زندگی بھر سراٹھا کر جینے والے مشاہد بھائی

ابھی تھوڑے ہی دنوں ہی کی بات ہے، انھیں فون کیا تو کہنے لگے کہ ’’ابے یار، آ کر مل ہی جا‘‘۔ یہ مشاہد اللہ خان تھے۔ عرض کیا کہ مشاہد بھائی، وبا نے بینڈ بجا رکھی ہے اور آپ کی طبیعت بھی اچھی نہیں۔ یہ جملہ ابھی پورا نہیں ہوا تھا کہ ڈانٹا، ڈانٹتے ہوئے ان کی آواز میں ذرا سی بلندی، کسی قدر تمسخر اور بہت سی محبت ہوا کرتی۔ کہا کہ وبا گئی تیل لینے، تو آکر مل تو سہی۔ یہاں تک بات انھوں نے کہی ہوگی کہ نقاہت نے نقب لگائی، خاموش ہوئے پھر کہا کہ وائرس پر تجھے اعتبار ہے، اللہ پر نہیں۔ پھر ہنسے اور کہا کہ بس، اب دیر نہ کرنا، جلدی آنا۔ میں نے بھی فیصلہ کر لیا کہ دیکھی جائے گی، چلتے ہیں لیکن انھوں نے زیادہ تیزی دکھائی۔

توکل کے معاملے میں وہ ہمیشہ سے ہی ایسے تھے، کسی نقصان ، کسی چیلنج کی کبھی پروا نہیں کی۔ اُن کی پرورش، پرداخت دائیں بازو کی گود میں ہوئی تھی، وہ خود بھی سیاسی اور مذہبی ہر عقیدے کے اعتبار سے دائیں بازو والے تھے لیکن قسمت نے انھیں بائیں بازو سے زیادہ قریب رکھا۔ بھٹو صاحب کے زمانے میں وہ اسکول کالج کے طالب علم تھے اور اس زمانے کی سیاست میں سرگرم بھی تھے۔ وہ ان لوگوں میںسے تھے جنھوں نے لیاقت باغ کا قتل عام اپنی آنکھوں سے دیکھا اور خون ریزی کے اس واقعے سے متاثر ہونے والوں کے لیے جو بن پڑا کیا۔

جانے اس واقعے نے ان کے دل پر کیا اثر کیا کہ اپنی صبح و شام سیاست کے نام کر دی ۔ یوں ان کا گھر طلبہ سیاست کا مرکز بن گیا ۔قبلہ منیر احمد خلیلی بتاتے ہیں کہ اس زمانے کی تند و تیز تحریکوں، تحریک ختم نبوت اور بنگلہ دیش نامنظور کے سارے ’مفرور ملزموں‘ کا ڈیرا ان کا گھر ہوتا اور پولیس بھی گرفتاریوں کے لیے یہیں کا رخ کیاکرتی۔تعلیم مکمل ہوئی تو پی آئی اے میں نوکری مل گئی۔

لیڈری گھٹی میں پڑی تھی لہٰذ ا یہاں بھی لیڈری کی۔ یہ اسی لیڈری کی دین تھی کہ جنرل ضیا نے انھیں نوکری سے نکال دیا۔ایک دن ہنستے ہوئے انھوں نے یہ واقعہ سنایا، نوکری سے فراغت کے ذکر پر لوگ سناٹے میں آگئے اور کسی نے بے صبری سے پوچھا کہ پھر آپ نے کیا کیا مشاہد بھائی؟میں نے کیا کرنا تھا، انھوں نے اپنا جانا پہچانا قہقہہ لگاتے ہوئے کہا اور بتایا کہ ویزا لیا اور باہر چلا گیا۔ کچھ سیر کی اور کچھ مزدوری کی، دن اچھے گزر گئے۔اس عرصے میں ملک کے حالات بدلے، نوکری بحال ہوئی اور میں نے گھر کا راستہ لیا۔

ایام جوانی کے اس تجربے کی طرح ان کی باقی زندگی بھی اسی طرح گزری۔ زندگی میں بڑی بڑی آزمائش آئی لیکن کبھی گھبرائے نہیں، کسی جابر کا سامنا ہو گیا تو دبے نہیں۔ بڑی سے بڑی مشکل بھی انھوں نے ایسے گزار دی جیسے سینیٹ میں ہنستے ہنستے، شعر سناتے سناتے انھوں نے لڑائیاں لڑیں ، حملوں کے جواب دیے اور دشمنوں پر استہزائیہ نگاہ ڈال کر اپنی راہ پر چل دیے۔

مزدور لیڈری نے انھیں بے روزگار کرایا تھا، اس لیے جنرل ضیاالحق اور ان کے ہم خیالوں کے ساتھ ان کی کبھی نہ بن سکی لیکن انھوں نے قومی سیاست میں اترنے کا فیصلہ کیا تو دائیں بائیں نگاہ ڈالی اور مسلم لیگ میں شمولیت کا فیصلہ کیا۔ یہ ایک اعتبار سے جنرل ضیا کی گود میں ہی جانے والی بات تھی کیوں کہ ن لیگ اس زمانے میں ضیا پرستار کلب سمجھی جاتی تھی۔ دوست احباب نے ہمیشہ ڈٹ جانے والے مشاہداللہ خان کے اس فیصلے کو قلابازی قرار دیا۔خود ہم لوگوں نے بھی ان سے کہا کہ یہ کیا کیا آپ نے مشاہد بھائی؟مشاہد بھائی یہ ساری طنز و تعریض زندہ دلی کے ساتھ سنتے اور مسکراتے ہوئے کہتے کہ ’’ذرا چھری تلے سانس لو اور دیکھو آگے آگے کیاہوتا ہے‘‘۔بالآخر ان ہی کی بات درست ثابت ہوئی ، مسلم لیگ میں ان کی شمولیت کے بعد پارٹی کا رنگ ڈھنگ ہی بدل گیا۔

یہ نوے کی دہائی کے پہلے نصف کی بات ہوگی جب اندرون سندھ سے تعلق رکھنے والے کئی ایسے راہ نماؤں نے مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی جن کی وابستگی مختلف تھی۔ شاہ محمد شاہ بھی ان لوگوں میں سے ایک ہیں جو ان دنوں مسلم لیگ سندھ کے صدر بھی ہیں۔ شاہ صاحب کا شمار بائیں بازو کے ان لوگوں میں کیا جاتا ہے جو نظریہ ساز کہلاتے ہیں۔اسی زمانے میںسندھ کے کئی ایسے راہ نما بھی مسلم لیگ کا حصہ بنے ، ماضی میں درست یا غلط طور پر جن کی شناخت قوم پرستی یا علیحدگی پسندی کے تعلق سے کی جاتی تھی۔

یوں مسلم لیگ نے ان طبقات کو بھی قومی دھارے میں لانے کا کام کیا جو کبھی مختلف راہوں پر جا نکلے تھے۔مسلم لیگ کا یہ دور اس کی تاریخ میں کئی حوالوں سے یاد گار ہے کیوں کہ یہی وہ زمانہ ہے جب یہ جماعت جنرل ضیا کے سائے سے نکل کر خالص سیاسی اور جمہوری راستے پر گامزن ہوئی۔یہی وہ دور ہے جس کے بعدسیاسی اعتبار سے مسلم لیگ کادائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا گیا ۔اس عمل میں مشاہد اللہ خان کا کردار یاد گار اور تاریخی رہا۔

میاں نواز شریف کے صنعتی پس منظر کی وجہ سے ان کی جماعت کو اکثر تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور کہا گیا کہ ان کی پالیسیاں محنت کش سے زیادہ سرمایہ دار کے حق میں ہوا کرتی تھیں لیکن یہ مشاہداللہ خان ہی تھے جن کی وجہ سے یہ تصور کمزور ہوا۔ مسلم لیگ میں ان کی شمولیت کے بعداس سلسلے میں کئی اہم تبدیلیاں آئیں۔ مسلم لیگ کا لیبر ونگ بناجس کی قیادت ان کے سپرد کی گئی۔ انھوںنے اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھایا اور میاں صاحب کو محنت کشوں کے مزاج، انداز فکر اور ضروریات سے آگاہ کیا۔ اس طرح میاں صاحب اور مسلم لیگ کی پالیسیوں میں توازن پیدا ہوا۔محنت کش تحریک کے پس منظر میں یہ اتنا بڑا واقعہ ہے جس کے لیے انھیں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

زندگی کی دیگر آزمائشوں کی طرح انھوں نے بیماری کامقابلہ بھی بڑی جی داری کے ساتھ کیا۔ دو ہزار اٹھارہ کے بعد آنے والی تبدیلیوں کے بعد علاج کے لیے بیرون ملک جانا مشکل ہو گیا تھا لیکن ان کے کینسر کے آپریشن کی وجہ سے معدے میں کچھ ایسے مسائل پیدا ہو گئے تھے جن کے لیے آپریشن ضروری تھا۔ انھیں مشورہ دیا گیا کہ وہ پاکستان میں آپریشن نہ کرائیں۔ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے بھی ان سے کہا کہ مشاہد بھائی ،آپ چلے جائیں، میں سنبھال لوں گا۔ ان کا کہنا تھا کہ زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے لیکن میں یہ نہیں چاہتا کہ کوئی میری طرف ٹیڑھی نگا ہ سے بھی دیکھے۔ زندگی بھر سر اٹھا کر جینے والے مشاہد اللہ نے موت کا سامنا بھی اسی جی داری کے ساتھ کیا۔