جہادی تنظیمیں ، خاتمے کی واحد صورت

پاکستان کی ‘‘اجتماعی دانش’’ گزشتہ کچھ عرصے میں ہوئی کثیر جہتی پیش رفت کے بعد اِس بارے میں اب تقریباً متفق الخیال ہے کہ یہاں امن و امان کے مسئلے کا حل غیر ریاستی سطح پر پائی جانے والی ‘‘عسکری فکر’’ کا خاتمہ ہے۔ امن و امان کو ممکن بنانے کے لیے لبرل اور سیکولر حلقوں کی طرف سے کبھی تو طعن کے انداز میں بات کی جاتی ہے کہ یہ سب اس صورت میں ممکن ہے جب ‘‘پرائیویٹ جہادی کمپنیز’’ ختم کردی جائیں۔اِس ضمن میں فکر و نظر کے مختلف حلقوں کی طرف سے کئی طرح کے حل پیش کیے جاتے ہیں۔ یہاں اْن کا جائزہ لیتے ہوئے کچھ معروضات پیش کی جائیں گی۔

اس سارے فکری اور استدلالی بیانیے میں جب ‘‘عسکری فکر’’ یا ‘‘عسکریت’’ جیسے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں تو یہاں مسلم سماج کے تناظر میں ابتداء ہی میں دیانت ِ فکر (Honesty Intellectual) کے منافی ایک انتہائی قدم اٹھا لیا جاتا ہے جو اس ساری بحث کو ایک ختم نہ ہوسکنے والے خلط ِ مبحث کا شکار کر دیتا ہے۔راقم کے علم کی حد تک اس طرح کے الفاظ ہمارے علمی سرمائے میں کبھی مستعمل نہیں رہے اور اگر کبھی رہے بھی ہوں تو وہ کسی زمانے کے عمومی بیانیے میں استعمال نہیں ہوئے بلکہ یہ جب مغرب اور مستشرقین کے اسلام کے بارے میں تبصرے اور تجزیے آئے تو تب ترجمہ ہو کر ہمارے یہاں استعمال ہونا شروع ہوئے۔لٰہذا اس مسئلے کے حل کے لیے سب سے پہلے اس کی اساس کو سمجھنا ہوگا۔

عمل کے اعتبار سے ہم خواہ کیسے ہی ہوں مگر اپنی خواہش کے اعتبار سے ہم ایک مذہبی سماج کی حیثیت رکھتے ہیں۔اس بنا پر ہماری سماجی اکثریت کسی دوسرے کے سامنے اظہار کے وقت (دل میں جو کچھ بھی ہو)آرزو اور تمنا کی حد تک اپنے گرد و پیش میں اپنے عقائدی تصورات ہی کے مطابق مسائل کا حل چاہتی ہے۔اسی طرح ہمارا نصاب تعلیم شروع دن سے ہی اِس بات کو پختگی کے ساتھ ذہنوں میں بٹھا دینے کی کوشش کرتا ہے کہ بانی پاکستان کی قیادت میں ہونے والی ساری جد و جہد اس آزاد خطہ زمین کو اسلامی اصولوں پر کاربند ایک فلاحی ریاست بنانا تھا لہٰذا یہاں کے سماج کی پسند ناپسند کی فکری بنیادوں کو سامنے رکھتے ہوئے ہمیں مسئلے کی درست تشخیص سے لے کر حل تک صرف اور صرف ایک مذہبی بیانیے کی ضرورت ہے نہ کہ کسی سیکولر اور لبرل جوڑ توڑ کی۔

‘‘جہاد ’’کی حیثیت مسلمانوں کی کسی سیاسی حکمت عملی یا خارجہ پالیسی کی نہیں ہے بلکہ یہ عبادت ہے جو ایک ‘‘مکلف’’ پر حالات کے مختلف ہونے سے کبھی ‘‘فرض کفایہ’’ ہوتی ہے اور کبھی اس کی حیثیت ’’فرض عین ‘‘ کی ہوتی ہے اور اِنھی دو حیثیتوں میں اِسے حدیث نبویؐ کے مطابق بہر حال قیامت تک جاری رہنا ہے۔ اِسی طرح اسلام میں جہاد کی اہمیت کا اندازہ کرنے کے لیے ایک دوسرے پہلو سے دیکھیں کہ’’ جہاد‘‘ اسلام میں اعمال کی چوٹی کی حیثیت رکھنے والا عمل ہے۔مقصدیت کے پہلو سے جائزہ لیں تو ’ زمین کی آزادی اور مستضعفین’’ کی نصرت جیسے کئی مقاصدِ جہاد قرآن و سنت میں بیان ہوئے ہیں مگر جو سب سے بنیادی اور اساسی مقصد ہے وہ اس کرہ ارض پر اللہ کے کلمہ کی سربلندی اور ہر باطل دین کو زیر اور پست کر کے دینِ حق کی بالادستی (Supremacy ) قائم کرنا ہے۔ لٰہذا اس سارے کے ہوتے ہوئے ایک مذہبی زندگی گزارنے کی خواہش رکھنے والے مسلم افراد کے ایک حصے سے کوئی اس طرح کی توقع رکھنا کہ وہ اس عبادت کو مکمل طور پر فراموش کربیٹھے گا کسی سنجیدہ فکری حلقے میں یقیناً ایک غیر عقلی اور غیر منطقی تمنا ہوگی۔

ایک بات اصول اور عالم گیر سچائی کے درجے میں طے ہے کہ کچھ متعین جغرافیائی حدود کے اندر کسی حکومت کے ہوتے ہوئے قانون ہاتھ میں لینا رعایا کا رویّہ اور طرزعمل تب بنتا ہے جب کوئی نا اہل یا ظالم حکومت قانون کے نفاذ میں کوتاہی برتے اور عوام الناس کا یقین پکا ہوجائے کہ ہمیں حقوق کے تلف ہونے پر نظام کی طرف سے انصاف نہیں ملے گا۔ اسی اصول سے یہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ عوام اپنی انفرادی حیثیت میں یا اجتماعی طور پر کوئی جتھہ بندی کر کے اگر کسی ایسے کام کو کرنے کی کوشش کریں جو اصل میں حکومت کے تعاون’نصرت’رہ نمائی یا پیشوائی میں کیا جانا تھا تو اس کی وجہ بھی یہی ہوگی کہ حکومت اپنے اس فریضے کو ادا کرنے میں ناکام رہی ہے جس کی بنا پر عوام میں یہ سوچ اور فکر پیدا ہوئی ہے۔

عالمی ریاستی نظام کے ذمے دار رکن ہونے کی حیثیت سے وطن عزیز کی جو مجبوریاں ہیں اور ہوسکتی ہیں ان کو سامنے رکھتے ہوئے ملک کی اجتماعی مذہبی دانش سے ان کی رائے لی جائے اور مسلم عوام کو درپیش رکاوٹوں کو قرآن و سنت کے حوالوں کے ساتھ سمجھایا جائے کہ کسی زمانے میں فی الوقت اگر پاکستانیحکومت دفاعی یا اقدامی جہاد میں سے کسی پر بھی عمل نہ کرنے پر بوجوہ مجبور ہے، تو وہ فلاں فلاں اسلامی تعلیمات کے عین مطابق ہے۔ چنانچہ اِس سے ریاست کے بغیر خود سے جہاد کرنے پر ابھارنے والے جذبات کی تسکین کا سامان ہوسکے گا کہ وہ لوگ اپنے ضمیر پر کوئی بوجھ محسوس نہ کریں۔

سرکار کو چاہیے کہ وہ اس معاملے میں وہی رویہ اپنائے جیسے وہ نجی اداروں کو قومیا (Nationalize) کر کرتی ہے۔ ہاں البتہ اس ضمن میں اِن جماعتوں کے نام اور شناختیں باقی نہ رہنے دے بلکہ سب کچھ کسی ایک دھارے میں ڈھال دے۔اِن نجی جہادی جماعتوں کے نظم کے اندر ایک ’’امیر‘‘ کی جو حیثیت ہوتی ہے اور مسلم معاشرے میں حکومت کے سربراہ (امیر) کا جو اطاعت کا استحقاق ہے وہ ان امراء کے لیے جس طرح سے ثابت کر دیا جاتا ہے اِس فکر کو مکمل ختم کردے۔جس طرح نظام صلوۃ قایم کرنا حکومت کی ذمے داری ہے اسی طرح اِس ذمے داری کو ادا کرنے کے لیے روایتی فوج کے پہلو بہ پہلو کوئی شعبہ قایم کیا جاسکتا ہے جس کی تفصیلات اور حدود اہل ِ دانش طے کرسکتے ہیں۔

عسکریت کے مسئلے کا حل اگر سیکولر اور لبرل یا غامدی کے مذہبی بیانیے میں ڈھونڈنے کی کوشش کی گئی تو اِس صورت میں ایک ایسا سماجی رد عمل پیدا ہونے کا امکان ہے جس کی حدود و قیود کو ماپنا واقعتا نا ممکن ہو گا۔غامدی صاحب کی مذہبی تعبیر بحیثیت مجموعی بھی اور خاص جہاد کے ضمن میں ایک مذہبی اقلیت کی نمائندہ ہے اور یہ مذہبی تعبیر جب درست یا غلط ’استعماری قوتوں کی پسندیدہ اور منظور نظر سمجھی جاتی ہے تو حساسیت میں جو اضافہ ہوتا ہے وہ معاملے کو صرف نظری اختلاف ہی نہیں رہنے دیتا بلکہ بہت سنگین کر دیتا ہے۔لہٰذا ایسی مذہبی تعبیر کو پاکستان کی اکثریت سے منوانا ان سے ان کے دین بدلوانے کے برابر کی شے ہوگا۔