لالی ووڈ کا نیا عہد اور نوجوان نسل

پاکستان کی فلمی صنعت دوبارہ سے اپنے قدموں پر کھڑی ہو رہی ہے۔ آج کل عام طورپر یہ بات سننے میں آتی ہے، مگر اس پرکسی کو یقین کم کم ہی ہوتا  ہے۔ اس کی وجہ گزشتہ کئی دہائیوں کی ناکامی کا ملبہ ہے، جس کے نیچے یہ فلمی صنعت دبی ہوئی تھی، لیکن اب دوبارہ سے اس میں زندگی کی رمق پیدا ہوئی ہے۔ اس کے پیچھے بڑی وجہ، نئی نسل کا اس صنعت میں دلچسپی لینا ہے۔ وہ نوجوان جنھیں کل تک صرف میوزک ویڈیوز اورکمرشل بنانے میں دلچسپی تھی، اب ان کے تجسس کا رخ فلمی صنعت کی طرف ہو گیا ہے۔

فلم سازی موجودہ دور کا ایک ایسا میڈیم ہے، جس کے ذریعے اقوام اور ممالک اپنے نظریات وافکار کی عکاسی کرتے ہیں۔ یہ پیغام دینے اور دل جیت لینے کا ایک شاندار میڈیم ہے۔ فلم بنانا اب صرف ایک تفریحی سرگرمی نہیں رہی، یہ ایک مقصد ہے، جس کے ذریعے اپنی بات پراثر انداز میں دوسروں تک پہنچائی جا سکتی ہے۔ ہمارے پڑوسی ممالک میں بھارت، ایران اور چین نے فلم کے میڈیم سے بے حد استفادہ کیا ہے، اب ہمیں بھی ضرورت ہے کہ بہترین تفریحی اور بامقصد معیاری فلمیں تخلیق کی جائیں۔ یہ نوجوان اسی امید کی کرن ہیں۔

90 کی دہائی میں ہدایت کار سیدنور کی بنائی ہوئی فلم ’’چوڑیاں‘‘ سب سے مہنگی فلم تھی، جس کا بجٹ تقریباً 200 ملین روپے تھا۔ اس فلم کو باکس آفس پر کامیابی بھی حاصل ہوئی تھی۔ اس کے10 سال بعد 2008 میں ہدایت کارہ مہرین جبار کی فلم’ ’رام چند پاکستانی‘‘ بنی، جس کو 6.5 ملین روپے سے بنایا گیا، مگر یہ فلم ناکام ہوئی، جب کہ اس کی کہانی اور موسیقی شاندار تھی۔ 2011 میں بھاری بجٹ کی 3 فلمیں ریلیز ہوئی، جن میں سید فیصل بخاری کی ’’بھائی لوگ‘‘ ریما خان کی ’’لو میں گم‘‘ اور شعیب منصورکی ’’بول‘‘ شامل تھی۔ ان تینوں فلموں کا بجٹ بالترتیب 9.7 ملین روپے، 26 ملین روپے، 90 ملین روپے تھا۔ یہ تینوں فلمیں شائقین کو کوئی خاص متاثر نہیں کر سکی تھیں۔

2013 میں 4 بڑے بجٹ کی فلمیںریلیز ہوئیں، جن میںاسماعیل جیلانی کی ’’چنبیلی‘‘ سید علی رضا اسامہ کی ’’میں ہوں شاہد آفریدی‘‘ مینو گوہر، فرجاد نبی کی ’’زندہ بھاگ‘‘ اور بلال لاشاری کی ’’وار‘‘ شامل ہیں۔ ان فلموں کا بجٹ بھی بالترتیب 20 ملین روپے، 55 ملین روپے، 20 ملین روپے، 250 ملین روپے تھا۔ پاکستان میں اب تک سب سے بڑے بجٹ کی فلم ’’وار‘‘ ہی تھی اور اس کو باکس آفس پر سب سے زیادہ کامیابی ملی۔

فلمی صنعت کے اس منظر نامے کو جاننے کے بعد یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں بھی باصلاحیت لوگوں کی کمی نہیں، بس ذرا اس طرف توجہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اپنی مدد آپ کے تحت پاکستان میں فلم کے میڈیم کو بہتر بنایا جا رہا ہے۔ گزشتہ دس بارہ سالوں میں بننے والی فلموں نے نئے لوگوں کی حوصلہ افزائی کی اور اب ان کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے، جس کی وجہ سے فلموں کی پروڈکشن میں بھی تیزی آگئی ہے۔ فلم کی ناکامی اور کامیابی کا پیمانہ اپنی جگہ، لیکن یہ بہت امید افزا بات ہے کہ پاکستانی فلمی صنعت میں ہر طرح کے موضوعات پر فلمیں بننے لگی ہیں۔ رواں برس اس مثبت صورت حال کی عکاسی کرتا ہے۔

2014 میںاب تقریباً 16 فلمیں ریلیز ہوئی ہیں، جن میں سب سے بھاری بجٹ کی فلم ہدایت کار شہزاد غفورکی فلم ’’دی سسٹم‘‘ ہے، جس پر 34.4 روپے خرچ ہوئے۔ رواں برس پہلے تین مہینوں جنوری سے مارچ میں 4 فلمیں حرام خور، نصیبو، پتر مکھن گجردا اور دنیا ریلیز ہوئیں۔ اگلے تین مہینوں اپریل، مئی اور جون میں 8 فلمیں ریلیز ہوئیں، جن میںپینڈو پرنس، لفنگا، جان تو پیارا، اعتبار، رانجھے ہتھ گنڈاسہ، داستان، دی سسٹم اور تمنا شامل ہیں۔ جولائی میں سید فیصل بخاری کی فلم ’’سلطنت‘‘ ریلیز ہوئی۔ اگست میں عافیہ ناتھن نیل کی فلم ’’دختر ‘‘ریلیز ہونے جا رہی ہے۔ اکتوبر میں جمشید محبوب کی فلم ’’آپریشن 021‘‘ ریلیز ہو گی۔ موجودہ منظر نامے پر زیادہ تر فلمیں ایسی ہیں، جن کی کہانیاں اور ہدایت کاری متاثر کن ہے۔

لالی ووڈ میںدھیرے دھیرے نامعقول اور فضول موضوعات کی فلموں میں کمی آتی جا رہی ہے، جب کہ نئی اور شاندار موضوعات پر بننے والی فلموں کے تناسب میں اضافہ ہو رہا ہے۔پروڈکشن اور تخلیق کے لحاظ سے میری نظر میں 3 فلمیں تمنا، دختر اور آپریشن 021 بہترین فلمیں ہیں۔ تمنا فلم کی پروڈیوسر پاکستانی خاتون ’’سارہ ترین‘‘ ہیں، جب کہ فلم کے ہدایت کار اورکہانی نویس ’’اسٹیون مور‘‘ ہیں، جن کا تعلق برطانیہ سے ہے۔ انھوں نے اس فلم کی کہانی برطانوی ناول نگار ’’انتھونی شفر‘‘ کے ناول ’’سیلوٹ‘‘ سے ماخوذ کر کے اسے پاکستانی رنگوں میں ڈھالا ہے۔ یہ بھی ایک اچھا شگون ہے کہ بیرون ملک سے اچھے ہدایت کاروں کے ساتھ مل کر مقامی صنعت کو فروغ دیا جائے۔

اس فلم کے دو موسیقار ’’ساحر علی بگا‘‘ اور ’’آرتھر راتھبون پولین‘‘ ہیں جب کہ اداکاروں میں سلمان شاہد، عمیر رانا، مہرین راحیل، فریال گوہر اور رشید ناز شامل ہیں۔ عمیر رانا نوجوان اور نیا اداکار ہے، جس نے اس فلم کے علاوہ دوسری اہم فلم ’’دختر‘‘ میں بھی کام کیا ہے۔ راحت فتح علی خان، علی عظمت اور امانت علی نے اس فلم کے گیتوں میں اپنی آواز کا جادو جگایا ہے۔ لندن ایشین فلم فیسٹیول میں اس فلم کے ایک گلوکار ’’راحت فتح علی خان‘‘ کو بہترین گانے پر ایوارڈ بھی مل چکا ہے۔

دوسری اہم فلم ’’دختر‘‘ ہے، جس کی فلم ساز، ہدایت کارہ اور کہانی نویس ایک پاکستانی خاتون ’’عافیہ ناتھی نیل‘‘ ہیں۔ فلم کے اداکاروں میں سرفہرست پاکستانی ڈراموں کی معروف اداکارہ ’’سمعیہ ممتاز‘‘ ہیں۔ ان دونوں خواتین کی یہ پہلی فلم ہے، جس میں انھوں نے اپنے اپنے شعبوں میں صلاحیتوں کا جادو جگایا ہے۔ ان کے علاوہ دیگر اداکاروں میں محب مرزا، آصف خان، عجب گل، صالحہ عارف اور ثمینہ احمد شامل ہیں۔ فلم کی موسیقی ’’ساحر علی بگا‘‘ اور ’’پیٹر نشیل‘‘ نے ترتیب دی ہے۔ یہ فلم 14 اگست کو ریلیز ہو رہی ہے۔

رواں برس کی تیسری اہم فلم ’’آپریشن021‘‘ ہے۔ اس کی فلم ساز پاکستانی اداکارہ ’’زیبابختیار‘‘ ہیں، جب کہ ہدایت کار ’’جمشید محمود رضا‘‘ اور ’’سمیرنکس‘‘ ہیں۔ اس کا میوزک عالمی شہرت یافتہ ہسپانوی موسیقار ’’Alfonso González Aguilar‘‘ نے دیا ہے۔ فلم کے اداکاروں میںشان شاہد، ایوب کھوسو، شمعون عباسی، آمنہ شیخ، ایاز سموں، حمید شیخ اور دیگر شامل ہیں۔ نیویارک انٹرنیشنل فلم فیسٹیول میں اس فلم کی اداکارہ ’’آمنہ شیخ‘‘ کو بہترین اداکارہ کا ایوارڈ بھی مل چکا ہے۔ اس فلم کی ریلیز اکتوبر میں متوقع ہے۔

رواں برس اچھی فلموں اور نئے چہروں کے حوالے سے کافی زرخیز رہا ہے، مگر مستقبل قریب میں ریلیز ہونے والی فلموں میں مزید نئے چہرے سامنے آئیں گے اور بہت سے نوجوان پاکستانی فلمی صنعت کا مضبوط سہارا ثابت ہوں گے۔ کچھ فلمیں زیر تکمیل ہیں، ان میں جن فلموں کے کامیاب ہونے کی امید ہے، ان میں ڈانس کہانی، گدھ، گول چکر، ہجرت، جلیبی، کولاچی، کائٹس گراؤنڈیڈ، ماہِ میر، مشن اللہ اکبر، مور، سایہ خدائے ذوالجلال، اسٹابری، سوارنگی، نامعلوم افراد، وارٹو، یلغار، فتوی، تھرٹی سکس آورز، ارتھ ٹو، عشق پوزیٹیو، ہوٹل، عبداللہ شامل ہیں۔پاکستان کی کئی فلمیں اب بھارت میں بھی ریلیز ہونے لگی ہیں، جس سے یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ آگے چل کر پاکستانی فلموں کی پسندیدگی کا حلقہ وسیع ہو جائے گا۔ 60 کی دہائی میں پاکستانی فلمیں بھارت میں ریلیز ہوتی تھیں، مگر پھر اس کے بعد سلسلہ منقطع ہو گیا۔ 43 برس بعد 2008 میں فلم ’’خداکے لیے‘‘ وہاں ریلیز ہوئی۔ اس کے بعد مزید دو فلمیں ’’رام چند پاکستانی ‘‘ اور ’’بول‘‘ بھارت میں ریلیز ہوئیں اور اب ’’آپریشن021‘‘ بھی بھارت میں ریلیز ہو گی۔ اسی طرح کئی دیگر فلمیں مکمل ہو کر ریلیز ہونے کے مرحلے میں داخل ہو چکی ہیں۔

لالی ووڈ کے اس نئے عہد میں نہ صرف پاکستانی نوجوان فلمیں تخلیق کر رہے ہیں، بلکہ انھوں نے بین الاقوامی فنکاروں کو بھی اس مقصد میں اپنے ساتھ شامل کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سی فلموں میں اداکار اور ہدایت کار بھی غیر ملکی ہیں، مگر ان سب کا ٹیم ورک دیکھنے کے لایق ہے۔ ہمارے بہت سارے نوجوان ایسے بھی ہیں، جنہوںنے مغربی جامعات سے فلم کے مختلف شعبوں میں ڈگریاں حاصل کی ہیں، اسی لیے ہماری فلموں کا معیار بہتر ہو رہا ہے کیونکہ کچھ دہائیوں سے یہ فلمی صنعت انگوٹھا چھاپ قسم کے نیم حکیموں کے ہتھے چڑھ گئی تھی، مگر اب محفوظ ہاتھوں میں منتقل ہو رہی ہے۔

بات یہ ہے کہ ہمیں بھی پاکستانی کی حیثیت سے ان تمام فلمی سرگرمیوں کی بھرپور حمایت کرنا ہو گی۔ آنے والا وقت لالی ووڈ کاہے، جس میں لالی ووڈ کام بولے گا اور دنیا سنے گی۔ پاکستانی فلموں کے اس روشن عہد کی ابتدا ہو چکی ہے۔ شان شاہد، بلال لاشاری، ساحر علی بگا اور سارہ ترین جیسے باصلاحیت فنکار، جنھیں اپنے اپنے شعبوں میں مہارت حاصل ہے، یہ ستارے نئے لالی ووڈ کا فخر ہیں۔