الزامات ایک طرف، زرداری نے بعض مثبت روایتوں کو بھی پڑوان چڑھایا

کراچی: تمام تر تنازعات و الزامات ایک طرف مگر صدر آصف علی زرداری نے بعض صحت مندانہ سیاسی روایتوں کو بھی پروان چڑھایا ہے ان میں سے ایک صدر زرداری کا تین ماہ قبل ہی دوبارہ صدارت کا امیدوار نہ بننے کا اعلان ہے۔

گو کہ عددی اعتبار سے مسلم لیگ(ن) کے علاوہ کسی بھی جماعت کے پاس صدارتی انتخاب جیتنے کیلیے نمبر نہیں ہیں مگر صدر زرداری اپنے اس فیصلے کو خفیہ رکھتے ہوئے تجسس پیدا کرسکتے تھے۔ اس سے قبل انھوں نے بطور صدر مملکت اپنے اختیارات پارلیمنٹ کو منتقل کیے۔ ماضی میں صدور اختیارات اپنے پاس رکھنے کیلیے ہر طرح کی کوششیں کرتے رہے۔ ایڈیٹرز اینکرز کے پینل کو انٹرویو دیتے ہوئے صدر مملکت کا اعلان ن لیگ کے کیمپ میں اچھی نظر سے دیکھا جائیگا اور صدر زرداری نے میاں نواز شریف کو مثبت سگنل دیا ہے۔ صدر زرداری نے پانچ بار پارلیمانی سال کے آغاز پر پارلیمنٹ سے خطاب کیا اور اب بھی اگر ن لیگ کو اعتراض نہ ہوا تو وجود میں آنے والی اسمبلی سے خطاب کرسکتے ہیں۔

صدر زرداری پاکستان کی سیاسی تاریخ میں سب سے متنازع شخصیت رہے، انھیں ’مسٹر ٹین پرسٹ’، ’مسٹر سنٹ پرسنٹ‘ کہا گیا۔ ان پر ہر طرح کے الزامات لگائے گئے، ان کا کہنا ہے کہ انکے بچوں پر ان الزامات کے منفی اثرات نہیں ہوئے کیونکہ انھوں نے اپنے باپ کو جیل سے اس پوزیشن تک پہنچتے ہوئے دیکھا ہے۔ متحمل مزاج اور مضبوط اعصاب کے مالک صدر زرداری نے بہت سے سیاستدانوں اور صحافیوں کو غلط ثابت کردیا جو یہ کہتے تھے کہ ان کا اقتدار سال، دو سال سے زیادہ نہیں چل سکتا۔ اپنے پانچ سالہ دور میں انھوں نے کوئی زیادہ سخت قسم کے انٹرویوز نہیں دیے اور شاید ایسے انٹرویوز انھوں نے ستمبر کے بعد کیلیے رکھے ہوئے ہیں۔

عدلیہ سے محاذآرائی، عدالتی احکام پر عملدرآمد نہ کرنا، توانائی بحران، کرپشن اور انتخابات میں بدترین شکست جیسے سوالوں کے جوابات ابھی باقی ہیں۔ وزیراعظم کے انتخاب میں نواز شریف کو حمایت کی پیشکش بھی مثبت اشارہ ہے مگر اس حمایت کیلیے ن لیگ کو پیپلزپارٹی سے بات کرنا ہوگی۔ اپنے دور صدارت میں یہ شاید ان کا آخری انٹرویو ہو اور انھوں نے 11 مئی کے انتخابات میں شکست اور عالمی سازش کے حوالے سے باتوں کو ابھی راز ہی رکھا ہے۔

پرویز مشرف کے ٹرائل، ملک سے باہر جانے کے حوالے سے انھوں نے تمام ذمے داری بڑی ہوشیاری سے نواز شریف پر ڈال دی اور کہا کہ صدر وزیراعظم کی ایڈوائس پر عمل کا پابند ہوتا ہے۔ سوئس کیسز کے حوالے سے بھی وہ بہت مطمئن نظر آئے۔ پیپلزپارٹی کے دور میں چین اور ایران کے ساتھ معاہدوں جیسے فیصلوں کے اثرات دور رس ہوں گے۔ ابھی یہ دیکھنا ہوگا کہ ستمبر میں اپنی ٹرم مکمل کرنے کے بعد وہ سیاست میں کتنے متحرک دکھائی دیتے ہیں، وہ بلاول کو پچھلی سیٹ پر بٹھاتے ہیں یا خود پارٹی کے علامتی سربراہ کے طور پر کام کرتے ہیں۔ جیل کے دنوں میں صدر زرداری کہا کرتے تھے کہ میرے دو ہی ٹھکانے ہیں وزیراعظم ہائوس یا جیل۔ دیکھتے ہیں کہ اب بھی ایسا ہوتا ہے یا نہیں۔