اے چاند یہاں نہ نکلا کر

اسلام آباد کے بارے میں عوامی تاثر ہے کہ یہ اندھے، گونگے، بہرے ،بے حس اوربابو لوگوں کا شہر ہے، اس تاثر کی وجہ یہ ہے کہ اس شہر کے باسیوں نے اپنا عمومی تاثر کچھ اس طرح کا بنا رکھا ہے کہ پاکستان کے عوام میں ان کے بارے میں یہ بات مشہور ہے کہ اسلام آباد کے باسی وہی کچھ سننا چاہتے ہیں جو ان کے کانوں کو بھلا محسوس ہو۔ وہی کچھ دیکھنا چاہتے ہیں جس سے ان کی آنکھوں کو ٹھنڈک ملے اور وہی کچھ بولتے ہیں جو ان کے مزاج میں آئے، اس لیے اقتدار کے اس شہر کو اندھے بہرے لوگوں کا شہر کہا جاتا ہے ۔ جو بھی اس شہر میں ہوش و حواس کے ساتھ پہنچ گیا وہ یہاں پہنچتے ہی اندھا بہرا بن جاتا ہے، اس ظالم شہر کی ادائیں ہی ایسی ہیں کہ یہ بھلے چنگے بندے کے سارے اعضا معطل کر دیتا ہے اور اس کو اپنی مرضی کے مطابق چلانا شروع کر دیتا ہے جیسے وہ انسان نہیں کچھ اور ہیں۔

اقتدار کا یہ شہر حکمرانوں اور بابوؤں کا شہر ہے، اس شہر کے اصل حکمران اس میں بسنے والے وہ بابو ہیں جو اس شہر کی بنیادیں رکھنے کے ساتھ ہی اس شہر میں پہنچ گئے اور پھر نسل در نسل اسی شہر میں رچ بس گئے، اگر دیکھا جائے تو اسلام آباد کا کوئی بھی باشندہ یہاںکا جدی پشتی مقیمی نہیں ہے لیکن اس شہر کی آبادکاری کے ساتھ ہی ہمارے بابوؤں نے اس کو اپنے مستقل مسکن کا درجہ دے دیا اور اس شہر کی آباد کاری کے بعد مہاجروں کی طرح اس شہر کو بسانے والے اپنی آنے والی نسلوں کو اس شہر اقتدار کا مستقل باسی بنا گئے ۔

اسلام آباد کی اقتدار کی گردشوں میں حکمران لاکھوں جتن کر کے آتے تو اپنی مرضی اور شوق سے ہیں اور ان کا یہ آنا جانا مسلسل لگا رہتا ہے، ابھی تک کوئی بھی ایسا حکمران ہمیں نصیب نہیں ہوا جس کو عوام نے مسلسل دوسری بار منتخب کیا ہوالبتہ کئی ایسے حکمران بھی گزرے ہیں جنہوں نے اپنے اقتدار کی مدت کا تعین خود سے کر لیا اور کئی برس تک اس ملک پر حکمرانی کے مزے لوٹے ۔وہ آئے تو اپنی مرضی سے لیکن گئے کسی اور کی مرضی سے۔ اسلام آباد ایسا شہر ہے جس میں حکمرانوں کا آنا جانا لگا رہتا ہے لیکن ان کو خوش آمدیدکہنے والے افسر شاہی کے بابو مستقل یہیں مقیم ہیں اور یہ آنے جانے والے حکمرانوں کی طرح نہیں بلکہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے حکمرانواں کو اپنی آنکھوں اور کان کا درجہ دے رکھا ہے اوریہ اپنی انھیں آنکھوںاور کانوں سے حکمرانوں کو سب کچھ دکھانے کی کوشش کرتے ہیں اورحکمران ان آنکھوں سے عوام کو دیکھتے اور ان کے کانوں سے ہی سنتے ہیں ۔ ہمارے یہ بابو اتنے ہوشیار اور چالاک ہیں کہ یہ حکمرانوں کو وہی کچھ دکھاتے ہیں جو وہ دیکھنا چاہتے ہیں اور وہی کچھ حکمرانوں کی سماعتوں تک پہنچاتے ہیں جو وہ سننا چاہتے ہیں ۔ یعنی سب کچھ اچھا ہی دکھایا اور سنایاجاتا ہے ۔

بابوؤں کی یہ نسل جو پاکستان کے قیام میں آنے کے ساتھ ہی پیدا ہو ئی اور پھر بڑھتی ہی چلی گئی آج یہ عالم ہے کہ عملاً پاکستان کا اقتداراعلیٰ انھی کے پاس ہے اور یہ وہ مستقل حکمران ہیں جن کے ہاتھوں میں عوام کی تقدیر ہے کیونکہ انھی کی آنکھوں سے دیکھنے والے اوران کے کانوں سے سننے والے حکمران ان کی پالیسیوں پر ہی چلتے ہیں۔جب حکمران انھی کی بنائی گئی پالیسیوں اور مشوروں پر چلتے ہیں تو اصلی حکمران تو پھر یہی ہوئے ۔ سیاستدان تو لاکھ جتن کر کے اقتدار تک پہنچتے ہیں لیکن اسلام آباد پہنچتے ہی یہ بدقسمت اپنے آپ کو افسر شاہی کے حوالے کر دیتے ہیں ۔ وہ افسر شاہی کے ضابطوں کے تابع ہو کر عوام کو بھول جاتے ہیں اور وہی کچھ کرتے ہیں جو افسر شاہی ان سے کرانا چاہتی ہے۔

بہر حال سیاستدانوں کا یہ شکوہ بجا ہے کہ اسلام آباد میں اندھے بہرے اور گونگے لوگ رہتے ہیں کیونکہ اسلام آبادیوں کو ان سیاستدانوں سے زیادہ کوئی جانتا پہچانتا نہیں، اگر سیاستدان ان کے بارے میں شکوہ کر رہے ہیں تو درست ہی ہو گا کیونکہ ہمارے سیاستدان ان مقیم اسلام آبادیوں کے ساتھ قریبی تعلق کے باجود اپنے آپ کو ان کے قریب نہیں کر سکے اور ان کے دفتروں سے اٹھنے والی محلاتی سازشوں کا شکار بن جاتے ہیں اور یہ شکار وہ بار بار بنتے ہیں لیکن پھر بھی انھی کے مرہون منت رہتے ہیں لیکن ساتھ ساتھ شکوہ بھی کرتے جاتے ہیں ۔کچھ ایساہی شکوہ آج سے کچھ برس قبل ہمارے عوامی شاعر حبیب جالبَؔ نے بھی کیا تھا:

یہ دیس ہے اندھے لوگوں کا

اے چاند یہاں نہ نکلا کر

بے نام سے سپنے دکھلا کر

اے دل ہر جا نہ پھسلا کر

نہ ڈرتے ہیں نہ نادم ہیں

ہاں کہنے کو وہ خادم ہیں

یہاں الٹی گنگا بہتی ہے

اس دیس میں اندھے حاکم ہیں

یہاں راقم سارے لکھتے ہیں

قوانین یہاں نہ ٹکتے ہیں

ہیں یہاں پر کاروبار بہت

اس دیس میں گردے بکتے ہیں

یہاں ڈالر ڈالر ہوتی ہے

اور جی ڈی پی کسوٹی ہے

کچھ لوگ ہیں عالیشان بہت

اور کچھ کا مقصد روٹی ہے

اُمید کو لے کر پڑھتے ہیں

پھر ڈگری لے کر پھرتے ہیں

جب جاب نہ ان کوملتی ہے

پھر خود کش حملے کرتے ہیں

وہ کہتے ہیں سب اچھا ہے

اور فوج کا راج ہی سچا ہے

کھوتا گاڑی والا کیوں مانے

جب بھوکا اس کا بچہ ہے

یہ دیس ہے اندھے لوگوں کا

اے چاند یہاں نہ نکلا کر

مزید تبصرے کی گنجائش نہیں۔ اسی پر گزارہ کریں۔