کورونا وبا اور سبسڈی میں کمی

کورونا وبا نے عالمی معاشی ترقی کو زبردست نقصان پہنچانے کے ساتھ عالمی منڈی میں خوراک زرعی اشیا و مصنوعات کی قیمتوں کو بڑھانا شروع کردیا ہے۔ پہلے بھی اس سے ملتی جلتی صورتحال پیدا ہوتی رہی ہے کہ کبھی عالمی منڈی میں کئی اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا رہا ہے، لیکن حکومتیں اس کا تدارک بھی کرتی رہی ہیں۔

مختلف ممالک اپنے عوام اپنے کسانوں کو اور مزدوروں کو مختلف طریقوں سے سبسڈی دیا کرتے ہیں۔ امریکا اپنے کسانوں کو ببانگ دہل سبسڈی دیتا ہے لیکن عالمی تجارتی آرگنائزیشن کے پلیٹ فارم پر دنیا کے مختلف ملکوں کو اپنے کسانوں کو دی جانے والی سبسڈی کی مخالفت بھی کر رہا تھا۔

آئی ایم ایف بھی  پاکستانی حکومت کی جانب سے دی جانے والی مختلف سبسڈی کا اس طرح مخالف رہا ہے کہ مختلف مدوں کے تحت دی جانے والی سبسڈی کی رقوم کو گھٹانے یا ختم کرنے کا مطالبہ کرتا رہا ہے، کسی دور میں دنیا میں جب خوراک کی قلت تھی ایسے وقت میں بہت سے ملکوں نے اپنے ہاں راشن بندی کا نظام رائج کر رکھا تھا، جیساکہ پاکستان میں بھی ایک لمبے عرصے تک راشن کارڈ بنایا جاتا تھا۔ باقاعدہ محکمہ قائم تھا اور ملک کے طول و عرض میں راشن ڈپو موجود تھے۔ جہاں آٹا، چینی، گھی وغیرہ انتہائی سستے داموں فروخت کیا جاتا تھا۔

موجودہ دور میں ملک میں کسی قسم کی خوراک کی قلت بھی نہیں ہے اور دنیا بھر میں خوراک کی پیداوار میں کمی کے بجائے اضافہ ہی ہو رہا ہے، لیکن اصل مسئلہ قیمتوں میں اضافے کا ہے اور جب سے کورونا وبا پھیلی ہے عوام کی قوت خرید کم سے کم تر ہوتی چلی جا رہی ہے ایسے میں امیر ممالک اپنے عوام کی خوب سے خوب مدد کیے چلے جا رہے ہیں، لیکن دنیا کے غریب ملکوں کا معاملہ بگڑ چکا ہے، جس کی وجہ سے جی 20 ملکوں نے بہت سے ترقی پذیر ملکوں سے قرضوں کی وصولی موخر کردی ہے۔ آئی ایم ایف نے بھی اپنا ہنگامی امدادی پروگرام جاری کردیا ہے۔

پاکستان کے معاشی حکام بھی ایسے پروگرام وضح کرتے رہے ہیں جس سے عوام کی معاشی فلاح و بہبود میں اضافہ ہو۔ کورونا وبا کے باعث حکومت کی فلاحی ذمے داریاں بہت بڑھ چکی ہیں۔ کیونکہ آئے دن بے روزگاروں کی تعداد میں دن دگنا رات چو گنا اضافہ ہو رہا ہے۔

خاص طور پر گزشتہ ایک سال کے عرصے میں مہنگائی کا سیلاب غریب عوام کو بڑی تعداد میں بہا لے جا کر غربت کی کھائی میں ڈال چکا ہے۔ ماہرین معاشیات نے غربت کو ناپنے کا جو پیمانہ 1960 میں مقرر کیا تھا اور اس کے بعد بھی کئی پیمانے مقرر کیے گئے تھے اب ان کی جگہ نئے پیمانے مقرر کرنا یہ سب بے سود ہوگا کیونکہ دنیا کورونا لہر کی یکے بعد دیگرے لہر سے نبرد آزما ہونے کے باعث زبردست کساد بازاری کا شکار ہو چکی ہے۔ ایسے میں اس بات کی ضرورت ہے کہ عوام کی فلاح و بہبود کی خاطر ان کو دی جانے والی سبسڈی جو کہ مختلف مدوں کے تحت دی جا رہی ہو ان میں اضافہ کیا جائے۔ خاص طور پر خوراک اور اشیائے ضروریہ وغیرہ کے لیے۔

حکومت پاکستان اپنے 4861 یوٹیلیٹی اسٹوروں کے ذریعے عوام کو آٹا، چینی، چاول، گھی، دالیں، چائے کی پتی، مسالہ جات، صابن اور دیگر سیکڑوں اشیا رعایتی نرخوں پر فراہم کرتی ہے جس کے لیے یوٹیلیٹی اسٹورز کے ذریعے سبسڈی کے لیے اربوں روپے کے فنڈ جاری کیے جاتے رہے ہیں۔ ملک میں مختلف انتہائی ضروری اشیائے خوراک کی کمی کی صورت میں انھی یوٹیلیٹی اسٹورز میں ان اشیا کی بھاری مقدار پہنچا کر عوام کو سستے داموں فروخت کیا جاتا ہے۔ 2008 میں ملک میں آٹے کا شدید بحران اس طرح پیدا ہوا کہ عام مارکیٹ میں آٹا روز بروز مہنگا ہوتا چلا جا رہا تھا۔

جس کے تدارک کے لیے لاکھوں کی تعداد میں آٹے کے 10 کلو اور 20 کلو کے تھیلے سستے داموں یوٹیلیٹی اسٹور اسٹورز کے ذریعے عوام کو فراہم کیے گئے، اگرچہ بعض جگہ ان کی کوالٹی بہت خراب بھی نکلی۔ اسی طرح جب بھی ملک میں چینی کی قیمت میں اضافہ ہوتا عوام کو چینی کنٹرول ریٹ پر دینے کے لیے بھاری رقوم بطور سبسڈی فراہم کی جاتی۔ حالیہ دنوں میں عام مارکیٹ میں جب چینی 100روپے سے 110روپے تک فروخت ہو رہی تھی، ان اسٹورز میں 68 روپے فی کلو کے حساب سے دستیاب تھی۔ جسے اب 85 روپے کردیا گیا ہے۔ 2008 میں ہی جب امریکا میں مالیاتی بحران آیا تھا۔ جس کے اثرات سے ہر ملک کسی نہ کسی طرح متاثر تھا، پاکستان میں قائم ہونے والی نئی حکومت نے 8 ارب روپے کی سبسڈی یوٹیلیٹی اسٹورز کو دی تھی، تاکہ مختلف اشیائے ضروریہ عوام کو سستی فراہم کی جاسکیں۔

پاکستان کی حکومت خاص طور پر رمضان پیکیج کے نام پر عوام کے لیے بڑی رقوم بطور سبسڈی منظور کرتی ہے۔ اپریل 2021 میں 19 اشیائے ضروریہ پر سبسڈی دی گئی اور سستے داموں فروخت کے لیبل پیش کیے گئے جس میں رمضان المبارک کے باعث کھجوروں پر 20 روپے فی کلو رعایت دی گئی۔

مختلف اقسام کے چاولوں پر 10 سے 15 روپے دالوں پر 5 سے 20 روپے مسالہ جات پر 10 فیصد اس طرح بیسن پر 20 روپے فی کلو رعایت دی گئی کیونکہ اس ماہ مبارک کے دوران ہر گھر میں پکوڑے اور مختلف بیسنی پکوان بنائے جاتے ہیں۔ بازاروں میں بھی بہت بڑی مقدار میں پکوڑے اور بیسن سے متعلق مختلف اشیا بنا کر فروخت کی جاتی ہیں جس سے ملک بھر میں بیسن کی کھپت بڑھ جاتی ہے۔

اس پیکیج سے غریب عوام بڑی تعداد میں مستفید ہو رہے تھے،کیونکہ کورونا وبا نے آمدن اور روزگار کے مواقع میں کمی لا کر عوام کی قوت خرید کو انتہائی پست کردیا تھا کہ بہت سی اشیا عوام کی دسترس سے باہر ہوگئی تھیں، ایسے میں یوٹیلیٹی اسٹورز سے آٹا، چینی، دال، گھی، کوکنگ آئل، صابن، صرف وغیرہ وغیرہ کا سستے داموں مل جانا غریب عوام کے لیے بڑی ڈھارس کا سبب تھا۔

گزشتہ دنوں یہ خبر غریب عوام کے لیے بجلی گرنے سے کم نہ تھی کہ یوٹیلیٹی اسٹورز پر ملنے والا آٹا، چینی، گھی، کوکنگ آئل کے علاوہ اور کئی ضروری اشیا پر دی جانے والی سبسڈی میں کمی کردی گئی ہے۔ عوام کی قوت خرید شدید متاثر ہونے کے باعث لوگ اس سبسڈی سے بڑی تعداد میں فائدہ اٹھا رہے تھے۔ ان کے لیے مہنگائی کا بوجھ سلسلہ خوراک قدرے کم ہوا تھا، کیونکہ دیگر بوجھ میں زیادہ اضافہ ہوا ہے یعنی مکانِ اور ٹرانسپورٹ کے کرائے بڑھ گئے۔

معاشی حکام کو اس جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ ایسے حالات ہیں جب کہ عوام کی قوت ضرور کم ہونے کے باعث مہنگائی کا بوجھ غریب عوام کی زندگی اجیرن بنا چکا ہے، ایسے میں یوٹیلیٹی اسٹورز کے ذریعے اہم اشیائے ضروریہ کی سستی فراہمی کا سلسلہ جاری رکھنے کے ساتھ مزید سستا کرنے کی ضرورت ہے۔