مجھے ’’سب سے پرانا پاکستان‘‘ چاہیے!

آج کل ایک نعرہ ’’نیا پاکستان‘‘ زبان زد عام ہے، ہرکوئی اپنی سوچ اور اپنی خواہش کے مطابق نئے پاکستان کے خواب دیکھ رہا ہے۔ کوئی یہ چاہتا ہے کہ نئے پاکستان میں بجلی نہ جائے تو کسی کی یہ خواہش ہے کہ نئے پاکستان میں مہنگائی نہ ہو جبکہ کسی کو نئے پاکستان میں کرپشن، چوری اور بدعنوانی سے چھٹکارا چاہیے۔ غرض یہ کہ ہم راتوں رات ملک کی حالت بدلتے دیکھنا چاہتےہیں۔ ہم سب ’’پرانے پاکستان‘‘ سے متنفر ہوچکے ہیں۔ حالانکہ ہم صحیح طرح پرانے پاکستان سے واقف ہی نہیں۔

ہم نہیں جانتے کہ 1960 میں پی آئی اے دنیا کی دوسری بہترین ایئرلائن تھی۔ ہم نہیں جانتے کہ ہمارے پاس دنیا کی بہترین اسٹیل مل موجود ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ ہمارے پاس حجم کے لحاظ سے دوسرا بڑا ڈیم موجود ہے۔ ہم یہ بھی نہیں جانتے کہ پاکستان نے 1963 میں جرمنی کو 120 ملین روپے کا قرض دیا تھا… اور ایسے بہت سے حقائق سے ہم ناواقف ہیں۔ ضرورت صرف اپنا قبلہ درست کرنےکی ہے۔

میرے خیال میں اگر ہم نے پرانے پاکستان کو اپنا لیا تو ہمیں اس طرح کے نعروں اور وعدوں کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی! ہمیں نئے پاکستان کے بجائے قائد کے پاکستان کی جدوجہد کرنی چاہیے۔ آئیے آج میں آپ کو بانیِ پاکستان کے ’’پرانے پاکستان‘‘ کی جھلک دکھاتا ہوں۔

ایک نرس تھی زیارت میں، اس کا تعلق سیالکوٹ سے تھا۔ اس نےقائداعظمؒ کی بے پناہ خدمت کی۔ پوری زندگی میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ قائداعظم نے کسی سےکہا ہو ’’میں آپ کےلیے کیا کرسکتا ہوں؟‘‘ مگر اس نرس سے پوچھا کہ بیٹی میں آپ کےلیے کیا کرسکتا ہوں؟ نرس نے جواب دیا کہ میرا تعلق سیالکوٹ سے ہے۔ میری ڈیوٹی زیارت میں ہے۔ مجھے اپنے خاندان سے دور زیارت آنا پڑتا ہے۔ میں چاہتی ہوں کہ میرا تبادلہ سیالکوٹ کردیا جائے۔ قائداعظمؒ نے جواب دیا، ’’بیٹا میں آپ کا یہ کام نہیں کرسکتا کیونکہ یہ گورنر جنرل کا نہیں، سیکریٹری ہیلتھ کا کام ہے۔‘‘

ایک خواب تھا۔ میں اس خواب کی تعبیر چاہتا ہوں۔ صدر صاحب سے چاہتا ہوں، وزیراعظم سے اور ہر اس شخص سے چاہتا ہوں جس کے پاس اختیار ہے؛ اور وہ جب چاہے، جسے چاہے تبدیل کرسکتا ہے! کہا جاتا ہے کہ اگر آپ کو لاہور میں ایک اے ایس آئی یا ایک پٹواری بھی تبدیل کرنا ہے تو جب تک وزیراعلیٰ صاحب نہیں چاہیں گے، یہ نہیں ہوسکتا۔ آپ کو گورنر یا چیف منسٹر کی سفارش چاہیے ہوگی! مجھے نیا خواب نہیں، چاہیے مجھے اسی پرانے خواب کی تعبیر چاہیے!

یہ ملک جب بنا تھا تو پہلی تقریب تھی۔ قائداعظمؒ گورنر جنرل آف پاکستان بن رہےتھے۔ دعوتی کارڈز تقسیم ہونے تھے کہ 15 اگست 1947 کی تقریب میں کن کن لوگوں کوبلایا جائے۔ ان میں کچھ ہندو تاجروں کےنام تھے۔ سیکریٹری نے کہا کہ ہم انہیں نہیں بلاتے۔ قائداعظمؒ نے پوچھا کہ کیوں نہیں بلوانا؟ جواب ملا کہ ہندوستان میں لڑائیاں ہورہی ہیں، لوگ مر رہے ہیں اس لیے۔ آپ کا امیج خراب ہوگا۔ قائداعظمؒ نے کہا نہیں! میں یہ چاہتا ہوں کہ ایسا ملک بناؤں جہاں اقلیتوں کو اتنے ہی حقوق حاصل ہوں جتنے اکثریت کو ہیں۔ اور یوں قائداعظمؒ کے حکم پر پہلا کارڈ پاکستانی ہندو شہری کو جاری ہوا۔

اسی ملک میں آج اقلیتوں کے گھر جلادیئے جاتے ہیں، پوری پوری بستیاں جلادی جاتی ہیں۔ ان کی عبادت گاہیں جلادی جاتی ہیں مگر ان کی حفاظت کےلیے نہ پولیس سامنے آتی ہے، نہ مسلمان کمیونٹی، نہ پرہیزگار عالم دین اور نہ ہی میڈیا۔ کوئی ادارہ ان کی حفاظت کےلیے باہر نہیں آتا۔ مجھے قائداعظم کے اسی خواب کی تعبیر چاہیے۔

ملیر کینٹ میں قائداعظمؒ روز سیر کیا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ وہ سیر کرنے گئے تو راستے میں پھاٹک بند تھا۔ قائداعظم کی گاڑی رک گئی۔ اے ڈی سی فوراً اترے اور انہوں نے پھاٹک والے سے کہا کہ تمہیں پتا ہے گاڑی میں کون بیٹھا ہے؟ اس نے پوچھا کون بیٹھا ہے؟ جواب دیا گورنر جنرل آف پاکستان بیٹھے ہیں۔ پھاٹک فوراً کھول دیا گیا۔ وہ جب واپس آیا تو قائداعظمؒ نے پوچھا: گیٹ کیوں کھلوایا؟ اس نے کہا سر آپ کو انتظار کرنا پڑ رہا تھا۔ قائداعظمؒ نے کہا کہ اگر آج یہ گیٹ کھل گیا تو ساری زندگی یہ گیٹ کھلتا ہی رہےگا۔ میں کوئی ایسی مثال قائم نہیں کرنا چاہتا کہ امیر آدمی کےلیے گیٹ کھلے اور غریب کےلیے بند رہے۔ اس لیے جاؤ اور جاکر پھاٹک بند کروا کر آؤ۔

لیکن اس کے بعد اس ملک میں ہر امیر اور طاقتور آدمی کے لیے گیٹ کھلتے ہی رہے۔ مجھے اس خواب کی تعبیر بھی چاہیے۔ مجھے نیا خواب یا نیا پاکستان نہیں چاہیے۔ مجھے وہ پاکستان چاہیے جس کا خواب قائداعظمؒ نے دیکھا تھا؛ اور جیسا پاکستان وہ بنانا چاہتے تھے۔

ایسے بےشمار واقعات ہیں۔ قائداعظمؒ ایک بار دہلی میں تھے۔ کہیں جارہے تھے تو ایک شخص نے ایک تصویر بنائی جس میں قائداعظمؒ نے سنہری کپڑے پہنے ہوئے تھےاور ان پر لکھا تھا ’’شہنشاہ پاکستان، محمدعلی جناح۔‘‘ قائداعظمؒ یہ دیکھ کر بہت غصہ ہوئے اور تصویر کو اتارنے کا حکم دیا۔ لوگوں نے کہا کہ یہ ہمارا پیار ہے مگر قائداعظمؒ نے فرمایا ’’میں ایسا پاکستان نہیں بنا رہا جس میں بادشاہ ہوں گے۔ لہٰذا میں نہیں چاہتا کہ لوگ مجھے بادشاہ یا شہنشاہ جانیں اور میری تاج پوشی کریں۔‘‘

قائداعظمؒ انتقال فرما گئے لیکن ان کے بعد ہر وہ شخص جو حکمران بنا، وہ بادشاہ تھا۔ نہ اس نے قانون کا احترام کیا نہ عوام کے جذبات کا؛ اس نے ہمارے ساتھ وہی سلوک کیا جو پرانے زمانے میں بادشاہ کرتےتھے کہ بدل دو! بدل دیا؛ کھول دو! کھول دیا؛ بند کردو! بند کردیا؛ میں یہ چاہتا ہوں! ہوگیا؛ میں یہ نہیں چاہتا! رک گیا۔

یہ حقیقت ہے۔ میرا خیال ہے کہ اگر ہمیں خوابوں کے معاملے میں بھی سچ نہیں بولنا تو پھر اس ملک کو بند ہوجانا چاہیے! اسے نہیں چلنا چاہیے کیونکہ اتنے جھوٹے خواب کہیں نہیں ہوتے۔

کراچی کے گورنر ہاؤس میں قائداعظمؒ کی اسٹڈی موجود ہے، ان کے گھر کی اشیاء اور ان کی کتابیں وغیرہ موجود ہیں۔ وہاں قائداعظمؒ کی ڈائری بھی موجود ہے جس میں وہ اپنا روز کا حساب لکھتے تھے۔ اس میں ساڑھے اڑتیس روپے کا حساب موجود ہے جس میں گورنر جنرل ہاؤس کےلیے کچھ چیزیں خریدی گئی تھیں۔

یہ دو طرح کا حساب تھا: ایک جگہ انہوں نے لکھا تھا کہ یہ پیسے میرے ذاتی اکاؤنٹ سے لیے جائیں اور دوسری جگہ انہوں نے دستخط کرکے اجازت دی تھی کہ چھ یا سات روپے سرکار سے لیے جائیں۔ یعنی وہ ذاتی استعمال کو سرکاری خزانے پر نہیں ڈالتے تھے بلکہ اپنی جیب سے دیتے تھے۔

یہ بھی ایک خواب تھا کہ عوام کا پیسہ عوام پر ہی لگنا چاہیے۔ وہ بڑے صاحب کے کپڑے استری کرنے کےلیے، اس کے ٹوتھ پیسٹ کےلیے یا پھر اس کے بچوں کے پیمپر کےلیے نہیں لگنا چاہیے۔ میں نے وزیروں اور ان کے خاندان والوں کو عوام کے پیسوں سے عمرہ اور حج کرتے دیکھا ہے۔ یہ کیسی عبادت ہے؟ یہ کیسا خواب ہے؟

میں قائداعظمؒ کا پاکستان چاہتا ہوں جس میں ساڑھے اڑتیس میں سے 6 روپے سرکار سے لیےجائیں جبکہ باقی پیسے گورنر جنرل اپنی جیب سے دے!

ایک اور چھوٹا سا واقعہ ہے کہ قائداعظم کے پاس برٹش ہائی کمیشن سے کمشنر آیا اور اس نے کہا کہ اس کا بھائی پاکستان آرہا ہے، اس کی خواہش ہے کہ گورنر جنرل آف پاکستان اس کا استقبال کریں۔ قائداعظم نےکہا کہ کوئی بات نہیں، ضرور جاؤں گا۔ لیکن میری ایک شرط ہے۔ پوچھا گیا کہ کیا شرط ہے؟ کہا کہ جب میرا بھائی برطانیہ جائے گا تو ملکہ برطانیہ آکر اس کا استقبال کرے گی۔ کیونکہ ہم ایک آزاد ملک ہیں اور ہم برابری کے حقوق رکھتے ہیں۔ اگر آپ تیار ہیں تومیں بھی تیار ہوں۔ اس نے سلام کیا اور واپس چلا گیا!

لیکن اب جب میں تصویریں دیکھتا ہوں کہ صدر صاحب بیٹھے ہیں، وزیراعظم صاحب بیٹھے ہیں، وزیرخارجہ بیٹھے ہیں اور ان کے ساتھ تمام درباری بیٹھے ہیں جبکہ ان کے سامنے امریکا کا ایک عام سا سفیر بڑے کروفر سے بیٹھا ہے تو مجھے بہت شرم آتی ہے! مجھے حقیقتاً شرم آتی ہے کہ ہمارے بزرگوں نے کیا ایسا پاکستان چاہا تھا؟ ہرگزنہیں۔

قیام پاکستان سے پہلے قائداعظمؒ سے یونیورسٹی کےکچھ طالب علم ملنے کےلیےگئے۔ انہوں نےکہا کہ ہم آپ کے مداح ہیں اور ہم آپ کے ملک کے شہری بننا چاہتے ہیں۔ قائداعظمؒ نے ان سے ایک عجیب سوال کیا: ’’کیا آپ سب کے پاس سائیکلیں ہیں؟‘‘ جواب ملا کہ ہاں ہیں۔ کہا کہ آپ کتنے لوگ ہیں؟ جواب ملا کہ آٹھ افراد ہیں۔ پوچھا سائیکلیں کتنی ہیں؟ کہا ہر ایک کے پاس ایک ایک سائیکل ہے، گویا آٹھ سائیکلیں ہوگئیں۔ پوچھا کہ کیا تمہاری سائیکلوں پر لائٹ لگی ہوئی ہے؟ صرف ایک نے کہا کہ میری سائیکل پر بتی لگی ہوئی ہے۔ قائداعظمؒ بولے کہ تم میں سے صرف ایک آدمی اس پاکستان میں رہنے کا اہل ہے، کیونکہ اس وقت قانون تھا کہ حادثے سے بچنے کےلیے سائیکلوں پر لائٹ لگے گی۔

قائداعظم نے کہا کہ جوشخص اتنے چھوٹے سے قانون کا احترام نہیں کر رہا، وہ باقی کا بھی نہیں کرےگا؛ اور قانون کی پاسداری نہ کرنے والے کی میرے ملک میں کوئی جگہ نہیں۔

مگر اس کے بعد میں نےاس ملک میں ہر طاقتور اور ہر مضبوط آدمی کو قانون کا مذاق اڑاتے، قانون کو توڑتے اور قانون کو دفن کرتے دیکھا ہے۔ مجھے قائداعظمؒ کے اس خواب کی تعبیر بھی چاہیے۔

مجھے نیا پاکستان نہیں چاہیے، مجھے تو وہ پاکستان چاہیے جہاں ملک کا سربراہ عام لوگوں کی سی زندگی گزارے۔ جہاں وزیراعظم کا قافلہ گزرنے کے باعث دو دو گھنٹے ٹریفک بند نہ ہو، جہاں صدر اور وزیراعظم اپنے گھر کاخرچہ اپنی جیب سےاٹھائیں، جہاں کوئی بھی شخص اپنے اختیارات سے تجاوز نہ کرے، جہاں وزیراعظم خود کو عوام سے اعلیٰ نہ جانے، جہاں طاقتور اپنے اثر و رسوخ سےغریب کا حق نہ مارے، جہاں کمزور کو ایف آئی آر درج کروانے کےلیے دھکے نہ کھانے پڑیں اور جہاں کا حکمران پوری دنیا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنا مؤقف بیان کرسکے… مجھے 70 سال پرانا پاکستان چاہیے!

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔