قوت خرید میں کمی

بڑھتی ہوئی مہنگائی کے باعث عوام کی قوت خرید میں زبردست کمی واقع ہوتی جا رہی ہے۔ کیونکہ وسائل ذرایع روپیہ تو محدود ہے ، اورکسی شخص کی ماہانہ آمدنی یا اس کے جو بھی ذرایع آمدن ہیں وہ سب محدود ہیں جب کہ اس مادی دور میں خواہشات لامحدود ہوتی چلی جا رہی ہیں۔

کسی بھی شے کی زمینی پیداوار ہو یا مصنوعی پیداوار یا دیگر کسی قسم کی بھی پیداوار اس کی مقدار اور تعداد محدود ہے، لیکن انسان کی قلب ضرورت خواہش بڑھتی چلی جا رہی ہے لہٰذا ایک طرف طلب میں زبردست اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ لیکن کسی بھی شے کی طلب میں اضافے کے بالمقابل اس شے کی رسد یا پیداوار میں اتنا اضافہ نہیں ہو رہا جتنا کہ طلب میں اضافہ ہو رہا ہے۔ قربانی کے دنوں میں ملک بھر میں گائے اونٹ بیل بچھڑے اور بکروں کی مانگ میں زبردست اضافہ ہوجاتا ہے لیکن گزشتہ 68 برسوں میں ملک میں جانوروں کی افزائش کے لیے کسی قسم کا کوئی بھی قابل ذکر منصوبہ بندی سامنے نہ آسکی۔

کئی عشرے قبل کی بات ہے نیدر لینڈ(ہالینڈ) نے دودھ کی افزائش کی زبردست منصوبہ بندی کی اور دودھ کی پیداوار میں صف اول کے ممالک میں شامل ہوگیا۔ دودھ کی پیداوار کے حصول کے لیے جانوروں کی افزائش پر بھرپور توجہ لازماً دی ہوگی۔ لیکن پاکستان نے جانوروں کی افزائش سے قبل ہی گائے بکروں کی پیداوار میں اضافہ کیے بغیر ہی گوشت کی برآمدات میں اضافہ کرلیا جس کے نتیجے میں ملک بھر میں گائے کے گوشت اور بکرے کے گوشت کی قیمت میں دن دگنی رات چوگنی ترقی ہوتی رہی۔ گوشت کی قیمت میں اضافے کے ساتھ ساتھ گائے بچھڑوں اور بکروں کی قیمت میں زبردست اضافہ ہوگیا۔ جس کے نتیجے میں کم آمدن والے افراد کی قوت خرید دم توڑ گئی اور لاکھوں افراد قربانی کرنے کے ثواب عظیم سے محروم رہے۔ چونکہ لوگوں کی آمدن بھی کم ہے اور مہنگائی کا طوفان بھی شدید ہے لہٰذا بہت سے افراد جوکہ ہر سال قربانی کے طور پر بکرے خریدا کرتے تھے اب ان کا رجحان اجتماعی قربانی کی طرف ہوگیا۔

حالیہ سیلاب کے باعث چونکہ مختلف شہروں کی منڈیوں میں جانوروں کی کمی بھی پائی جاتی ہے جس کے باعث گزشتہ سال کی نسبت قیمتوں میں 50 فیصد اضافہ ہوچکا ہے۔ اس وقت کراچی مویشی منڈی میں گائے کی قیمت 70 ہزار سے ڈیڑھ لاکھ تک ہے۔ جب کہ بکروں کی قیمت 22 ہزار سے 38 ہزار اور کہیں اس سے بھی بیش قیمت ہے۔ البتہ اعلیٰ نسل کے بکرے کی قیمت کم ازکم 50 ہزار تک بھی زیادہ کی کوئی حد نہیں 2 لاکھ روپے بھی مانگے جا رہے ہیں۔ اسی طرح اونٹ ڈیڑھ لاکھ سے تین لاکھ اور اس سے بھی زائد کے ہیں۔ قربانی کے لیے جانوروں کی خریداری بہت ہی دیکھ بھال کے کی جاتی ہے۔

گائے بچھڑوں اور اونٹ کی خریداری کے لیے عموماً کئی افراد جاتے ہیں لہٰذا باہمی مشورے اور غور سے دیکھنے کے باعث جانور میں کسی قسم کا بھی نقص کا علم ہوجاتا ہے۔ لیکن بکرے کے خریدار اگر ایک بھی فرد جاکر خریدتا ہے اور وہ بھی اگر رات کے وقت جاتا ہے تو ضروری ہے کہ خوب دیکھ بھال کرکے خریدے اگر بکرا سست نظر آرہا ہو اس کے بالوں میں کچھ چمک دکھائی نہ دے رہی ہو تو اس کا مطلب ہے کہ قلت خوراک کا شکار رہا ہے۔ جس جگہ ہاتھ لگائیں گوشت سے پر ہونا چاہیے۔ خاص طور پر اگر گردن پر گوشت سے بھرا ہوا نہ ہوا تو جانور کم وزن ہوگا۔ اگر بکرے بھاگ دوڑ، اچھل کود میں مصروف ہیں تو صحت مند ہیں۔

اگر مسلسل کھانستا چلا جا رہا ہے تو بیمار ہے۔ اگر چلنے پھرنے میں سستی کا مظاہرہ کر رہا ہے تو بھی بیمار ہے بکرے کو دو تین قدم کے فاصلے سے دیکھنا چاہیے کہ کیسا نظر آرہا ہے۔ اگر اوپر نیچے کے دانت ملائے جائیں تو ایک سیدھ میں ہوں ، ملے ہوئے ہوں ٹیڑھے یا تھوڑے سے الگ نظر نہ آئیں۔ اگر ٹانگیں دیکھیں تو سیدھی نظر آنے والے بکرے درست ہوں گے۔ سب سے بہتر ہے کہ دن کی روشنی میں بکرے اور دیگر جانور بھی خریدے جائیں۔

ماہرین نے چند باتیں بتائی ہیں جوکہ آپ کی نذر کی ہیں۔ قربانی کرنے کے بعد غریب عزیز و اقارب اور مسکینوں، ناداروں، فقیروں اور خصوصاً سفید پوش افراد کا حق سب سے زیادہ ہوتا ہے۔

جہاں تک عوام کی قوت خرید کا تعلق ہے تو اس میں روز بروز کمی واقع ہوتی چلی جا رہی ہے۔ ستمبر 2014 میں مہنگائی کی شرح میں 7.7 فی صد اضافہ ہوا خوراک کی قیمت میں 7.2 فی صد اضافہ ہوا جب کہ دیگر اشیا کی قیمتیں سال بہ سال 8 فیصد بڑھیں۔ نئے مالی سال 2014-15 کی پہلی سہ ماہی کی اگر بات کریں تو مہنگائی کی اوسط شرح 7.52 فیصد رہی ہے۔ آلوکی قیمت میں بہت زیادہ اضافہ 100 فیصد کا ہوا۔ موٹر وہیکل ٹیکس میں اضافہ ہوا ہے بجلی کی قیمت بڑھی ہے۔ تعلیمی اخراجات میں اضافہ ہوا ہے۔ اس کی وجہ سے ملک میں دودھ اور گوشت کی طلب تو بڑھی ہے لیکن رسد میں اضافہ نہیں ہوسکا ہے۔

حکومت اگرکیٹل فارمنگ کی بڑے پیمانے پر منصوبہ بندی کرے۔ قرض بغیر سود کے فراہم کیے جائیں اور پھر دور دراز کے دیہاتی علاقوں سے دودھ کی پیداوار کو فوری طور پر منڈی تک پہنچانے کے لیے سریع الحرکت انتظام ہونا چاہیے۔ دیہی علاقوں کے افراد کا یہی شکوہ ہے کہ ان کے یہاں منڈی تک نہ پہنچائے جانے کے باعث بڑی تعداد میں دودھ ضایع ہوجاتا ہے۔ خصوصاً برسات کے دنوں میں راستے بند ہوجاتے ہیں۔ سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار رہتی ہیں جس کے باعث گاڑیاں خراب ہونے پر چند گھنٹے تاخیر کے باعث دودھ خراب ہوجاتا ہے۔ نیز ملک میں گوشت کی قیمت میں کمی کے لیے ایسے اقدامات کیے جائیں تاکہ میٹ فروش بلاوجہ گائے کا گوشت بچھیا کا گوشت اور بکرے کا گوشت ان کی قیمتوں میں من مانا اضافہ کردیتے ہیں جس کا ایک اثر یہ ہوتا ہے کہ گائے بچھیا اور بکرے یا اونٹ کی قیمت میں بہت زیادہ اضافہ ہوجاتا ہے اور لوگوں کی قوت خرید کم ہونے کے باعث عوام شدید مشکل میں پڑ جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ سیلاب کے باعث مال مویشیوں کا خاصا نقصان ہوچکا ہوتا ہے۔

حکومت کو چاہیے کہ ملک کے قابل ترین انجینئرز اور ماہرین کی کمیٹی بنائے جوکہ ملک کو سیلاب سے بچانے کے لیے اقدامات کرے۔ اس کے علاوہ ملک میں گائے بھینس اور دیگر جانوروں کی پیداوار کے لیے دیہی علاقوں کے لوگوں کو تربیت فراہم کی جائے بلکہ ان کو وسائل بھی فراہم کیے جائیں۔ بیروزگاروں کی ایک بڑی تعداد کو اس شعبے میں روزگار فراہم کیا جاسکتا ہے۔ ایک اور بات جوکہ انتہائی قابل توجہ ہے مختلف شہروں کی منڈیوں تک جانور لے جانے کے دوران رشوت اور جگہ جگہ ٹیکس دینا پڑتا ہے۔ مختلف گروپ منڈیوں میں بھتہ وصول کرنے میں مصروف ہیں جو کہ فروخت کار اور خریدار دونوں سے بھتہ وصول کرتے ہیں۔ رشوت ٹیکس بھتہ اور منڈی میں ہر شے بشمول مہنگے چارے کے باعث فروخت کار مہنگے داموں جانور فروخت کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ صرف چند ٹیکسوں کے علاوہ باقی مسائل پر حکومت اپنی رٹ قائم کرکے قابو پاسکتی ہے۔ جس سے منڈی تک پہنچنے والے بیوپاری سکھ کا سانس لیں گے۔