ورنہ حالات مزید بگڑیں گے

ہر ہفتہ کا آغاز وفاقی وزراء کی جانب سے مسلم لیگ ن پر نئے حملوں سے ہوتا ہے۔ اس دفعہ وزیر داخلہ شیخ رشید نے پریس کانفرنس میں یہ بیانیہ بنایا کہ چاروں شریف سیاست سے آؤٹ ہوچکے ہیں۔ میاں نواز شریف پاکستان واپس آئیں ، نہ آئیں ان کے لیے معافی نہیں ہے۔

یہ انکشاف بھی کیا کہ سانحہ مری کے موقع پر وہ مری گئے جس کی وجہ سے مزید انسانوں کی جانیں بچائی گئیں، اگر وہ نہ جاتے تو اموات کی تعداد بڑھ جاتی۔ مزید یہ بھی فرمایا کہ ان کی وزارت کے دائرہ اختیار میں مری نہیں آتا مگر ان کے مری جانے سے پہلے وہاں کوئی انتظام نہیں تھا۔

شیخ رشید نے یہ انکشاف کرکے پنجاب کی حکومت کو نااہلی کا سرٹیفکیٹ جاری کیا۔ وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے یہ خوش خبری سنائی کہ مسلم لیگ ن کے چار بڑے رہنماؤں نے ایک ملاقات میں کہا کہ میاں نواز شریف نے ملک کو نقصان پہنچایا ہے، اب انھیں آزمایا جائے مگر اس شخصیت کا نام ظاہر نہیں کیا جس سے ملاقات کی گئی۔

ایک اور وفاقی وزیر فیصل واوڈا نے مسلم لیگ کے تین رہنماؤں کے نام بتائے جنھوں نے ایک اعلیٰ شخصیت سے ملاقات میں میاں صاحب کے متبادل ہونے کی بات کی تھی مگر انھوں نے بھی اس شخصیت کا نام لینا مناسب نہ سمجھا جس کی مبینہ ملاقات کا ذکر ہورہا ہے۔ اسی بیانیہ کی گونج میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کی نوید سنادی گئی۔

گزشتہ ہفتہ قومی اسمبلی میں منظور ہونے والے منی بجٹ میں نئے ٹیکسوں کے نفاذ کے بعد ادویات ، ڈبل روٹی اور دیگر اشیاء کی قیمتیں بڑھ گئیں۔ اب سی این جی کی بندش کے ساتھ پٹرول کی مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ، یوں مہنگائی کا نیا سیلاب آگیا۔

حکومت کو آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے کے لیے منی بجٹ پیش کرنا پڑا۔ متوسط طبقہ اس مہنگائی کے طوفان سے براہِ راست متاثر ہوا۔ مگر وزیر اعظم عمران خان کا فرمانا ہے کہ پاکستان دنیا کا سب سے سستا ملک ہے۔ عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق دنیا میں مہنگائی میں پاکستان کا تیسرا نمبر ہوگیا ہے۔

پشاور اور سابقہ قبائلی علاقوں سے دہشت گردی کی وارداتوں میں سیکیورٹی اہلکاروں کی شہادت کی خبریں آنے لگیں۔ اسلام آباد میں دوبارہ دہشت گردوں کی کارروائیوں کا آغاز ہوگیا۔ کوئٹہ جانے والی بولان ایکسپریس دہشت گردی کا شکار ہوئی۔ لاہور کا تاریخی انار کلی بازار ایک بار پھر دہشت گردی کا نشانہ بنا۔

پاکستانی نژاد برطانوی شہری نے امریکا میں یہودیوں کی عبادت گاہ پر قبضہ کر کے لوگوں کو یرغمال بنا لیا۔ فیصل ملک کی ہلاکت کی خبر بین الاقوامی ذرایع ابلاغ پر نمایاں ہوئیں۔ یہ بھی کہا گیا کہ وہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کا مطالبہ کر رہا تھا۔ ہالینڈ میں مقیم بلاگر وقاص گورایا کے قتل کی سازش میں ملوث چنیوٹ کے رہائشی گوہر خان کے خلاف لندن میں شروع ہونے والے مقدمہ کی خبریں بین الاقوامی ذرایع ابلاغ کی زینت بنیں۔ اسی گھن گھرج کے ماحول میں ایک اینکر پرسن نے صدارتی نظام کے حق میں لیکچر دینے شروع کیے۔

تحریک انصاف والے 2018 کے انتخابات کے وقت کہتے تھے کہ یورپ میں مقیم کئی سو پروفیشنل پاکستانی اسلام آباد آئیں گے اور نظام حکومت کو جدید خطوط پر استوار کیا جائے گا۔صرف چند افراد کے سوا کوئی نہیں آیا ، یہ لوگ کوئی قابل قدر کارنامہ انجام نہ دے سکے۔ حتیٰ کہ سرکاری یونیورسٹیوں میں امریکا اور یورپ میں مقیم اساتذہ کو وائس چانسلر تعینات کرنے کی پالیسی بھی ناکام ہوئی۔

روپے کی قیمت کم ہونے سے مہنگائی کا طوفان آیا۔ وزیر اعظم عمران خان نے معصومیت سے فرمایا کہ اس فیصلہ کی خبر انھیں ٹی وی کی خبروں سے ملی۔ سابق وزیر خزانہ اسد عمر نے مالیاتی خسارہ دورکرنے کے لیے آئی ایم ایف سے مذاکرات میں دیر کی۔ حکومت کو مہنگے قرضے لینے پڑے۔ اسد عمر اچانک رخصت ہوئے اور پیپلز پارٹی کے سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ شیخ نے معیشت کا چارج سنبھال لیا مگر کچھ دنوں بعد ایف بی آرکے چیئرمین شبر زیدی مایوسی کے عالم میں مستعفی ہوئے۔

ڈاکٹر حفیظ شیخ نے سخت شرائط پر آئی ایم ایف سے قرض لیا۔ حکومت پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی پابندیوں سے چھٹکارا نہیں دلاسکے۔ ان پابندیوں سے بینکنگ سیکٹر براہِ راست متاثر ہوا۔ حکومت نے نیب کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنا شروع کیا جس کی بناء پر ملک میں سرمایہ کاری رک گئی۔ ڈاکٹر حفیظ شیخ ناکام ہوئے اور شوکت ترین آگئے۔

شوکت ترین نے حکومت میں شامل ہونے سے پہلے اقتصادی پالیسی پر سخت تنقید کی تھی۔ وزارت خزانہ اور اقتصادی امورکی وزارتوں کے سیکریٹری مسلسل تبدیل ہوئے۔ افغانستان میں طالبان نے حکومت بنائی مگر افغان حکومت تحریک طالبان پاکستان کو پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں روکنے میں ناکام رہی۔ طالبان نے پاکستان اور افغانستان کی سرحد پر خاردار باڑ اکھاڑنے کی کوشش ، یوں ڈیورنڈ لائن کا تنازعہ پھر شروع ہوا۔ افغانستان میں طالبان کی حکومت خواتین کو کسی قسم کے حقوق دینے کو تیار نہیں ، یہی صورتحال اقلیتوں کے ساتھ ہے۔

پاکستان عالمی برادری پر زور دے رہا ہے کہ افغانستان کی مدد کی جائے مگر افغان حکومت کا رویہ مایوس کن ہے۔ تحریک انصاف پنجاب میں کوئی ضمنی انتخاب نہیں جیت سکی اور خیبر پختون خوا کے اہم اضلاع کے بلدیاتی انتخابات میں تحریک انصاف کو شکست کا سامنا ہے۔

اس صورتحال میں حکومتی اہلکار اور غیر سرکاری ترجمان ایک طرف صدارتی نظام کا شوشہ چھوڑ رہے ہیں تو دوسری طرف وفاقی وزراء نے ان مسائل پر حزب اختلاف کو بات چیت کی پیشکش کی ہے۔ گزشتہ ہفتہ وزیر اعظم کی حزب اختلاف کے رہنماؤں کے خلاف سخت تقاریر سے ان کے مائنڈسیٹ کا اندازہ ہوگیا ہے۔ صدارتی نظام صرف فوجی آمروں کو پسند تھا۔ صدارتی نظام کی بناء پر وہ تاحیات حکومت کرنے کا منصوبہ بناتے تھے۔

کسی منتخب رہنما نے صدارتی نظام کو ملک کے لیے مناسب قرار نہیں دیا ۔ شہباز شریف کی یہ بات درست ہے کہ موجودہ حکومت کو جتنی حمایت اسٹیبلشمنٹ سے ملی وہ اورکسی حکومت کو نہیں ملی مگر حکومت کی پالیسیاں ناکام ہورہی ہیں اور عوام کے حالات کار مزید خراب ہو رہے ہیں۔ حکومت احتساب کا راگ الاپنا بند کرے اور حزب اختلاف سے بامقصد مذاکرات سے فضاء بہتر کی جائے ، ورنہ حالات مزید بگڑیں گے۔