مولانا وصی مظہر ندوی، ایک عظیم عالم دین

سابق وفاقی وزیر، سابق میئر حیدرآباد، سابق رکن قومی اسمبلی، ممتاز عالم دین، سابق مدیر مولانا وصی مظہر ندوی بھی کمال کی شخصیت تھے۔ بظاہر وہ دبلے پتلے انسان تھے لیکن عزم آہنی رکھتے تھے۔ سیاسی، علمی، ادبی اور دینی حلقوں میں ان کا بلند مقام تھا، مزاج میں سختی تھی لیکن کردار بہت بلند تھا۔ حیدرآباد شہر کے لیے ان کی خدمات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا انھیں عربی زبان پر بھی دسترس حاصل تھی۔ سعودی عرب کے شاہ فیصل شہید سے بھی ان کی خط و کتابت ہوتی تھی، سعودی عرب کے ریڈیو سے بھی ان کی تقریریں نشر ہوتی تھیں۔

حیدرآباد سے کئی سال تک وہ جریدہ بھی نکالتے رہے۔ کئی کتابیں لکھی تھیں، وہ جنرل ضیاء الحق کے دور میں حیدرآباد کے میئر منتخب ہوئے تھے، اس دور میں وہ حیدرآباد کے بنیادی مسائل کے حل پر توجہ دیتے تھے، وہ بعد میں رکن قومی اسمبلی بھی منتخب ہوئے تھے، انھوں نے مہاجر رابطہ کونسل کی بھی تشکیل کی تھی اور اندرون سندھ کے مہاجروں کے حقوق کی جدوجہد میں حصہ لیا تھا۔ وہ لاہور کے ایک روزنامے کے بھی ایڈیٹر رہے۔

سابق صدر جنرل ضیاء الحق، آزاد کشمیر کے سابق صدر سردار قیوم، راجہ ظفر الحق سمیت اہم سیاستدانوں سے ان کے قریبی تعلقات تھے۔ جنرل ضیاء الحق کی آخری کابینہ میں وفاقی وزیر مذہبی امور بھی رہے، حیدرآباد سیشن کورٹ کے سامنے ایک مدرسے کے بھی نگراں رہے اور وہیں ان کی رہائش تھی۔ علی الصبح اپنی والدہ سے ملاقات کے لیے پیدل ہیرآباد جاتے تھے اور واپس آتے تھے، کبھی کبھی سائیکل پر بھی آمدورفت رہتی تھی، اپنے حریفوں سے وہ کبھی خوفزدہ نہیں ہوئے اور ہمیشہ جرأت سے دینی و سیاسی میدانوں میں ان کا مقابلہ کرتے رہے۔ بقول شاعر؎

ہزار دام سے نکلا ہوں ایک جنبش میں

جسے غرور ہو آئے کرے شکار مجھے

جرأت اظہار ان کی اصل شناخت تھی، کھل کر گفتگو کرنے کے عادی تھے مگر مشرقی روایات کے حامل تھے۔ وہ فقط عالم دین ہی نہیں تھے بلکہ قدیم و جدید علوم پر انھیں دسترس حاصل تھی، بہت دور تک دیکھنے کی خداداد صلاحیت رکھتے تھے، ان کی تلخ مزاجی مشہور تھی مگر وہ ’’طوطی شیریں مقال‘‘ تھے۔ ان کے اندر ایک ایسا انسان تھا جو ہمدرد، سچا اور کھرا تھا، وہ کبھی مصلحت پسندی کا شکار نہیں ہوئے اور حکمرانوں کے سامنے بھی اپنا موقف بہادری سے پیش کرتے تھے، پاکستانی سیاست کے تمام نشیب و فراز سے واقف تھے اور آئینی و دستوری امور پر بھی نظر رکھتے تھے۔

جنرل ضیاء الحق کے دور میں ہونے والی آٹھویں آئینی ترامیم پر انھوں نے مفصل کتاب لکھی تھی، اردو اخبارات و جرائد میں تواتر کے ساتھ ان کے مضامین شایع ہوتے تھے، وہ مسلسل مضامین لکھتے تھے۔ انھیں حیدرآباد کا ایک ایسا ’’مرد درویش‘‘ کہا جاسکتا ہے جو ہمہ وقت عوام کی خدمت اور کتابوں کے مطالعے میں مصروف رہتے تھے، وہ سیاست میں اپنے مضبوط کردار کی وجہ سے آگے بڑھے تھے، حیدرآباد کے شہریوں نے ان کی دیانتداری، حب الوطنی، ذاتی شرافت اور ذہانت کی وجہ سے پہلے میئر اور بعد میں رکن قومی اسمبلی منتخب کیا تھا، قومی اسمبلی میں ان کی پارلیمانی تقاریر سے بھی سندھ کے مسائل کو سمجھنے میں مدد اب بھی ملتی ہے۔ وہ کھل کر تقاریر کرتے تھے اور حکومت کی ناانصافیوں پر بھی تنقید کرتے تھے۔

انھیں کوئی خرید نہیں سکتا تھا، وہ فولادی عزم کے مالک انسان تھے، سیاست سے انھوں نے کچھ حاصل نہیں کیا تھا بلکہ قومی سیاست میں حیدرآباد کے حوالے سے وابستہ ہو کر وہ آج بھی صاحب کردار سیاستدان بعد از مرگ تصور کیے جاتے ہیں۔ وہ پاکستان خصوصاً حیدرآباد کو نہیں چھوڑنا چاہتے تھے، حیدرآباد کے لوگوں اور ماحول سے ان کو چاہت تھی لیکن جب ’’گردش روزگار‘‘ ان کے بڑے صاحبزادے حسن ندوی کو کینیڈا لے گئی تو وہ بھی مجبوراً دوسری مرتبہ ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے، ایک ہجرت انھوں نے برصغیر کی تقسیم کے بعد کی تھی اور دوسری ہجرت کینیڈا میں ان کی رہائش تھی، وہ کینیڈا میں بھی فلاحی اور علمی سرگرمیوں میں مصروف رہے اور پاکستان کے اخبارات و جرائد میں کینیڈا سے مضامین لکھ کر بھیجتے رہے۔

اس کے علاوہ ٹورنٹو سے شایع ہونیوالے کینیڈا کے ایک بڑے ہفت روزہ ’’پاکیزہ‘‘ انٹرنیشنل میں مولانا ندوی اسلامی ممالک کی خبروں پر اپنے تجزیے لکھتے تھے، جنھیں کینیڈا میں مقیم پاکستانی اور ساؤتھ ایشین کمیونٹی میں بہت پسند کیا جاتا تھا۔یہ ان کا کمال ہنر تھا کہ قلم سے ان کی وابستگی عمر کے آخری حصے تک رہی۔ کینیڈا میں ہی ان کا انتقال ہوا تھا اور وہیں ان کی تدفین ہوئی۔

مولانا وصی مظہر ندوی مرحوم کسی بھی قسم کی فرقہ واریت پر یقین نہیں رکھتے تھے اور نہ ہی مذہبی انتہاپسندی یا دہشتگردی کے قائل تھے۔ وہ اسلامی تاریخ، تہذیب ، ثقافت و تمدن کا ایک مکمل ’’انسائیکلوپیڈیا‘‘ تھے۔ ان سے گفتگو کرتے وقت احساس ہوتا تھا کہ ایک باعمل عالم دین سامنے بیٹھا ہوا ہے۔ وہ دلیل و فراست سے گفتگو کرنے کے قائل تھے اور کمال فن انھیں حاصل تھا، علم و دانش پر مبنی ان کے مکالمے ٹھوس فکری بنیادوں پر استوار ہوتے تھے۔ ساری عمر محنت پر یقین رکھتے تھے اور فرصت کے اوقات میں حیدرآباد میں اپنے مدرسے میں بچوں کو قرآنی علوم کی تعلیم دیتے تھے۔ وہ مکمل باکردار اور سچے انسان تھے۔ فریب، دھوکا دہی اور سیاسی جعلسازیوں کے قائل نہیں تھے۔

حکمرانوں سے ایک فاصلے پر رہتے تھے لیکن جنرل ضیاء الحق غالباً واحد ملک کے سربراہ تھے جو ان سے مشورے کیا کرتے تھے اور ان کی رائے کا احترام کرتے تھے۔ جنرل ضیاء الحق کی کابینہ میں انھیں وفاقی وزیر مذہبی امور کی حیثیت دی گئی لیکن اصل میں وہ جنرل ضیاء الحق کے مستقبل کے سیاسی نظام کے خدوخال مرتب کررہے تھے کہ طیارے کے حادثے نے صورتحال ہی تبدیل کردی، مولانا وصی مظہر ندوی مرحوم کی شخصیت میں ایک جاذبیت، حسن، علمی توازن، تعلقات کو نبھانے کا جذبہ شامل تھا لیکن وہ بہت مشکل انسان تھے اور ان سے مکالمہ کرنا بہت دشوار ہوتا تھا۔ ان کا انتقال 2 جنوری 2006 کو کینیڈا میں ہوا اور وہیں پر ان کی تدفین ہوئی۔ ان کی خدمات کے صلے میں بلدیہ حیدرآباد کی ذمے داری ہے کہ وہ حیدرآباد میں ایک ہال اور سڑک مولانا وصی مظہر ندوی کے نام سے منسوب کرے تاکہ ان کی خدمات کو نئی نسل یاد رکھے اور سندھ یونیورسٹی کے شعبہ اسلامی میں ان کے نام سے چیئر قائم کی جائے۔