے ان کی مدد کے لیے جا رہا تھا۔

مہار دلت نامی قبیلے سے تعلق رکھنے والے ان سپاہیوں کا تعلق بمبئی نیٹو انفنٹری سے تھا جسے دیکھ کرمراٹھا فوجیوں کے سربراہ پیشوا بالا جی باجی راؤنے اپنے 2000 فوجیوں کو حکم دیا کہ اس دستے پرحملہ کر دیں۔ لیکن اس کی امید اور سوچ کے برعکس کیپٹن فرانسس کی سر براہی میں بارہ گھنٹے تک دلیری سے لڑتے ہوئے اس دستے نے خود سے بڑے فوجی دستے کے بہت سارے جوانوں کو نہ صرف ہلاک کیا بلکہ بچ جانے والے کو پسپائی پر مجبور کر دیا۔

مختلف تاریخ دانوں نے اس لڑائی کو اپنے اپنے انداز سے دیکھا ہے، مگر ایک بھارتی تاریخ دان کا کہنا ہے کہ یہ جنگ انگریزوں کا ساتھ دینے کے لیے نہیں لڑی گئی تھی بلکہ مراٹھا برہمنوں نے شودروں کے ساتھ ذات پات کا جو سلوک روا رکھا ہوا تھا یہ اس کے خلاف بغاوت تھی۔

بات چاہے کچھ بھی ہو حکومت ہند نے اس واقعے کی یاد میں ’’مہار رجمنٹ‘‘ کے عنوان سے 1981ء میںڈاک ٹکٹ بھی جاری کیا اور اس سے قبل برطانوی حکومت نے پونے کے قریب اس مقام پر ایک یاد گاری دیوار بھی تعمیر کروائی تھی جہاںہرسال مہار قبیلے سے تعلق رکھنے والے دلت جمع ہوتے ہیں۔ گزشتہ برسوں کی طرح اس بار بھی جب دو سو سال گزرنے پر اس واقعے کی یاد منانے کے لیے اس ذات سے تعلق رکھنے والے افراد جمع ہوئے تو مخالف دھڑے کے ہندوؤںسے ان کی جھڑپ کے نتیجے میں ایک شخص ہلاک ہو گیا۔

بھارت میں اقلیتوں کے خلاف ہونے والے کسی واقعے کے خلاف اس طرح کے مظاہرے کو ایسا پہلا مظاہرہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا جس میں بڑے پیمانے پر بھارت کے سیکیولر اور اقلیتی حلقوں نے مل جل کر حصہ لیا۔اس سے قبل مذہبی انتہا پسندی کے زیادہ تر واقعات ان علاقوں میں پیش آتے تھے جہاں دائیں بازوکی ہندو مذہبی پارٹیوں کے زیادہ اثرات ہوتے تھے اور جہاں انفرادی طور پر پیش آنے والے پرتشدد واقعات کو حکومت اور انتظامیہ کی ملی بھگت سے دبا دیا جاتا تھا، مگر ان مظاہروں نے یہ ثابت کر دیا کہ اگر مستقبل میں ایسا ہوا تو بھارت کے اقلیتی اور سیکیولر عوام حکومت اور سنگھ پریوارکے خلاف اپنے گھروں سے باہر نکل کر مزید شدت کے ساتھ اپنا احتجاج ریکارڈ کروائیں گے۔

اگر اس واقعے کے خلاف مہاراشٹر میں ہی مظاہرے ہوتے تو بات مختلف تھی، مگر جلتی پر تیل کا کام اس وقت ہوا جب لندن میں بھی مودی کی حکومت اور بھارت میں ہونے والے پرتشدد واقعات کے خلاف مظاہرے شروع ہو گئے اور اس واقعے کی بازگشت پوری دنیا میں سنائی دی۔ ان مظاہروں میں بھارت اور جنوبی ایشیاء کے دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے افراد نے شریک ہو کر پارلیمنٹ اسکوائر سے لے کر بھارتی سفارت خانے تک مارچ کرتے ہوئے اپنے غم و غصے کا اظہار کیا۔

مظاہرے میں شامل ’’ساؤتھ ایشین سولیڈیرٹی گروپِِ‘‘ کی ایک خاتون ممبر کا کہنا تھا ’’میرے خیال میں مودی سرکار تک پیغام پہنچانا ضروری ہے کہ جوکچھ ہو رہا اسے دنیا بھرکے لوگ دیکھ رہے ہیں اور سوچ رہے ہیں کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ ان حملوں کا سلسلہ بھی مسلمانوں پر حملوں اور اقلیتوں پر حملوں سے ہی جا ملتا ہے۔‘‘ مودی کو دیا جانے والا یہ پیغام ان کی مصروفیت کی وجہ سے ان تک پہنچے یا نہ پہنچے، مگر آنے والا وقت انھیں یہ پیغام ضرور دے رہا ہے کہ مذہب کی توہین کے بہانے لوگوں پر تشدد یا ان کا استحصال کرنے والی حکومتوں کا مستقبل اب زیادہ روشن نہیں۔