سیاسی جماعتوں کا جمعہ بازار

ہندوستان کی تاریخ میں 2070ء بڑا عجیب اور اہم سال تھا۔ اس سال پوری ایک صدی بعد خاندانی منصوبہ بندی رنگ لائی اور ملک کی آبادی پچپن کروڑ سے گھٹ کرپچپن لاکھ رہ گئی۔ لیکن اِدھر آبادی کم ہوئی اُدھر سیاسی جماعتوں کی تعداد میں حیرت انگیز اضافہ ہوا۔ چنانچہ ان کی تعداد پانچ سو پچپن تک جا پہنچی حالانکہ 1970ء میں صرف پچپن پارٹیاں تھیں۔

دراصل مشہور سیاسی جماعتوں نے خاندانی منصوبہ بندی کے اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے متعدد پارٹیوں کو جنم دے ڈالا۔ مثال کے طور پر ’’پاگل پارٹی‘‘کو ہی لیجیے۔اس کی چودہ اولادیں ہوئیں جن میں سے ’نیم پاگل پارٹی،‘’ تین بٹہ چار پاگل پارٹی‘، ’پانچ بٹہ چھ پاگل پارٹی‘ اور ننانوے فیصد پاگل پارٹی‘ قابل ذکر ہیں۔

’’تلوار پارٹی‘‘ کے بچوں کی تعداد اکیس تھی جن میں سے چند کے نام یہ تھے: ’تیز تلوار پارٹی‘، ’کند تلوار پارٹی‘، ’ زنگ خوردہ تلوار پارٹی‘۔ جہاں تک ’’لچر پارٹی‘‘ کا تعلق ہے، اسے بتیس پارٹیوں کا خالق ہونے کا فخر حاصل تھا۔ جن میں سے ’لچر لچر پارٹی‘، ’لچر تر پارٹی‘، ’لچر ترین پارٹی‘ نے دیار ہند میں اپنا مقام پیدا کیا۔ ایک مختصر سے مضمون میں ان تمام پارٹیوں کا تعارف ناممکن ہے، اس لیے صرف چند پارٹیوں کا ذکر کیا جاتا ہے۔

٭پستول پارٹی:(الیکشن نشان کارتوس) یہ 1980ء کی مشہور پارٹی کی (جس کا نام ریوالور تھا) پڑپوتی تھی۔ اس کا نعرہ تھا:اٹھ ساقی اٹھ، پستول چلا۔ اس کا عقیدہ تھا کہ جو شخص دلائل سے قائل نہیں ہوتا اسے پستول سے کیا جاسکتا ہے۔ کیونکہ موت کے بعد کوئی شخص بحث نہیں کرسکتا۔ یہ پارٹی سمجھتی تھی کہ ہندوستان کے تمام مسائل کا علاج پستول ہے۔ اگر ہر شخص کے ہاتھ میں پستول تھما دیا جائے تو وہ اپنی روزی کا بندوبست خود کر لے گا اور اس طرح خوراک اور بے روزگاری کے مسائل خودبخود حل ہوجائیں گے۔

٭بندوق پارٹی:(الیکشن نشان تھری ناٹ تھری) اس پارٹی کے اراکان پہلے پستول پارٹی سے تعلق رکھتے تھے۔ بعد میں انھوں نے پارٹی کے خلاف بغاوت کر کے ایک نئی پارٹی قائم کی۔ اس پارٹی کی رائے میں ہندوستان کو پستول نہیں بندوق کی ضرورت تھی۔ اس پارٹی کا دعویٰ تھا کہ جتنے اشخاص پستول پارٹی نے ایک سال میں ہلاک کیے، ان سے زیادہ اس نے ایک ہفتہ میں کر ڈالے۔ اس کا پارٹی کا نعرہ تھا ‘‘بندوقا پر مودھرما۔’’

٭دھماکا پارٹی:(الیکشن نشان بارود) اس پارٹی کے اراکان کا صرف ایک شغل تھا یعنی ہر روز کہیں نہ کہیں دھماکا ہونا چاہیے۔ کسی بلڈنگ، کسی چھت، کسی دیوار کو ریزہ ریزہ ہو کر ہوا میں اڑنا چاہیے۔ اس پارٹی سے ریلوے اسٹیشن، ڈاکخانے، تار گھر خاص طور پر پناہ مانگتے تھے۔ کیونکہ اسے اس قسم کی عمارتوں سے ‘‘الرجی’’ تھی۔ اس پارٹی کا نعرہ تھا: ’’ہم اپنی تخریب کر رہے ہیں ہماری وحشت کا کیا ٹھکانا؟!‘‘

٭پراچین سنسکرت پارٹی:(الیکشن نشان جنگل) اس پارٹی کا نعرہ تھا: دوڑ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو!یہ پارٹی پتھر اور دھات کے زمانے کو از سرنوزندہ کرنا چاہتی تھی۔ اسے ہوائی جہاز، ٹیلی ویڑن اور لپ اسٹک سے سخت نفرت تھی۔ یہ چھکڑے، رتھ اور پان کی دلدادہ تھی۔ اس کے خیال میں وقت کو ماضی، حالت اور مستقبل کے خانوں میں بانٹنا سراسر غلط تھا۔ صحیح تقسیم یہ تھی: ماضی، ماضی، ماضی۔

٭خونخوار پارٹی:(الیکشن نشان بھیڑیا) یہ پارٹی طاؤس و رباب کے بجائے شمشیر و سنان کی سرپرستی کرتی تھی۔ اس کا عقیدہ تھا، عوام بھیڑیں ہیں، پہلے ان سے ووٹ حاصل کرو پھر ان پر بھیڑیوں کی طرح ٹوٹ پڑو۔ اگر وہ شکایت کریں تو انھیں طعنہ دو کہ بھیڑیوں کو ووٹ دو گے تو تمہارا یہی حشر ہوگا۔

٭مکار پارٹی:(الیکشن نشان لومڑی) اس پارٹی کا دعویٰ تھا کہ کامیاب سیاست داں وہ ہے جو لومڑی اور لگڑ بگڑ کا مرکب ہو۔جو غریبوں کے ساتھ ہمدردی جتائے، لیکن ساتھ ہی ان کا خون چوسے۔ جو عوام کی خدمت کرنے کا حلف اٹھائے لیکن دراصل اپنے کنبے کی خدمت کرے۔ پلیٹ فارم پر جنتا کی محبت کا دم بھرے لیکن درپردہ انھیں لوٹنے کے منصوبے بنائے۔ جو عوام کو دس بار دھوکا دینے کے بعد گیارھویں بار دھوکا دینے کے لیے تیار رہے اور جو دن رات اقبال کا یہ مصرع گنگنائے     ع

کائر کی چالوں سے بازی لے گیا سرمایہ دار

٭غدار پارٹی:(الیکشن نشان مار آستین) ملک اور قوم سے غداری کرنا اس پارٹی کا شیوہ تھا۔ یہ پارٹی جس تھالی میں کھاتی اسی میں چھید کرتی تھی۔ اس پارٹی کے اراکان کا شجرہ نسب جعفر اور صادق سے ملتا تھا جن کے متعلق اقبال نے کہا تھا

جعفر از بنگال و صادق از دکن

ننگ ملت، ننگ دیں، ننگ وطن

٭ضمیر فروش پارٹی:(الیکشن نشان ابلیس) یہ پارٹی اپنا ضمیر ننگا کرنے کے لیے ہر وقت تیار رہتی تھی۔ اس کی دانست میں جو شخص اپنا ضمیر فروخت نہیں کرتا وہ ہمیشہ تنگ دست اور بدحال رہتا تھا۔ اس پارٹی کے اراکان کھلے بندوں خریداروں کو بولی دینے کے لیے کہتے تھے اور سب سے بڑی بولی پر اپنا ضمیر فروخت کر کے خوشی سے پھولے نہ سماتے ۔ جب ان سے پوچھا جاتا کہ خدا کو کیا منہ دکھاؤگے تو کہتے تھے ،منہ پر نقاب ڈال لیں گے۔

٭بے غیرت پارٹی:(الیکشن نشان چکنا گھڑا) یہ پارٹی ہر بار الیکشن میں ناکارہ رہتی تھی، لیکن الیکشن لڑنے سے باز نہ آتی ۔ اس پارٹی کے ہر رکن کی ضمانت ضبط ہو جاتی تھی، لیکن اس کے باوجود اسے یقین رہتا کہ ایک نہ ایک دن ضرور کامیاب ہوں گا اور حکومت کی باگ ڈور سنبھالوں گا۔

٭نہایت بے غیرت پارٹی:(الیکشن نشان گنجی چاند)اس پارٹی کا صرف ایک رکن تھا جوخود ہی پریذیڈینٹ، جنرل سکریٹری اور خزانچی تھا اور جس کو الیکشن میں صرف ایک ووٹ ملتا یعنی اپنا ہی ووٹ۔ کہا جاتا ہے کہ پہلے اس پارٹی کے دو اراکان تھے۔بعد ان میں جھگڑا ہو گیا اوردوسرے رکن نے اپنی علیحدہ پارٹی بنا لی جس کا نام غایت درجہ بے غیرت پارٹی تھا۔

٭گرگٹ پارٹی(الیکشن نشان ‘گرگٹ’) اس پارٹی کا نعرہ تھا:بدلتاہے رنگ آسماں کیسے کیسے! اس پارٹی کے اراکان صبح کو مکار، دوپہر کو خونخوار، شام کو غدار اور رات کو بدکار کہلاتے تھے۔انھیں اس بات پر ناز تھا کہ جس سرعت کے ساتھ ہم پارٹی بدلتے ہیں، لوگ قمیص بھی نہیں بدلتے۔ معمولی سے معمولی لالچ کی خاطر یہ اپنے احباب کو آنکھیں دکھا کر اغیار کی جماعت میں شامل ہوجاتے۔ عموماً اپنی صفائی میں علامہ اقبال کا مصرع پیش کیا کرتے

ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں

٭خود غرض پارٹی:(الیکشن نشان جنگلی سور)اس پارٹی کے اراکان ملک اور قوم کے مفاد کو ذاتی مفاد پر قربان کرنے کے لیے ہمیشہ تیار رہتے ۔ الیکشن جیتنے کے بعد ان میں سے ہر شخص وزیر اعلیٰ بننے کی کوشش کرتا اور جب اپنی کوشش میں ناکام رہتا تو وزارت کا تختہ پلٹنے کی کوشش کرتا۔ اور عموماً کامیاب ہوجاتا۔ اس کے بعد داغ دہلوی کا یہ مصرع زبان پر لاتا:

ایمان کی تو یہ ہے کہ ایمان تو گیا

(نوٹ بظاہر یہ پارٹیاں مختلف تھیں، ان کے الیکشن نشان مختلف تھے، ان کے نعرے مختلف تھے، اصول مختلف تھے، لیکن ان سب کا نصب العین ایک تھا… یعنی قلیل سے قلیل مدت میں ہندوستان کو تباہ و برباد کیا جائے۔ چناںچہ ان کی مشترکہ امیدیں2075ء میں بر آئیں اور ہندوستان کا نام لوح جہاں سے حرف مکرر کی طرح مٹا دیا گیا ۔ اس کے ساتھ پارٹیوں کا مادی اور سیاسی وجود بھی ختم ہوگیا!)