احتساب اور جمہوریت

تقریباً ایک سال طویل شنوائی کے بعد اسلام آباد کی احتساب عدالت نے سابق وزیراعظم نواز شریف کو 10 سال قید، ایک ارب 29 کروڑ روپے جرمانہ ان کی صاحبزادی مریم کو 7 سال قید 32 کروڑ روپے جرمانہ اور نواز شریف کے داماد کیپٹن (ر) صفدر کو ایک سال قید کی سزا سنائی ہے، اس کے علاوہ ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کو بحق سرکار ضبط کرنے کا بھی حکم دیا ہے، جھوٹی دستاویزات جمع کرانے پر مریم نواز کو مزید ایک سال قید کا حکم بھی دیا ہے۔

اس سزا کے حوالے سے نواز شریف نے کہا ہے کہ انھیں تاریخ کا رخ موڑنے کے جرم میں یہ سزا ملی ہے۔ میاں صاحب نے کہا ہے کہ وہ جیل سے بھی اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔ مریم نواز نے کہا ہے کہ اصل فیصلہ 25 جولائی کو عوام کریں گے۔

پاناما لیکس کے افشا کے بعد سے دنیا بھر میں حکمرانوں کی پکڑ دھکڑ کا جو سلسلہ شروع ہوا ہے شریف فیملی کے خلاف کارروائی بھی اسی کا حصہ ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں اس سے قبل حکمران اشرافیہ کے خلاف کبھی احتساب نہیں کیا گیا، اس تناظر میں میاں فیملی کے خلاف یہ کڑا احتساب حیرت اور تعجب کا باعث بنا ہوا ہے۔ کرپشن کا سلسلہ کسی نہ کسی لیول پر 70 سال سے جاری ہے، اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ 70 سال سے ملک کی اشرافیہ سیاست اور اقتدار پر قبضہ جمائے بیٹھی ہے۔

سوال یہ  پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایک شریف فیملی کے خلاف کارروائی سے ملک میں کرپشن رک جائے گی؟ ایسا ممکن نہیں ہے، کیونکہ اشرافیہ مضبوط بھی ہے بااختیار بھی ہے۔ اگر شریف فیملی کے خلاف کارروائی کرپشن کے خلاف نقطہ آغاز ہے تو یہ امید کی جاسکتی ہے کہ اشرافیہ کی لوٹ مار کے گلے میں رسی ڈالی جاسکتی ہے، اگر احتساب شریف فیملی تک محدود ہوتا ہے تو نہ صرف کرپشن جاری رہے گی بلکہ احتسابی طاقتوں پر جانبداری کا لیبل بھی لگ جائے گا۔

25 جولائی کو ملک میں عام انتخابات ہونے جارہے ہیں۔ شریف فیملی کے ارکان مطمئن ہیں کہ 25 جولائی کو عوام ان کے حق میں فیصلہ دیںگے۔ اگر ایسا ہوا تو پھر احتساب کا مستقبل کیا ہوگا۔ پاکستان میں یہ مسائل اس لیے پیدا ہورہے ہیں کہ پاکستانی جمہوریت سے عوام کو دودھ کی مکھی کی طرح نکال کر پھینک دیا گیا ہے اور 25 جولائی کو بھی عوام ووٹ ڈالنے کی ذمے داری تک محدود رہیں گے۔ عوام کو سیاست بدر کرنے کے بعد سیاست اور اقتدار پر اشرافیہ کی گرفت اس قدر مضبوط ہوگئی ہے کہ وہ بلا خوف و خطر لوٹ مار کا بازار گرم کیے ہوئے ہیں۔

بھارت آبادی کے حوالے سے دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے اور جمہوریت کے حوالے سے دنیا یہ تسلیم کرتی ہے کہ بھارت دنیا کا سب سے بڑا جمہوری ملک ہے، بھارتی جمہوریت کی ایک منفرد بات یہ ہے کہ بھارتی جمہوریت پر اشرافیہ کا قبضہ نہیں ہے اس کے برعکس بھارتی سیاست میں مڈل اور لوئر مڈل کلاس ہی نہیں بلکہ محنت کش طبقات کے لوگ نہ صرف شامل ہیں بلکہ انتہائی فعال بھی ہیں، ویسے تو ماضی میں بھی بھارت کے صدر اور وزیراعظم کا تعلق مڈل اور لوئر مڈل کلاس سے رہا ہے لیکن بھارت کے موجودہ وزیراعظم کا تعلق سماج کے اس بچھڑے ہوئے طبقے سے ہے جس کی سماج میں کوئی عزت نہیں ہوتی۔ کیا یہ بات حیران کن نہیں ہے کہ بھارت کے موجودہ وزیراعظم ایک ڈھابے پر باہر والے کا کام انجام دیتے رہے ہیں؟ کیا پاکستان کی سیاست اور جمہوریت میں یہ ممکن ہے کہ ایک محنت کش اس ملک کا وزیراعظم بن جائے؟

میں نے بھارتی سیاست اور جمہوریت کا ذکر اس لیے کیا ہے کہ دنیا کی اس سب سے بڑی جمہوریت میں کرپشن کے وہ اسکینڈل دیکھے نہیں جاتے جو پاکستان میں روز مرہ کی بات بنے ہوئے ہیں۔ ہماری اشرافیائی جمہوریت کا نتیجہ یہ ہے کہ ملک کے تمام قومی ادارے کرپشن کا گڑھ بنے ہوئے ہیں اور وزیراعظم کے قریبی معتمدین بھاری یعنی اربوں کی کرپشن میں گرفتار ہورہے ہیں۔

جمہوریت ماڈرن دنیا کا ماڈرن سیاسی نظام ہے اور موجودہ دور میں کوئی جمہوریت کی مخالفت نہیں کرسکتا لیکن سوال یہی پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہمارے ملک میں جو جمہوریت رائج ہے وہ جمہوریت کے معیار پر پوری اترتی ہے؟ ہماری جمہوریت کا حال یہ ہے کہ ہمارے جمہوری اکابرین نچلے طبقات کو محض ووٹ ڈالنے کی مشین سمجھتے ہیں پانچ سال میں ایک بار ان مشینوں سے ووٹ ڈالنے کا کام لیا جاتا ہے بس!

ہمارے قلمی اکابرین جمہوریت کے سخت حامی ہیں اور کوئی جمہوریت کے حوالے سے ان کے موقف کی مخالفت نہیں کرسکتا لیکن اس حوالے سے یہ دوست جو دلیل پیش کرتے ہیں کہ جمہوریت کے تسلسل سے جمہوریت میں بہتری آئے گی اور جمہوریت عوامی ہوجائے گی اس موقف یا دلیل کو ماننا اس لیے مشکل ہوجاتا ہے کہ 70 سال گزر گئے ہماری جمہوریت وہی ہے جو 70 سال پہلے تھی اس میں کوئی تبدیلی آتی ہے تو یہ کہ اب ہماری جمہوریت میں ولی عہدی نظام مضبوط ہوتا جارہاہے۔ کیا جمہوریت کی اندھی مخالفت کرنے والے یہ بتاسکتے ہیں کہ ولی عہدوں کی یہ لمبی لائن کب اور کیسے ختم ہوگی اور عوام کب بالادست بنیںگے؟

ہم نے بات شروع کی تھی سابق وزیراعظم، ان کی صاحبزادی اور داماد کی سزاؤں سے اور پہنچ گئے بھارتی جمہوریت تک، اصل میں بھارتی جمہوریت کا حوالہ یوں دینا پڑ رہا ہے کہ بھارتی جمہوریت میں مڈل کلاس ہی نہیں ورکنگ کلاس بھی فعال ہے جس کی وجہ سے بھارت میں کرپشن کے وہ اسکینڈل سامنے نہیں آتے جو پاکستان میں دیکھے جاتے ہیں لیکن ایسا بالکل نہیں ہے کہ بھارتی سیاست کرپشن سے بالکل پاک ہے کیونکہ جب تک سرمایہ دارانہ نظام موجود ہے سرمائے کا ارتکاز لازمی ہے اور سرمائے کا ارتکاز کرپشن کے بغیر ہو ہی نہیں سکتا۔