صدر زرداری اور میاں نوازشریف کی ملاقات

بحرانوں میں گھری ملکی سیاست میں پہلی بار پرمسرت تبدیلی محسوس کی جا رہی ہے۔انتخابات کے اعصاب شکن مرحلے کے بعد حکومت سازی میں شریک مختلف جماعتیں باہمی اختلافات بالائے طاق رکھتے ہوئے ایک دوسرے کے قریب آنے اور ملکی ترقی کے لیے باہم چلنے کا عندیہ دے رہی ہیں۔قربتوں کی اس تبدیلی کا سب سے خوشگوار جھونکا اس وقت محسوس کیا گیا جب بدھ کو ایوان صدر میں صدر آصف علی زرداری اور مسلم لیگ ن کے سربراہ اور متوقع وزیراعظم میاں نواز شریف کے درمیان ملاقات ہوئی۔

جو تجزیہ نگار یہ آس لگائے بیٹھے تھے کہ نواز شریف اور صدر زرداری جو ایک دوسرے کے سیاسی حریف ہیں ‘ کے درمیان اختلافات بڑھیں گے اور صدر زرداری سے استعفیٰ طلب کیا جائے گا‘ اس طرح اعلیٰ سطح پر نیا سیاسی بحران جنم لے گا اور نواز حکومت جو ملکی مسائل حل کرنے کے وعدے پر برسر اقتدار آئی ہے آغاز ہی میں اپنے ہی پیدا کردہ سیاسی بحران میں الجھ جائے گی مگر نواز شریف اور صدر زرداری کے درمیان خوشگوار ماحول میں ہونے والی ملاقات اور مستقبل میں مفاہمانہ پالیسیوں کی حمایت جاری رکھنے کے پیغام نے سیاسی بحران کی افواہیں اڑانے والوں کی امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے۔

اطمینان بخش امر یہ ہے کہ دونوں رہنماؤں نے ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لیے مل کر چلنے پر اتفاق کیا ہے۔ انتخابات کے دوران ہر سیاسی جماعت اپنا ووٹ بینک بڑھانے کے لیے مختلف حربے استعمال کرتی ہے یہاں تک کہ بعض سیاسی جماعتیں مخالف سیاسی جماعتوں کے خلاف بیان بازی سے اپنا یہ مقصد حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ لیکن جمہوریت کے تسلسل اور اس کے استحکام کا تقاضا ہے کہ انتخابی عمل پورا ہونے کے بعد تمام رنجشوں اور تلخیوں کو بھلاکر ملکی ترقی اور خوشحالی کے لیے اکٹھے مل کر چلا جائے۔

عوام اپنے نمایندوں کو اسی مقصد کو مدنظر رکھتے ہوئے منتخب کرتے ہیں کہ وہ ان کے مسائل حل کرنے پر توجہ دیں گے۔ لیکن اگر عوامی نمایندے اس مقصد کو پس پشت ڈالتے ہوئے ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے کے لیے ریشہ دوانیوں میں مصروف ہو جائیں تو یہ نہ صرف عوامی مینڈیٹ کی توہین ہے بلکہ اس سے جنم لینے والے سیاسی بحران کے منفی اثرات ملکی معیشت پر پڑنا شروع ہو جاتے ہیں۔ خوش آیند امر یہ ہے کہ صدر زرداری نے متوقع وزیراعظم نواز شریف کو انتخابات میں کامیابی پر مبارکباد دے کر مثبت روایت قائم کی ہے۔

صدر نے نواز شریف سے ملاقات کے موقع پر اس امید کا اظہار کیا کہ آیندہ حکومت آئین اور قانون کی پاسداری کرتے ہوئے عوام کی خدمت اور جمہوریت کے استحکام میں اپنا کردار ادا کرے گی۔ انھیں خیالات کا اظہار میاں نواز شریف کی جانب سے بھی کیا گیا۔ ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے میاں نواز شریف نے کہا کہ صدر زرداری کے ساتھ اچھی بات چیت ہوئی‘ ہم ماضی کی تلخیاں بھلا کر آگے بڑھنا چاہتے ہیں‘ اپنی ذات کے بجائے ملکی مفادات کو ترجیح دینا ہو گی اگر اپنی ذات کو سامنے رکھتے تو شاید آج یہ ملاقات نہ ہوتی۔

اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ نواز شریف کا انتخابات جیتنے کے بعد مثبت رویہ سامنے آیا۔ وہ پہلے کے مقابل زیادہ میچور اور مدبر سیاستدان کی حیثیت سے سامنے آئے ہیں۔ انھیں ملکی مسائل کا بخوبی ادراک ہے یہی وجہ ہے کہ انتخابات جیتنے کے بعد اپنی پہلی تقریر میں انھوں نے تمام سیاسی مخالفین کو معاف کرتے ہوئے انھیں مذاکرات کی دعوت دی۔ خیبر پی کے میں انھوں نے تحریک انصاف کی صوبائی حکومت کی تشکیل سازی میں روڑے اٹکانے کے بجائے کھلے دل سے ان کے لیے میدان خالی چھوڑ دیا اوراسے اپنی صوبائی حکومت قائم کرنے کے لیے بھرپور کوشش کرنے کا موقع فراہم کیا۔

اب تک مسلم لیگ ن کے سربراہ اور رہنماؤں کے سامنے آنے والے رویے سے یہ عیاں ہوتا ہے کہ وہ انتقامی سیاست کے بجائے مفاہمانہ سیاست کو فروغ دیں گے اور تمام سیاسی جماعتوں سے رنجشیں بھلا کر ان کے ساتھ مل کر چلنے کے خواہاں ہیں۔ نواز شریف اور صدر زرداری کی ملاقات اسی مفاہمانہ سیاست کا تسلسل ہے۔ انتخابی جنگ میں فتح نواز لیگ کی ہوئی اور پیپلز پارٹی کو مرکز میں اقتدار کی کرسی سے ہاتھ دھونا پڑے۔اس کے بعد بعض تجزیہ نگاروں کا قیاس تھا کہ وزیراعظم نواز شریف اور صدر زرداری کے درمیان ایک سیاسی جنگ شروع ہونے والی ہے مگر دونوں رہنماؤں کے درمیان ہونے والی اس ملاقات سے مخالفانہ سیاست کے کھیل کا پانسہ ہی پلٹ گیا ہے۔

انھوں نے ماضی کی تلخیوں کے برعکس ملکی مفادات کو ترجیح دیتے ہوئے مل کر چلنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ نواز شریف کا یہ کہنا خوش آیند ہے کہ ’’صدر زرداری سے کہا ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں مل کر پاکستان کی تعمیر کریں‘ پاکستان کی بقا اور ترقی کے لیے ساتھ چلیں گے کیونکہ ملک کو درپیش مسائل کے حل کے لیے اداروں اور رہنماؤں کے درمیان ہم آہنگی ضروری ہے۔ میثاق جمہوریت کے تحت بے نظیر بھٹو کے ساتھ جو مفاہمتی ایجنڈا شروع کیا تھا اس کو آگے بڑھائیں گے‘‘۔ صدر زرداری کی جانب سے بھی مثبت ردعمل سامنے آیا ہے انھوں نے بھی واضح کرتے ہوئے کہا ہے کہ میاں صاحب کو ایوان صدر سے بھرپور تعاون فراہم کیا جائے گا۔ انتخابی جنگ میں مختلف نظریات رکھنے والی دو سیاسی جماعتوں کے سربراہ ملک کے انتہائی اہم عہدوں پر فائز ہیں۔

خوش کن امر یہ ہے کہ ملک کے دو اہم ادارے باہم ٹکرانے کے بجائے مفاہمت کا اظہار کر رہے ہیں۔ ملک اس وقت جن بحرانوں کا شکار ہے اس کا تقاضا بھی یہی ہے کہ سیاسی جماعتیں ماضی کی تلخیوں کو بھلا کر قدم سے قدم ملا کر چلیں۔ نواز شریف بڑی دانائی اور حکمت عملی سے اپنی مفاہمانہ پالیسی کو آگے بڑھا رہے ہیں‘ یہاں تک کہ صدر زرداری کو بھی نواز شریف کی سب کو ساتھ لے کر چلنے کی مفاہمانہ پالیسی کی تعریف کرنا پڑی۔ نواز شریف نے عمران خان کی عیادت کے موقع پر بھی دوستانہ رویے کا اظہار کیا تھا۔

ان کی اس مفاہمانہ پالیسی کے اب تک ظاہر ہونے والے نتائج سے یہ اندازہ لگانا قطعی مشکل نہیں کہ نواز شریف اپنے تمام سیاسی مخالفین کو رام کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے اور ملکی مسائل حل کرنے کے جو انھوں نے انتخابی وعدے کیے تھے‘ کو پورا کرنے پر یکسو توجہ دیں گے۔ ملک کی مجموعی بحرانی صورت حال بھی متقاضی ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں باہمی اختلافات بھلا کر ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لیے ایک پلیٹ فارم پر متحد ہو جائیں۔