وفاقی محکموں کا عدم تعاون، وزیر اعلیٰ کابینہ اجلاس میں برہم

کوئٹہ: بلوچستان میں یخ بستہ ہواؤں، برفباری اور سرد موسم میں سیاسی ماحول میں گرمی بڑھتی جا رہی ہے۔

وزیراعلیٰ جام کمال نے بھی سیاسی موسم کو گرمانا شروع کردیا ہے اور وکٹ کے چاروں اطراف چوکے چھکے لگا کر اپنے سیاسی مخالفین کو بھی حیران کردیا ہے کہ وہ ٹیسٹ پلیئر نہیں بلکہT-20 کھیلنے والے کھلاڑی بھی ہیں جو کہ جارحانہ بیٹنگ کرنا بھی جانتے ہیں۔

وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال نے گذشتہ دنوں صوبائی کابینہ کے 12 گھنٹے سے زائد طویل اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے جہاں اہم فیصلے کئے وہاں اُنہوں نے وفاقی حکومت کو بھی آڑے ہاتھوں لیا جس سے اُن کے جارحانہ موڈ کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ بلوچستان جو کہ اس وقت شدید برفباری اور بارشوں کی زد میں ہے اور پورا صوبہ اس قدرتی آفت سے متاثر ہوا ہے برفباری اور بارشوں سے نمٹنے کیلئے وفاقی حکومت کی جانب سے عدم معاونت اور متعلقہ وفاقی محکموں کی اس صورتحال میں عدم دلچسپی و غیر ذمہ دارانہ رویئے پر وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال کی برہمی جائز ہے۔

وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال کا کہنا ہے کہ وہ اس حوالے سے اپنے تحفظات سے وزیراعظم عمران خان کو آگاہ کریں گے۔ اُن کا یہ بھی گلہ ہے کہ اس صورتحال میں وفاقی سیکرٹری توانائی، چیئرمین این ایچ اے، چیئرمین این ڈی ایم اے، ایم ڈی ایس ایس جی سی کو بلوچستان پہنچنا چاہیے تھا لیکن ان میں سے کسی نے بھی بلوچستان کا رخ نہیں کیا، ان کے رویوں سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بلوچستان وفاقی محکموں کی ترجیحات میں شامل نہیں صوبائی حکومت کو ایسا رویہ ہرگز قبول نہیں۔ اُن کا یہ بھی کہنا ہے کہ صوبے میں قومی شاہراہوں کی دیکھ بھال اور انہیں بحال رکھنا این ایچ اے کی ذمہ داری ہے تاہم برفباری سے پیدا ہونے والی صورتحال سے نمٹنے کیلئے این ایچ اے نے اپنی ذمہ داری پوری طرح ادا نہیں کی اور بند قومی شاہراہوں کو صوبائی محکموں کی کوششوں سے کھولا گیا۔

صوبائی کابینہ کے طویل  اجلاس کے ایجنڈے میں50 سے زائد نکات شامل کئے گئے تھے، صوبائی کابینہ نے پراونشل ڈیزاسٹر مینجمنٹ کمیشن کی منظوری دے، سی اسی طرح کابینہ نے صوبے کے پرائمری سکولوں میں ناظرہ قرآن کی تعلیم لازمی قرار دینے کیلئے بل2019ء کے مسودہ کی منظوری بھی دی، ایکٹ کی منظوری کے بعد ناظرہ قرآن کی تعلیم سرکاری اور نجی اسکولوں میں لازم ہوگی، کابینہ نے محکمہ تعلیم پرائمری بلوچستان میں اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی کی منظوری دی جس کے تحت مختلف گریڈ کے اہلکاروں کی تقرری، تبادلوں اور انضباطی کارروائی کے اختیارات ڈویژن اور ضلعی افسران کو منتقل ہونگے۔

کابینہ کے اجلاس میں بلدیاتی نظام کو حتمی شکل دینے کیلئے بلوچستان اسمبلی کے اپوزیشن ارکان و جماعتوں سے مشاورت کیلئے کمیٹی تشکیل دینے کا فیصلہ بھی کیا گیا۔ کابینہ نے وفاقی وزیر دفاعی پیداوار زبیدہ جلال کی درخواست پر گوادر میں شپ یارڈ کی تشکیل کیلئے750 ایکڑ زمین 30 فیصد ایکیویٹی کی بنیاد پر فراہم کرنے کی منظوری دی۔ واضح رہے کہ اس پروجیکٹ سے بلوچستان کے عوام کو دس ہزار سے زائد روزگار کے مواقع فراہم ہونگے، کابینہ نے بلوچستان بورڈ آف ٹیکنیکل اینڈ ووکیشنل انسٹی ٹیوٹ کا علیحدہ بورڈ تشکیل دینے کا فیصللہ بھی کیا۔ کابینہ نے بلوچستان کیڈٹ کالجز ایکٹ2019ء کے ڈرافٹ کی منظوری بھی دے دی۔ اسی طرح کابینہ نے ہاشوہنرایسوسی ایشن کے ساتھ بلوچستان کے500 نوجوانوں کو اسلام آباد میں ہوٹلنگ، سیاحت کے شعبوں میں تربیت کے ایم او یو پر دستخط کرنے کی منظوری دے دی جبکہ مزدوروں کی کم ازکم اُجرت17500روپے کی وصولی کو یقینی بنانے کیلئے بلوچستان پے منٹ آف ویجز بل2019ء کی منظوری دے دی۔

کابینہ میں محکمہ صحت بلوچستان کی جانب سے قومی شاہراہوں پر قائم25 ایمرجنسی رسپانس سینٹرز کے منصوبے کو ترقیاتی منصوبے سے غیر ترقیاتی منصوبے میں تبدیل کرنے کی تجویز پر گرانٹ ان ایڈ کی مد میں فنڈز کی فراہمی کی منظوری دی گئی۔ صوبائی کابینہ نے کوئٹہ کے بڑے ہسپتالوں کی او پی ڈی میں سرکاری ڈاکٹروں کو نجی پریکٹس کرنے کی منظوری دے دی جس کا مقصد عوام کو علاج معالجے کی بہتر اور سستی سہولت کی فراہمی ہے۔ فیس کی مد میں حاصل ہونے والی آمدنی کا60 فیصد ڈاکٹروں کو جبکہ چالیس فیصد حصہ ہسپتال کو ملے گا جسے ہسپتال کی بہتری کیلئے استعمال کی جائے گا۔ کابینہ نے کوئٹہ میں کینسر ہسپتال کے منصوبے کیلئے200 ملین روپے کے اجراء کی منظوری بھی دی۔ کینسر ہسپتال آئندہ ماہ مکمل کر لیا جائے گا۔ بلوچستان کابینہ نے شاہراہوں کی ناقص تعمیر پر متعلقہ حکام کے ساتھ ساتھ ٹھیکیدار کے خلاف بھی کارروائی کرنے کے فیصلے کی منظوری دی۔

وزیراعلیٰ جام کمال کی مخلوط حکومت بلوچستان میں بہتری لانے کیلئے جہاں دیگر اقدامات میں تیزی لارہی ہے وہاں اسے مختلف محکموں میں کرپشن جیسی لعنت کے خلاف بھی موثر حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے اور ایسے سیاسی و سرکاری اہلکاروں کا محاسبہ کرنا ہوگا جو کہ مال مفت دل بے رحم کی طرح اس صوبے کے سرکاری خزانے کو لوٹ رہے ہیں۔ جام حکومت نے پہلے روز سے کرپشن کے خاتمے کیلئے اقدامات اُٹھانے کا اعلان کیا تھا لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ عملی طور پر متعلقہ محکموں کو اس حوالے سے اختیارات کے ساتھ ایکٹو کیا جائے اور ترقیاتی کاموں سمیت عوامی مفاد عامہ کے پراجیکٹس میں لوٹ مار کرنے والوں کو منظر عام پر لاکر ان کے خلاف سخت سے سخت کارروائی کی جائے اور احتساب کرنے والے ان اداروں میں ایسے افسران و اہلکاروں کو تعینات کیا جائے جن کا ماضی بے داغ ہو اور وہ کردار کے حوالے سے بھی اچھی شہرت رکھتے ہوں۔

بعض سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ وزیراعلیٰ جام کمال موجودہ سیاسی تناظر میں بڑے پر اعتماد انداز میں اچھا کھیل رہے ہیں جہاں وہ صوبے کی ترقی و خوشحالی کیلئے اپنے وژن کو لے کر چل رہے ہیں وہاں وہ سیاسی اتار چڑھاؤ کا بھی ڈٹ کر مقابلہ کر رہے ہیں اور انہوں نے صوبے میں بڑھتے ہوئے سیاسی درجہ حرارت کو محسوس کرتے ہوئے اپنی اتحادی جماعتوں کو آن بورڈ لیا ہے جبکہ اُنہوں نے اپنی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کے بعض سینئر رہنماؤں اور پارلیمانی گروپ میں قابل اعتماد قریبی ساتھیوں سے بھی مشاورت کا سلسلہ شروع کیا ہے جس کے اچھے نتائج انہیں ملنا شروع ہو گئے ہیں اور ان کی مخلوط حکومت پہلے سے زیادہ ایکٹو دکھائی دے رہی ہے، یہی وجہ ہے کہ وزیراعلیٰ جام کمال نے اپنی کابینہ میں بڑے پیمانے پر ردوبدل کرنے کا بھی ارادہ کیا ہے اور شنید میں آیا ہے کہ  یہ ردوبدل کارکردگی کی بنیاد پر کیا جانا ہے جبکہ کابینہ میں توسیع کا بھی فیصلہ کرلیا گیا ہے جس وقت یہ سطور قارئین کی نظر سے گزر رہی ہوں گی تو اس وقت تک بلوچستان کابینہ میں توسیع کا مرحلہ مکمل ہو چکا ہوگا اور تحریک انصاف کی جانب سے پارلیمانی لیڈر سردار یار محمد رند بھی کابینہ میں شامل ہو چکے ہونگے جن کے حوالے سے ان کی پارٹی قیادت نے وزیراعلیٰ جام کمال کو آگاہ کردیا ہے ۔

سیاسی حلقوں کے مطابق کابینہ میں توسیع کے علاوہ وزیراعلیٰ جام کمال اپنی کابینہ کے بعض وزراء اور مشراء کے محکموں کے قلمدان میں بھی ردوبدل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں جس کی شروعات انہوں نے اپنی جماعت بی اے پی سے شروع کردی ہے اور مشیر تعلیم محمد خان لہڑی سے تعلیم کے محکمے کا قلمدان واپس لے کر انہیں محنت و افرادی قوت کی وزارت کا قلمدان سونپ دیا ہے اسی طرح دیگر وزراء کے قلمدان میں بھی آئندہ چند دنوں میں ردوبدل کئے جانے کے قوی امکانات ہیں تاکہ حکومت کی کارکردگی کو بہتر کیا جا سکے۔