معاشرے میں برداشت پیدا کرنے کیلئے انصاف کی فراہمی ضروری ہے!!

برداشت کا براہ راست تعلق لوگوں کے بنیادی حقوق کے ساتھ ہے۔ کسی بھی معاشرے میں جب لوگوں کے حقوق پامال ہورہے ہوں، ان کے ساتھ امتیازی سلوک کیاجائے یا انہیں انصاف فراہم نہ کیا جائے توعدم برداشت کی صورت میں ان کا ردعمل سامنے آتا ہے۔

اگر یہ عد م برداشت بڑھ جائے تو معاشرے میں لڑائی جھگڑے، قتل وغارت و دیگر مسائل پیدا ہوجاتے ہیں اور معاشرہ تباہی کی طرف چل نکلتا ہے۔ لہٰذا قومی یکجہتی اور امن و امان قائم کرنے میں رواداری اور برداشت ایک خاص اہمیت رکھتی ہیں۔ معاشرے میں بڑھتے ہوئے عدم برداشت کے حوالے سے گزشتہ دنوں ایکسپریس فورم میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والی شخصیات نے شرکت کی۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

ڈاکٹر محمد حفیظ (سربراہ شعبہ سوشیالوجی، جامعہ پنجاب)

1988ء میں روس کے ٹوٹنے کے بعددنیامیں ایک نئی سپر پاور سامنے آئی اور دنیا کا نظام یکطرفہ چلنا شروع ہوگیا جس سے طاقت کا توازن بگڑگیا ۔ گذشتہ تین دہائیوںسے دنیا بھر میں غیر مساوات کا رجحان بڑھا جس کی وجہ سے غریب غریب تراور امیر امیر تر ہوتا گیا۔ اسی طرح چند ممالک ترقی میں بہت آگے نکل گئے اور ان کی معیشت مضبوط ہوگئی جبکہ بعض ممالک کی حالت مزید پسماندہ ہوگئی اور ان کی معیشت تباہ ہوگئی۔اس وقت دنیا کی کل دولت 260ٹرلین ڈالر ہے اور یہ صرف چند ممالک اور چندافراد کے پاس ہے۔

اس کے علاوہ دنیا میں 124ایسی بڑی کمپنیاں ہیں جن کی دولت امریکہ کی معیشت کے برابر ہے لہٰذا دنیا کی دولت صرف چند ہاتھوں میں محدودہونے کی وجہ سے دنیا میں ناانصافی کا رجحان بڑھااور لوگوں میں عدم برداشت پیدا ہوئی۔ 90ء کی دہائی میں دنیا میں عدم برداشت بڑھنی شروع ہوئی اور اس کے اثرات ہر سطح پر نظر آئے۔ اگر ہم اپنے معاشرے میں دیکھیں تواس وقت صرف لاہور میں طلاق کے کیسز  کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ ہوگئی ہے اور ان میںسے زیادہ کیسز خلع کے ہیں۔

اس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ میاں بیوی کے مابین عدم برداشت میں اضافہ ہوا ہے اور دونوں ایک دوسرے کے کردار کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ خاندانوں میں اور بہن، بھائیوں کے درمیان بھی عدم برداشت میں اضافہ ہورہا ہے ۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ہمارے معیار زندگی کا براہ راست تعلق برداشت کے ساتھ ہے کیونکہ اگر ہمارے اند ربرداشت ہوگی تو ہم زندگی سے لطف حاصل کرسکیں گے لیکن اگر ہمارے اندربرداشت کا مادہ نہیں ہوگا تو ہم ہر وقت پریشان رہیں گے اور اپنی زندگی سے لطف اندوز نہیں ہوسکیں گے۔

لہٰذامیرے نزدیک عدم برداشت کا واحد حل پیار ہے کیونکہ جب میاں بیوی، بہن بھائی اور دوستوں کے درمیان پیار ہوگا تو وہ ایک دوسرے کی غلطیوں کو درگزر کریں گے اور اس طرح معاشرے سے عدم برداشت کاخاتمہ ہوجائے گا۔ میرے نزدیک ہم خودعدم برداشت کاخاتمہ کرسکتے ہیںاور اس کے لیے ہمیں کسی کے اختلاف رائے کو اس کی خوبصورتی سمجھنا چاہیے۔ اس کی وضاحت ’’Zoo theory‘‘ سے اس طرح کی جاسکتی ہے کہ جب آپ چڑیا گھر جاتے ہیں تو زیادہ وقت ایسے جانور کے پنجرے کے باہر گزارتے ہیں جو منفرد ہو یا آپ نے پہلے کبھی دیکھا نہ ہو لہٰذا اگر وہاں آپ کو منفرد چیز اچھی لگتی ہے توپھر آپ انسانوں میں اختلاف کو پسند کیوں نہیں کرتے۔

انسانوں میں اگر لباس، زبان، خیالات، رنگ، نسل یا کوئی اور چیز آپ سے مختلف ہے تو اس میں کوئی خرابی نہیںہے، آپ اسے  خوبصورتی سمجھیں اور زندگی سے لطف حاصل کریں۔ لیکن ہمارا لمیہ یہ ہے کہ ہم اس اختلاف کو تسلیم نہیں کرتے اور چاہتے ہیں کہ سب ہمارے جیسے ہوجائیں ۔ میرے نزدیک اختلاف رائے ایک اچھی چیز ہے لیکن ہم نے اسے بُرا بنا دیا ہے ۔ اپنے اندر برداشت پیدا کرنا کوئی مشکل عمل نہیں ہے ۔ میری رائے یہ ہے کہ دل ، دماغ اور زبان کو ایک پیج پرلے آئیں ،پھر دیکھیں کہ مسائل کیسے حل ہوتے ہیں۔ کسی میں معاشرے میں رہنے والے لوگوں کے رویوں پر حکومتی پالیسیوں کا بڑا عمل دخل ہوتا ہے۔

کیٹو یونیورسٹی واشنگٹن کے سربراہ جان ا یلیسن اپنی کتاب “The crisis of leadership” میں لکھتے ہیں کہ اس وقت دنیا کی پالیسی منافع دوست ہے جس کی وجہ سے دولت ایک جگہ جمع ہوتی جارہی ہے اور دنیا میں اختلاف بڑھ رہا ہے۔ اس اختلاف کو کم کرنے کے لیے ہمیںعوام دوست پالیسیاں بنانے کی ضرورت ہے ۔ میرے نزدیک اب دنیا کا نظام بدلنے والا ہے ۔ آئی ایم ایف کی حالیہ رپورٹ کے مطابق چین، پی پی پی ڈالر میں دنیا کی سب سے بڑی معیشت بن کر سامنے آیا ہے۔ اس سے پہلے 1872ء میں امریکہ کی معیشت دنیا کی سب سے بڑی معیشت تھی اور240سال سے برطانیہ اور امریکہ پوری دنیا کو چلا رہے ہیں۔

انہوں نے کیپٹل ازم کو فروغ دیا اور منافع بخش پالیسیوں پر عمل کیا۔لیکن اب تاریخ دان 2014ء کو بھی چین کے حوالے سے اسی طرح لکھیں گے جس طرح 1872ء میں امریکہ کی معیشت کی تاریخ لکھی گئی کیونکہ 2014ء میں چین دنیا کی سب سے بڑی معیشت کے طور پر سامنے آیا۔ اس کے علاوہ آئی ایم ایف کا نعم البدل ادارہ بنا اور ایشیاء انفراسٹرکچر بینک بھی اسی سال قائم کیا گیا جو ورلڈ بینک کے برابر ہے۔ لہٰذا آنے والے چند سالوں میں آئی ایم ایف، ورلڈ بینک و دیگر ادارے سائڈ لائن ہوتے جائیں گے۔ چین کی اگر بات کریں تواس کا کلچر 5000سال پرانا ہے اور یہ کیپٹل ازم اور سوشل ازم کا امتزاج ہے اور اس کی پالیسیاں عوام دوست ہیں لہٰذا اب دنیا میں انصاف بڑھتا جائے گا اور لوگوں میں عدم برداشت میں کمی آئے گی۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ گذشتہ دو دہائیوں میںدنیا میںجہاں بھی تبدیلی کے لیے تحریکیں چل رہی ہیں ان کے ناموں میں انصاف کا لفظ شامل ہے ۔ اس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ دنیا بھر میں لوگ انصاف کے متلاشی ہیں۔ لہٰذا اگر انہیں انصاف فراہم کردیا جائے تو دنیا سے عدم برداشت کا خاتمہ ہوجائے گا۔ سانحہ پشاور نے پوری قوم کو ہلا کر رکھ دیا ہے ، اس سے معاشرے کا توازن خراب ہوا ہے۔ میرے نزدیک حکومت کو اب مؤثر پالیسیاں بنانے کی ضرورت ہے اور اب اسے اپنی ترجیحات کو تبدیل کرنا ہوگا اور اس کے ساتھ ساتھ لوگوں میں برداشت پیدا کرنے کے لیے بھی اقدامات کرنا ہوں گے۔

میرے نزدیک عدم برداشت کا خاتمہ تعلیم اور تجربے سے ممکن ہے لیکن افسوس ہے کہ ہمارا تعلیمی نظام ہمیں لڑو ، لڑائو اور حکومت کرو کی طرف لے کر جاتا ہے اور شاید اسی لیے ہم لڑنے لڑانے کو ایک عام سی چیز تصور کرتے ہیں ۔ اگر ہم اپنے معاشرتی رویوں کا جائزہ لیں توہمارا معاشرہ مادہ پرستی کی طرف چلا گیا ہے اور ہماری ترجیحات میں سب سے پہلے معاش، پھر سیاست اور اس کے بعد سماج ہے حالانکہ سب سے پہلے سماج، پھر سیاست اور آخر میں معاش ہونا چاہیے۔

پروفیسر ریاض بھٹی (ماہر نفسیات)

پاکستان کو آزادی کے دن سے ہی مختلف مسائل کا سامنا ہے اور ہمارے مسائل ہیں کہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہے۔ ہم ابھی ایک حادثے سے نہیںنکلتے کہ دوسرے کا شکار ہوجاتے ہیں۔ بقول منیر نیازی:

اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو

میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا

آزادی کے بعدپاکستان ابھی اپنے ابتدائی مراحل میں تھا کہ قائد اعظمؒ رحلت فرما گئے اور قیادت کا فقدان پیدا ہوگیا۔ جس قیادت نے ہماری رہنمائی کرنی تھی اور ہمیں ایک منزل کی طرف لے کر چلنا تھا، وہ موجود نہیں تھی۔ ماضی میں ذوالفقار علی بھٹو نے عوام کو ان کے بنیادی حقوق کے بارے میںشعور دیا اور ان کے اندر تبدیلی پیدا کی لیکن یہ تبدیلی اتنی اچانک آئی تھی کہ کچھ لوگ اسے برداشت نہیں کر پائے اور ابھی تک اس کے اثرات ہمارے معاشرے میں موجود ہیں۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمارا نظام حکومت مستحکم نہیں ہے اورکئی دہائیوں تک یہاں آمر مختلف ادوار میں آتے رہے ہیں۔

ان کے دورِحکومت میں لوگوں کے پاس آزادی رائے کا حق نہیں تھا اور شاید یہ اس بات کا ہی ردعمل ہے کہ ابھی تک ہمارے نظام حکومت میں فساد ہے ۔اگر ایسا نہ ہوتا تو آج ہمارے حالات مختلف ہوتے ۔ کسی بھی معاشرے میں برداشت اس وقت پیدا ہوتی ہے جب لوگوں کی بنیادی ضروریات پوری ہورہی ہوں اورانہیں سیاسی ، سماجی اور معاشی انصاف مل رہا ہو۔ لیکن اگر لوگوںکے ساتھ زیادتی کی جائے تو پھر اس کے اثرات بہت دور تک جاتے ہیں ۔ اس کی ایک مثال تحریک انصاف اور حکومت کا مسئلہ ہے۔ اب یہ بات اتنی بگڑ گئی ہے کہ دونوں کو ہی سمجھ نہیں آرہی کہ اس معاملے کو کیسے حل کیا جائے۔

میرے نزدیک عدم برداشت کا حل تعلیم سے ممکن ہے لیکن ہمارا تعلیمی نظام طبقاتی ہے اور ہم نے اسے انگلش اور اردو میڈیم میں بانٹ دیا ہے ۔ اس کے علاوہ ہمارے دینی مدارس کانظام تعلیم بالکل مختلف ہے اور جب مدارس کے طالبعلم تعلیمی میدان سے نکلتے ہیں تو انہیں اپنی محرومیوںکا احساس ہوتا ہے اور پھر جب انہیں یہ پیغام دیا جاتا ہے کہ وہ طاقت کے بل بوتے پرسب کچھ حاصل کر سکتے ہیں اور اپنی بات منوا سکتے ہیں تو پھر معاشرے میں ایک عجیب قسم کا ردعمل سامنے آتا ہے۔

جنرل ضیاء الحق نے معاشرتی نظام کو بکھیر دیا جس کے بعد ہمارے معاشرے میں کلاشنکوف اور منشیات کا ردعمل سامنے آیا، دینی لحاظ سے فرقہ بندی ہوئی اور سیاسی طور پر بھی ہمارے اندر تفریق پیدا ہوئی اورہم آج ان کے بوئے ہوئے بیج کا پھل کاٹ رہے ہیں ۔ جنرل ضیاء الحق کے بعد مختلف طرز حکومت کے لوگ آتے رہے جس کی وجہ سے ہمارے ہاں کوئی مستحکم نظام حکومت نہیں بن سکا۔ اس غیر مستحکم نظام حکومت کے اثرات ہمارے معاشرے پر کچھ اس طرح ہوئے کہ لوگوں کے اندر سماجی اور معاشی احساس محرومی پیدا ہوگیا۔

ہمارے ہاں وی آئی پی کلچر بہت زیادہ ہے اور جب ہم اپنے معاشرے میں موجود مالدار لوگوں یا حکومتی ارکان کے جاہ وجلال کو دیکھتے ہیں تو ہمارے اندر احساس محرومی پیدا ہوتا ہے  لہٰذاجب تک یہاں وی آئی پی کلچر ختم نہیں کیا جاتا تب تک معاشرے سے عدم برداشت کا خاتمہ نہیں ہوسکتا۔ کسی بھی معاشرے میں جب لوگوں میں احساس محرومی پیدا ہوتا ہے تو لوگ نفسیاتی مراض کا شکار ہوجاتے ہیں اور منشیات کی طرف راغب ہوتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں بھی نفسیاتی مریضوں کی تعداد بڑھ رہی ہے اور منشیات کے رجحان میں اضافہ ہورہا ہے لہٰذا جب تک معاشرے میں سکون اور ٹھراؤ پیدا نہیں ہوگا اور تلاطم کی کیفیت ختم نہیں ہوگی معاشرے میں برداشت پیدا نہیں ہوسکتی۔

دہشت گردی کا جو افسوسناک واقعہ پشاور میں پیش آیا اس سے ہر آنکھ اشکبار ہوئی ہے۔شہید بچوں کے والدین، رشتہ دار اوروہ بچے جو اس سانحہ میں زندہ بچ گئے ، جنہوں نے خود سارا منظر دیکھا ہے ، وہ نفسیاتی امراض کا شکار ہوسکتے ہیں اور اس کے علاوہ ان میں عدم برداشت بھی پیدا ہوسکتی ہے لہٰذا حکومت کو اس جانب توجہ دینا ہوگی۔ اس کے علاوہ اس وقت تحریک انصاف اور حکومت کا جو مسئلہ چل رہا ہے، جب تک اسے حل نہیں کیا جاتا تب تک معاشرے میں تفریق، فساد اور پریشانی رہے گی۔

لوگوں کو سہولیات دینے کے لیے لوکل باڈی سسٹم لانا چاہیے اورجب لوگوں کی ضروریات نچلی سطح پر پوری ہونا شروع ہوجائیں گی تو ان میں برداشت پیدا ہوگی۔اس کے علاوہ نوجوانوں کے لیے کھیل کے میدان بنانے چاہئیں اور انہیں تفریح کا سامان مہیا کرنا چاہیے کیونکہ کھیل سے ان میں برداشت پیدا ہوگی اور ان کے آپس کے تعلقات بھی بہتر ہوں گے۔

زمرد اعوان (اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ سیاسیات ایف سی کالج)

پاکستان کی پالیسی میں غیر مساوات کا عنصر شامل ہے۔ پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے، اسلام یا کوئی بھی مذہب عدم برداشت کی بات نہیں کرتا اور سب ایک پرامن اور برداشت والے معاشرے کی بات کرتے ہیں۔ 1973ء کے آئین میں معاشرے میں عدم برداشت کو روکنے کی بات کی گئی ہے اور قائد اعظم نے اپنی تقاریر میں بھی ان دونوں عوامل کی بات کی ہے۔ قائد اعظم کے یہ الفاظ کہ سب آزاد ہیں اور جو کوئی جس بھی عبادت گاہ میں جانا چاہتا ہے اسے روکا نہیں جائے گا، ایک ایسے معاشرے کی بنیاد رکھ دیتے ہیں جس میں لوگوں کے درمیان مساوات ہواور برداشت کا عمل پایا جاتا ہو۔

اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہماری تعلیمات میں مساوات اور برداشت شامل ہیں ۔ماضی میں گرلز گائیڈ اور بوائز سکاوٹس کا کلچر ہوا کرتا تھا۔ اس کا مقصدیہ تھا کہ چھوٹے چھوٹے مسائل معاشرتی سطح پر حل کیے جائیں تاکہ لوگوں میں ہم آہنگی پیدا ہواور انہیں اختلاف رائے برداشت کرنے کی عادت ہو۔اب ہمیں گرلز گائیڈ اور بوائز اسکائوٹس کا تصور کافی حد تک ختم ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ لہٰذا ہمیں ایسی چیزوں کو اپنانا ہوگا جن سے معاشرتی اقدار کو فروغ ملے۔

ہمارے معاشرے میں عدم برداشت کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ لوگوں کو انصاف نہیں مل رہااور جب ریاست کے ادارے ایک عام شہری کی بات کا جواب نہیں دیتے تو لوگوں میںمایوسی اور غصہ پیدا ہوجاتا ہے اور پھر وہ قانون اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں اوراپنے تمام فیصلے خود کرتے ہیں۔اس کے علاوہ ہماری عدالتوں میں بھی کیسز التوا کا شکار ہوجاتے ہیںاور نسل در نسل چلتے رہتے ہیں ، جس سے لوگوں میں مایوسی مزید بڑھ جاتی ہے ۔ دہشت گردی کے حوالے سے بھی کیسز التوا کا شکار رہے ہیں اور گزشتہ کئی سالوں سے ذمہ داروں کو سزائیں نہیں دی گئی، لہٰذا امن و امان قائم کرنے کے لیے فوری انصاف فراہم کرنا ہوگا۔

عدالتوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں کو بروقت انصاف فراہم کریں۔ ہمارے ملک میں صنفی امتیاز تشویشناک حد تک بڑھ گیا ہے اور2013ء کی گلوبل جینڈر گیپ رپورٹ کے مطابق پاکستان صنفی امتیاز کے حوالے سے دوسرا بدترین ملک بن گیا ہے۔ اس کے علاوہ تھامسن روٹرز فائونڈیشن لندن کی ایک رپورٹ کے مطابق خواتین پر تشدد کے حوالے سے پاکستان،افغانستان اور گانگوکے بعد تیسرے نمبر پر آگیا ہے۔

یہ دونوں رپورٹس باعث تشویش ہیں لہٰذا ہمیں اس حوالے سے اقدامات کرنے چاہئیں۔کسی بھی معاشرے میں عدم برداشت کا براہ راست شکار خواتین اور اقلیتیں ہوتی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں بھی ان پر تشدد کے واقعات سامنے آئے ہیں ۔میرے نزدیک لوگوں میں برداشت پیدا کرنے کے لیے ریاست کو قوانین پر عملدرآمد یقینی بنانا ہوگا تاکہ عام عوام کو ان قوانین سے فائدہ حاصل ہو۔ ہم اپنی معاشرتی روایات سے دور ہوتے جارہے ہیں۔پہلے ہم برادری سسٹم میں رہتے تھے اور زیادہ تر مسائل برادری کی سطح  پر ہی حل کر لیے جاتے تھے۔لیکن اب لوگ معاشی چیزوں کے پیچھے پڑگئے ہیں اور ہماری روایات ختم ہوتی جارہی ہیں جس کی وجہ سے ہمارے مسائل میں اضافہ ہورہا ہے۔

ہمارے معاشرتی مسائل تعلیم سے حل ہوسکتے ہیں ۔سوک ایجوکیشن ایک ایسا مضمون ہے جو معاشرے میں رہن سہن کے آداب سکھاتا ہے۔ اس کے علاوہ اس میں مل جل کر رہنے اوردوسری کے اختلاف رائے کو برداشت کرنے کی تعلیم دی جاتی ہے۔لیکن اب اس مضمون کو ہمارے نصاب کوئی خاص اہمیت نہیں دی جارہی اورہم نے نصاب میں ایسی چیزوں کو شامل کرلیا ہے جو ہماری پیشہ ورانہ زندگی میں ہمارے کام آتی ہیں ۔ لہٰذا ہمارے معاشرتی مسائل میں اضافے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہم سوک کلچر کو فروغ نہیں دے رہے۔ میری رائے یہ ہے کہ لوگوں کے مسائل مقامی سطح پربروقت حل کیے جائیں اور ان میں مایوسی پیدا نہ ہونے دی جائے کیونکہ صرف اسی طرح سے عدم برداشت کو کم کیا جا سکتا ہے۔

سلمان عابد (دانشور)

عدم برداشت کوئی پیدائشی امر نہیں ہے بلکہ اس کا انحصار سماج، حکومت اور لوگوں کے رویوں پر ہوتا ہے۔اس وقت حکمرانی کا جو نظام پوری دنیا میںرائج ہے وہ طاقت اور بندوق کی حکمرانی ہے لہٰذا جہاں معاملات کو سیاسی، قانونی، سماجی اور اخلاقی دائرہ کار سے نکل کر طاقت کے زور پر حل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو اس کاردعمل معاشرے میں سامنے آتا ہے۔ 70-60ء کی دہائی میں جب دائیں اور بائیں بازو کی جنگ چل رہی تھی اس وقت ہم طبقاتی مسئلہ کے لیے آواز اٹھاتے تھے مگر آج طبقاتی مسائل کو اجاگر کرنے کی بجائے ہماری توجہ گورننس کے مسائل پر ہے اور اب طبقاتی معاملہ ہے ہماری سیاسی گفتگو کا حصہ نہیں رہا۔

اسی طرح 73ء کے آئین میں جو ضمانتیں شہریوں کو دی گئی ہیں ، کوئی بھی ان کا والی وارث بننے کو تیار نہیں ہے۔لہٰذا جب لوگوں کو ان کے حقوق نہیں ملیں گے تووہ ریاست کو کس طرح تسلیم کریں گے۔ ہمارے معاشرے میں تفریق بڑھتی جارہی ہے اور سیاسی ، سماجی اور معاشی مسائل سامنے آرہے ہیں۔ جس معاشرے میں یہ سوچ پیدا ہوجائے کہ ریاست کے کچھ لوگ ہم سے تفریق کرر ہے ہیںتو ان میں عدم برداشت پیدا ہونا ایک فطری بات ہے ۔80ء کی دہائی میں ہم نے مذہبی معاملے کو اس انداز سے پیش کیا کہ تبدیلی ووٹ کے ذریعے سے نہیں آتی بلکہ طاقت کے زور پر آتی ہے۔

جنرل ضیاء الحق کے دور میں فرقہ وارانہ جماعتیں بنیںاور انہوں نے بندوق اٹھائی ،اس سے پہلے یہ سب نارمل سیاست کررہے تھے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے مذہبی جماعتوں کے اندر ایک خاص بین الاقوامی ایجنڈے کے تحت ایسی تبدیلی کی اور وہ ایجنڈا یہ تھا کہ ہم نے افغان جنگ لڑنا تھی اور اس جنگ کے نتیجے میں ہم نے اپنے ملک میں کلاشنکوف اور بندوق کا کلچر متعارف کروایا اور ابھی تک ہم اس مسئلے سے باہر نہیں نکل پا رہے۔ 16دسمبر کو پشاور میںجو افسوسناک واقعہ پیش آیا، اس میں جس بے دردی سے بچوں کو شہید کیا گیا اس کی مثال کہیں نہیں ملتی لہٰذا ہمیں مضبوط ارادے کے ساتھ دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑنا ہوگی اورسب کو متحد ہوکر معاشرے سے دہشت گرد عناصر کا خاتمہ کرنا ہوگا۔

ہمیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ جب تک ملکی صورتحال میں استحکام پیدا نہیں ہوگا تب تک لوگوں میں برداشت پیدا نہیں کی جاسکتی اور نہ ہی معاشرے میں امن قائم ہوسکتا ہے۔ ہمارے ہاں وی آئی پی کلچر بہت پروان چڑھ گیا ہے اور حکومت خود اس کی فریق بن چکی ہے جس وجہ سے مسائل حل کرنے میں مشکلات پیش آرہی ہیں۔ ہمیں دیکھنا یہ ہوگا کہ ہماری سیاسی،سماجی اور معاشی پالیسیاں کس طرح سے لوگوں کا استحصال کررہی ہیں اور وی آئی پی کلچر کو فروغ دے رہی ہیں لہٰذا یہ جو خلیج قائم ہوگئی ہے اب اس کا ردعمل سامنے آرہا ہے۔

دنیا بھرمیں کمزور طبقات کے لیے زیادہ قوانین بنائے جاتے ہیں کیونکہ کمزور طبقہ جب کسی پریشانی میں مبتلا ہو تاہے تو وہ انصاف کا راستہ اختیار کرتا ہے اور عدالت میں جاتا ہے ۔ لیکن ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہماری عدالتوں میں مقدمات التوا کا شکار ہوجاتے ہیں اور پھر  لوگوں میں مایوسی پیدا ہوجاتی ہے۔اس وقت دنیا کسی قاعدے یا قانون کے مطابق نہیں بلکہ ردعمل کے اظہار پر چل رہی ہے ۔ مختلف ممالک کے درمیان جو معاملات اور تعلقات خراب ہورہے ہیں، اس کی وجہ کوئی اصولی معاملات نہیں بلکہ آپس کے رویے ہیں۔

پاکستان میں مذہبی جماعتوں نے رجعت پسندانہ سوچ کو امریکہ اورہندوستان کے خلاف استعمال کیا اور لوگوں میں بغاوت کا عنصر پیدا کیا۔ اب اگر ہم اس بغاوت کو کم کرنا چاہتے ہیں تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ اپنے نظام کی اصلاح کریں اور فوری طور پر ایسے اقدامات کریں جس سے معاملات واپس اپنی نارمل حالت میں آجائیں۔ مگرہمارے اقدامات، ہماری پالیسیاں ابھی بھی سست روی کا شکار ہیں ۔ اس وقت سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ لوگوں کا جمہوریت، عدالت اور معاشی نظام پر اعتماد کم ہوا ہے اور اب لوگ انصاف کے لیے پولیس پر اعتماد نہیں کررہے بلکہ اس کے متبادل ذرائع سے انصاف لینے کی کوشش کررہے ہیں۔

اس کے علاوہ لوگ سیاسی طور پر ووٹ کے عمل میں جانے کے لیے تیار نہیں ہیںکیونکہ ان کا خیال ہے کہ یہ سارا فراڈ ہے اور اس سے کوئی تبدیلی نہیں آتی لہٰذا میرے نزدیک لوگوں میں برداشت پیدا کرنے میں حکومت کے طرز عمل کا بہت زیادہ عمل دخل ہے۔ اگر ہم اپنے معاشرے میں برداشت پیدا کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں یہ سسٹم درست کرنا ہوگا اوراسے لوگوں کی مدد کرنے والا بنانا ہوگا۔ اس میں سیاسی جماعتیں اہم کردار ادا کرسکتی ہیں کیونکہ سیاسی جماعتیں بھی لوگوں میں شعور پیدا کرتی ہیں۔ اسی طرح تعلیم اور میڈیا کے ذریعے سے بھی لوگوں میں شعور پیدا کیا جاسکتا ہے اور ان میں برداشت پیدا کی جاسکتی ہے۔

میرے نزدیک ہمیں سماجی اور سیاسی معاملات نئے طریقے سے وضع کرنا ہوں گے اور ایک نیا ڈھانچہ بنانا ہوگا تاکہ لوگوں کا ریاستی اداروں پر اعتماد قائم ہو کیونکہ جب ریاست اور لوگوں کے درمیان اعتماد کا رشتہ قائم ہوتا ہے تو ریاست مضبوط ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں ریاست اور حکومتیں کمزور ہیں اور لوگوں کی حکمرانی، اداروں کے مقابلے میں بالا دست نظر آتی ہے۔اس لیے میرے نزدیک اس سسٹم کو نئے سرے سے ترتیب دینا ہوگا اور ان سارے معاملات کو تیزی سے حل کرنا ہوگا کیونکہ اب یہ معاملہ خوفناک ہوتا جارہا ہے۔