جبری مذہب تبدیلی، کتنی حقیقت، کتنا فسانہ؟

کہتے ہیں عشق ذات پات اور مذہب نہیں دیکھتا۔ جب سر پر عشق کا بھوت سوار ہو تو پھر باپ کی سفید پگڑی نظر آتی ہے نہ ماں کی آنکھوں کے آنسو قدم روک پاتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں پسند کی شادی کو عزت اور غیرت کا مسئلہ بنالیا جاتا ہے۔ لاہور کے دارالامان میں درجنوں لڑکیاں مقیم ہیں اور ان میں سے زیادہ تر وہ ہیں جنہوں نے پسند کی شادی کی۔ جس پر ان کے خاندان کے لوگ دشمن بن گئے اور اب مجبوراً نہیں یہاں پناہ لینا پڑی۔

دارالامان لاہور میں ایک سکھ لڑکی جگجیت کور بھی مقیم ہے، جس نے چند ماہ پہلے اسلام قبول کرکے ایک نوجوان سے شادی کی اور اپنا نام جگجیت کور سے تبدیل کرکے عائشہ رکھ لیا۔ اسی طرح سندھ کے ضلع جیکب آباد کے دارالامان میں ایک ہندو لڑکی مہک کماری کو رکھا گیا ہے۔ مہک کماری نے بھی چند روز قبل اسلام قبول کرکے ایک مسلمان نوجوان سے شادی کی ہے اور اس کا نام علیزہ رکھا گیا ہے۔

ویسے تو پاکستان میں روزانہ درجنوں نوجوان لڑکے لڑکیاں والدین کی مرضی کے بغیر پسند کی شادی کرتے ہیں، جس پر ان کے اپنے ان کے دشمن بن جاتے ہیں۔ عدالتوں میں روزانہ ایسے کیس دیکھے جاسکتے ہیں جب پسند کی شادی کرنے والے جوڑے کی طرف سے انہیں تحفظ فراہم کیے جانے کی درخواستیں دائر ہوتی ہیں۔ ایسی شادیاں عام طور پر ایک ہی مذہب سے تعلق رکھنے والے جوڑوں میں ہوتی ہیں، تاہم شادی کا تنازعہ ذات برادری اور معاشرتی اونچ، نیچ اہم عناصر ہوتے ہیں اور یوں سماج ان رشتوں کو آسانی سے قبول نہیں کرتا۔ لیکن جہاں دو مختلف مذاہب کے ماننے والے آپس میں شادی کرنا چاہیں، ان کے جذبات کی نفی کرنے کےلیے صرف اور صرف مذہب کارڈ کا استعمال کیا جاتا ہے۔

پسند کی ان عام شادیوں کے برعکس سکھ لڑکی جگجیت کور اور ہندو لڑکی مہک کماری کی پسند کی شادیوں کی معاملہ اس وقت سوشل میڈیا پر موضوع بحث بنا ہوا ہے۔ بعض عناصر کی طرف سے ان شادیوں کو مذاہب کے درمیان تناؤ پیدا کرنے کےلیے جان بوجھ کر اچھالا جارہا ہے اور یہ شادیوں کو لے کر پاکستان اور بھارت کے مابین لفظی جنگ بھی جاری ہے اور ان شادیوں کو جبری مذہب تبدیلی سے جوڑا جارہا ہے۔ کچھ سیاسی مفاد پرست ٹولے مذہبی ہم آہنگی اور بھائی چارے کے دشمن اس معاملے کو مختلف حوالوں سے اچھال کر اپنے مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

سکھ، ہندو کمیونٹی اور پاکستانی باشعور افراد یہ بات اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ کیوں اس طرح کے واقعات کو ہوا دی جاتی ہے۔ سوشل اور الیکٹرانک میڈیا پر پاکستان کے خلاف سکھوں اور ہندوؤں کو اکسایا جاتا ہے کہ یہاں ان کی مال و جان اور عزتیں محفوظ نہیں ہیں۔

میں ان دونوں لڑکیوں کے مذہب تبدیل کرنے اور پسند کی شادیاں کرنے کی تفصیلات میں جانے سے پہلے ان شادیوں پر اعتراض اور انہیں جبری تبدیلی مذہب کا عنوان دینے والوں سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا بھارت میں سکھ لڑکیاں ہندو لڑکوں کے ساتھ محبت کرکے شادیاں نہیں کرتیں؟ مغربی کلچر میں پلنے والی مسلمان لڑکیاں غیر مسلم لڑکوں سے شادیاں نہیں کرتیں؟ کیا یورپی لڑکیاں اپنی مرضی سے مذہب تبدیل کرکے ہندو، مسلمان اور سکھ مردوں سے شادیاں نہیں کرتیں؟ جس معاشرے میں ایک ذات برادری سے باہر دوسرے خاندان اور برادری میں شادی کرنا انتہائی دشوار عمل ہو، وہاں ایک مذہب چھوڑ کر دوسرے مذہب میں رشتہ جوڑنا ناممکن ہی ہوتا ہے۔ اب تک کئی لڑکیاں ذات برادری اور مذہب کی بھینٹ چڑھ چکی ہیں۔

پاکستان کے آئین میں کسی بھی اقلیت سے اس کی مذہبی شناخت نہیں چھینی گئی اور نہ پاکستان میں کوئی سیاسی یا مذہبی تنظیم ایسی ہے جو اقلیتوں کو مذہب تبدیل کرنے پر مجبور کرتی ہو۔ حالانکہ ایسی شادیوں پر مذہب کارڈ استعمال کرنے والا بھارت اور وہاں کے چند سیاستدان اگر اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیں اور اپنے ملک کے حالات پر نظر دوڑائیں تو شاید وہ پاکستان کے ان اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کریں گے۔

اب بات کرتے ہیں ان دونوں غیرمسلم لڑکیوں کے اسلام قبول کرنے اور مسلمان لڑکوں سے شادیوں کی۔ سب سے پہلے جگجیت کور کی کہانی پر نظر دوڑاتے ہیں۔ جگجیت کور ضلع ننکانہ صاحب کے بچیکی روڈ، محلہ بالیلہ کی رہائشی ایک سکھ لڑکی ہے۔ دستاویزات کے مطابق جگجیت کور کی عمر 20 برس ہے۔ جگجیت کور کے بیان کے مطابق وہ اپنی مرضی سے مسلمان ہوچکی ہیں اور اس کا اسلامی نام عائشہ ہے۔ گزشتہ سال 9 اگست کو جگجیت کور نے لاہور میں مقامی مجسٹریٹ کو درخواست دی تھی کہ انہیں کسی نے اغوا نہیں کیا اور وہ اپنی مرضی سے گھر چھوڑ کر آئی ہیں۔ مجسٹریٹ محمد فاروق نے 9 اگست 2019 کو ہی جگجیت کور کا بیانِ حلفی ریکارڈ کیا۔ دستاویزات کے مطابق جگجیت کور کسی کے بہلاوے یا ورغلانے پر اپنے گھر سے نہیں بھاگی، بلکہ وہ بالغ ہے اور اپنی مرضی سے آئی ہے۔

جگجیت کور نے اپنے تحریری بیان میں کہا تھا کہ ’’میرے بھائی اور گھر والوں نے میرے اغوا کا جھوٹا مقدمہ درج کرایا ہے۔ میں نے محمد حسان سے شریعتِ محمدی کے تحت شادی کرلی ہے۔ میرے سابقہ مذہب کے لوگوں کو میرا مذہب تبدیل کرنا گوارا نہیں ہے، جس پر وہ میری جان کے دشمن ہوگئے ہیں۔ وہ مجھے اور میرے خاوند کو مارنا چاہتے ہیں۔‘‘

دستاویزات کے مطابق سکھ مذہب سے تعلق رکھنے والی جگجیت کور نے گزشتہ سال 28 اگست کو اسلام قبول کیا تھا۔ جگجیت کور کے دستاویزات کے مطابق ان کا نیا نام عائشہ بی بی ہے۔ جامعہ نعیمیہ کے ریکارڈ کے مطابق جگجیت کور سے عائشہ بی بی بننے والی کا اسلام قبول کرنے کا سرٹیفیکٹ نمبر 7518 ہے۔ عائشہ نے دو گواہوں کی موجودگی میں اسلام قبول کیا۔ جامعہ نعیمیہ کے سربراہ اور اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن ڈاکٹر راغب نعیمی نے بتایا کہ اُن کا مدرسہ کسی کو بھی اسلام قبول کرانے کے بعد نکاح نہیں کراتا۔ اس لیے ان کے علم میں نہیں کہ عائشہ بی بی نے کب، کہاں اور کس کے ساتھ نکاح کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جگجیت کور نے خود کو بالغ ظاہر کیا اور ہمارے تمام قواعد و ضوابط پورے کیے۔ تصاویر، دو گواہ، ان کے شناختی کارڈ کی فوٹو کاپیاں اور اپنا برتھ سرٹیفکیٹ ہمیں دکھایا۔ جس کے بعد انہوں نے اسلام قبول کیا اور ہم نے انہیں اسلام قبول کرنے کا سرٹیفکیٹ دے دیا۔

جگجیت کور کے مسلمان ہونے اور ایک مسلمان نوجوان سے نکاح کرنے پر اس کے والد منموہن سنگھ اور بھائی کی طرف سے اس کے اغوا کی درخواست دی گئی تھی، جبکہ دوسری درخواست عائشہ (جگجیت کور اور ان کے شوہر حسان کی طرف سے دائر کی گئی ہے کہ انہیں ہراساں کیا جارہا ہے اور دھمکیاں دی جارہی ہیں۔ یہ دونوں درخواستیں لاہور ہائی کورٹ میں زیرسماعت ہیں۔) ابتدائی طور پر گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور، پنجاب اسمبلی کے رکن و پارلیمانی سیکریٹری برائے انسانی حقوق مہیندر پال سنگھ سمیت دیگر اہم شخصیات نے جگجیت کور اور محمد حسان کے والدین میں صلح کروانے کی کوشش کی تھی اور یہ معاملہ لڑکی کی رضامندی پر چھوڑ دیا گیا تھا۔ جگجیت کور اس وقت بھی دارالامان لاہور میں ہے۔ وہ متعدد بار لاہور ہائیکورٹ میں پیش ہوچکی ہے، جبکہ اپنے خاندان سے بھی ملاقات کرچکی ہے لیکن اس کا اب بھی یہی موقف ہے کہ وہ اپنی مرضی اور رضامندی سے مسلمان ہوئی ہے اور پسند کی شادی کی ہے اور یہ بھی کہ وہ اپنے شوہر کے ساتھ رہنا چاہتی ہے۔ تاہم اس کیس کا ابھی کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہوسکا ہے۔

اب بات کرتے ہیں جیکب آباد کی مہک کماری کی۔ مہک کماری 16 جنوری کو جیکب آباد کے کوئٹہ روڈ پر واقع نمانی سنگت کے علاقے میں اپنے گھر سے پراسرار طور پر لاپتہ ہوگئی تھی۔ مہک کماری کے گھر والوں کی طرف سے الزام لگایا گیا کہ ان کی نابالغ بیٹی کو گھر سے اسکول جاتے ہوئے علی رضا سولنگی نامی نوجوان نے اغوا کرلیا ہے۔ جیکب آباد کے سول لائن تھانے پر ہندو لڑکی مہک کماری کے اغوا کا مقدمہ اس کے والد راجیش کمار کی مدعیت میں نوجوان علی رضا سولنگی، اس کے والد گلاب سمیت دو نامعلوم افراد کے خلاف درج کیا گیا۔

مقدمے کے اندراج کے بعد سوشل میڈیا پر جاری کیے گئے اپنے ویڈیو بیان میں مہک کماری نے اپنے شوہر علی رضا سولنگی کے ساتھ بیٹھ کر یہ واضح کیا کہ انہیں اغوا نہیں کیا گیا، بلکہ انہوں نے اپنی مرضی سے اسلام قبول کیا ہے، ان کا اسلامی نام علیزہ ہے اور انہوں نے اپنی مرضی سے علی رضا سولنگی سے شادی کی ہے۔ چار روز تک مہک کا کچھ معلوم نہ ہوسکا، تاہم گزشتہ پیر کی صبح وہ اچانک چند افراد کے ساتھ اپنا بیان ریکارڈ کرانے کےلیے مقامی عدالت پہنچیں۔ پولیس کے مطابق ہندو لڑکی مہک کماری نے درگاہ امروٹ شریف میں کلمہ پڑھ کر علی رضا سولنگی سے نکاح کیا ہے۔ اس کیس میں لڑکی نے اسلام تو درگاہ عالیہ قادریہ راشدیہ میں قبول کیا مگر بعد میں انہیں عدالت میں درگاہ بھرچونڈی شریف کے رہنما لے آئے تاکہ ان کی قانونی مدد کی جاسکے۔

جوڈیشل مجسٹریٹ جیکب آباد کی عدالت میں 164 کا بیان ریکارڈ کراتے ہوئے مہک کماری عرف علیزہ نے کہا کہ انہوں نے اپنی مرضی سے اسلام قبول کرکے علی رضا سے شادی کی ہے اور ان کے والد نے ان کے شوہر پر اغوا کا جھوٹا مقدمہ درج کرایا ہے، لہٰذا انہیں ساتھ رہنے کی اجازت دی جائے اور ان کے شوہر علی رضا کے خلاف درج مقدمہ ختم کیا جائے۔ لڑکی کے والد وجے کمار کے وکلا نے اعتراض کیا کہ لڑکی نابالغ ہے اور یہ شادی غیر قانونی ہے۔ جس پر عدالت نے کہا کہ ان کا کام صرف بیان لینا تھا، یہ معاملہ سیشن عدالت لے جایا جائے۔ بعد میں مہک کے والد کے وکلا کی جانب سے سیکنڈ ایڈیشنل سیشن جج کی عدالت میں لڑکی کی کم عمری کے حوالے سے دائر درخواست کے بعد عدالت نے مہک کماری عرف علیزہ کی عمر کا تعین چانڈکا میڈیکل اسپتال سے کرائے جانے کا حکم دیا اور ساتھ میں یہ بھی کہا کہ جب تک عمر کے تعین کا سرٹیفکیٹ نہیں آجاتا، تب تک انہیں دارالامان لاڑکانہ میں رکھا جائے۔ جس کے بعد پولیس کے سخت پہرے میں مہک عرف علیزہ کو دارالامان لاڑکانہ منتقل کردیا گیا۔

ان دونوں لڑکیوں کے واضح بیانات کے باوجود ان کے خاندان کے لوگ یہ ماننے کو تیار نہیں ہیں اور ان کا اب بھی یہی کہنا ہے کہ دونوں لڑکیوں کو ورغلا کر اور دباؤ میں آنے کی وجہ سے یہ بیانات دے رہی ہیں۔ واضح رہے کہ گزشتہ سال مارچ میں دو ہندو بہنیں سندھ کے شہر ڈہرکی سے لاپتہ ہوگئی تھیں۔ ان سے متعلق بھی یہ کہا گیا کہ انہیں زبردستی اغوا کرکے مسلمان کیا گیا ہے اور ان کی شادیاں کی گئی ہیں، تاہم 22 مارچ کو دونوں لڑکیوں نے منظرعام پر آکر نکاح کرلیا تھا اور دونوں نے میڈیا کے سامنے اپنی مرضی سے نکاح کا اعتراف بھی کیا تھا اور دونوں بہنوں نے تحفظ کےلیے اسلام آباد ہائیکورٹ سے رجوع کیا تھا۔ جس پر عدالت نے بہنوں کو شوہروں کے ساتھ جانے کی اجازت دے دی تھی۔

مختلف سماجی تنظیموں کی طرف سے ایسی 50 غیرمسلم لڑکیوں کی فہرست سامنے لائی گئی ہے، جنہوں نے گزشتہ ایک سال کے دوران اسلام قبول کرکے پسند کی شادیاں کی ہیں۔ ان میں زیادہ تر لڑکیاں ہندو اور اندرون سندھ سے تعلق رکھتی ہیں۔

میں سمجھتا ہوں کہ ان تمام واقعات کی شفاف اور غیر جانبدار تحقیقات ہونی چاہئیں، بالخصوص جگجیت کور اور مہک کماری کے معاملے کو حتمی نتیجے تک پہنچنا چاہیے۔ اگر یہ ثابت ہوجائے کہ ان لڑکیوں کو ورغلا کر، کوئی لالچ دے کر یا پھر دباؤ میں لاکر مذہب تبدیل کروایا گیا، تو ایسا کرنے والوں کو قرار واقعی سزا ملنی چاہیے تاکہ آئندہ کوئی ایسی گھناؤنی حرکت نہ کرسکے۔ اور اگر یہ لڑکیاں بالغ ہیں اور انہوں نے اپنی رضا اور خوشی سے اسلام قبول کرتے ہوئے پسند کی شادیاں کی ہیں تو پھر اس کو غلط رنگ دینے والوں اور پاکستان کے خلاف پراپیگنڈا کرنے والوں کے خلاف بھی کارروائی ہونی چاہیے۔

پاکستان کا آئین اقلیتوں کو مکمل تحفظ اور آزادی دیتا ہے۔ قانون اور آئین کے مطابق کوئی بھی بالغ لڑکا، لڑکی اپنی پسند سے شادی کرسکتے ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔