ذاتی سیاست

دوسروں کی طرح ہم بھی کسی زمانے میں سیاسی دیوانے بنے ہوئے تھے۔ لکھنے پڑھنے کا شغف بھی تھا۔ اس دور کے صاحبان علم سے استفادے کے لیے ان کی خدمت میں حاضری لگایا کرتے۔ ان صاحبان علم میں ایک بزرگ ڈاکٹر جی ایم مہکری بھی تھے عمرانیات میں انھوں نے 1935میں پی ایچ ڈی کیا تھا۔ ان کا نام پاکستان کے چند پڑھے لکھوں میں شمار ہوتا تھا۔ قلندر آدمی تھے اس لیے بھی خوب نبھا کرتی تھی۔ جہاں اور باتیں ہوتیں وہاں سیاست پر ایک جملہ خاص طور پر بولتے کہ جب تک سیاست کو ذاتی مسئلہ سمجھ کر نہ لیا جائے تحریک میں جان پڑتی ہے اور نہ سیاست کامیاب ہوتی ہے۔

یہ بات عجیب محسوس ہوتی کیونکہ جو کچھ ہم نے پڑھا اور سمجھا تھا اس میں سیاست اصولوں کا نام ہے اور اس سے انحراف کرنے پر آدمی سیاست سے بے دخل ہو جایا کرتا ہے۔ تفصیل سے تو ڈاکٹر مہکری سے کبھی وجہ نہیں پوچھی لیکن بار ہا غور کیا تو اندازہ ہوا کہ جو چیز ذاتی ہوتی ہے اس سے دلچسپی میں شدت ہوتی ہے اور معاملات میں بھی آدمی مخلص ہوتا ہے۔ لہٰذا اپنے راستے سے ہٹنے کی کوشش نہیں کرتا۔ باقی اصولوں کی سیاست میں اصول کی تاویل کر کے ہٹنے کے بھی امکان ہوتے ہیں۔

اس وقت مجھے ڈاکٹر مہکری کی بات یوں یاد آ رہی ہے کہ عمران خان نے نواز شریف کو ہٹانے یا استعفیٰ دینے کو ذاتی مسئلہ بنا لیا ہے جب کہ ڈاکٹر طاہر القادری نے ایسے ہی مطالبے میں نظام کی تبدیلی کو جواز بنا کر سیاسی رنگ دیا ہوا ہے۔ نواز شریف کا استعفیٰ یا اقتدار سے وقتی رخصتی ان کا پختہ موقف ہے۔ اور ساری تحریک ذات کے درمیان گھوم رہی ہے دیکھنا یہ ہے کہ ذات درمیان میں کس وجہ سے آ جاتی ہے۔

اس میں اول اور آخر انا کو دخل ہوتا ہے جس شخص کی انا کو مجروح کیا جائے یا اسے خاطر خواہ اہمیت نہ دی جائے اور اس کی انا کو ابھرنے کے مواقعے پر پہرہ بٹھا دیا جائے تو پھر وہ اس شخص سے ذاتی عداوت بنا لیتا ہے بلکہ اس سے نفرت کرنے لگتا ہے جس نے دونوں میں سے کوئی ایک کام کیا ہو۔

یہ بھی سچ ہے کہ نفرت دراصل کمزور کا غصہ ہوتا ہے۔ جس طرح جرمن فلاسفر نطشے نے کہا ہے کہ اخلاق کمزور کا ہتھیار ہے۔ یہاں جس سے نفرت کی جا رہی ہو یا عداوت بنا لی گئی ہو اس کے لیے اخلاق کا کمزور ہتھیار نہیں چلایا جاتا۔ کیسا عجیب اتفاق ہے کہ ڈاکٹر قادری اور عمران خان دونوں ہی نواز شریف کے قریب رہے ہیں پاکستان کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ ڈاکٹر قادری کے ساتھ نواز شریف اور ان کے خاندان کا کیا تعلق رہا ہے۔

دوسری طرف نواز شریف کی کرکٹ سے دلچسپی کی وجہ سے عمران خان بھی ان کے ہیرو رہے ہیں۔ میاں صاحب نے شوکت خانم اسپتال کے قیام میں عمران خان کی کس طرح مدد کی ہے۔ لیکن زمانہ اتنا کیا بدل گیا کہ ڈاکٹر قادری اور عمران خان اس بات پر متفق ہو گئے کہ نواز شریف اور شہباز شریف استعفیٰ دیں۔

اس مطالبے کے علاوہ دیگر نکات پر بھی بات اسی مطالبے سے مشروط کر دیتے ہیں۔ یہ ایسا مطالبہ ہے جس پر بہر صورت میاں صاحبان تیار نہیں ہو سکتے۔ بلکہ نواز شریف کی استقامت کی مثال تو تاریخ میں رقم ہوگئی کہ 1999 میں فوجیوں کے اصرار پر بھی انھوں نے استعفیٰ نہیں دیا تھا۔ تو پھر خالی ہاتھ اور طاقت سے محروم دونوں صاحبان کے اصرار پر کس طرح راضی ہو جائیں گے جب کہ میاں صاحب کے ذاتی وفاداروں کی طویل فہرست ہے اس میں کسی حیرت کی ضرورت بھی نہیں کہ صاحب سرمایہ کے پاس اس طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔

موجودہ ڈیڈ لاک ایک خوفناک کروٹ بدل سکتا ہے۔ جو خوں ریز تصادم ہو گا۔ جس کے اسلام آباد سے نکل کر دوسرے شہروں میں چھوٹے پیمانے پر پھیلنے کے بھی امکان ہوں گے۔ جس قدر اس سے گریز ممکن ہو وہ اختیار کرنا چاہیے لیکن مشکل یہ آن پڑی ہے کہ عمران خان نے نواز شریف سے اپنی نفرت کو سیاسی مسئلہ بنا لیا ہے۔ یہ بھی خطرہ ہے کہ عوام کے ایک حصے میں نوازی اور عمرانی دھڑے سر پھٹول پر نہ آمادہ ہو جائیں۔ بات ہو رہی تھی ڈاکٹر مہکری کی تو ان کے کلیے کے تحت عمران خان نے نواز شریف کو ہٹانے کے لیے بجائے سیاسی طریقے کے ذاتی مسئلہ بنا لیا ہے۔

یہی دیکھنا ہے کہ ڈاکٹر مہکری کی بات کس حد تک درست نکلتی ہے۔ رہا موجودہ مسئلے کا حل تو مختلف زاویوں سے ہی تجزیہ ہو سکتا ہے۔ یا تو بات چیت میں مصالحت سے یہ معاملہ تسلی بخش حد تک حل ہو جائے گا اور نواز شریف معینہ مدت کے لیے وزارت عظمیٰ سے ہٹ جائیں گے۔ دوسرے تجزیے میں تیسری طاقت یعنی آرمی صدر ممنون حسین کے ذریعے کوئی راستہ نکالے گی جو ماورائے آئین تو ہو سکتا ہے لیکن آئین کے خلاف نہیں ہو گا۔ جب آپ یہ سطریں پڑھ رہے ہوں گے تو کوئی حل سامنے آ چکا ہو گا یا کچھ وقت لگے گا لیکن سیاسی اثرات بہرحال مرتب ہو گئے۔

معمولی سطح پر ہی سہی نواز حکومت کے خلاف نفرت کی ایک رو چل نکلی ہے جو مستقبل کے لیے خوش آیند ہیں۔ عوامی تصرف(Public Consumption) کے لیے تقریروں میں بہت سی باتیں کی جاتی رہی ہیں ان کے اثرات ضد بن کر سامنے نہیں آئے۔ عمران خان نے ضد اختیار کر لی ہے جو گہرے اثرات چھوڑے گی دیکھنا یہ ہے کہ ذاتی سیاست کامیاب ہوتی ہے یا اصولی، جس میں دستور اور طریقہ کار زیر بحث لائے جا رہے ہیں۔ اور پارلیمنٹ کے ساتھ جناب اچکزئی اور سابق صدر آصف علی زرداری معہ دیگر رفقاء کے پیش پیش ہیں۔