بے چارا ننگا سچ

یہ وضاحت پہلے سے کر دیں تو اچھا ہے کہ ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہمارا من خالص قصہ گوئی کو کر رہا ہے اور اس سے ہمارا مقصد ہرگز ہرگز کسی کو کوئی سبق سکھانا اورعبرت پکڑوانا نہیں ہے کیونکہ جس چیز بلکہ ’’ شے ‘‘ بلکہ ’’ مہاشے ‘‘ کو ایک لاکھ چوبیس ہزار خدائی فرستادے بہت سارے  صحائف آسمانی اور بہت بڑے بڑے رہبر و رہنماء سدھار نہیں پائے اس کے سامنے ہماری بضاعت کیا فضاحت کیا بلاغت کیا بلکہ ہمت و جرات کیا اور پھر فائدہ بھی کیا ؟

قوی شدیم چہ شد ناتواں شدیم چہ شد

’’ چنیں ‘‘ شدیم چہ شد یا ’’ چناں ‘‘ شدیم چہ شد

بہ ہیچ گونہ قرارے دریں گلستان نیست

تو گر ’’ بہار ‘‘ شدی ’’ ما‘‘ خزاں شدیم چہ شد

یعنی اگر کوئی قوی ہو گیا تو ناتواں ہوا تو کیا ایسا ہوا تو کیا یا ویسا ہوا تو کیا ؟ ’’ قرار ‘‘ نامی چیز تو اس ’’ گلستان ‘‘ میں ہے ہی نہیں تم بہار ہوئے تو کیا میں خزاںہوا تو کیا ؟ یہ اتنے دانا دانشوروں نے کسی کا کیا بگاڑا یا سنوارا ۔ تو ہم آخر کس کھیت کے شلغم ہیں

اس سلسلے میں یہ کہانی بہت پرانی ہماری زبانی بھی صرف کہانی ہے صرف سنیے اپنا یا کسی دوسرے کا سر دھنیے اور بھول جایے کیونکہ ایک بزرگ یہ بھی فرماگئے ہیں کہ

جنگ ہفتاد و دو ملت ہمہ راغدر بنہ

چوں ندیدند حقیقت رہ افسانہ زدند

اور یہاں تو ’’ بہتر ‘‘ کیا تقریباً کل ملا کر لگ بھگ (420) یا (440) فرقے تو ہوں گے ہی اگر پچھلے دو ایک ہفتوں میں مزید ’’ نئے ‘‘ پیدا نہیں ہوئے ہوں تو۔

کہانی کا یہ بھی پتہ نہیں ہے کہ کس زمانے کی ہے کیونکہ یہ کہانی ابھی تک جھوٹے حوالوں اور فضول کتابوں کی زد سے بچی ہوئی ہے تو یقیناً ’’ سچ ‘‘ بھی ہوگی ۔ جن بزرگوں گذرگوں اور خبر گوں سے ہم نے سنی ہے وہی اس کے جھوٹ یا سچ کے ذمے دار ہیں کیونکہ یہ کہانی ہے بھی جھوٹ اور سچ کی ۔ بلکہ جھوٹ کی کہیے کیونکہ کہانی سننے کے بعد آپ کو پتہ چل جائے گا کہ بیچارا سچ تو کبھی کا کیفر کردار کو پہنچ چکاہے ۔

کہانی کے مطابق جب یہ دنیا تشکیل پا رہی تھی یعنی زیر تعمیر تھی تو اس کے لیے ’’ سامان ‘‘ دھیرے دھیرے آرہا تھا، کہاں سے ؟ یہ بھی معلوم نہیں ہو سکا جس طرح کسی مشہور و معروف عمارت کی تعمیر کے لیے سامان کا پتہ نہیں چلتا کہ اونٹ کہاں سے آئے روڈ ا کہاں سے آیا ریت بجری اور سیمنٹ کہاں کہاں سے لائے گئے ۔

تو دنیا کے لیے بھی یہاں وہاں سے تعمیراتی سامان آرہا تھا اور اسی سامان میں دو نگ یا آئیٹم جھوٹ اور سچ کے بھی تھے ۔ دونوں بیک وقت ایک ہی راستے سے اکھٹے ہی آرہے تھے اس لیے سفر کے ساتھی ہو گئے ۔

سچ تو خدا کا سادہ دل بندہ تھا اس لیے ادھر ادھر دیکھے اور کچھ کہے سنے بغیر چل رہا تھا لیکن جھوٹ انتہائی چھیتل چھیلا اور نٹ کھٹ تھا اسے ہر اس چیز سے کام تھا جس سے اس کا کام نہیں تھے ۔

پہلے تو دونوں میں تعارف ہوا تو بڑے خورسند ہوئے کیونکہ دونوں ایک ہی شہر ایک ہی محلے اور گلی کے نکلے جس کا نام ’’ کھوپڑی ‘‘ تھا اور دونوں کی منزل مقصود بھی ایک یعنی انسان کی زبان تھا ۔ فرق صرف یہ تھا کہ سچ کا لباس ’’ سفید ‘‘ براق تھا اور جھوٹ کا بالکل ’’ سیاہ ‘‘ دونوں چلے جا رہے تھے آخر جھوٹ نے گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے کہا ۔ دیکھوتو کیا سہانا سفر ہے اور یہ موسم حسین ۔ سچ نے یقین کر لیا حالانکہ اس کے خیال میں موسم بھی نہایت ہی واہیات اور راستہ بھی اوبڑ کھابڑ تھا اور یہ بھی جانتا تھا کہ جھوٹ بول رہا ہے ۔ لیکن اس نے سوچا مان لینے میں حرج ہی کیا ہے ۔

پھر کچھ دیر اور جھوٹ نے ’’ سچ ‘‘ کو توت میں ’’ طوطا ‘‘ کرتے ہوئے کہا۔ یار تم تو بڑے حسین ہو۔ واہ کیا جوانی پائی ہے کہاں سے حاصل کیا ہے یہ اتناحسین اورشاندار جسم ۔

سچ کو پتہ تھا کہ وہ کتنا بد صورت ہے اور جوانی تو اس کی

کردیا ضعف نے عاجز غالب

ننگ پیری ہے جوانی میری

مطلب یہ کہ اسے معلوم تھا کہ بدصورتی اور جسم کی بد رنگی میں وہ ورلڈ چمپئن ہے ۔ اور یہ شخص سراسر جھوٹ بولتا ہے۔ تو بولتا رہے میرا کیا جاتا ہے یقین نہیں کروں گا البتہ جواباً سچ بولنے میں کوئی حرج بھی نہیں کیونکہ یہ کم بخت ہے تو واقعی خوبصورت پرکشش اور من موہنا ۔

کچھ اور آگے گئے تو جھوٹ نے ایک اور پلندہ کھولتے ہوئے کہا کہ یار تمہاری رفتار بھی بڑی تیز ہے دیکھو میں کتنا تھک گیا ہوں لیکن تیرے چہرے پر تھکان کا نام و نشان بھی نہیں میں بڑی مشکل سے تمہارا ساتھ دے پا رہا ہوں۔ سچ جانتا تھا کہ اس کی کمزور ٹانگوں میں کوئی طاقت نہیں بلکہ چلنے کے لائق بھی نہیں گھسیٹ گھسیٹ کر چل رہا ہوں اور اگر رفتار کا مقابلہ ہوا تو میں خود سے بھی دوسرے نمبر پر آجاؤں گا ۔ لیکن چلو تم جواب میں سچ ہی بول دو۔ بولا بھائی میرے یہ تمہاری شرافت ہے ورنہ من دانم کہ من آنم ۔ میں جانتا ہوں کہ اگر تم اڑ بھی سکتے ہو کیونکہ مجھے پتہ ہے کہ نہ صرف تمہارے پیر اور سر ہیں بلکہ پر بھی ہیں جو تم نے اپنے لباس کے اندر چھپائے ہوئے ہیں اور اگر چاہو تو پلک جھپکنے میں یہ جا وہ جا ہو سکتے ہو لیکن میری خاطر رفتار دھیمی رکھے ہوئے ہو تمہارا بہت بہت شکریہ ۔

اتنے میں وہ ایک جھیل کے پاس پہنچ گئے تھے۔ پانی پینے اور تھکان اتارنے کے بعد جھوٹ نے کہا، کیا خیال ہے محترم تھوڑا سا اس جھیل میں نہا نہ لیا جائے ۔

سچ نے کہا کیوں نہیں چلو۔

دونوں نے لباس اتار لیا اور جھیل میں نہانے لگے اچانک سچ نے محسوس کیا کہ اس کا ساتھی کہیں دکھائی نہیں دے رہا ہے کنارے پر نظر ڈالی تو لباس غائب تھا اور جھوٹ بھی ۔ سمجھ گیا کہ آخر کار چوٹ دے گیا اپنے ساتھ میرا لباس بھی چرا لے گیا ۔لیکن جھوٹ نے نہ صرف سچ کا لباس چرایا تھا بلکہ ارد گرد کے علاقے میں یہ بات بھی پھیلا دی کہ اس جھیل میں ایک بلا ہے اور اگر وہ باہر نکلی تو اس سارے علاقے کو تباہ کر دے گی ۔ لوگ اینٹ پتھر لے کر دوڑ پڑے تھے سچ نے دیکھا تو جھیل میں چھپنے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں تھا ۔

تب سے اب تک بیچارا اس جھیل میں پھنسا ہوا ہے اور ذرا بھی سر نکالتا ہے تو اینٹ پتھروں کی بارش ہونے لگتی ہے اور جھوٹ اس کا لباس اپنے کالے لباس کے اوپر پہنے ہوئے دنیا میں دندنا رہا ہے۔