مقبوضہ بیت المقدس میں یہودی عبادت گاہ پر حملے میں مبینہ ملوث فلسطینیوں کے گھر مسمار

مقبوضہ بیت المقدس: اسرائیل حکام نے یہودی عبات گاہ پر حملے میں مبینہ طور پر ملوث دونوں فلسطینی نوجوانوں کے گھر مسمار کردیئے۔

یہودی عبادت گاہ پر حملے میں5 افراد مارے گئے تھے یہ مقبوضہ بیت المقدس میں یہودی عبادت گاہ پر فلسطینیوں کا پہلا حملہ تھا۔ اس دوران اس فلسطینی کار ڈرائیور کا گھر بھی تباہ کر دیا گیا جس کی ٹکر سے اسرائیلی خاتون اوربچہ ہلاک ہو گئے تھے جب کہ ڈرائیور کے اہل خانہ نے اسے ایک حادثہ قرار دیا تھا۔ اسرائیلی وزیراعظم نے عبادت گاہ پر حملہ کرنے کا سختی سے جواب دیتے ہوئے فلسطینیوں کے خلاف کریک ڈاؤن کا اعلان کیاتھا۔ بینجمن نیتن یاہو کا کہنا تھاکہ ان کا ملک اس وقت یروشلم کیلئے جنگ لڑ رہا ہے۔ دوسری جانب اسرائیل نے مقبوضہ بیت المقدس کے نواح میں 2 یہودی بستیوں میں آباد کاروں کیلئے مزید 78 نئے مکانوں کی تعمیر کی منظوری دیدی ہے۔

انتظامیہ نے ایسے وقت میں یہودی آبادکاروں کیلیے مکانوں کی تعمیر کی منظوری دی ہے جب شہر میں فلسطینیوں اور قابض حکام کے درمیان شدید کشیدگی پائی جارہی ہے اور گذشتہ ڈیڑھ ماہ سے شہر میں مسلسل تشدد کے واقعات رونما ہو رہے ہیں۔ فلسطینی صدر محمود عباس کے ترجمان نبیل ابو ردینہ نے اس اسرائیلی فیصلے کے ردعمل میں اپنے بیان میں کہاکہ صہیونی ریاست کشیدگی کو بڑھاوا دینے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے ۔ واضح رہے کہ اسرائیل نے غرب اردن اور مقبوضہ بیت المقدس پر1967 کی جنگ میں قبضہ کر لیا تھا اورعلاقے کو صہیونی ریاست میں ضم کرلیا تھا۔

اسرائیل اب عالمی برادری کی مخالفت کے باوجود فلسطینی سرزمین پر یہودی آباد کاروں کے لیے تعمیرات کو جاری رکھے ہوئے ہے حالانکہ امریکا اور یورپی یونین نے حال ہی میں اس کے فلسطینی سرزمین کو ہتھیانے کے لیے اقدام کی شدید مذمت کی ہے۔ فلسطینی غرب اردن میں یہودی آبادکاروں کے لیے تعمیرات کی شدید مخالفت کررہے ہیں۔ دریں اثنا اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے اسرائیلی عبادت گاہ پردہشت گردی کی پرزور مذمت کی ہے اور اسرائیل و فلسطین کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔