آئی ایم ایف کی شرح سود سب سے کم ہے

قرض کی پیتے تھے مے… رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن۔ آئی ایم ایف کا تازہ ترین بیان ہے کہ پاکستان کی معاشی حالت نازک نہیں بلکہ بے حد نازک ہے۔ آئی ایم ایف اور دوسرے مالیاتی اداروں میں فرق یہ ہے کہ یہ عالمی مالیاتی ادارہ دوسرے مالیاتی اداروں کے مقابلے میں بہت کم شرح سود ایک یا دو فیصد پر قرض دیتا ہے جب کہ دوسرے 7 سے 8 فیصد شرح سود پر قرض دیتے ہیں۔

بظاہر تو یہ ایک اس کا مثبت پہلو ہے لیکن حقیقت میں آئی ایم ایف ایک ایسا پھندہ ہے جس کے ذریعے ترقی پذیر اور تیسری دنیا کے ملکوں کی پالیسیوں پر اثر انداز ہوکر ان کی خود مختاری اور آزادی کو محدود سے محدود تر کرتا ہے۔ اس ضمن میں اس کا حالیہ مطالبہ یہ ہے کہ پاکستان اپنے تمام قرضوں کی پوری تفصیل مہیا کرے۔ خاص طور پر سی پیک۔ چائنا سے لیے ہوئے قرضوں کے ضمن میں کہ وہ کن شرائط پر لیے گئے۔

امریکا پاکستان کی محبت میں اس قدر تشویش میں مبتلا ہے کہ پاکستان سی پیک کے نام پر حاصل کردہ قرضوں کی وجہ سے کہیں اپنی خود مختاری اور آزادی نہ گنوا دے۔ جب کہ سچائی یہ ہے کہ امریکا پچھلے سترسال سے پاکستان کی آزادی و خود مختاری پر مسلسل اثر انداز ہورہا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ پاکستان پچھلے چند سال سے بتدریج امریکی اثر سے باہر نکل رہا ہے جو امریکا کے لیے انتہائی تشویش کا باعث ہے۔

امریکی صدر ٹرمپ کے آنے سے خطے کی صورتحال، جہاں ہم واقع ہیں، مسلسل تبدیل ہورہی ہے۔ بیت المقدس یروشلم کو امریکا کا اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرنا۔ شام میں امریکا اور اس کے اتحادیوں کی باغیوں کی ہر طرح کی پشت پناہی کے باوجود بشارالاسد حکومت کے ہاتھوں امریکا کا شکست فاش سے دوچار ہونا جسکی وجہ خاص طور پر روس اور ایران بنے۔ لبنان میں تاریخی شکست کے بعد شام میں امریکا اور اسرائیل کی دوسری بڑی شکست تھی۔

بھارت کو امریکا کا اسٹرٹیجک پارٹنر قرار دیتے ہوئے خطے کا بڑا تسلیم کرنا، پاکستان کو ثانوی حیثیت دینا، اس کے ساتھ پچھلے سال 22 اگست کو نئی افغان پالیسی جس میں وہاں ہونے والی ہر دہشتگردی کا ذمے دار اور دہشتگردوں کا سہولت کار پاکستان کو قرار دینا۔

نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان اور روس دونوں ہی مدتوں بعد ایک دوسرے کے نزدیک آ گئے۔ امریکی دباؤ کا شکار دونوں ملکوں میں دفاعی و معاشی تعاون میں اضافہ ہوا۔ امریکی جارحانہ پالیسی نے پوری دنیا کا ناک میں دم کررکھا ہے اور تو اور یورپی یونین اس کے اتحادی تک سخت نالاں ہیں،چین بھی اسی صورتحال کا شکار ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد نیو امریکی ورلڈ آرڈر نے ہمارے خطے میں ایسی تباہی پھیری کہ جس میں کروڑ سے زیادہ لوگ مارے گئے۔

اب دنیا پر امریکی بالادستی کا یہ شکنجہ ٹوٹ رہا ہے جس نے صدر ٹرمپ اور ان کی جنگجو انتظامیہ کو بدحواس کردیا ہے۔ روس کا طاقتور وقت 2019ء میں شروع ہوجائے گا۔ چین اس وقت امریکا کے بعد دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہے، وہ جلد امریکا سے آگے نکل جائے گا۔ امریکا پر اس وقت چین کا قرضہ 1200 ارب ڈالر ہے۔ اس طرح سے طاقت کے نئے مراکز کے وجود میں آ رہے ہیں۔ اس صورتحال میں روس، چین، پاکستان، ایران اور ترکی کا اتحاد امریکی بالادستی کو خطے میں ایک انتہائی آزمائشی، کمزور صورتحال سے دوچار کرسکتا ہے۔

صورتحال امریکا کے لیے کتنی پریشان کن ہے اس کا اندازہ اس سے لگائیں کہ جوہری معاہدے سے امریکا کے نکلنے کے باوجود امریکی اتحادیوں برطانیہ، فرانس، جرمنی نے ایران کا ساتھ چھوڑنے سے قطعی انکار کرکے ایران کے ساتھ تجارت کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اسی طرح پاکستان کو مشرقی اور مغربی سرحدوں سے اور ایران کو امریکا سے لاحق خطرات نے کہ کہیں ایران سے پاکستان تک کا علاقہ براہ راست جنگ کی بھٹی میں نہ جھونک دیا جائے۔ پاکستان جو امریکا کی وجہ سے ایران سے دور تھا تیزی سے بدلتے ہوئے حالات میں دونوں ملکوں کے آرمی چیف نے طویل مدت کے بعد ایران اور پاکستان کا دورہ کیا۔

پاکستان کو جو اس وقت صورتحال درپیش ہے وہ کھائی اور کھڈے کی نہیں بلکہ دونوں طرف کھائی ہے۔ صورتحال جائے رفتن نہ پائے ماندن والی ہے۔ کیا پاکستان اپنے معاشی حالات کی بنا پر واقعی ایک بند گلی میں پہنچ گیا ہے۔ کیا ہم واقعی اپنی معاشی صورتحال کی وجہ سے امریکا کی بلیک میلنگ سے نہیں بچ سکتے۔ اس وقت امریکا اپنے شکار کو فاتحانہ انداز میں تڑپتے دیکھ رہا ہے اور یہ سنہری موقعہ امریکا کو خطے کے حوالے سے اپنی شرائط منوانے کے لیے طویل مدت بعد میسر آیا ہے۔ آخر کار وہ وقت آہی گیا ہے جب امریکا، بھارت اور افغانستان کو استعمال کرکے اپنی شرائط منوانے کی کوشش کریگا۔

ایک طرف چین سی پیک کے حوالے سے ہماری گومگو کے رویے سے ناراض ہے تو دوسری طرف برادر اسلامی ملک نے دس ارب ڈالر کی امداد پر ہری جھنڈی دکھا دی ہے کیونکہ ایران اور یمن کے حوالے سے اس کی شرائط ماننے کا نتیجہ یہ نکلتا کہ پاکستان کی سالمیت خطرے میں پڑجاتی۔ ہر ملک کے معاشی اور اسٹرٹیجک مفادات ہوتے ہیں۔ صرف معاشی مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے اسٹرٹیجک مفادات پر ترجیح نہیں دی جاسکتی ورنہ تو اس ملک کا وجود خطرے میں پڑسکتا ہے۔ معاشی و اسٹرٹیجک مفادات میں توازن ہی کسی بھی ملک کی بقا کا ضامن ہے۔

سی پیک پر امریکا کی دوغلی پالیسی رہی۔ بظاہر وہ کہتا رہا کہ اسے اس پر اعتراض نہیں آخر میں وہ کھل کر سی پیک میں پاکستان کی شمولیت کے خلاف ہوگیا۔ روڈ اینڈ بیلٹ سی پیک منصوبہ دنیا کے ایک بڑے حصے کا احاطہ کرتا ہے جس میں روس، افریقہ اور مشرق بعید بھی شامل ہے۔ یہ سات راہداریوں پر مشتمل جن میں پاکستان ایک ہے۔ اب تک 900 ارب ڈالر چین اس پر خرچ کرچکا ہے۔

امریکا سی پیک منصوبے سے کیوں خوفزدہ ہے وہ اس لیے کہ بلا شک و شبہ نہ صرف فطری طور پر دنیا کے ان ملکوں میں چین کے اثرورسوخ میں اضافہ ہوگا بلکہ ان کا انحصار امریکا اور اس کے زیر اثر مالیاتی اداروں پر کم ہوتا چلا جائے گا جو آخر کار امریکا کی عالمی بالادستی کے خاتمے کے باعث بنے گا۔ کیونکہ فرد ہو یا قوم حقیقی آزادی معاشی آزادی ہی ہے ورنہ قرض کی اک سراب کے سوا کچھ نہیں۔