بڑے میاں تو بڑے میاں، چھوٹے میاں بھی سبحان اللہ

عمران خان صاحب عن قریب ہی وزیراعظم کا حلف اٹھانے والے ہیں لیکن تاحال وہ اور ان کی جماعت غیر سنجیدہ رویہ ترک نہیں کر پارہی ہے۔ مثلاً قومی انتخابات سے پہلے ٹکٹوں کی تقسیم کا معاملہ عمران خان نے اپنی نگرانی میں نہیں کروایا تھا (جبکہ بلاشک و شبہ یہ بہت حساس معاملہ ہوتا ہے جس میں جماعت کے چیئرمین کی نہ صرف موجودگی ضروری ہوتی ہے بلکہ امیدوار کے چناؤ کا حتمی فیصلہ بھی چیئرمین ہی کو کرنا ہوتا ہے) جس کی وجہ سے بعد میں انہیں شدید کوفت اور پریشانی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

حالیہ فتح کے بعد ان کی جماعت کے ایک رہنما نے بلوچستان کے نمائندوں کو اعتماد میں لیے بغیر ہی بلوچستان کے وزیر اعلی کا اعلان کردیا اور اس طرزعمل پر یہ ضرب المثل بالکل صادق آتی ہے کہ بڑے میاں تو بڑے میاں، چھوٹے میاں بھی سبحان اللہ! اسی وجہ سے بلوچستان سے فتح یاب منتخب نمائندوں نے بنی گالہ پر شدید تنقید کی کیونکہ، بقول ان کے، ان سے مشاورت کس نے کی؟ یعنی بناء مشاورت ہی اپنی مرضی سے وزیراعلی نامزد کردیا گیا۔ اس کے برعکس، بلوچستان کے منتخب ارکان نے واضح بیان دیا کہ یہ فیصلہ بلوچستان میں ہی ہوگا کہ ہمارا وزیر اعلی کون بنے گا۔

تبدیلی کا نعرہ لگا کر برسر اقتدار آنے والی جماعت کا یوں بے تکے انداز میں فیصلے کرنا کسی المیے سے کم نہیں۔ اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ پی ٹی آئی کا رویہ انتہائی غیر ذمہ دارانہ اور غیر سنجیدہ ہے جبکہ ملکی حالات میں تبدیلی لانی ہے تو اس کےلیے غیر متزلزل ارادوں اور فیصلوں کی ضرورت ناگزیر ہے کیونکہ جس طرح کی تبدیلی کا خواب عمران خان صاحب نے عوام کو دکھایا ہے، اس خواب کو پورا کرنے کےلیے پاکستان کے پہاڑ جیسے مسائل کو حل کرنا از حد ضروری ہے؛ لیکن جو عمران خان صاحب کا انداز ہے، اور جس طرح ایک دوسرے کو اعتماد میں لیے بغیر پی ٹی آئی کو فیصلے کرنے کی عادت ہے، اس طرح پاکستان کے مسائل مزید بڑھ تو سکتے ہیں، کم یا ختم نہیں ہوسکتے۔ جس طرح خان صاحب بے تکان بولتے چلے جاتے ہیں اور حاضرین و سامعین کو اپنے ٹھوس اور جاندار خطاب سے ایک غیر مرئی گرفت میں لے لیتے ہیں، بالکل اسی طرح عمران خان صاحب کو ایسی ٹھوس اور جاندار حکمت عملی کے ساتھ ساتھ عملی اقدامات کی بھی اشد ضرورت ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ خان صاحب کی نجی زندگی میں لااُبالی اور کھلنڈرا پن جھلکتا ہے جس کی حالیہ اور واضح مثالیں یکے بعد دیگر ان کی دوسری اور تیسری شادی ہے جس کی دھوم پوری دنیا میں ہے؛ اور جس کی وجہ سے اقوام عالم نے عمران خان صاحب کی شخصیت کو بطور سیاست دان مضحکہ خیز قرار دیا بلکہ پاکستان میں بھی ناقدین نے خان صاحب کے اس اقدام کو آڑے ہاتھوں لیا اور ایسے سیاستدان یا لیڈر پر عدم اعتماد کا اظہار کیا گیا۔ لیکن عمران خان قسمت کے دھنی ہیں کہ پھر بھی انہیں چاہنے والے کم نہ ہوئے۔ پھر بھی بہت سے ناقدین اور اینکرز نے عمران خان کے اس معاملے کو ان کا ’’پرسنل رائٹ‘‘ کہہ کر دفاع کیا۔ چلو! بات آئی گئی ہوگئی۔ چلو! یہ بات مان لی کہ شادی کرنا خان صاحب کا ذاتی معاملہ ہے (بالکل ایسا ہی ہے)، وہ چاہیں تو تین شادیاں کریں یا چار، ان کی مرضی۔ اسلام باقاعدہ اس فعل کی اجازت دیتا ہے۔

راقم تو بس ایک بات یہ پوچھنا چاہتا ہے کہ کیا عمران خان سیاست میں بھی اپنے لاابالی انداز اور کھلنڈرے پن سے کام تو نہیں لے رہے؟ خان صاحب کا انتخابات سے پہلے امیدواروں کو ٹکٹوں کی تقسیم میں غیر موجود ہونا ان کے غیرسنجیدہ اور بے پرواہ فعل کی نمائندگی کرتا ہے جبکہ یہ معاملہ کسی بھی جماعت کے چیئرمین کےلیے انتہائی اہم ہوتا ہے۔ ایسے معاملے کو کسی بھی طرح اپنے ایک یا دو دوستوں کی صوابدید پر نہیں چھوڑا جاسکتا کیوں کہ یہ فیصلہ لیڈر ہی کرسکتا ہے، خاص کر ایسا لیڈر جو اپنے عوام کو ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا کرنا چاہتا ہو، ایسا رسک کبھی نہیں لے سکتا کہ ٹکٹوں کی تقسیم کسی کے بھی حوالے کردے۔

ابھی سے ہی خان صاحب کی سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے لگالیجیے کہ چھوٹے میاں (جہانگیر خان ترین) نے بلوچستان صوبائی اسمبلی کے وزیراعلی کا اعلان کردیا، وہ بھی بلوچستان کے منتخب امیدواروں سے مشاورت کیے بغیر۔ تو کیا یہ اقدامات پی ٹی آئی کے لاابالی اور کھلنڈرے پن کی نمائندگی نہیں کرتے؟ اب کیا عمران خان صاحب کو چھوٹے میاں صاحب کے اس اقدام کی خبر نہیں ہوگی؟ اگر خان صاحب اس عمل سے بے خبر ہیں تو پھر پی ٹی آئی ایک غیر منظم جماعت ہے؛ اور اگر خان صاحب کے حکم سے یہ اعلان ہوا ہے تو پھر بھی پی ٹی آئی پر بے حساب سوالات اٹھتے ہیں۔

راقم کا مقصد خان صاحب پر کوئی غصہ نکالنا نہیں، وہ ہمارے پاکستان کے اگلے وزیراعظم ہیں، انہیں ڈھیروں مبارکباد۔ بس عرض یہ ہے کہ خدارا خود کو اور اپنی جماعت کو منظم کیجیے اور غیر متزلزل ارادے سے، غیرمتزلزل فیصلے کیجیے چاہے وقتی طور پر آپ کے قریبی ساتھی ناراض ہی کیوں نہ ہوں۔ ورنہ خان صاحب صوبائی اور قومی اسمبلی میں حکومت بنانے میں نہ صرف تاخیر کا شکار ہوں گے بلکہ لولی لنگڑی اور ڈانواڈول حکومت ہی بناپائیں گے جو شاید ایک سال ہی چل سکے گی۔ ممکن ہے کہ راقم کا تجزیہ کچھ لوگوں پر گراں گزرے لیکن ایک تجزیہ کار کالم نویس کو جو دکھائی دیتا ہے، وہی وہ لکھتا بھی ہے اور اپنے قلم کا حق ادا کرتا ہے۔

ہم سب پاکستانی ہیں اور ہمیں اپنے وطن سے پیار ہے جس کا تقاضا ہے کہ ہم اپنے ملک کی ترقی میں خاص کردار ادا کریں؛ اور یہی ہم صرف عمران خان صاحب سے ہی نہیں، ہر آنے والے منتخب وزیراعظم سے امید بھی کرتے ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔