ہم لوگ

’’ہم لوگ‘‘ عصمت چغتائی کے لکھے کچھ شخصی خاکوں کا مجموعہ ہے۔ارشد نعیم لکھتے ہیں کہ جب عصمت چغتائی نے اپنے بھائی کا خاکہ ’’دوزخی‘‘ لکھا تو ادب کے سنجیدہ قارئین کو احساس ہوا کہ وہ محض معاشرے کے عام افراد کے بارے میں ہی سچ لکھنے پر قادر نہیں بلکہ اپنے قریبی عزیزوں اور دوستوں کا پوسٹ مارٹم کرنے کا بھی حوصلہ رکھتی ہیں۔اس حقیقت کا اظہار ’’ہم لوگ‘‘ میں شامل ہر خاکے سے ہوتا ہے۔

’’دوزخی‘‘ کے عنوان سے اپنے بھائی عظیم بیگ چغتائی کے بارے میں عصمت چغتائی لکھتی ہیں۔’’وہ نیک نہیں تھے پارسا نہ ہوتے اگر ان کی صحت اچھی ہوتی، وہ جھوٹے تھے، ان کی زندگی جھوٹی تھی۔ سب سے بڑا جھوٹ تھی۔ ان کا رونا جھوٹا، ہنسنا جھوٹا۔ لوگ کہتے ہیں ماں باپ کو دکھ دیا، بیوی کو دکھ دیا، بچوں کو دکھ دیا اور سارے جگ کو دکھ دیا۔ وہ ایک عفریت تھے جو عذاب دنیا بن کر نازل ہوئے تھے اور اب دوزخ کے سوا ان کا ٹھکانا نہیں۔اگر دوزخ میں ایسے ہی لوگوں کا ٹھکانا ہے تو ایک بار تو ضرور دوزخ میں جانا پڑے گا۔ نئے لکھنے والوں کے آگے ان کی گاڑی نہیں چلی۔ دنیا بدل گئی ہے، خیالات بدل گئے ہیں۔

ہم لوگ بد زبان ہیں منہ پھٹ ہیں۔ ہمارا دل دکھتا ہے تو رو دیتے ہیں۔ سرمایہ داری، سوشل ازم اور بے کاری نے ہم لوگوں کو جھلسا دیا ہے۔ ہم جو لکھتے ہیں دانت پیس پیس کر لکھتے ہیں، اپنے پوشیدہ دکھوں، کچلے ہوئے جذبات کو زہر بناکر اگلتے ہیں۔ وہ بھی دکھی تھے، نادار، بیمار اور مفلس تھے، سرمایہ داری سے عاجز تھے۔ پھر بھی ان میں اتنی ہمت تھی کہ منہ چڑا دیتے تھے، دکھ میں ٹھٹھا لگا لیتے تھے۔ وہ افسانوں ہی میں نہیں ہنستے تھے، زندگی کے ہر معاملے میں ہنس ہنس کر دکھ کو نیچا کردیا کرتے تھے۔‘‘

’’ہم لوگ‘‘ کے عنوان سے عصمت چغتائی نے اپنا خاکہ لکھا ہے۔ وہ لکھتی ہیں ’’سمجھ میں نہیں آتا کہ اپنے متاثر ہونے کا الزام کس کے سر تھوپوں۔ ددھیال والوں کا خیال تھا کہ میں پورم پور اپنی ننھیال والوں پرگئی ہوں۔ نگوڑے شیخ، پتلی دال کھانے والے۔ مگر ننھیال والوں کو یقین تھا کہ میں سو فیصد ددھیال والوں پر پڑی ہوں۔ وہی اپنی پھوپھی جیسا تیہا اورگز بھرکی زبان۔ چنگیز خان کی اولاد سے اور کیا امید کی جا سکتی ہے لیکن اگر کوئی میری اماں سے پوچھتا کہ بیٹی کوکیا ہو گیا تو وہ ٹھنڈی سانس بھر کر کہتیں ’’نہ ددھیال کا قصور ہے نہ ننھیال کا، یہ سب نصیب کا پھیر ہے۔‘‘

ایسی صورت میں میں کس کا نام لے دوں۔ وہ بیج جس سے میری ہستی وجود میں آئی تھی قطعی ٹیڑھا میڑھا نہ تھا، ضرور پالنے پوسنے میں کہیں بھول چوک ہوئی ہوگی مگر مجھے بذات خود اس ماحول سے کوئی شکایت نہیں جہاں میری تراش خراش ہوئی۔ بہنیں چونکہ بڑی نکل گئی تھیں، بھائیوں کی صف میں جگہ ملی۔کھیل کود کا زمانہ انھی کے ساتھ گلی ڈنڈا، فٹ بال اور ہاکی کھیل کر گزرا، پڑھائی بھی انھی کے ساتھ ہوئی۔سچ پوچھئے تو اصل مجرم میرے بھائی ہی تھے جن کی صحبت نے مجھے انھی کی طرح آزادی سے سوچنے پر مجبورکیا۔‘‘

شاہد لطیف سے اپنی شادی کے بارے میں عصمت چغتائی لکھتی ہیں۔’’میں نے شادی سے پہلے شاہد کو خوب سمجھایا تھا کہ میں بڑی گڑ بڑ قسم کی عورت ہوں ، بعد میں پچھتاؤگے۔ میں نے ساری عمر زنجیریں کاٹی ہیں، اب کسی زنجیر میں جکڑی نہ رہ سکوں گی، لیکن شاہد نہ مانے۔‘‘

شاہد کے ساتھ گزرے زمانے کا ذکرکرتے ہوئے عصمت چغتائی لکھتی ہیں ’’شاہد نے بہت سکھ دیا۔ مرد عورت کو پوج کر دیوی بنانے کو تیار ہے۔ وہ اسے محبت دے سکتا ہے، عزت دے سکتا ہے، صرف برابری کا درجہ نہیں دے سکتا۔ آہا ! کتنی خوبصورت بات ہے۔ مرد سمجھتا ہے ان پڑھ عورت سے کیسی دوستی؟ لیکن دوستی کے لیے پیار کی ضرورت ہوتی ہے، علم کی نہیں۔ شاہد نے مجھے برابری کا درجہ دیا تھا، اس لیے ہم دونوں نے ایک اچھی گھریلو زندگی گزاری۔‘‘

عصمت چغتائی نے ’’میرا دوست، میرا دشمن‘‘ کے عنوان سے سعادت حسن منٹوکا خاکہ لکھا ہے۔ وہ لکھتی ہیں ’’میں اور منٹو اگر پانچ منٹ کے ارادے سے بھی ملتے تو پانچ گھنٹے کا پروگرام ہوجاتا۔منٹو سے بحث کرکے ایسا معلوم ہوتا جیسے ذہنی قوتوں پر دھار رکھی جا رہی ہے۔ جالا صاف ہو رہا ہے، دماغ میں جھاڑو سی دی جا رہی ہے اور بعض اوقات بحثیں اتنی طویل اورگھن دار ہوجاتیں کہ ایسا محسوس ہوتا جیسے بہت سے کچے سوت کی پوئیاں الجھ گئی ہیں اور واقعی سوچنے سمجھنے کی قوت پر جھاڑ پھر گئی ہے مگر دونوں بحثتے الجھے جاتے۔ بدمزگی پیدا ہونے لگتی۔ مجھے تو اپنی شکست چھپانے کا ملکہ تھا مگر منٹو روہانسا ہوجاتا، آنکھیں مور پنکھوں کی طرح تن کر پھیل جاتیں، نتھنے پھڑکنے لگتے، منہ کڑوا کسیلا ہو جاتا۔ وہ جھنجھلا کر اپنی حمایت میں شاہد کو پکارتا اور جنگ ادب اور فلسفے سے پلٹ کرگھریلو صورت اختیارکرلیتی۔ منٹو بھنا کر چلاجاتا۔

شاہد مجھ سے لڑتے کہ تم میرے دوستوں سے اتنی بد تمیزی سے باتیں کیوں کرتی ہو۔ منٹو آج خفا ہوکرگیا ہے، اب وہ ہمارے ہاں نہیں آئیگا لیکن صبح لڑائی ہوتی اور اتفاق سے شام کو پھر ملاقات ہوجاتی تو وہ اس قدر جوش سے ملتا جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ ویسے ہی گھل مل کر باتیں ہوتیں۔ ہم ہر بات پر ہاں میں ہاں ملاتے مگر میرا جلد ہی اس تصنع سے دل اکتا جاتا اور اس کا بھی۔ اور پھر چلنے لگتی دونوں طرف سے آتش بازی اور گولیوں کی سی تندی آجاتی۔‘‘

’’باچھو‘‘ خواجہ احمد عباس کا خاکہ ہے۔ عصمت چغتائی لکھتی ہیں۔ ’’ٹھیک یاد نہیں، شاید عباس کو میں نے سب سے پہلے علی گڑھ کے کسی مقابلہ تقریرکے موقع پرکوئی فرلانگ بھرکے فاصلے سے چقوں کے پیچھے سے دیکھا تھا۔ ایک نہایت منحنی سا لڑکا سر پر ڈھیروں بال اٹھائے اپنی زناٹے دار تقریرکے ذریعے زمین وآسمان ایک کیے دے رہا تھا اور حسب دستور میرے آس پاس بیٹھی ہوئی زیادہ تر لڑکیاں اس پر عاشق ہوچکی تھیں یا ہونے والی تھیں۔ اس مجمعے میں وہ بت طناز بھی جلوہ افروز تھی جس پر عباس مرتا تھا یا شاید اس کی دوسری، تیسری بہن ہوگی۔گرلز کالج کی لڑکیوں میں یہ افواہ گرم تھی کہ وہ بہ یک وقت کئی بہنوں پر عاشق ہے۔ پھر دوسری ملاقات پائن والا بلڈنگ میں نہایت نازک موقع پر ہوئی۔ محسن عبداللہ گواہ اور احمد عباس وکیل کی حیثیت سے نکاح کے وقت ایجاب و قبول کے سلسلے میں میری مرضی لینے آئے۔اس وقت میں بھی بدحواس تھی اور عباس کے چہرے پر بھی ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔‘‘

عصمت چغتائی خواجہ احمد عباس کے بارے میں لکھتی ہیں کہ ’’اس ٹیڑھے میڑھے انسان میں جملہ چھوٹی موٹی برائیوں کے ساتھ سب سے بھیانک برائی یہ ہے کہ وہ کبھی لائق فائق شوہر نہ بن سکا۔ وہ ایک لاجواب دوست بن سکتا ہے، زناٹے دارکہانیاں لکھ سکتا ہے مگر اس میں کسی کا ’’سرتاج من سلامت‘‘ بننے کا بیج ہی نہیں ہے۔ وہ کسی کا ہوکر رہنے کا قائل نہیں ہے۔ خواہ کوئی جذبہ ہو یا پارٹی،کوئی اصول ہو یا کوئی بت کافر۔اگر اس کا ضمیر کسی بندھن کے خلاف گواہی دیتا ہے تو وہ اسے توڑ پھینکتا ہے۔اسے کسی یقین،کسی رواج کی رسیوں میں جکڑنا ممکن ہی نہیں۔ وہ کسی کو نہ اپنی جاگیر سمجھتا ہے اور نہ کسی کی ملکیت بن کر جی سکتا ہے۔‘‘

عصمت چغتائی نے مجاز کا خاکہ دل سے لکھا ہے۔ وہ لکھتی ہیں ’’میں نے مجازکو بہت قریب سے نہیں دیکھا اور دیکھا بھی تو صرف تین بار لیکن تینوں بار زندگی کے تین مختلف موڑ پر۔ پہلی بار1935 میں، یہ مجاز کے عروج کا پرشور زمانہ تھا جب نئی پود نے ’’آہنگ‘‘ کو ہاتھوں ہاتھ لیا اور سینے سے لگایا، جب مجازکے نام پرگرلز کالج میں لاٹریاں ڈالی جاتی تھیں اور اس کے اشعار تکیوں کے نیچے چھپا کر آنسوؤں سے سینچے جاتے تھے اور جب کنواریاں اپنے آیندہ بیٹوں کے نام اسی کے نام پر رکھنے کی قسمیں کھاتی تھیں نہ جانے کس ارمان کے بدلے میں اور پھر چار پانچ سال گزرگئے۔کبھی کبھی اڑتی خبریں ملتی رہیں پھر 1944 میں اچانک ریڈیو اسٹیشن پر ملے، یہ وہ زمانہ تھا جب مجازکا ستارہ ڈوب چکا تھا۔اس نے کچھ کچھ متقدمین کی صف کی طرف کھسکنا شروع کردیا تھا۔ وہ توکہو اثاثہ اتنا جمع ہوچکا تھا کہ کچھ نہ کچھ پاؤں جمے رہے ورنہ پشت پر’’آہنگ‘‘ نہ ہوتی تو کبھی کے ختم تھے۔

ریڈیو اسٹیشن پر کوئی مشاعرہ تھا، ہم لوگ بھی اتفاق سے پہنچ گئے۔ تمام شعرا موجود تھے، پر آپ نہ جانے کہاں غائب تھے، اشاروں سے پوچھا تو منتظمین نے اشارے سے بتایا قے کر رہے ہیں۔ توبہ ! شکر ہے مشاعرہ شروع ہونے سے پہلے لوگ انھیں سمیٹ لائے اورکرسی سے لٹکا دیا۔ مائیکرو فون پر آکر نہ جانے کیا اول فول بکنے لگے۔ اس دن تو دل خوب ہی جلا۔‘‘ تیسری بار جب عصمت چغتائی مجاز سے ملیں تو دیکھا کہ کچھ صورت ہی دوسری ہے۔ لکھتی ہیں ’’چہرہ کو غور سے دیکھ کر شبہ ہوتا تھا کہ شاید اس شخص کو خبر ہی نہیں ہے کہ وہ زندہ ہے یا مر چکا۔ آنکھوں میں ایک غائرانہ تغافل، جیسے کسی کو پہچانتے ہی نہیں۔‘‘