آ بیل مجھے مار

یہ ضرب المثل بچپن سے ہی سنتے آئے تھے لیکن معصومیت کے دور میں اس کی تشریح سمجھ سے باہر تھی کہ بھلا کوئی بیل کو کیوں کہے گا ’آ بیل مجھے مار‘۔ بڑی جماعتوں میں پہنچ کر ہمارے علم میں اضافہ ہوا تو پتہ چلا کہ اس کا مطلب ہے خود سے کوئی مصیبت اپنے سر لینا۔ لیکن وہاں بھی یہ معمہ پوری طرح حل نہ ہوا کہ آخر کون بے وقوف ہوگا جو خود اپنے سر مصیبت مول لے گا۔ اس کے بعد جب پریکٹیکل لائف میں قدم رکھا تو کسی سیانے نے آ بیل کا مطلب سمجھانے کےلیے میرے سامنے بھڑوں کے چھتے کو خوامخواہ پتھر مارا اور اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی، لیکن جب ہوش آیا تو کم از کم ’آ بیل مجھے مار‘ کا مطلب مجھے ازبر ہوچکا تھا۔

یہ ضرب المثل دراصل میں نے اپنی حکومتوں کے مزاج اور رویے کو بیان کرنے کےلیے پیش کی ہے۔ عمران خان کی سربراہی میں پی ٹی آئی حکومت کو برسراقتدار آئے ہوئے سوا دو سال کا وقت ہوچلا ہے۔ لیکن ابھی بھی یہ حکومت ایسی بھولی بنی ہوئی ہے کہ جیسے اسے کسی چیز کا علم ہی نہ ہو۔ بس ہر سوال کا بڑا سادہ اور آسان جواب کہ ملک میں جو بھی مسئلہ ہے وہ گزشتہ حکومتوں اور خاص کر پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی نااہل حکومتوں کی وجہ سے ہے۔ اس طرح ان سوا دو سال میں اس حکومت کے دور میں جو معرکے سرزد ہوئے مثلاً مہنگائی، چینی کا بحران، آٹے کا بحران، ادویہ کی کمی اور قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ، پٹرول کا بحران، جنسی زیادتیوں کے واقعات، زیادہ بارشوں کی وجہ سے سیلاب اور نقصانات وغیرہ، ان سب کی اصل وجہ بقول موجودہ حکومت گزشتہ دو حکومتیں ہیں۔ کیونکہ ان کی نااہلی اور کرپشن کی وجہ سے ملک کو آج یہ دن دیکھنا پڑگیا، ورنہ یہ حکومت اور اس کے سارے وزیر، مشیر اور اراکین قومی و صوبائی اسمبلیاں اور سینیٹ سب دودھ کے دھلے ہیں اور دن و رات ملک کی ترقی کےلیے کوشاں ہیں۔

یہاں یہ بات واضح کرنا بہت ضروری ہے کہ یہ رویہ اور مزاج صرف موجودہ حکومت کی طرف سے دیکھنے میں نہیں آرہا بلکہ ہماری قوم ایسی کھرے نصیبوں والی ہے کہ اس کی قسمت میں ہر دفعہ ایسے ہی ہیروں سے جڑی حکومت آتی ہے جو حکومت میں آنے سے پہلے اس وقت کی صاحب اقتدار پارٹی اور اس کے نام نہاد لیڈروں کو عوام کے سامنے بے حجاب کرتی رہتی ہے اور یہ دعوے بھی کرتی ہے کہ یہ حکومت عوام دشمن ہے، ملک کےلیے سیکیورٹی رسک ہے اور اس میں مودی کے دوست بیٹھے ہیں تو کوئی کرپشن کا بادشاہ بیٹھا ہے وغیرہ۔ الغرض کوئی ایسا الزام نہیں جو ان پر نہ دھرا جائے اور ساتھ میں خود کو ملک کےلیے نجات دہندہ ثابت کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے اور اپنی لیاقت کے اس قدر ڈھول پیٹتے ہیں کہ ہمارے بھولے عوام یہی سمجھنے لگتے ہیں کہ شاید جس نجات دہندہ کی تلاش ہمیں صدیوں (1947) سے تھی، بس وہ اس کے علاوہ کوئی اور نہیں۔

اسی کھیل تماشے میں عوام اس بظاہر نجات دہندہ کو منتخب کرکے اقتدار میں لے آتے ہیں اور حکومت میں آکر اس نجات دہندہ کو اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان جیسے ملک پر حکومت کرنا کوئی خالہ جی کا گھر نہیں ہے۔ اور یہیں سے وہ اپنے اوپر اٹھنے والے سوالوں کے جوابات کی پلاننگ کرتا ہے اور ہر مصیبت اور مسئلے کی جڑ پچھلے حکمرانوں کو قرار دینا شروع کرتا ہے اور آٹے میں نمک کے برابر ہونے والے اچھے کاموں پر اپنا سینہ چوڑا کرلیتا ہے کہ بس یہ ہم ہی کرسکتے ہیں اور کوئی نہیں کرسکتا۔ آپ گزشتہ ساری حکومتوں کی کارکردگی اور بیانات کا جائزہ لے لیجئےٍ، آپ کو یہی رویہ نظر آئے گا کیونکہ یہی ان سب کا وتیرہ رہا ہے۔ اور اب اس حکومت نے بھی پہلے دن سے اسی نقش قدم کو اپنی کامیابی کےلیے نصب العین مقرر کیا ہوا ہے۔

اس ساری بحث کا نچوڑ یہ ہے کہ یہ سب حکومت سے باہر ہوں تو کہتے ہیں ہمیں سب پتہ ہے کہ حکومت کیسے چلانی ہے، مسائل کیسے حل کرنے ہیں، چوروں ڈاکوؤں کو سزا کیسے دلوانی ہے، احتساب کا عمل کیسے شفاف اور تیز بنانا ہے، اداروں میں اصلاحات کیسے کرنی ہیں، نقصان والے ادارے کیسے اپنے پاؤں پر کھڑے کرنے ہیں، ملک میں علاج معالجے کی سہولیات کیسے بہتر کرنی ہیں، ادویہ اور روزمرہ ضرورت کی اشیا کیسے عوام کی دسترس میں رکھنی ہیں، ذخیرہ اندوزوں کو کیسے اس کام سے باز رکھنا ہے، سستا اور فوری انصاف عوام کی دہلیز پر کیسے پہنچانا ہے، تعلیم کا نظام کیسے عالمی سطح کے برابر لانا ہے، تھانہ کلچر کیسے بہتر کرنا ہے، پولیس کو کیسے بہتر کرنا ہے، عام آدمی کی عزت نفس کو کیسے سنبھالنا ہے، ملازمتوں کے دروازے کیسے کھولنے بلکہ توڑ کر رکھ دینے ہیں، سڑکوں اور اسپتالوں کے جال کیسے بچھانے ہیں، ملک کو کیسے ایشیئن ٹائیگر اور پرانے پاکستان کو کیسے نئے پاکستان میں بدلنا ہے اور پھر کیسے ریاست مدینہ کی طرز پر فلاحی ریاست کا قیام عمل میں آنا ہے وغیرہ۔

یہ ہیں وہ نعرے جو ہم قیام پاکستان کے بعد سے آج تک سن رہے ہیں اور یہ ہیں وہ خواب جن کی تعبیر دیکھنے کی تمنا کرتے کئی آنکھیں منوں مٹی تلے جا سوئی ہیں۔ اور جو مٹی کے اوپر ہیں وہ اپنی مٹی پلید ہوتے اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔

حکومت میں آنے سے پہلے اقتدار حاصل کرنے کےلیے ہر جائز و ناجائز کوشش کرتے ہیں اور ساتھ ہر وعدے کی تکمیل کا ٹائم فریم بھی دے دیتے ہیں، کیونکہ ان سب کی ورکنگ مکمل ہوچکی ہوتی ہے بلکہ انہوں نے اپنی بننے والی حکومت کے وزیر مشیر بھی فائنل کرکے رکھے ہوتے ہیں کہ بس حلف اٹھاتے ہی کام شروع کردیں گے۔ یعنی یہ سب لوگ اپنی مرضی سے، اپنی خوشی سے، ’ٹکے ٹکے‘ کے لوگوں کی منتیں اور خوشامدیں کرکے اقتدار میں آتے ہیں۔ کوئی ان کو مجبور نہیں کرتا، نہ ہی کوئی ان کو گھر سے گھسیٹ کر حکومت دے دیتا ہے۔ یہ ازل سے اس اقتدار کے متمنی ہوتے ہیں اور جب ان سب اور کچھ دوسرے لوازمات کی تکمیل کے بعد یہ حکومت میں آجاتے ہیں تو اپنے وعدوں سے طوطے کی طرح آنکھیں پھیر لیتے ہیں۔ ہمیں پتہ ہی نہیں چلتا کہ یہ وہی لوگ ہیں یا ان کے روپ میں کوئی دوسری مخلوق ہم پر نازل ہوگئی ہے۔

حکومت میں آتے ہی ایسا تاثر دیتے ہیں جیسے ان بے چاروں، بھولے بھالوں کو زبردستی حکومت تھما دی گئی ہے اور پہلے والی لیاقت پہلے دن ہی ٹھس ہوکر رہ جاتی ہے۔ پھر یہ حکومت کے جانے تک دو ہی راگ الاپتے رہتے ہیں، ایک یہ اگر اس حکومت میں کچھ ٹھیک نہیں ہورہا ہے تو اس کی وجہ وہ خود نہیں بلکہ گزشتہ حکومت ہے اور دوسرا راگ کہ بس آج سارے معاملات ٹھیک ہوجائیں گے یا کل۔ اس کے علاوہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ہم حکومت کے شوقین نہیں ہمارے پاس تو اللہ کا دیا سب کچھ ہے اور آرام سے زندگی گزر سکتی تھی لیکن یہ عوام کا درد تھا جس نے ان کی پیٹ میں خدمت کے مروڑ اٹھائے اور وہ اپنی عیش والی زندگی ترک کرکے حکومتی کانٹوں کی سیج پر آ بیٹھے۔ گویا حکومت نہ ہوئی کوئی مصیبت ہوگئی اور اگر یہ مصیبت ہے تو اس کو گلے کون لگاتا ہے؟ کون در در کی خاک چھانتا ہے کہ اللہ کے واسطے ہمیں حکومت بنانے دو، ہم آئے تو آپ کے وارے نیارے ہوجائیں گے۔ یہ رویہ اور وتیرہ ہر جمہوری اور فوجی حکومت کا رہا ہے۔ ن لیگ، پیپلز پارٹی ایک دوسرے کے ساتھ یہی سلوک کرتی رہی ہیں۔ بظاہر جمہوری اور فوجی حکومتیں یہی طعنے ایک دوسرے کو دیتی رہی ہیں اور عوام ہر بار رلتے ہی رہے ہیں۔ ہر حکومت نے اپنے سے پہلی حکومت کو ساری برائیوں کی جڑ قرار دیا اور ان کے خلاف بھرپور انتقامی کارروائیاں جاری رکھیں۔

اس سارے تناظر میں موجودہ حکومت بھی کسی معاملے میں بھی اپنے پروں پر پانی نہیں پڑنے دے رہی ہے۔ سوا دو سال کے عرصے میں کسی بھی مسئلے کا کوئی پائیدار حل نہیں نکال سکی۔ جن لائق اور باتدبیر وزیروں اور مشیروں پر ان کا تکیہ تھا، وہ سب ہوا دینے لگے اور سوال گندم جواب چنا کے مصداق ملک میں آج ہر برائی اور مسئلے کی جڑ ان کے نزدیک ن لیگ اور پیپلز پارٹی ہیں۔ ان میں ان دونوں پارٹیوں کے وہ لوگ شامل نہیں جو اب پی ٹی آئی کا حصہ ہیں کیونکہ وہ پی ٹی آئی کے تالاب سے غسل کرکے پاک صاف ہوگئے ہیں۔ یہ حکومت بھی اپنے مخالفین کے خلاف احتساب کا ہر حربہ استعمال کررہی ہے۔

ہم یہ کہتے ہیں اگر ن لیگ اور پیپلز پارٹی وغیرہ اس ساری صورتحال کے بقول اِن کے ذمے دار ہیں تو ان کو پکڑیں، سزا دیں اور ہمارے سروں سے اتاریں تاکہ ہم کوئی اور بات کرسکیں اور اس سب کے باوجود آپ اپنی وہ اہلیت اور قابلیت کب ظاہر فرمائیں گے کہ جس کو سن کر ہمارے کان پک گئے ہیں لیکن مسائل جوں کے توں سے بھی آگے بڑھ گئے ہیں۔ اگر حکومت کرنی آسان ہے تو کرکے دکھائیے اور اگر مشکل ہے، مصیبت ہے تو اس کو آواز کس نے دی ہے۔ مصیبت کا یہ بیل تو کسی اور کے کھونٹے سے بندھا ہو ا تھا اور یہ مشکلات کا ڈھول تو کسی اور کے گلے میں پڑا تھا۔ آپ نے 22 سال جدوجہد کرکے یہ ڈھول اپنے گلے میں ڈلوایا اور مصیبت کے بیل کو خود آواز دی کہ ’’آ بیل مجھے مار‘‘۔

اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمارے ملک اور عوام کی مدد فرمائے اور ہمارے موجودہ اور آنے والے ہر حکمران کو ہدایت دے اور ہمیں ایسا نجات دہندہ عطا فرمائے کہ جو سب کے دکھوں اور درد پر مرہم رکھ سکے۔ آخر میں ہم ان تمام نام نہاد لیڈروں کو جو آئندہ حکمرانی کے خواب دیکھ رہے رہیں ایک مشورہ دینا ضروری سمجھتے ہیں کہ حکومت مصیبت کا بیل ہے اور آپ اس سے دور رہیں اور اگر آپ نے بھی ’’آ بیل مجھے مار‘‘ کی فرمائش کی تو اس کا نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔