’’جب انٹر میں فیل ہوا تو محسوس ہوا کہ سائنس نہیں چلے گی!‘‘، ڈاکٹر یونس حسنی

’بٹوارے کے برسوں بعد تک ہندوستانی مسلمان یہ گمان رکھتے کہ پاکستان شاید اُن کے مسائل پر بھی کچھ کرے، ہجرت کا سلسلہ بھی جاری تھا، پھر پاکستان کی طرف سے پابندی ہو گئی کہ 1951ء تک جو یہاں آگئے، صرف وہی شہری کہلائیں گے۔ 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے بعد مسلمانوں سے یہی رویہ تھا کہ وہ پاکستان چلے جائیں، لیکن یہ ریاست سارے مسلمانوں کی متحمل نہیں ہو سکتی تھی۔ 1965ء تک ہندوستانی مسلمان یہ تسلیم کر چکے کہ انہیں وہیں رہنا اور اپنی جدوجہد خود کرنا ہے، دوسری طرف 1965ء کی جنگ میں ہی انہیں بہت اجنبیت محسوس ہوئی، انہیں لگا کہ کچھ بھی کر لیں، دوسرے درجے کے شہری ہی رہیں گے، وہ کہتے ہیں کہ تعصب کی ایک طویل داستان ہے، چناں چہ انہوں نے اُس وقت رخت سفر باندھا، جب کوئی پاکستان آنے کی چاہ بھی نہیں رکھتا تھا۔ 1968ء میں ’ایمرجنسی سرٹیفکیٹ‘ پر وہ کراچی آگئے، اور انہیں یہاں شہریت مل گئی۔‘

یہ اردو کے معروف نقاد ومحقق ڈاکٹر یونس حسنی سے ہماری گفتگو کا آغاز ہے، وہ بتاتے ہیں کہ اِن کے بزرگ رائے بریلی (یوپی) سے تھے، انیسویں صدی میں سید احمد شہید کی تحریک جہاد کے بعد یہ لوگ ٹونک آئے اور دینی تعلیم سے جُڑ گئے، اِن کے دادا تک سب عالم رہے، اِن والد سید عبید الرحمٰن انگریزی تعلیم حاصل کرنے والے پہلے فرد تھے، جو سرکاری ملازم ہوئے۔

ابتدا میں ہجرت نہ کرنے کے اسباب بتاتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ ٹونک میں کوئی فساد نہیں ہوا، ہمارے دادا کی کوئی سیاسی فکر نہ تھی، اس لیے وہ ہجرت پر تیار نہ ہوئے، یوں والد بھی وہیں رہے، ’تقسیم‘ کے بعد جب ریاستیں ضم ہوئیں، تو بٹوارے کے اثرات پتا چلے۔

ڈاکٹر یونس کہتے ہیں کہ ’میں والد کی اجازت سے یہاں آیا‘ ہم نے پوچھا کہ انہوں نے کچھ کہا نہیں؟ بولے کہ ’اُس وقت تو نہیں، لیکن بعد میں کہا، خوش نہیں ہوئے، لیکن ناراض بھی نہیں ہوئے! بعد میں یہاں مجھ سے ملنے بھی آئے۔‘ ترک وطن کو سخت فیصلہ قرار دیتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد کو بڑھاپے میں چھوڑا، جس کی معذرت کی، والد نے کہا میرا ایک بیٹا یہاں اور دوسرا وہاں ہے، اپنے دو حصے تو نہیں کر سکتا، اُن کی تدفین میں بھی نہ جا سکا۔

ہم نے ہجرت پر پشیمانی کے کسی لمحے کو کھوجا، تو انہوں نے نفی کرتے ہوئے کہا مجھے اختیار ہو تو مکّے اور مدینے کے بعد میں ٹونک میں رہوں، بشرطے کہ وہ پاکستان میں ہو! انہیں جنم بھومی کی عقیدت میں ڈوبا دیکھا، تو ہم نے ٹونک کی یادداشتوں کے طاق تک اپنی گفتار بڑھائی۔۔۔ وہ بولے وہاں بہ یک وقت انگریزی اور اسلامی قوانین چلتے تھے، چوری کا فیصلہ قاضی کی عدالت میں ہو تو ہاتھ قلم ہوتے اور سول عدالت میں ثابت ہو تو اس کے مطابق سنایا جاتا۔ اُس وقت کا راجپوتانہ آج ’راجستھان‘ ہے، جس کی 22 ریاستوں میں ٹونک واحد مسلم ریاست تھی، جب کہ اجمیر مرکز کی مسلم ریاست تھی۔ رام پور اور بھوپال کی طرح ٹونک بھی ہندوستان میں پٹھانوں کی ریاست تھی، انگریز نے ’گڑ بڑ‘ سے باز رکھنے کے لیے جغرافیائی طور پر پانچ جگہ بانٹ دیا، جو کئی سو میل دور تھے۔

ڈاکٹر یونس حسنی نے بتایا کہ وہ تین ستمبر 1937ء کو ٹونک (راجستھان) میں پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم کے بعد بھو پال آگئے، کہتے ہیں ’’انٹر میں فیل ہوا تو محسوس ہوا کہ سائنس نہیں چلے گی، آرٹس چُنی اور ملازمت بھی شروع کی۔ تب صرف بھوپال میں نوکری پیشہ لوگوں کے لیے شام میں بی اے کی کلاسیں ہوتیں، اس سے استفادہ کیا۔‘‘ انہوں نے ایم اے 1962ء میں حمیدیہ کالج بھوپال سے اردو میں کیا، جو دراصل وِکرم یونیورسٹی اُجین کا ’‘کمپونینٹ‘ تھا، یہیں فقط 29 برس کی عمر میں ’پی ایچ ڈی‘ ڈاکٹر ابو محمد سحر کی نگرانی میں کی۔ ان کا مقالہ بہ عنوان ’اختر شیرانی اور جدید اردو ادب‘‘ ’انجمن ترقی اردو‘ نے شایع کیا۔ انہوں نے ہندوستان میں رہتے ہوئے خط وکتابت کے ذریعے تحقیقی مواد حاصل کیا ۔ 1962ء میں ایم بی کالج، اُودے پور (راجستھان) اسے ان کی تدریس کا باقاعدہ آغاز ہوا، 1964ء میں وہ راجستھان کالج اور پھر 1965ء میں مادھو کالج سے جُڑ گئے۔

ہندوستان میں یونس حسنی جماعت اسلامی کے اخبار ’دعوت‘ سے بھی وابستہ رہے، صبح سے شام تک ملازمت اور تعلیم کی مصروفیات جُتے رہتے، بتاتے ہیں کہ وہ پاکستان آکر ملازمت کو نکلے تو 240 اور 300 گز کے بنگلوں میں نجی کالج بنے دیکھے، ہندوستان میں بہت سے نجی کالج تو سرکاری کالجوں سے بھی بڑے تھے۔ ایک کالج کے مالک نے کہا کہ آپ ’پی ایچ ڈی ہیں، ہمیں ایم اے استاد 70 روپے سستا پڑے گا، پھر ’ایف جی کالج‘ میں 9 دسمبر 1968ء تدریس شروع ہوئی، 28 فروری 1968ء تک یہاں رہے۔

اسی دوران یکم اگست 1976ء کو شعبہ اردو، جامعہ کراچی میں معاون استاد رہے، پھر فروری 1978ء میں اسسٹنٹ پروفیسر، 1985ء میں ایسوسی ایٹ پروفیسر اور 1995ء میں پروفیسر ہوگئے۔ 1992ء تا مارچ 1995ء شعبہ اردو کے ’مسند نشیں‘ رہے، 13 مارچ 1997ء کو سبک دوش ہوئے۔ 21 مئی 1998ء تا 17 جنوری 2001ء انجمن ترقی اردو، میں مشیر علمی وادبی اور 18 جنوری 2001ء تا 17 جولائی 2003ء ’اردو لغت بورڈ‘ کے مدیر اعلیٰ رہے، کالج آف بزنس مینجمنٹ (سی بی ایم) اور محمد علی جناح یونیورسٹی میں وزیٹنگ پروفیسر بھی رہے۔ 2007ء سے 2009ء کے درمیان ہائر ایجوکیشن کمیشن نے جامعہ کراچی میں ’ایمینینٹ اسکالر‘ مقرر کیا، جب کہ 2009ء تا حال وہ ’جامعہ اردو‘ میں تحقیق و تدریس کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔

ڈاکٹر یونس حسنی نے بتایا کہ وہ زمانہ طالب علمی سے ہی تنقید کی طرف آگئے، ہم نے پوچھا ’جو ادیب نہیں وہ تنقید کر سکتا ہے؟‘ تو وہ بولے کہ ’’ عبیداللہ علیم نے مجھ سے کہا تھا کہ آپ نے کبھی دو شعر بھی نہیں کہے، آپ کہاں سے نقاد ہو گئے، وہ کہتے تھے کہ آپ تخلیقی کیفیات سے گزرے نہیں اور آپ اس پر تنقید کر رہے ہیں!‘‘ جب کہ میرا خیال ہے کہ جیسے بچے کی پیدائش کے بعد اس کی پرورش ایک جداگانہ مرحلہ ہے، جو پورا معاشرہ کرتا ہے، تو نقاد ’بچے‘ کی پرورش والا کام کرتا ہے۔

ڈاکٹر یونس تین بار ہندوستان گئے، کہتے ہیں کہ ’’کوئی امریکی شہری تو بہ آسانی ہندوستان جا سکتا ہے، لیکن یہاں سے کوئی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ کوئی قیدی آگیا۔‘‘ اُن کا خیال ہے کہ ہندوؤں نے وسیع النظری ضرورتاً اختیار کی، جب قومی ضرورت تھی تو نہرو نے ابوالکلام آزاد کو اہمیت دی، آج ضرورت نہیں، تو نریندر مودی آگئے۔ ہم نے معتدل ہندوؤں کا ذکر کیا، تو بولے کہ وہ بہت تھوڑے ہیں، ہندوؤں کی اصل نمائندگی تو نریندر مودی کر رہے ہیں!

ڈاکٹر یونس کا خیال ہے کہ سقوط ڈھاکا پر بھٹو، یحییٰ، مجیب اور اندرا گاندھی کے فیصلے قدرت نے کیے۔ یحییٰ آخری عمر میں مخبوط الحواس ہوگئے تھے، بعض لوگ کہتے ہیں کہ وہ بے لباس گھر کے باہر کھڑے ہو جاتے تھے۔ ہم نے جنرل ایوب کے کردار کا کہا تو بولے، اس طرح تو بات قائداعظم تک چلی جائے گی کہ دو جگہ بٹی ہوئی ریاست کیوں لی! لیکن اگر ہم عقل سے کام لیتے تو پاکستان ٹوٹنے سے بچ جاتا۔

1998ء میں روزنامہ ’ایکسپریس‘ جاری ہوا، تو یونس حسنی اس میں ’کالم‘ لکھنے لگے، کہتے ہیں کوئی آدمی مطلقاً غیر جانب دار نہیں ہوتا، لیکن غیر جانب داری سے دیکھ ضرور سکتا ہے، میں ’کالم‘ میں اپنی رائے دے رہا ہوں، جس سے آپ اختلاف کرسکتے ہیں، لیکن اس میں غیر جانب داری کا مطالبہ نہیں کر سکتے۔ ہم نے کالموں کی کتاب کا پوچھا تو بولے کہ اگر کوئی مرتب کردے تو ممکن ہے۔ ڈاکٹر یونس 1969ء میں رشتہ ازدواج سے منسلک ہوئے، چار بیٹیاں ہوئیں، 1983ء میں ایک صاحب زادی داغ مفارقت دے گئیں، ایک بیٹی نہدیہ حسنی ایم اے ’صحافت‘ کے بعد اب ڈی ایچ اے کالج میں مدرّس ہیں، لبینہ حسنی ایم اسلامیات اور رباب حسنی ’بی فارمیسی‘ ہیں۔

’ہندی‘ الگ زبان نہیں تھی، اردو ہی ’ہندی‘ کہلاتی تھی!

بٹوارے کے بعد ہندوستان میں 20 سال بسر کرنے والے ڈاکٹر یونس حسنی سے ہم نے جب ٹونک میں بٹوارے سے پہلے ’ہندی‘ کو کھوجا، تو انہوں نے کہا کہ یہ ’ہندی‘ تو کہیں بھی نہیں تھی، زبان برج بھاشا تھی، کھڑی بولی تھی، دلی کے اردگرد اوَدھی، راجستھانی اور ہریانی بولیاں بولی جاتیں۔ انیسویں صدی کے اوائل تک اردو کو ہی ہندی یا ہندوی پکارتے۔ فارسی مشاعروں میں کہتے کہ ’میں نے ہندی میں بھی کچھ کہا ہے، وہ سن لیجیے‘ وہ یہی زبان اور فارسی رسم الخط ہوتا تھا۔

ہندوؤں نے اپنی الگ زبان کے لیے کھڑی بولی کا رسم الخط اختیار کیا، پھر وہ سنسکرت کی طرف پلٹے، لیکن ان الفاظ کی بہتات زیادہ نہ چل سکی، کیوں کہ جنوبی ہندوستان میں اردو کے جاننے والے تو ہوں گے، لیکن ہندی کے نہیں۔ وہ لوگ دراوڑی زبانیں تیلگو، تمل اور ملیالم وغیرہ بولتے ہیں اور سنسکرت والوں سے نفرت کرتے ہیں کہ انہوں نے ہی تو انہیں غلام بناکر اس طرف دھکیلا تھا۔ انہیں ہندی اور انگریز میں مہارت اور فارسی پر عبور ہے۔ ڈاکٹر یونس نے جے پور میں دیونا گری رسم الخط میں فارسی لکھی ہوئی دیکھی، ان کے خیال میں دیونا گری کے مکمل تلفظ دینے کی بات سو فی صد درست نہیں۔

٭تالیف وتراجم اور تصانیف کا سلسلہ

ڈاکٹر یونس حسنی کی تصانیف میں اختر شیرانی کتابیات، کاوشیں (ادبی اور تنقیدی مضامین)، تراجم میں جاپان آئینہ ایام میں، جاپان کا مکتبی نظام اور انسان عہد بہ عہد شامل ہیں۔ ترتیب وتدوین میں کلیات اختر شیرانی، صبح بہار از اختر شیرانی، اخترستان از اختر شیرانی، لالہ طور از اختر شیرانی، طیور آوارہ از اختر شیرانی، شہناز اختر از اختر شیرانی، شہر دُود و نغمہ آوارہ از اختر شیرانی، نغمۂ حرم از اختر شیرانی، پھولوں کے گیت از اختر شیرانی، مناقب سیدنا ابو بکر، اردو لغت (اٹھارہویں جلد) اور نگارشات اختر وغیرہ شامل ہیں۔ لگ بھگ 42 تحقیقی و تنقیدی مقالات، بہت سی کتب کے مقدمات ودیباچے، مختلف شخصیات کے خاکوں کے علاوہ 1970ء کے عشرے میں بچوں کی کچھ کہانیاں بھی ’نونہال‘ کے لیے لکھیں۔ یہ کتابی صورت میں موجود نہیں۔

اظہار کے سلیقے کا نام ’ادب‘ ہے !

موضوع سخن ’بے مقصدیت‘ ہوا، تو ہم نے ڈاکٹر یونس سے پوچھا کہ ’ادب میں مقصدیت ہونا چاہیے؟‘ بولے یہ مشکل سوال ہے، بعض لوگوں کا کہنا ہے ادب بہ جائے خود ایک مقصد ہے، انسانی زندگی میں اگر ادب نہ ہو تو زندہ رہنا مشکل ہو جائے گا، ادب کا مقصد اپنے جذبات وکیفیات کا اظہار ہے۔ جیسے حُسن پر ایک عام شخص کہے گا ’آہا! کیا چیز جا رہی ہے!‘، جب کہ شعر کہنے والا یوں کہے گا؎

ہر ایک ادا مستانہ سر سے پاؤں تک چھائی ہوئی

اف تری کافر جوانی جوش پر آئی ہوئی

فانیؔ کا اظہار کچھ یوں ہے؎

ذکر جب چھڑ گیا قیامت کا

بات پہنچی تری جوانی تک

تیسری بات میں جو سلیقۂ اظہار ہے، اسی کو ’ادب‘ کہتے ہیں۔ ہم نے ادب میں ’بے باکی‘ کی حیثیت کریدی، تو وہ بولے بعض اوقات بے باکی عریانی اور فحاشی ہو جاتی ہے اور اس پر تنقید کی جاتی ہے، لیکن بے باکی، عریانی اور فحاشی زندگی کا حصہ ہیں۔ اسے سلیقے سے بیان کرنا چاہیے۔ جیسے کسی شاعر نے کیا خوب کہا؎

حالاں کہ چاند رات بھر اس شب نہ رہ سکا

ان پر تمام رات مگر چاندنی رہی

وہ کہتے ہیں کہ منٹو کے ہاں کافی پردہ داری ہے، وہ فحش نگار نہیں، ان کے افسانے تقسیم کے وقت کی حیوانیت بیان کرتے ہیں، اسے تلذذ کے لیے پڑھیں، تو فحاشی لگے گی، ورنہ دھچکا لگے گا۔ زندگی میں جو ہو رہا ہے اس کا اظہار اگر فن کارانہ ہو تو ادب ورنہ فحاشی ہے۔

ڈاکٹر محمود غزنوی کے مقالے کا ماجرا!

ڈاکٹر یونس حسنی اب تک 14 محققین کو ’ڈاکٹریٹ‘ اور چار کو ایم فل کرا چکے ہیں، ان میں سابق صدر شعبہ اِبلاغ عامہ (جامعہ کراچی) ڈاکٹر محمود غزنوی بھی شامل ہیں، جن کے مقالے پر اعتراضات کی خاصی بازگشت رہی، وہ اِسے کچھ باہمی چپقلش اور کچھ محقق کی نادانی بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ اخبارات میں چَھپا کہ دونوں کا نگراں میں ہوں! جب کہ میں طاہر مسعود کا نگراں نہیں، میں نے جامعہ کراچی سے اس کی تردید کرنے کو کہا، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ طاہر مسعود اور محمود غزنوی کے مقالے میں اخبارات کی تاریخ پر ایک ’ضمیمہ‘ مشترک تھا! طاہر مسعود کا کہنا تھا کہ بعض حوالے بھی یک ساں ہیں، اب حوالے تو آپ کی میراث نہیں ہوتے۔ طاہر مسعود کا موضوع ’انیسویں صدی میں اردو صحافت کی تاریخ‘ تھی، جب کہ محمود غزنوی کا موضوع ’اردو صحافت میں زبان واسلوب کا ارتقا‘ تھا۔

منطقی طور پر دونوں موضوع یک سر مختلف ہیں، صرف تمہیدی باب ہی یک ساں ہو سکتا ہے۔ صرف ایک ’ضمیمہ‘ ممکن ہے کہ مِن وعَن لیا گیا ہو، کیوں کہ دونوں میں ایک حرف کا بھی فرق نہ تھا، طاہر مسعود کا مقالہ پہلے آیا، وہ محمود غزنوی نے دیکھا ہوگا، میں کیسے دیکھتا، کہ تب وہ شایع ہی نہیں ہوا۔ اس وقت کے شیخ الجامعہ ڈاکٹر ظفر زیدی کے کہنے پر میں نے اس پر رپورٹ بنا کر دی، اُنہیں کہا تھا کہ میں تو فریق ہوں، آپ یہ کام کسی غیر جانب دار سے کرائیں، لیکن میری رپورٹ کا بھی کہیں کوئی ذکر نہیں ہوا۔ بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ دونوں کی مصالحت کرا دی گئی ہے اور کچھ تبدیلیوں کے بعد اعتراضات بھی واپس لے لیے گئے۔ یہ اتنا بڑا معاملہ نہیں تھا، جتنا اچھالا گیا، پھر بھی اس کا باضابطہ طور پر ’بورڈ آف ایڈوانس اسٹڈیز‘ میں کوئی فیصلہ ہونا چاہیے تھا۔

’ایم کیو ایم‘ نے سنجیدہ کوشش نہیں کی!

ڈاکٹر یونس حسنی کہتے ہیں کہ پاکستان غلط نہیں بنا، بلکہ غلط ہاتھوں میں چلا گیا، دراصل ’منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے‘ ساری گڑ بڑ انہوں نے ہی کی۔ اگر تقسیم نہ ہوتی تو یہاں کے مسلمان بھی ایسے ہوتے، جیسے آج ہندوستانی مسلمان، تین جگہ نہ بٹتے تب بھی جمہوریت کے لحاظ سے اکثریت نہ تھی۔

اسلام کے ابتدائی دور میں فیصلے صائب الرائے کرتے، ان میں ’سابقون الاولون‘ کو فوقیت ملی۔ یہاں پاکستان کے لیے تکلیفیں اٹھانے والے جلدی چلے گئے اور جنہیں لڈو کھانا تھا وہ رہ گئے۔ مروّجہ ’مہاجر‘ قومیت کے حوالے سے وہ بولے کہ اس میں راجستھان اور گجرات سے آنے والوں کو بھی شامل کرتے ہیں، جب کہ اس میں ٹونک (راجستھان) کے سوا کہیں اردو نہیں بولی جاتی۔ یہاں ہجرت کرنے والوں کو حق تھا، کسی خالی گھر پر قبضہ کرلیں یا دعویٰ (کلیم) داخل کریں۔ ’برنس روڈ‘ کے گھروں میں آکر رہنے کو کسی نے نہیں روکا۔ پھر بہت سے ’کلیم‘ مبالغہ آرائی پر مبنی تھے! اسی طرح سندھ میں بہت سے لوگ ہندوؤں کی زمینوں پر قبضہ کر کے زمیں دار بن گئے، تقسیم کے بعد اس لوٹ نے پوری قوم کو بے ایمان بنا دیا۔

ہم نے پوچھا کہ کیا اکثریت کے ’کلیم‘ جھوٹے تھے؟ وہ بولے کہ اچھے خاصے کے تھے، میں ذاتی طور پر حویلیاں چھوڑ کر یہاں 100 گز کے مکان میں رہنے والوں اور ڈاکیے سے یہاں آکر پوسٹ ماسٹر بننے والوں کو خوب جانتا ہوں۔ پہلے یہاں ’این ای ڈی‘، ’ڈی جے‘ کالج، سندھ مدرسۃ الاسلام اور دو ایک پارسی اسکول تھے، یہاں مہاجروں نے درجنوں اسکول، کالج کھولے، جو بہت سے تعلیم کی تجارت بھی کر رہے تھے، لیکن تعلیم کو تو فروغ مل رہا تھا۔ صرف انبیا کا بنایا گیا معاشرہ ہی خامی سے پاک ہوتا ہے، جب یہاں دیکھا کہ ’مہاجر‘ سیٹل ہو رہے ہیں، تو حقوق غصب ہوئے۔ جس پر ’ایم کیو ایم‘ بنی، لیکن انہوں نے شہری سندھ کے کوٹے پر اقربا پروری کی، امتحانات میں جس طرح نقل شروع کرائی، وہ پہلے ممکن نہ تھی، اب استاد کو مار کر نقل کی جا سکتی تھی، نتیجتاً ملک کا بہترین طالب علم سب سے برا ہو گیا۔

کوئی تحریک ہی نہیں جو بڑے ادب کا سبب بنے!

ڈاکٹر یونس کا خیال ہے کہ اس وقت انسانی زندگی بے مقصد اور لایعنی گزر رہی ہے، جس کے سبب پچھلے 20-25 برسوں میں کوئی بڑا ادیب پیدا نہیں ہوا، کوئی تحریک نہیں، جو بڑے ادب کا محرک بنے۔ وہ میر، غالب، اقبال اور فیض کو بڑا شاعر، مشتاق احمد یوسفی کو لاجواب مزاح نگار، قرۃ العین حیدر کو بہترین ناول نگار شمار کرتے ہیں، عام نثر نگاری میں سرسید کے قائل ہیں، مگر علامہ شبلی نعمانی کے اسلوب کو لاثانی پاتے ہیں۔ جب انہوں نے یہ کہا کہ نوجوانوں میں کسی کا نام نہیں لے سکتا! تو ہم نے پوچھا کہ کیا مایوس کن صورت حال ہے؟ تو وہ بولے کہ ادب میں اونچ نیچ ہوتی ہے، اب کوئی نظریاتی چیز نہیں رہی، تو انسان مایوسی کی یا خلا میں زندگی نہیں گزار سکتا۔ آیندہ آٹھ دس سال میں نہیں، لیکن مزید کچھ وقت کے بعد بہتری کی امید ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ کراچی کا مزاج بمبئی اور لندن کی طرح تجارتی ہے، یہاں جتنا ادب تخلیق ہوا وہ ہندوستان سے آنے والوں نے کیا۔ کہتے ہیں کہ اس کا سبب کاروباری ہنگامے ہیں، لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ یہاں ادیب ہوں گے ہی نہیں۔ وہ اردو میں انگریزی کے غلبے پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ آج معیارِ زندگی کا تعین انگریزی سے ہوتا ہے۔ نقاد اور محقق جامعات میں پیدا ہوتے ہیں، لیکن اب جامعات میں مطمع نظر پیسہ ہے۔ 60 سال میں ریٹائر ہوتے ہیں، اتنی عمر تو میری تدریس کی ہوگئی، مجھے صرف پڑھانا آتا ہے، باقی میدانوں میں خود کو کام یاب نہیں سمجھتا۔ تعلیم کا معیار گرنے کی وجہ طلبہ نہیں استاد ہیں! شاید ہی کسی طالب علم نے کبھی بدتمیزی کی ہو۔‘