ریٹرننگ افسروں کا کامیڈی تھیٹر

ایک فلم والے ’’موگامبو‘‘ کی طرح میں بھی خوش ہوا۔ ماضی کی ایک خوش شکل اور کبھی کبھار ضرورت سے ذرا  زیادہ بولڈ نظر آنے والی مسرت شاہین 62/63 میں طے کیے ہوئے معیار پر پورا اُتریں۔ انھوں نے ریٹرننگ آفیسر کے پوچھنے پر آیت الکرسی اور سورۃ الکوثر فرفر سنا دی۔ انھیں یہ سب کرنا اس لیے بھی ضروری تھا کہ ان کا مقابلہ ڈیرہ اسماعیل خان میں جمعیت العلمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن سے ہے۔ اتنے پائے کے مذہبی سیاسی را ہنما کا مقابلہ کرنے کے اہل بننے کے لیے مسرت شاہین کو یقینا بہت تیاری کرنا پڑی ہوگی۔ بالآخر ان کی محنت رنگ لائی اور وہ ایک کڑے مرحلے سے کامیابی کے ساتھ گزر کر اگلے مرحلے کی جانب چل پڑیں۔

مسرت شاہین تو 62\63 کا امتحان پاس کرچکیں۔ مگر ذاتی طور پر میں چوہدری اعتزاز احسن کی اس بات سے کلی طور پر متفق ہوں کہ اگر بانی پاکستان کو اس مرحلے سے گزرنا پڑتا تو شاید کچھ مشکلات پیش آتیں۔ قائد اعظم ایک کھرے انسان تھے۔ ان کی پیشہ وارانہ دیانت کا ان کے بدترین سیاسی دشمن بھی اثبات کرتے ہیں۔ انھوں نے خود کو کبھی بھی مسلمانوں کا مذہبی رہنما نہیں کہا۔ سختی سے اصرار کیا کرتے تھے کہ وہ صرف ایک سیاسی رہنما ہیں اور ان کا مقصد مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ مملکت قائم کرنا ہے تاکہ اس ملک میں ہندو کی عددی برتری کے خوف سے آزاد ہو کر مسلمان جمہوری نظام کے ذریعے ترقی اور خوش حالی کی منزلوں کی جانب سفر کر سکیں۔

اپنی تمام تر دیانت اور صاف شفاف کردار کے باوجود شاید انھیں Off Hand دُعائے قنوت سنانے میں مشکل پیش آتی۔ مجھے یقین ہے کہ اس صورت میں وہ اپنے اکل کھرے انداز میں ریٹرننگ آفیسر کو بتا دیتے کہ انھیں یہ دُعا یاد نہیں ہے اور ان کا اس دُعا کو یاد رکھنے کے قابل نہ ہونا انھیں انتخاب میں حصہ لینے کے لیے نا اہل نہیں بنا سکتا۔ اگر ریٹرننگ آفیسر اپنی بات پر اڑ جاتا تو قائد اعظم بھی اپنے اصول پر، نہ کہ ضد سے مجبور ہوکر، اعلیٰ ترین عدالتوں تک پہنچ کر اپنے موقف کی قانونی توثیق بھی حاصل کر لیتے۔

قائد اعظم کا بدقسمتی سے ہم نام تو بڑے ادب سے لیتے ہیں۔ مگر ان کے کردار کا اتباع کرنے کی لوگوں میں ہمت نہیں۔ اس حوالے سے علی احمد کرد کو سلام۔ انھوں نے صاف لفظوں میں راولپنڈی کے ایک ریٹرننگ آفیسر کو بتا دیا کہ انھیں کلمہ سنانے کا کہا گیا تو وہ انکار کردیں گے کیونکہ دین فہمی ان کا ذاتی معاملہ ہے۔ جس افسر کے سامنے وہ پیش ہوئے وہ بھی بڑے دل والے تھے۔ مگر سارے ریٹرننگ افسر تو ان جیسے نہیں ہیں۔ جان بوجھ کر اپنے سامنے آئے سیاستدانوں سے غسل کرنے کے اسلامی انداز نوعیت کے سوالات پوچھ کر 24/7 چینلوں کے لیے Segments  Infotainment بنوا رہے ہیں۔ پورے ملک میں ایک رونق لگی ہوئی ہے۔ کامیڈی تھیٹر چل رہا ہے۔ مگر کسی لکھنے والے کو اس پورے عمل کی مذمت کرنے کی جرأت نہیں ہو رہی۔

ایک حوالے سے دیکھا جائے تو آج جو کامیڈی تھیٹر چل رہا ہے، اس کا حقیقت میں اصل ذمے دار میرا بھائیوں سے بھی پیارا دوست رضا ربانی ہے۔ ربانی جوانی میں ’’سرخا‘‘ ہوا کرتا تھا۔ کچھ عادتیں ایک زمانے تک اس کی بھی ایسی رہی ہیں جو شاید 62/63 کی زد میں آتی ہوں۔ مگر اس سب کے باوجود وہ ایک باقاعدہ نمازی بھی رہا ہے۔ رمضان کے مہینے میں اس کی دین سے لگن زیادہ شدت کے ساتھ سامنے آ جاتی ہے۔ اس کے باوجود وہ مذہب اور سیاست کو ابھی تک ایک دوسرے سے جدا سمجھتا ہے۔ انھیں خلط ملط نہیں کرتا۔ موصوف اس پارلیمانی کمیٹی کے سربراہ تھے جس نے آئین کو ان ترامیم سے پاک کرنا تھا جو فوجی آمروں نے اپنی ذاتی سہولت اور اقتدار کی طوالت کے لیے متعارف کرائی تھیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اٹھارویں ترمیم کی تیاری کرتے وقت میرے بھائی نے 62/63 میں ضیاء الحق کی گُھسائی ترامیم پر توجہ کیوں نہ دی۔ موصوف بھول گئے تھے تو نہر سوئیز کے اس پار سیکولرازم کے سب سے بڑے چیمپئن بنے میرے اے این پی کے دوستوں کو کیا ہوا تھا۔ ایک منافقانہ Consensus کی تلاش میں رضا ربانی، حاصل بزنجو، افراسیاب خٹک وغیرہ وغیرہ جیسے ’’ترقی پسندوں‘‘نے یقیناً موقعہ پرستی دکھائی۔اب اگر آیندہ انتخابات میں حصہ لینے کے خواہش مند میرے اور آپ کے دل کو خوش رکھنے والی خبریں بنوا رہے ہیں تو میرے دل میں ان کے لیے کوئی رحم پیدا نہیں ہوتا۔ ان کے سینیٹ اور قومی اسمبلی میں بیٹھے ساتھیوں نے جو فروگزاشتیں کی تھیں، ان کا صلہ بھگتیں اور ہمیں خوش کرتے رہیں۔

تاہم پارسائی کے نام پر سیاست دانوں کی بھد اُڑانے والوں کو یہ بات بھی یاد رکھنا چاہیے کہ 11 مئی پاکستان کی سیاست کا آخری دن نہیں ہو گا۔ سیاسی نظام نے اس دن کے بعد بھی کسی نہ کسی صورت چلتے رہنا ہے اور اقتدار بالآخر ان ہی لوگوں کو منتقل ہونا ہے جن کی اکثریت کو ا ٓج کل ہم مختلف النوع اذیتوں سے گزار رہے ہیں۔انگریزی کے ایک محاورے کے مطابق منتخب حکومت اور اسمبلیوں کے قیام کے بعد Stick  ان اداروں کے پاس چلی جائے گی اور پھر Receiving End پر کوئی اور بھی ہو سکتا ہے۔ اس وقت سے ڈریں جب پارلیمانی کمیٹیوں میں بیٹھے لوگوںنے دوسروں سے سوالات پوچھنا شروع کردیے کہ ان کی کتنی بیویاں ہیں اور کیا وہ اس سے مساوی سلوک کرتے ہیں یا نہیں۔ پنجابی کاایک محاورہ متنبہ کرتاہے کہ چیزیں اگر کبھی چاچے کے پاس ہوں تو پھر بابے کے پاس بھی جایا کرتی ہیں۔