’’آئین نے لوگوں کو کیا دیا‘‘

یہ بات کم لوگوں کو معلوم ہو گی کہ مڈٹرم الیکشن امریکی انتخابی عمل کا لازمی حصہ ہیں۔ امریکی صدارتی انتخابات کے دو برس بعد یعنی نئی حکومت کی آئینی مدت کے عین وسط میں ایوان نمایندگان یعنی کانگریس کی تمام 435 نشستوں اور سینیٹ کی کل 100 میں سے 33 یا 34 نشتسوں پر الیکشن ہوتا ہے۔ مزید یہ کہ امریکا کی کل 50 ریاستوں میں 34 ان مڈٹرم الیکشنز میں 4 سال کی مدت کے لیے اپنے گورنروں کا انتخاب کرتی ہیں جب کہ ورمونٹ اور نیو ہیمپشائر کی ریاستیں دو برس کے لیے گورنر منتخب کرتی ہیں۔

اس مرتبہ بھی معمول کے مطابق4 نومبر کو امریکی مڈٹرم الیکشن منعقد ہوئے جن میں حکمران ڈیمو کریٹک پارٹی سینیٹ اور کانگریس یعنی دونوں ایوانوں میں اکثریت کھو بیٹھی ہے۔ ریاستوں کی صورتحال یہ ہے کہ 17ریاستوں میں حکمران جماعت جب کہ31 ریاستوں میں مخالف ریپبلکن جماعت کے گورنر ہیں۔ امریکا کے آئین بنانے والوں کے پیش نظر کون سی مصلحت تھی جو انھوں نے قومی انتخابات کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔ ایسے حکیمانہ فیصلوں کے پیچھے کسی قوم کے بڑے دماغوں کی اجتماعی دانش کارفرما ہوتی ہے۔ اس طرح کے فیصلے ہمیشہ اجتماعی قومی مفاد کو عزیز رکھنے والے رہنما کیا کرتے ہیں‘ اگر ذاتی مفاد کا شائبہ بھی پڑ جائے تو اس طرح کے فیصلے ممکن نہیں ہوا کرتے۔

امریکی انتخابی نظام کے خدوخال طے کرنے والے لوگ اقتدار کی نفسیات سے خوب واقف تھے۔ انھیں علم تھا کہ حکومت میں آنے کے بعد صدر اور اس کی ٹیم کو کیسی کیسی مجبوریاں اور چیلنج درپیش ہو سکتے ہیں۔ یہ بات بھی یقیناً ان کے پیش نظر رہی ہو گی کہ لوگ ہمیشہ بہترین کا انتخاب نہیں کیا کرتے‘ اکثریت سے غلط فیصلہ بھی سرزد ہو سکتا ہے اس لیے انھوں نے آئین میں ایسا بندوبست کیا کہ ایک تو حکومت کی مدت ہی چار برس رکھی اور پھر ان چار برسوں کو بھی دو حصوں میں بانٹ دیا اور یہ مڈٹرم انتخابات ایک طرح سے حکومت کے لیے یہ جاننے کا موقع فراہم کرتے ہیں کہ ان پر لوگوں کا اعتماد کم ہوا ہے یا اس میں اضافہ  ہوا ہے۔

پہلے تو امریکیوں نے صدارتی مدت ہی چار برس رکھی‘ چیک اینڈ بیلنس کا موثر نظام وضع کیا اور یہ پابندی بھی عائد کر دی کہ کوئی شخص دو سے زیادہ مدتوں کے لیے صدر کے عہدے پر فائز نہیں رہ سکتا۔ ان پابندیوں کا مقصد یہ ہے کہ سیاسی اجارہ داری کا راستہ روکا جا سکے۔ امریکی صدر عالمی سیاست میں جس قدر طاقت ور تصورکیا جاتا ہے داخلی طور پر صورت حال ویسی نہیں ہے۔

دنیا میں اچھی شہرت کے حامل جمہوری ممالک میں ہر ممکن کوشش کی گئی کہ ملک کا آئین انسان کے مطلق العنانیت کی جانب فطری جھکاؤ کی روک تھام کی موثر صلاحیت رکھتا ہو کیونکہ آئین ایک ایسی دستاویز ہے جسے انسانوں کے ہاتھوں تشکیل پانا ہوتا ہے اور انسان ہی عصری تقاضوں کے پیش نظر اس میں ترمیم و اضافے کے ذمے دار ہوتے ہیں اس لیے انھیں ہی اپنی انسانی کمزوریوں سے بالاتر ہو کر اس کی اصل روح کو زندہ رکھنے کا فریضہ انجام دینا ہوتا ہے۔

ادھر ہماری آئینی تاریخ کو دیکھیں تو مختصر ترین لفظوں میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ یہ آئین کو اپنی خواہشات کے تابع بنانے کی کشمکش کا نام ہے۔ بھٹو صاحب نے اس ملک کو متفقہ آئین دینے کا کارنامہ انجام دیا لیکن انھیں اپنے پہلے پانچ برس میں اپنے بنائے آئین میں7 ترامیم کرنا پڑیں۔ ہمارے سیاسی ارتقاء کا مرکزی نقطہ سیاست دانوں اور فوج کے درمیان کھینچا تانی ہے جس کا ایک امتیازی پہلو یہ ہے کہ آزادی کے بعد اولین دور کو نکال کر ہمارے سیاستدان ایک تو فوج کو اقتدار کے کیک سے دور رکھنے کے لیے نبرد آزما رہے اور دوسرا اقتدار کے کیک سے زیادہ سے زیادہ حصہ اڑا لینے کے چکر میں آپس میں بھی دست و گریبان رہے۔

فروری 1979سے جنوری 1985کے درمیان جنرل ضیاء الحق نے آئینی اختیارات کو اپنی ذات میں مرتکز کرنے کے لیے آئین میں مختلف تبدیلیاں کیں۔ قبل ازیں عدلیہ کی آزادی کو محدود کرنے کا کام بھٹو صاحب خود انجام دے چکے تھے۔ 4 اپریل 1997 کو 13 ویں ترمیم کے تحت اسمبلی توڑنے کا اختیار صدر سے وزیر اعظم کو منتقل ہو گیا۔ اسی برس 30 جون کو ایک ترمیم کے ذریعے فلور کراسنگ کرنے والوں کی اسمبلی رکنیت ختم کرنے کی ترمیم منظور ہوئی۔ 17ویں ترمیم کے ذریعے جنرل مشرف نے اسمبلی تحلیل کرنے کا اختیار دوبارہ صدر کو سونپ دیا اور 18 ویں ترمیم کے ذریعے یہ اختیار پھر وزیر اعظم کو مل گیا۔ ہماری سیاست تب سے لے کر اب تک اس مرکزی نقطے کے گرد گھوم رہی ہے کہ مطلق اختیار اپنی ذات یا اپنوں کے مخصوص گروہ میں جمع کر لیے جائیں۔

آئین میں ترامیم کا مقصد صرف اور صرف اپنے اقتدارکو مضبوط کرنا ہوتا ہے، اس کے سوا کچھ نہیں۔ سیاست دانوں کی تمام تر جدوجہد اس بات پر مرکوز رہی کہ اقتدار کا تسلسل کارکردگی کے ساتھ مشروط نہ ہونے پائے۔ بے غرضی‘ قربانی‘ دیانت داری‘ فہم و فراست‘ دور اندیشی، جرات‘ برداشت‘ بردباری‘ معاملہ فہمی اور حوصلہ جیسی خوبیوں کے لازمی اظہار کا اقتدار کے ساتھ کوئی تعلق واسطہ نہیں ہونا چاہیے بلکہ جو راستہ چنا گیا اس میں ساری توجہ انتخابات جیتنے کے چور راستوں اور نظام کو اپنے حق میں استعمال کرنے کی مہارتوں پر مرکوز رہتی ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے سب سے ضروری بات یہ ہوتی ہے کہ آپ کا نظام خود کار طریقے سے کام کرنے کی صلاحیت سے محروم رہے حالانکہ کسی نظام کی اولین شرط یہ ہے کہ وہ خود بخود طے شدہ راستے پر چلتا رہتا ہے۔ تو احساس ذمے داری اور جواب دہی پر قائم سیاسی نظام سے بچے رہنے کے لیے ضروری ہے کہ نظام کو اتنا کرپٹ کر دو کہ وہ خود بخود طاقتور اور با اختیار کے اشاروں پر ناچنے لگے۔

اس حوالے سے ایک آدھا تازہ مثال بھی دی جا سکتی ہے مثلاً حکومت کو آئی پی پیز (بجلی بنانے والی نجی کمپنیوں) کو سربمہر ڈیٹ کی مد میں ادائیگیاں کی جانی تھیں۔ قواعد و ضوابط یہ کہتے ہیں کہ حکومت کا لین دین آڈیٹر جنرل آف پاکستان کے چینل سے گزرے بغیر نہیں کیا جا سکتا۔ یہ آئینی ادارہ بنا ہی اس لیے ہے کہ مالیاتی شفافیت کو یقینی بنائے لیکن ہماری موجودہ حکومت نے 500 ارب سے زائد رقم آڈیٹر جنرل کے ادارے کو بائی پاس کر کے ادا کر دی ہے‘یعنی حکومت کا دعویٰ ہے کہ ادائیگی ہو گئی آگے اللہ بہتر جانتا ہے۔ دوسری جانب حکومتی وزراء کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی کے ساتھ کوئی بھی بات آئین اور قانون سے ہٹ کر نہیں ہو سکتی۔

بات یہاں بھی قانون کی من چاہی تشریح کی ہے۔ پی ٹی آئی کے مطالبات قانون اور آئین سے ماورا نہیں ہیں۔ ایک اور دلچسپ بات دیکھیں۔ عمران خان طاہر القادری اور ان کے ساتھیوں کو اشتہاری قرار دے دیا گیا ہے‘ دوسری جانب سانحہ ماڈل ٹاؤن پر کوئی ایکشن نہیں ہوا۔ اس سے بھی دلچسپ اور انوکھی بات یہ ہے کہ عوام سے تقاضا کیا جاتا ہے کہ وہ آئین قانون اور قواعد و ضوابط کا دل و جان سے احترام کریں اور اپنے طور پر یہ یقین رکھیں کہ حکومت جو بھی کرتی ہے آئین و قانون کے مطابق ہوتا ہے۔ ایسا کسی طور بھی مختلف نہیں ہوا کرتا۔ اس بات میں اب کوئی شک نہیں رہا کہ ہمارے پورے نظام کو مکمل اوور ہالنگ کی ضرورت ہے خواہ یہ انتخابی سیاست کے ذریعے عمل میں آئے یا پھر بزور طاقت تبدیلی کا عمل مکمل ہو۔

ممتاز ناول نگار اور سیاسی دانشور این رینڈ نے کہا تھا جب آپ دیکھیں کہ تجارت آزادی باہمی رضامندی سے نہیں بلکہ مجبوری اور جبر کے تحت ہو رہی ہے، جب آپ دیکھیں کہ کچھ بنانے کے لیے کچھ پیدا کرنے کے لیے آپ کو ان لوگوں سے اجازت لینی پڑتی ہے جو معاشرے میں کچھ بھی پیدا نہیں کر رہے‘ جب آپ دیکھیں کہ سرمائے کے دھارے ان لوگوں کی جانب بہہ رہے ہیں جو مال اسباب کی تجارت کے بجائے غیر قانونی مراعات کے لین دین کا دھندہ کرتے ہیں، جب آپ دیکھیں کہ طاقت ور محنت اور قانونی جدوجہد کے بجائے لوٹ مار اور چھینا جھپٹی کر کے مزید طاقتور اور مالدار بنتے جا رہے ہیں اور ریاست کا قانون ان کی چیرہ دستیوں کے خلاف آپ کو تحفظ فراہم کرنے کے بجائے آپ کی قانونی چارہ جوئی اور فریاد کے خلاف انھیں تحفظ فراہم کر رہا ہے اور جب آپ یہ دیکھیں کہ کرپشن کا بول بالا ہو چکا اور دیانتداری کی بھاری قیمت چکانا پڑتی ہے تو جان لیں کہ آپ کے معاشرتی ڈھانچے کے دن گنے جا چکے ہیں‘‘۔