طورخم بارڈر کھولنے سے ملکی کے ساتھ علاقائی تجارت بھی بڑھے گی

پشاور:  طورخم کے مقام پر پاک افغان بارڈر کو چوبیس گھنٹے عام آمدورفت اور تجارتی مقاصد کے لیے کھولنے کی وجہ سے ہفتہ رفتہ کے دوران خیبرپختونخوا یقینی طور پر فوکس رہا کیونکہ یہ معاملہ صرف طورخم کا نہیں بلکہ ڈیورنڈ لائن کا بھی ہے کہ جو ماضی میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان وجہ تنازعہ بنا رہا اور اسی ڈیورنڈ لائن کو لیے پختون قوم پرست بھی سیاست بازی کرتے رہے جو اسے بین الاقوامی سرحد کی بجائے صرف ایک لکیر قراردیتے اور اپنے موقف کو تقویت دینے کے لیے وہ قبائلی علاقہ جات کو بنیاد بتاتے کہ پاکستان اور افغانستان، دونوں کے درمیان یہ قبائلی علاقے بفر زون کے طور پر اسی وجہ سے موجود ہیں۔

افغانستان اور انگریز سرکار کے درمیان معاہدے کے حوالے بھی دیئے جاتے تاہم حکومت پاکستان نے پہلے پاک افغان بارڈر پر باڑھ لگانے کا کام شروع کرکے اور پھر قبائلی علاقوں کا خصوصی سٹیٹس ختم کرتے ہوئے انھیں خیبرپختونخوا میں ضم کرکے یہ باب بند کردیا، پاکستان اور افغانستان کے درمیان قبائلی علاقہ جات کی صورت جو بفر زون تھا وہ اب ختم ہو چکا اور اس سرحد کے بین الاقوامی سرحد ہونے میں کوئی شک وشبہ باقی نہیں رہا۔

حکومت پاکستان کی پالیسی واضح ہوگئی ہے کہ وہ افغانستان میں قیام امن کے لیے افغان طالبان اور امریکہ کے مذاکرات کو ضروری سمجھتی ہے اور اس کی خواہش ہے کہ افغانستان میں امن قائم ہو تاکہ پاکستان میں مسائل ختم اور معاشی استحکام آسکے، پاک،افغان بارڈر کو چوبیس گھنٹے کھولنے کے پس پردہ بھی یہی بات کار فرما ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان تجارتی حجم میں اضافہ ہوسکے اور یہ معاملہ طورخم تک ہی محدود نہیں رہے گا بلکہ حکومت پاکستان ،افغانستان کے ساتھ جڑے تمام قبائلی اضلاع کے راستوں کو کھولنے اور تجارت کو بڑھانا چاہتی ہے جبکہ چترال اور تاجکستان سرحد کو بھی واہ خان کے مقام پر کھولنے کی منصوبہ بندی ہورہی ہے جو مستقل میں سی پیک کے ساتھ منسلک ہوکر نیا تجارتی روٹ بن سکتا ہے ۔بظاہر توپاک،افغان بارڈرکو تجارت کے لیے کھولنے کا خیبرپختونخوا کو براہ راست کوئی فائدہ ملتا دکھائی نہیں دے رہا کیونکہ تمام معاملات مرکزی حکومت کے ہاتھوں میں ہون گے۔

تاہم دونوں ممالک کے درمیان تجارتی حجم جتنا بڑھے گا پشاور سمیت صوبہ کے دیگر اضلاع میں معاشی سرگرمیاں بھی اتنی ہی تیز ہونگی جس سے معاشی استحکام بھی بڑھے گا اور خوشحالی بھی آئے گی یہی وجہ ہے کہ جہاں وزیراعظم عمران خان نے خود طورخم بارڈر کو24/7 کھولنے کی تقریب میں بطور مہمان خصوصی شرکت کرتے ہوئے ا پنی دلچسپی ظاہر کی وہیں وزیراعلیٰ محمودخان اور ان کی ٹیم بھی پورے جوش وخروش کے ساتھ اس کام میں لگی ہوئی ہے تاکہ اس کے ثمرات کو صوبہ کے لیے حاصل کیا جا سکے، جہا ں ایک جانب پاک،افغان بارڈر کو چوبیس گھنٹے آمدورفت کے لیے کھولتے ہوئے خیبرپختونخوا کے لیے بڑا اقدام کیا گیا ہے وہیں وزیراعظم کی جانب سے طورخم بارڈر پر میڈیا گفتگو کے دوران صوبہ کو بجلی منافع کے بقایاجات کی فوری ادائیگی سے گریز پر مبنی بیان کی وجہ سے مایوسی پیدا ہوئی ہے۔

بجلی منافع کا معاملہ ہمیشہ ہی سے خیبرپختونخوا اور اس کے باسیوں کے لیے زندگی اور موت کا مسلہ رہا ہے اور صوبہ میں حکومت جس بھی سیاسی پارٹی کی ہو وہ مرکز سے صوبہ کے لیے بجلی منافع اور بقایاجات کے حصول کے لیے جدوجہد کرتی آئی ہیں، موجودہ صوبائی حکومت بھی اپنے طور پر جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہے اور اس ضمن میں مرکز کی سطح پر بھی کوششیں جاری ہیں تاہم وزیراعظم کی جانب سے یہ کہنا کہ وہ خیبرپختونخوا کو بجلی منافع کے بقایاجات کی ادائیگی کے لیے بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کرتے ہوئے عوام پر بوجھ نہیں ڈالنا چاہتے۔

یقینی طور پر مایوس کن ہے کیونکہ خیبرپختونخوا نے کبھی بھی بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کا مطالبہ نہیں کیا بلکہ بجلی کی موجودہ قیمت کے مطابق صوبہ کے لیے سالانہ مد میں بجلی منافع کا تعین کرنے اور بقایاجات کی ادائیگی کی بات کی ہے، بجلی منافع کے تعین کے لیے ڈالر کی قیمت کے مطابق بھی تعین کرنے کی تجاویز زیر غور رہی ہیں تاہم سب سے آسان ترین فارمولا بجلی کے نرخ کے مطابق سالانہ منافع کی ادائیگی اور اقساط میں بقایاجات دینے کی صورت موجود ہے تاہم مرکز اس پر عمل درآمد سے گریزاں ہے۔یہ صورت حال یقینی طور پر صوبائی حکومت کے لیے پریشان کن ہے کیونکہ نہ تو وہ ان حالات میں بقایاجات کے حصول کے لیے جاری جدوجہد ترک کر سکتی ہے اور نہ ہی مرکزی حکومت سے لڑ سکتی ہے کیونکہ مرکز میں کسی اور کی نہیں بلکہ پی ٹی آئی ہی کی حکومت ہے اور خود پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان وزیراعظم ہیں۔

اس لیے صوبائی حکومت کے عہدیداروں کے لیے اپنی ہی مرکزی حکومت اور پارٹی چیئرمین سے ٹکر لینا مشکل ہوگا اس لیے انھیں حکمت سے کام لیتے ہوئے وزیراعظم اور وفاقی کابینہ کو اس بات پر قائل کرنا ہوگا کہ صوبہ کو ہر صورت اس کا حق ادا کیا جائے کیونکہ اگر ایسا نہیں ہوتا تو اس سے صوبہ کو نقصان ہوگا، یقینی طور پر قبائلی اضلاع کے لیے مرکز ڈیڑھ سو ارب روپے فراہم کر رہا ہے تاہم یہ رقم قبائلی اضلاع ہی میں خرچ ہوگی کیونکہ وہاں مسائل کی بھرمار ہے اور جتنے بھی وسائل ان کیلیے فراہم کیے جائیں وہ کم ہی ہیں، تاہم بجلی منافع کے بقایاجات کی عدم ادائیگی سے صوبہ کے بندوبستی اضلاع ترقیاتی عمل میں پیچھے رہ جائیں گے جس کا نقصان جہاں صوبہ کی عوام کو ہوگا وہیں پی ٹی آئی کو بھی دھچکا لگے گا اور عوام میں ان کا امیج خراب ہوگا۔

یہ بات وزیراعلیٰ محمودخان اور ان کی ٹیم کے بھی مد نظر ہوگی اور وہ اسے دیکھتے ہوئے ہی مستقبل کے حوالے سے اپنی حکمت عملی ترتیب دینگے، وزیراعلیٰ کو ایک اہم مرحلہ صوبائی کابینہ میں ردوبدل کے حوالے سے بھی درپیش ہے، اگرچہ وزیراعلیٰ نے یہ تو واضح کردیا ہے کہ صوبائی کابینہ سے کسی کو بھی فارغ نہیں کیا جا رہا تاہم ردوبدل کی بات ضرور ہے اور اسی ردوبدل میں کئی اہم وزراء کے محکموںکو بھی تبدیل کرنے کی بازگشت ہے جس کے حوالے سے یہ بھی سننے میں آرہا ہے کہ کچھ وزراء ان محکموں کے قلمدان سنبھالنے سے گریزاں ہیں جو ان کے حوالے کیے جانے کی باتیں ہیں جس کی بنیادی وجہ ان محکموں کا حجم اور عوام سے براہ راست ربط ہے۔

کچھ وزراء کے حوالے سے یہ بھی اطلاعات ہیں کہ وہ ان محکموں کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں جن کے قلمدان ان کے پاس ہیں، یہ صورت حال وزیراعظم کے سامنے بھی رکھی گئی اور اب اس ضمن میں فیصلہ وزراء کی کارکردگی، پی ٹی آئی کے منشور پر عمل درآمد سے متعلق اقدامات اور پانچ سالہ ترقیاتی حکمت عملی کے نفاذ کے حوالے سے اب تک کی پیش رفت کو مد نظر رکھتے ہوئے کیاجائے گا تاہم یہ بات یقینی ہے کہ کابینہ میں جب ردوبدل ہوگا تو کچھ لوگ خوش اور کچھ ناراض ہونگے اور اسی بات کو مد نظررکھتے ہوئے وزیراعلیٰ احتیاط سے کام لے رہے ہیں جس کے ساتھ ہی قبائلی اضلاع کے تین ارکان کو حکومتی ٹیم کا حصہ بنانے کے معاملات پر بھی حتمی مشاورت کا سلسلہ جاری ہے اور امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ رواں ماہ کے اواخر یا اکتوبر کے اوائل تک کابینہ میں ردوبدل اور اضافہ سے متعلق معاملات منطقی انجام تک پہنچ جائیں گے۔n