حادثہ ایک دم نہیں ہوتا

ایک انگریز رائٹر کا ڈرامہ کافی مشہور ہوا، پاکستان میں بھی یہ ڈرامہ اردو زبان میں ناظرین تک پہنچایا گیا۔ ڈرامے کا خلاصہ مختصراً الفاظ میں یہ ہے کہ ایک شخص دولت کمانے کی دھن میں اس قدر مگن ہوگیا ہے اسے اپنے مذہب کی ہدایات اور اخلاقیات تک یاد نہ رہی۔ یہ شخص جعلی دوائیاں تیار کرکے فروخت کرنے لگا اور اپنے اکلوتے بیٹے کے لیے اس قدر دولت اکٹھی کرلی کہ دنیا کی ہر آسائش اسے حاصل ہوگئی۔ ایک دن اتفاق سے اس کے اکلوتے بیٹے کا ایکسیڈنٹ ہوگیا، لوگوں نے اسے جائے حادثہ سے اٹھاکر اسپتال پہنچایا۔ ایمرجنسی میں اسے جان بچانے کا انجیکشن لگایا گیا۔اس شخص کو جب اپنے بیٹے کے حادثے کی اطلاع ملی تو فوراً اسپتال پہنچا۔ اسپتال پہنچ کر اسے بتایا گیا کہ اس کا بیٹا جاں بحق ہوچکا ہے کیونکہ ایمرجنسی میں جان بچانے کے لیے جو انجیکشن اس کے بیٹے کو لگایا گیا وہ جعلی تھا۔

آج یہی کچھ حالت ہمارے معاشرے کی ہے۔ گزشتہ دنوں دو حادثات میں اسکول کی بس اور وین میں آگ لگنے سے بچوں کی بڑی تعداد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھی۔ ایک ٹی وی اینکر نے بچوں کے گھر والوں سے پوچھا کہ آپ کی نظر میں حادثے کا ذمے دار کون ہے؟ تو ایک نوجوان نے بہت حقیقی جواب دیا، اس کا کہنا تھا اس حادثے کے ذمے دار سب ہی ہیں جس میں ڈرائیور، اسکول انتظامیہ، فٹنس سرٹیفکیٹ دینے والے سرکاری ادارے کے ملازمین، سیاسی اور رشوت کی بنیاد پر ملازمتیں دینے والے افراد، ہمارے منتخب نمائندے جو غریب عوام کے بارے میں قطعی لاتعلق رہتے ہیں اور ہمارا پورا معاشرہ جو اخلاقی پستی میں گھرا ہوا صرف اور صرف دولت کمانے کے چکر میں ہے، جو یہ نہیں دیکھتا کہ کیا درست ہے کیا غلط ہے۔

مندرجہ بالا بات حقیقت سے نہایت قریب ہے۔ آج ہمارے معاشرے کی اخلاقی سطح اس قدر پست ہوگئی ہے کہ ہم ایسے سنگین حادثات کے باوجود بھی اپنے آپ کو بدلنے کے لیے تیار نہیں۔ کراچی شہر میں بھی ایک طلبا کی ہلاکت وین میں آگ لگنے سے ہوئی، مگر اخلاقی عالم یہ ہے کہ نہ تو وین والے اپنی غلطی تسلیم کرتے ہیں نہ اسکول انتظامیہ، بلکہ اسکول انتظامیہ تو یہاں بیان دے رہی ہے کہ جناب ٹرانسپورٹ سے ہمارا تعلق نہیں ہے۔ واہ کیا شاندار جواب ہے یعنی جو وین آپ کے اسکول کے بچوں کو لاکر اسکول چلانے میں مکمل معاونت کر رہی ہے اس کی ذرہ برابر بھی ذمے داری اسکول والوں کی نہیں ہے؟

ایک عرصے سے پاکستان کے بڑے شہروں میں اسکول کے بچے بسوں اور وینوں میں جانوروں کی طرح خطرناک طریقے سے ٹھونس کر لائے لے جاتے رہے ہیں مگر والدین سمیت کوئی اس جانب توجہ نہیں دیتا کیونکہ ہر ایک کی کوئی نہ کوئی مجبوری ہے، بس اﷲ کے نام پر چل رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر اس نظام کو ہم بدلنے کے لیے کھڑے نہیں ہوں گے تو کون آئے گا اس کو درست کرنے کے لیے؟ اور بچے آخر کب تک حادثات کا شکار ہوتے رہیں گے؟ اور صرف بچوں پر ہی کیا موقوف عام مسافر بسیں بھی کئی مرتبہ حادثات سے اس طرح دوچار ہوئیں کہ مسافر زندہ جل گئے۔

غور کیجیے ایک شہر سے دوسرے شہر جانے والی تمام بسوں میں جو ایئرکنڈیشنڈ ہوتی ہیں مسافروں کے آنے جانے کے لیے صرف ایک چھوٹا گیٹ ڈرائیور کے حصے کے پاس ہوتا ہے چنانچہ جب بھی آگ لگنے کا حادثہ ہوا مسافر بس کے اندر ہی جل کر مر گئے کیونکہ باہر نکلنے کے لیے سوائے ایک دروازے کے کوئی دوسرا دروازہ قابل استعمال نہ تھا۔ ایمرجنسی دروازے کو بھی جو بس میں پچھلی جانب ہوتا ہے جان بوجھ کر مستقل بند کردیا جاتا ہے۔ غور کیجیے اس کی وجہ کیا ہے؟ صرف یہی کہ کوئی مسافر بغیر ٹکٹ کے اتر نہ جائے؟ گویا ہزار سو مسافروں میں سے کوئی ایک آدھ مسافر بغیر ٹکٹ کے اترنے کی کوشش کرے تو اس کو روکنے کے لیے ایسا بھیانک عمل کیا جائے کہ مسافر جان بھی نہ بچا پائیں۔ اس قسم کے حادثے برسوں پہلے بھی ہوئے ہیں مگر افسوس آج بھی مختلف شہروں کے درمیان چلنے والی بسوں کی یہی کچھ حالت ہے۔

قابل افسوس بات ہی ہے کہ آج ہم سب پیسہ کمانے کے چکر میں وہ قانون شکنی کر رہے ہیں کہ جس کا نقصان خود ہم کو ہی اٹھانا پڑتا ہے۔ غور کیجیے آج بس ڈرائیور سے لے کر انتظامیہ اور اعلیٰ عوامی نمائندوں تک سب پیسہ کمانے کے لیے اور اپنی اولاد کے بہتر متقبل کے لیے قوانین اور اخلاقیات کو خیرباد کہہ کر وہ کام کر رہے ہیں کہ اس کا نقصان خود ان کو اور ان کی اولاد کو بھی اس کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے مگر شاید شعور کی آنکھ ہمارے پاس نہیں ہے۔ دولت کمانے کی ہوس ایوانوں تک پہنچ چکی ہے۔

سی این جی سلنڈر اور پمپس کی بات بھی کی جاتی ہے کہ وہ قوانین کا خیال نہیں رکھتے لیکن کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ ملک میں سی این جی وافر مقدار میں نہ ہونے کے باوجود جگہ جگہ سی این جی پمپس کھولنے کی اجازت دے دی گئی اور اس میں بھی قوانین کی کھل کر خلاف ورزی کی گئی اور شہروں میں قدم قدم پر یہ پمپس کھول دیے گئے۔ نتیجہ کیا ہوا تمام گاڑیاں سی این جی پر آگئیں اور پھر گیس بھی کم پڑگئی اور قوانین پر عملدرآمد بھی نہیں ہوا حتیٰ کہ آکسیجن کے گیس سلنڈر مسافر گاڑیوں میں استعمال ہونے لگے مگر اس سارے عمل کو کون چیک کرتا کیونکہ پمپس کے پرمٹ کے نام پر پیسے جو کمائے جارہے تھے ورنہ بغیر منصوبہ بندی کے شہروں میں اس قدر برساتی کھمبیوں کی طرح سی این جی اسٹیشنز نہ کھلتے۔

پیسے کمانے کی ہوس انسان کو دین اور اخلاقیات سے کس قدر عاری کردیتی ہے اس کا مظاہرہ گجرات میں بچوں کی بس میں آگ لگنے کے اس واقعے سے بھی ہوتا ہے کہ جس میں بس ڈرائیور اپنی جان بچا کر بھاگ گیا مگر جماعت اسلامی کے علاقائی رہنما کی ہمشیرہ جو بحیثیت استاد بچوں کی اسکول بس میں سوار تھی، حادثے کے فوراً بعد اپنی زندگی کی پرواہ نہ کرتے ہوئے بچوں کو آگ سے نکالنے لگی یہاں تک کہ اس نے اپنی جان گنوادی۔

کاش! ایسا ذہن ایسی تربیت جو اس استانی کی تھی جس نے اپنی زندگی بچوں کو بچانے کے لیے ختم کردی، ہمارے معاشرے کے دیگر لوگوں میں بھی آجائے، خاص کر سرکاری اداروں و نجی اداروں کی انتظامیہ میں بیٹھے ذمے داروں میں اور ہمارے منتخب نمائندوں میں بھی جو اب عوام کے درد کا رونا تو بہت روتے ہیں مگر انھیں علم ہی نہیں کہ عوام کن مسائل سے دوچار ہیں۔ کسی نے بالکل درست کہا ہے کہ:

وقت کرتا ہے پرورش برسوں

حادثہ ایک دم نہیں ہوتا